وادی سندھ کی تہذیب نے برصغیر کی قدیم تاریخ کے بارے میں ہمارے تصورات کو یکسر بدل ڈالا ہے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ برصگیر میں تہذیب کی بنیاد آریایوں نے رکھی تھی۔ مگر اس تہذیب کی دریافت نے برصغیر کے تمدن نے تین ہزار سال کا اضافہ کردیا۔ یہاں کے لوگ اپنا ایک رسم الخط رکھتے تھے جس میں وہ لکھتے پڑھتے تھے۔ لیکن یہ تحریریں اب صرف کچھ مہروں اور کچھ ضروف پر ملتی ہے۔ یہ دریافت شدہ تحریریں بہت مختصر ہیں۔ بڑی سے بڑی تحریر صرف سترہ حروف پر مشتمل ہیں۔ یہ تحریریں تصویری نشانات ہیں ان کو اب تک پڑھا نہیں جاسکا۔ نہ ہی کوئی ایسا کتبہ ملا ہے جس میں دو زبانوں میں لکھا ہوا ہے کہ ایک کی مدد سے دوسرا خط پڑھا جاسکے۔ اس لیے ہم ان کی زبان معلوم ہے اور نہ ہی ان کا رسم الخط۔ یہاں کے حالات سے حقیقی واقفیت حاصل کرنے کے لیے اس کا پڑھنا نہایت اہم اور ضروری سمجھا گیا اور بہت سے ماہر لسانیات نے انہیں پڑھنے کی کوششیں کیں۔ ان میں سر فہرست ویڈل کا تھا جس کا خیال ہے کہ وادی سندھ کا رسم الخط سمیری رسم الخط سے بے انتہا مماثلت ہے۔ اس کے خیال میں موہجودارو کے لوگ آریا تھے۔ چنانچہ انہوں نے وادی سندھ کی مہروں کے نشانات کا سمیری رسم الخط کے نشانات سے تقابل کرنے کے بعد اس میں ویدک عہد کے بزرگوں اور دیوتاؤں کے نام کی تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔ سر جان مارشل کی کتاب موہجودارو اینڈ انڈس ویلی سویلائزیشن میں اس میں رسم الخط کو پروفیسر لینگڈن نے براہمی زبان کے مماثل قرار دیا۔ لیکن یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ برہمی زبان یقینی طور پر فیونیشی زبان سے مشتق ہے اور اس کا سندھی رسم الخط سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔ ایک اور محقق گیڈ کا خیال ہے کہ یہ تحریریں رکنی ہیں اور ایک اور ہند آریائی زبان سے متعلق ہیں اور مہروں میں عام طریقہ پر تحریر کئے گئے ہیں۔ بعد میں ڈاکٹر پران ناتھ نے اس رسم الخط کو برہمی زبان کے حروف سے مطابقت دینے کی کوشش کی۔ مگر انہیں ناکامی ہوئی۔ کیوں کہ انہوں نے یہ حقیقت نظر انداز کردی کہ اشوک کے برہمی زبان کے کتبوں اور موہجودارو کے درمیان ہزاروں سال کا وقفہ ہے اور اس عرصہ میں نشانات جو شروع میں ایک لفظ یا جملہ ہوا کرتے تھے حروف بن چکے تھے۔ مصریات کے عالم سر فلنڈرس پیٹری نے ان مہروں کے نشانات میں قدیم مصری زبان کے حروف کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کی۔ اس کا خیال تھا مہروں پر عہدے درج ہیں۔ یہ کے نذدیک یہ نام کے بجائے ان کے عہدے درج ہیں۔ یہ نظریہ بھی اس لیے غلط تھا کہ موہجودارو میں ہزاروں مہریں ملیں اور ہر مہر کی تحریر دوسری تحریر سے الگ ہے۔ جس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ وہاں ہزاروں عہدے دار تھے جو قرین قیاس نہیں ہے۔ سر فلنڈرس کے بعد ایک اور مستشرق ہویسی نے رسم الخط کا سلسلہ جزائر ایسٹر سے دریافت شدہ لکڑی کے تختوں پر کندہ کتبوں سے جا ملایا۔ لیکن جزائر ایسٹر کے ان کتبوں کی تاریخ بڑی مشبہ ہے اور اس قسم کے شواہد بھی موجود نہیں ہیں جس سے وادی سندھ کی تہذیب کا جزائر ایسٹر سے اس قسم کا تعلق تسلیم کیا جاسکے جو رسم الخط پر اثر انداز ہوسکے۔
جی آر ہنٹر نے اس رسم الخط کا بڑا گہرا مطالعہ کیا۔ لیکن انہوں جو ابتدائی اصول مرتب کیے وہ درست نہیں تھے۔ اس لیے انہیں بھی ناکامی ہوئی۔ اس رسوم الخط کو انہوں نے صوتیاتی قرار دیا۔ انہوں نے ابتدا میں اسے خط تصویری کہا مگر بعد میں انہوں نے لینگڈن سے اتفاق کیا کہ وادی سندھ کا رسم الخط براہمی زبان سے مماثل ہے۔ اسی طرح ایک اطالوی ماہر لسانیات مریگی نے کہا کہ یہ سارے نشانات تصویری ہیں اور ہر نشان ایک پورے جملے کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے خیال میں یہ زبان سنسکرت بولنے والے لوگوں کی زبان نہیں ہے۔ لیکن وہ ان کتبوں کی زبان کون سی درست تعین نہیں کرسکے۔ اس طرح ان کو بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ پروفیسر ہروزنی نے ان سب نظریوں سے اختلاف کرتے ہوئے یہ رائے قائم کہ ہے کہ وادی سندھ کی زبان سے اگر کوئی زبان مماثل ہوسکتی ہے تو وہ حتی زبان ہے۔ مگر یہ محضروضہ تھا۔ اس طرح فادر ہراس نے موہجودارو کے اس رسم الخط کو قدیم تامل زبان دیا ہے۔ لیکن قدیم تامل پان سو سال قبل مسیح سے قدیم نہیں ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قدیم تامل صوتی اعتبار سے اس دراوڑی زبان کی بہت ہی تبدیل شدہ صورت ہے جو قبل مسیح کے وادی سندھ کے عہد میں بولی جاتی رہی ہوگی۔ اس لیے دونوں کا باہم رابطہ مشکوک ہے۔
چند محقیق نے اسے سنسکرت سے جا ملایا ہے۔ جس میں پیش پیش سوامی شنکر آنند ہیں۔ جن کو وادی سندھ کی زبان کا راز تانترک میں ملتا ہے اور جن کی زبان سنسکرت ہے۔ انہوں نے اس رسم الخط کے بہت سے نشانات قدیم سکوں اور تاریخی دور کی بعض مہرون پر کندہ نشانات سے مطابقت دی ہے۔ انہوں نے اس کے لیے مضحکہ خیز دلائل پیش کئے ہیں اور وہ اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ وادی سندھ کی تہذیب برصغیر میں آریوں کے آنے سے پہلے کی تہذیب ہے۔ اس سے کلکتہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر بروا Barua نے اتفاق کیا اور اسی طرح ڈاکٹر کرمارکرDr Karmarkar نے وادی سندھ کی زبان کو سنسکرت قرار دیا۔ بلکہ ان کے خیال میں وادی سندھ کی تہذیب ویدک عہد یا اس کے بعد کی تہذیب ہے۔ جب کہ مولانا ابو جلال ندوی نے اسے قدیم عربی رسم الخط سے مشتق بتایا ہے۔ انہوں نے یہاں کی مہروں پر قدیم عربی حروف دریافت کیے ہیں۔ بلکہ ان کے خیال میں ان مہرون پر نہ صرف عربی رسم الخط میں حروف کندہ ہیں بلکہ ان کے نقاش کو بھی عرب بتاتے ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان مہروں کا منشا تصویروں کے ذریعے عربی زبان لکھنے اور پڑھنے کی تعلیم دینا تھا۔ گویا یہ مہریں تعلیمی تاش ہیں اور درسی لوحوں کی حثیت رکھتی ہیں۔
یہ اور ایسی دوسری آرا اس کثرت سے پیش کی گئی ہیں کہ پڑھنے والا ان نظریات کے گورکھ دھندے میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ حیققت میں یہ مسلہ تمام تر کوششوں اور تحقیقوں کے باوجود وہیں ہے۔ جہاں اس تہذیب کی دریافت کے وقت تھا اور ان تمام کوششوں میں کوئی کوشش ایسی نہیں ہے۔ جس کو بغیر کسی اعتراض کے مان لیا جائے۔
وادی سندھ کے رسم الئخط کو تصویری رسم الخط کہا گیا ہے۔ لیکن چڑیوں، مچھلیون، انسانوں اور چند دوسری شکلون کے علاوہ بقیہ تمام نشانات کم و بیش رواجی، تقلیدی اور غیر طبعی ہیں۔ اس رسم الخط کی خاص خوبی اس کی تخطیط مستقیم ہے۔ یعنی اس کو خطا الاو تاد اور میخی بھی کہا جاسکتا ہے۔ چند مخصوص الفاظ اور دوسری علامات سے اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ رسم الخط دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہوگا۔ لیکن چند ایسے کتبے بھی ہیں جن اس خیال کی تردید ہوتی ہے۔ چنانچہ جن مہروں پر دو سطروں میں عبارت کندہ ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اوپر والی سطر تو داہنی جانب سے بائیں جانب اور نیچے والی سطر اسی تسلسل میں بائیں جانب لکھی گئی ہے۔
موجودہ رسم الخط میں تقریبا تین سو چھانوے نشانات اخذ کئے گئے ہیں، ابتدا میں یہ نشانات یقینا بہت زیادہ رہے ہون گے۔ جیسا کہ سمیری رسم الخط میں ابتدائی دور میں موجودہ نشانات سے تقریباً دو چند نشانات پر مشتمل تھا اور رفتہ دفتہ غیر ضروری اور ثانوی نشانات ختم ہوکر موجودہ صورت پیدا ہوئی ہے۔ وادی سندھ کا رسم الخط بھی اسی طرح غیر واضح اور ناہمواری کے دور کے بعد اپنی موجودہ مستحکم شکل میں صورت پذیر ہوا ہوگا۔
مختلف نشانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ رسم الخط ابجدی نہیں بلکہ رکنی ہے۔ س میں تصویری، تصوری، تشکیلی، پیکانی یا آشوری خطوں کی آمیزش ہے۔ بہت سے الطاظ پر تاکیدی علامیتں بھی پائی جاتی ہیں۔ جو اس عبارت کی پختگی کا ثبوت ہیں۔
اس رسم الخط میں اگر حروف کی شکل کا باقیدہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہے کہ ان کی بناوٹ میں عام طور پر خاص تبدیلی نہیں ہوئی اور ان تمام مہروں میں وہ مہریں ابتدائی مراحل سے جن سے ترقی کرکے یہ تحریر تصویری تحریر سے تصوری رسم الخط یا صوتی رسم الخط بنی ہوگی مفقود ہیں۔ چنانچہ وہ تمام کڑیاں جن سے اس تحریر کی ابتدائی غیر منضبط شکل اور بعد کی ترقی یافتہ شکل کا صحیح اندازہ لگایا جاسکے ابھی تک دریافت نہیں ہوسکیں۔ اس کے برعکس اگر ہم برہمی رسم الخط کی ان تمام تبدیلیوں اور ترکیبوں پر غور کریں جو مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہیں اور جس سے اس کا جمود برابر ٹوٹتا رہا ہے تو وادی سندھ کے رسم الخط کا یہ جمود بہت غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ یہ ایک ناقابل توجیہہ عجوبہ ہے کہ وادی سندھ میں کم و بیش ایک ہزار سال تک ایک ہی خط بغیر کسی تغیر اور تبدیلی یا ترقی کے رائج رہا۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ وادی سندھ کی زبان بیرونی اثرات سے بے نیاز ہوکر پھل پھولی ہوگی۔ یا یہ کہ سر دست جو مطابقت اس رسم الخط میں اور براہمی یا سامی رسم الخط میں ہے وہ محض اتفاقی ہے۔ دراصل اس تحریر کا صحیح حل اس وقت نکل سکتا ہے کہ مسوپٹامیہ یا وادی سندھ کی کھدائی میں کوئی ایسی تختی یا مہر دریافت ہوجائے جس میں ان دونوں زبانوں کے کندہ کتبے دریافت ہوسکیں۔ کیوں کہ میسوپٹامیہ کی زبان پڑھی جاچکی ہے۔
بہرحال وادی سندھ کے رسم الخط سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مہرون تختیوں اور برتنوں عرصہ دراز تک ایک ہی قسم کی عبارت تحریر کی جاتی رہی۔ عبارت میں اس پختگی تک پہنچنے کے لیے بہت سے ابتدائی نقوش بنے اور مٹے ہوں گے۔ جن سے ترقی یافتہ شکلیں پیدا ہوئی ہوں گی۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے ا۷س تہذیب کی نہ ابتدا ہی معلوم ہے اور نہ انتہا۔ بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اچانک ایک ایسے دور میں پہنچ گئے ہیں کہ جو کہ اس اس تہذیب کا زرین دور تھا۔ اس وجہ سے اس تحریر کا ابتدائی اور آخر شکلوں کا پتہ نہیں چلتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...