موہنجوداڑو کا اسٹوپہ
موہنجوداڑو کے مقام پر کسی بلند جگہ سے اس قدیم شہر کا کھنڈرات کا جائزہ لیں تو جو بلند ترین عمارت نظر آئے گی وہ بدھ اسٹوپہ ہے ۔ یہ بالائی شہر ایک بیضاوی ٹیلے پر قدیم آبادی کے مغربی حصے پر واقع ہے ۔ یہ اسٹوپہ بدھ عہد کی عمارت ہے ۔ اس ہی کی جازبیت نے ماہرین آثار قدیمہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ اس عظیم انشان تہذیب کی دریافت اس عمارت کی رہین منت ہے ۔ یہ زمین سے ۷۰ فٹ بلند ہے ۔ اس کا گنبد گرچکا ہے اور اس کے ڈھولے کا صرف نصف حصہ باقی رہ گیا ہے ۔ یہ اسٹوپہ بنیاد سے ۸ فٹ ۴ انچ اونچے چبوترے پر قائم ہے ۔ کسی زمانے میں کسی نے خزانہ کی تلاش میں اس کے اندر چودہ فٹ گہرا گڑھا کھودا تھا ۔ وہاں شاید اسے سنگ جراحت کا بنا ہوا ایک خاکدان ملا تھا ۔ جسے بیکار سمجھ کر اسے وہیں پھینگ دیا تھا ۔ اس کے ٹکڑے بعد میں کھدائی کرنے والوں کو مل گئے ۔ یہیں بتھر کے بنے ہوئے کنول کے پھول پر آسن پر بیٹھے ہوئے بدھ کی مورت کے چند ٹکرے بھی ملے تھے ۔
اسٹوپہ کی عمارت وادی سندھ کی قدیم عمارتوں کے ملبے سے بنائی گئی تھی ۔ چنانچہ جنوب کی طرف جہاں اس کی بنیاد دیکھائی دیتی ہے یہ چیز بخوبی واضح ہوتی ہے ۔ وہار (مٹھ) کے چاروں طرف ایک چوڑا صحن ہے ۔ جس کے چاروں طرف بھکشوؤں کے رہنے کے لئے پختہ اینٹوں کے حجرے بنے ہوئے ہیں ۔ اندرونی حصہ غالباً سونے کے لیے اور بیرونی حصہ بیٹھنے اور دوسری ضروریات کے لیے استعمال ہوتا تھا ۔ واضح رہے اس اسٹوپہ کے موہنجوڈارو شہر کے ملبے سے تعمیر کیا گیا ہے ہیں بلکہ اس کے نیچے بھی قدیم شہر کے کھنڈرات ہیں ۔ تاہم اب تک اسے گرا کر مزید کھدائی کی جائے ، مگر اب تک اسے گرانے کا فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ۔
وادی سندھ کی تہذیب دریافت ہونے سے پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ آریاؤں کی آمد سے پہلے اس زمین پر پہلے یہاں وحشی لوگ آباد تھے اور یہاں کسی تہذیب کے آثار نہیں ہیں ۔ اس لیے وسنٹ اسمتھ نے اپنی کتاب قدیم ہندوستان ( ۱۹۰۷ء ) میں یہ لکھ تھا کہ یہاں کانسہ کا دور کبھی آیا ہی نہیں ۔ اس کی تصدیق اس طرح بھی ہو رہی تھی کہ برصغیر میں موریہ عہد سے پہلے کے کسی قسم کے کوئی آثار دریافت ہی نہیں ہوئے تھے ۔ اس لیے بدھوں کے آثار اور معبدوں کی تلاش ہوتی رہی ۔ ۱۹۲۳ء میں اس اسٹوپہ کی اسی سلسلے میں کھدائی کی گئی ۔ اسٹوپہ کھدائی کے دوران ایک مقام پر ایسے حجرے برآمد ہوئے جو مٹھ کے چاروں طرف بنے ہوئے تھے ۔ یہیں حجروں سے کشان عہد کے چوکور سکے راجہ واسو دیو ( ۱۷۳ ۔ ۱۵۶ء ) کے برآمد ہوئے ہیں ۔ یہ سکے غالباً سندھ میں ہی ڈھالے گئے ہیں ۔ کیوں کہ جھکر ( لاڑکانہ ) اور موہنجوداڑو کے علاوہ برصغیر میں کسی اور مقام سے نہیں ملے ہیں ۔ اسی اسٹوپہ کے قریب کھدائی میں ایک مہر برآمد ہوئی جو شکل و صورت میں ہڑپہ کی اس تصویری مہر سے ملتی جلتی تھی جو کہ پچاس سال پہلے سر الیگزیندڑ کننگھم نے دریافت کی تھی اور انہوں نے اس کا تذکرہ اپنی رپوٹ ۱۸۷۵ء میں کیا تھا ۔ اس طرح کی ایک مہر ۱۹۱۲ء میں ڈاکٹر فیٹ کو بھی ملی تھی ۔
اس کھدائی کے دوران کچھ اور چیزیں بھی ملیں ۔ سرجان مارشل محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائکٹر جنرل نے جب ان اشیاء کا جائزہ لیا تو ان پر انکشاف ہوا کہ یہ کسی ایسی تہذیب کے آثار ہیں جو اب تک نظروں سے اوجھل ہے ۔ اس حیرت انگیز انکشاف کے بعد انہوں نے بڑے پیمانے پر کھدائی کا کام شروع کیا جائے ۔ اس طرح وادی سندھ کی تہذیب کی دریافت اس اسٹوپہ کی رہین منت ہے ۔
اس اسٹوپہ سے اس بات کی نشادہی ہوتی ہے کہ بعد کے دور میں بھی یہاں ایک شہر آباد تھا جس کے آثار اگرچہ اب نہیں ملتے ہیں ۔ کیوں کہ اسٹوپہ اور وہ بھی بڑے ۔۔ جنگل میں نہیں بنائے جاتے ہیں ۔ یہ آبادی کے قرب و جوار میں بنائے جاتے ۔ یہ اور بات ہے اس شہر کی تاریخ سے نشادہی ہوتی ہے کہ یہاں بعد کے دور میں یہاں کوئی شہر ضرور آباد تھا ۔ شاید اس شہر گمنام اس لیے بھی رہا ہے کہ اس عظیم تہذیب کی دریافت کی خوشی میں ماہرین آثار قدیمہ نے اس کی طرف توجہ ہی نہیں دی ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔