امیرالمومنین بازار گشت کو نکلے۔ راستے میں ابولولوء ملا۔ یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کا نصرانی غلام تھا۔ ایرانی تھا۔ جنگ نہاوند میں قیدی بنا اور اس زمانے میں جو رسم و رواج تھا، اس کے مطابق حضرت مغیرہ کی غلامی میں آ گیا۔ امیرالمومنین سے کہنے لگا، مغیرہ مجھ سے بہت زیادہ خراج لیتے ہیں، میری مدد کیجئے۔ امیر المومنین نے پوچھا، تم کتنا خراج ادا کر رہے ہو۔ اس نے بتایا دو درہم روزانہ۔ ’’اورکام کیا کرتے ہو؟‘‘ ’’لوہار ہوں‘ بڑھئی بھی ہوں اور نقاشی بھی کرتا ہوں‘‘۔ ’’تمہارے پیشوں کو دیکھا جائے تو خراج کی رقم زیادہ نہیں لگتی۔ میں نے سنا ہے تم ہوا سے چلنے والی چکی بنا سکتے ہو‘‘۔ ابولولوء نے جواب میں کہا‘ ہاں بنا سکتا ہوں۔ فرمایا تو پھر مجھے ایک چکی بنادو۔ ابولولوء نے بہت پُراسرار جواب دیا:’’اگر میں زندہ رہا تو آپ کے لئے ایسی چکی بنائوں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہوگا‘‘۔ پھر وہ چلا گیا۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ نے کہاـ: ’’یہ غلام مجھے دھمکی دے کر گیا ہے‘‘۔
فجر کی نماز کھڑی ہو رہی تھی۔ جب ابولولوء سامنے سے آیا اور اس خنجر سے جس کے درمیان دستہ تھا اور دونوں طرف تیز دھار پھل، امیر المومنین پر مسلسل وار کیے۔ یکم محرم کو تاریخ کا اور بے مثال انتظامِ سلطنت کا اور حیرت انگیز فتوحات کا اور حسن اجتہاد کا یہ عظیم باب بند ہوگیا!
محرم آ گیا ہے۔ زخم کھل اٹھے ہیں۔ خون رسنے لگا ہے! عمر فاروقؓ کی شہادت کا زخم! سبط رسولؐ کی شہادت کا زخم! آپ کے اہل و عیال اور آپ کے ساتھیوں کی قربانی کے وہ پھول مہکنے لگے ہیں جن سے آج بھی خوشبو آ رہی ہے! خون میں ڈوبی ہوئی خوشبو! جس مقدس جسم کو سواری کے لئے نبوت کے پاک کندھے میسر آتے تھے، وہ صحرا کی ریت پر گر پڑا۔ جو رخسار، رسالت مآبؐ کے خوبصورت رخساروں کو مس کرتے تھے، وہ لہو میں ڈوب گئے۔ بنت نبیؐ کے جگر گوشے ظلم کی نذر ہوگئے۔ خانوادئہ نبوت کی جن مقدس خواتین کو چشم فلک بھی نہیں دیکھ پاتی تھی۔ بے پردہ ہوگئیں۔ ہماری زندگیاں ان کی حرمت پر قربان ہوں! سانحہ اور ایسا سانحہ جس کی نظیر تاریخ کے کانوں نے نہیں سنی تھی : ؎
بہت سے راستوں میں تو نے جو رستہ چنا تھا
فرشتے آج تک حیرت میں ہیں کیسا چنا تھا
بہت سے شہر رہنے کے لئے حاضر تھے لیکن
ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے صحرا چنا تھا
جہاں میں کون تھا دوشِ نبیؐ تھا جس کا مرکب
اسی خاطر برہنہ پائی نے تجھ سا چنا تھا
جو پیچھے آ رہے تھے ان سے تو غافل نہیں تھا
کہ تو نے راستے کا ایک اک کانٹا چنا تھا
محرم آ گیا ہے۔ زخم کھل اٹھے ہیں۔ درد کے پھول مہکنے لگے ہیں۔ خون میں نہائی خوشبو ہر طرف پھیل گئی ہے۔ افسوس! صد افسوس! ایسے میں ہماری منافقت بھی کمین گاہ سے باہر نکل آئی ہے! ہمارے چہروں پر دوغلے پن کے ماسک بھی چڑھ گئے ہیں۔ ہمارے سینوں میں دہکتا بُغض بھی چنگاریوں کی شکل میں باہر نکلنے لگ گیا ہے۔
انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک کون سا مسلمان فرمانروا فاروق اعظمؓ کے نقش قدم پر چل رہا ہے؟ ذرا جکارتہ، دارالسلام، کراچی، لاہور، دبئی، دوحہ، جدہ ، ریاض ، قاہرہ اور رباط کی بے زبان زمینوں پر پھیلے ہوئے محلات پر نگاہ دوڑائیے۔ ساحلوں پر ایسی ایسی تعیش گاہیں بنی ہیں کہ امریکی اور یورپی ارب پتیوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ فرانس میں کچھ ہفتے پہلے بادشاہ سلامت کے اعزاز میں میلوں لمبا ساحل (بیچ) خلقِ خدا کے لئے بند کر دیا گیا تو دس لاکھ لوگوں نے درخواست پر دستخط کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ جزیروں کے جزیرے ان کی ملکیت ہیں۔ مکانوں کے تالے، چابیاں، کنڈے، گُچھے، ٹونٹیاں، ہینڈل خالص سونے کے ہیں۔ اڑھائی اڑھائی کروڑ کی گھڑیاں مٹی سے بنی ہوئی فانی کلائیوں پر باندھ کر یہ منتخب ایوانوں میں آتے ہیں۔ جہازوں کو
خلقِ خدا کے نیچے سے نکال کر ایک ایک حکمران کے لئے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ ہوا میں چند ساعتیں اڑنے کے دوران انہیں ڈرائنگ روم اور خواب گاہوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ تزک و احتشام، یہ جاہ و تکبر، یہ طمطراق اور گردن بلندی، یہ رعونت اور گراں بہا چیزوں کے استعمال کا پاگل پن کی حد تک اشتیاق! یہ اسی فاروق اعظمؓ کے نام لیوا ہیں جوسر کے نیچے اینٹ رکھ کر سوتے تھے اور غلام کو سوار کرکے مہار پکڑے اس کی سواری کے آگے چلتے تھے! یہ حکمران اپنی رعایا کو لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں جھونک کر، پورے پورے شہر کی بجلی اپنے دیوان اور ایوان کے لئے الگ
کرلیتے ہیں۔ ان کے دسترخوانوں پر ستر ستر کھانے ہیں۔ یہ اتنے پست ذہن، نیچ، فرومایہ اور احساس کمتری کے مارے ہوئے ہیں کہ قحط زدہ علاقے کا دورہ کرتے ہیں تو کروفر کے ساتھ، سواریوں کے جلوس اور ماتحتوں کے دستوں کے جلو میں آتے ہیں اور لاشوں کی تدفین اور سسکتے بلکتے بچوں کے منہ میں پانی کے قطرے ٹپکانے دسترخوان بچھاتے ہیں اور جانوروں کی طرح پیٹ کے تنور بھرنے لگ پڑتے ہیں۔ انہیں غور سے دیکھئے، یہ اس عمر فاروقؓ کے جانشین ہیں جنہوں نے قحط کے دوران قسم کھائی تھی کہ جب تک لوگ قحط میں مبتلا ہیں‘ وہ گوشت اورگھی کو ہاتھ تک نہیں لگائیں گے۔ غلام نے ایک بار کہا:’’ اللہ نے آپ کی قسم پوری کی۔ بازار میں دودھ اور گھی بکنے لگا ہے، میں چالیس درہم میں خرید لایا‘‘۔ فرمایا’’ تم نے بہت مہنگا خریدا۔ اسے خیرات کردو۔ میں فضول خرچی کا روادار نہیں‘‘۔ پھرآپ نے کثرت سے فاقے کرنے شروع کر دیئے یہاں تک کہ بعد میں لوگوں نے کہا! اگر اللہ قحط دور نہ کرتا تو عمر مسلمانوں کے غم میں جان ہی دے دیتے! آج ہمیں فاروق اعظمؓ پر لمبی لمبی تقریریں کرتے اورمضامین لکھتے اور چھپواتے ہوئے ایک لمحے کے لئے بھی خیال نہیں آتا کہ ہمارا ان سے تعلق ہی کیا ہے! کہاں وہ! اور کہاں ہم اور ہمارے حکمران! لیکن نگاہوں میں شرم نہ رہے تو ہر طرف ہرا نظر آتا ہے۔ جو لوگ پوری پوری زندگی بازار سے خود تیل، آٹا، ہلدی، آلو اور دودھ نہ خریدیں وہ مرتی رعایا کی ٹوٹی ہوئی گردنوں پر قالین بچھا کر ہمیشہ یہی کہیں گے کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔
پھر ہم غم حسینؓ میں عزاداری کرتے ہیں۔ سینہ کوبی کرتے ہیں۔ نوحہ خوانی کرتے ہیں مگر اپنی منافقت کا سامنا نہیں کرتے! مجلسیں، سوزو درد سے پڑھتے ہیں پھر کرنسی کے کھڑکھڑاتے نوٹ گن کر جیبوں میں ڈالتے ہیں، جیبیں جوکبھی بھی سیر نہیں ہوتیں! مگر ہمارا چلن کیا ہے؟ کیا ہم امام مظلومؓ کی طرح حاکم وقت کے سامنے انکار کرسکتے ہیں؟ نہیں! ہم تو ہر آمر کے جوتے میں کوکاکولا ڈال کر پیتے ہیں۔ اس کی وردی استری کرتے ہیں۔ پھر پارٹی تبدیل کرکے کسی اور کی خوشنودی کے لئے کسی اور کو گالیاں دینے لگتے ہیں۔ ہمارے حکمران کی خالہ بھی دفن ہونے لگے تو ہم قبر میں خود لیٹ جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور پھر اسی حکمران کو، اس کے جانے کے بعد ، سربازار کھڑے ہوکر بے نقط سناتے ہیں‘ اس حال میں کہ ہم ضمیر کو مار کرگندے نالے میں پھینک دیتے ہیں۔عزت نفس کو زمین پر ڈال کر اس پر خوشامد کی چادر بچھاتے ہیں پھر ہاتھ باندھ کر ایک طرف کھڑے ہو جاتے ہیں! ہم ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم اپنے سفید سروں، سفید داڑھیوں اور سفید بھووں کی پروا کیے بغیر ہر نوجوان بلاول، ہر نوجوان حمزہ شہباز اورہر نوجوان مونس الٰہی کے سامنے دست بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تُف ہے ہماری ذہنیت پر کہ پھربھی ہم اپنے آپ کو حسینؓ کی خیمہ گاہ میں گنتے ہیں حالانکہ ہمارا ہر عمل قاتلانِ حسین کی اتباع میں ہے!
محرم! اے محرم! کبھی اسی طرح بھی آ کہ تو ہمیں دیکھ کر شرمندہ نہ ہو! ہمارے حکمران عمر فاروقؓ کے سچے پیروکار بن جائیں! ہم میں اس جرأت کا کم از کم دسواں حصہ ہی پیدا ہو جائے جس کا مظاہرہ جری اور بہادر نواسئہ رسولؐ نے کیا تھا!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“