موہن کمار کی زندگی پر ایک نظر
رومانوی اور فیملی ڈرامہ فلمیں بنانے کے حوالے سے مشہور ماضی کے بہترین فلم ڈائریکٹر موہن کمار دس نومبر کو 83 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ موہن کمار کا جنم یکم جون 1934 کو سیالکوٹ میں ہوا تھا تقسیم کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ ممبئی چلے گئے اور وہی انہیں فلموں سے لگاؤ ہوگیا۔ رومانوی اور حساس طبیعت کیوجہ سے انہوں نے رومانوی اور فیملی ڈرامہ ٹائپ فلمیں بنانے کا من بنایا۔
1961 میں موہن کمار نے بطور ڈائریکٹر وجنتی مالا اور اپنے دوست ادکار راجندر کمار کو لیکر اپنی پہلی فلم "آس کا پنچی" بنائی، اس فلم کے ہیرو راجندر کمار کا جنم بھی سیالکوٹ میں ہوا تھا۔ موہن کمار نے اس فلم کی کہانی راجندر سنگھ بیدی کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔ اس فلم میں مکیش کی اواز میں گایا ہوا یہ گیت "اپنی بھی کیا زندگی ہے نرالی" "جہاں گئے ٹکرائے گئے جیسے بوتل خالی" بہت مشہور ہوا۔
موہن کمار کو اپنی اس پہلی بہترین فلم پر بیسٹ سٹوری رائٹر کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1962 میں موہن کمار نے اپنی دوسری فلم "ان پڑھ" بنائی جسکی کہانی انہوں نے سرشار سیلانی کے ساتھ ملکر لکھی تھی، اس فلم میں بلراج ساہنی مالا سنہا اور دھرمیندر نے کام کیا تھا۔ اس فلم میں لتا کی آواز میں یہ گیت " اپکی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل ہمیں" بہت مشہور ہوا۔
دو سال بعد 1964 میں موہن کمار نے سرشار سیلانی اور سچن بھومیک کی کہانی پر فلم "ائی ملن کی بیلا بنائی" اس فلم کی کاسٹ سائرہ بانو، ششی کل، راجندر کمار اور دھرمیندر شامل تھے یہ ایک روماموی فلم تھی جسکی زیادہ تر شوٹنگ سری نگر کشمیر میں ہوئی تھی اس فلم میں دھرمیندر کا رول ولن کا تھا، یہ فلم باکس افس پر بہت کامیاب رہی۔ 1964 میں ہی موہن کمار نے ایک اور فلم ا"پ کی پرچائیاں" بنائی اس فلم کی کہانی انہوں نے سرشار سیلانی کے ساتھ مل کر لکھی تھی اور کاسٹ میں دھرمیندر اور ششی کلا شامل تھے۔ اس فلم کے تین سال بعد 1967 میں انہوں نے ایک بہت ہی یادگار فلم "امن" بنائی اس فلم کی کہانی انہوں نے اور سرشار سیلانی نے رنجن بوس کے ساتھ ملکر لکھی تھی۔ اس فلم کا موضوع امن تھا اس فلم کی کاسٹ میں راجندر کمار اور سائرہ بانو شامل کے ساتھ ایک اور بہت ہی خاص شخصیت شامل تھی۔ موہن کمار امن پسند انسان تھے اس لئے وہ مشہور برطانوی فلسفی و ادیب برٹرینڈ رسل سے بہت زیادہ متاثر تھے جو جنگوں کے سخت مخالف تھے، انہوں نے کہا تھا کہ جنگ اس بات کا فیصلہ نہیں کرتی کہ کون درست ہے بلکہ صرف یہ بتاتی ہے کہ کون باقی بچا ہے۔ اس لئے موہن کمار نے اپنی اس اینٹی وار فلم میں انہیں کاسٹ کیا اور ایک سین میں انہیں دکھایا اس فلم میں راجندر کمار کا کردار ڈاکٹر گوتم کا ہے جو کیمیائی ہتھیاروں سے پاک دنیا دیکھنا چاھتا ہے اور اس سلسلے میں وہ برٹرینڈ رسل سے ملنے لندن چلا جاتا ہے اور برٹرینڈ رسل سے کہتا ہے کہ میں اپکے خیالات سے بہت متاثر ہوں اس لئے میں اپنے دیس واپس جانے کے بجائے جاپان جانا چاھتا ہوں کیونکہ ہیرو شیما پر امریکی ایٹم بم حملے کے متاثرہ مریض جو کہ بھیانک بیماریوں میں مبتلا ہیں، میں انکی خدمت مدد اور علاج کرنا چاھتا ہوں چونکہ برٹرینڈ رسل نے ایٹمی سائنسدانوں کو انسانیت کا قاتل قرار دیا تھا اس لئے وہ اس فلم میں کام کرنے کیلئے راضی ہوگئے اسوقت انکی عمر پچانویں سال تھی۔ اس فلم کی ریلیز کے تین سال بعد برٹرینڈ رسل کا انتقال ہوا۔
اس فلم میں سائرہ بانو کو محمد رفیع کے ساتھ گانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سائرہ بانو نے محمد رفیع کے ساتھ رومانٹک گانا " آج کی رات، یہ کیسی رات، کہ ہمکو نیند نہیں آتی… میری جان آو بیٹھو پاس، کہ ہمکو نیند نہیں آتی…" گایا جو بہت مشہور ہوا۔
فلم امن کے دو سال بعد 1969 میں موہن کمار نے اپنی لکھی ہوئی کہانی پر فلم "انجانا" بنائی۔ اس فلم میں انہوں نے راجندر کمار اور ببیتا کو لیا۔
فلم انجانا کے دو سال بعد 1971 میں موہن کمار نے وید راہی کے ساتھ ملکر "آپ ائے بہار ائی" فلم کی کہانی لکھی، اس فلم میں انہوں نے راجندر کمار اور سادھنا کو لیا گیا، فلم میں لتا منگیشکر کی آواز میں یہ گیت " مجھے تیری محبت کا سہارا مل گیا ہوتا" بہت مشہور ہوا۔
اگلے سال 1972 میں موہن کمار نے سی پی ڈوبے کی لکھی کہانی پر فلم "موم کی گڑیا" بنائی جس میں انہوں نے اپنے داماد رتن چوپڑہ اور تنوجا کو لیا۔ موہن کمار چاھتے تھے کہ انکا داماد راجیش کھنہ کے بعد اگلا سپر سٹار بنے لیکن بدقسمتی سے یہ فلم فلاپ ہوئی اور اس فلم کیطرح انکی بیٹی کی شادی بھی کچھ عرصہ بعد ناکام ہوگئی۔
موم کی گڑیا فلم کی ایک اہم بات یہ رہی کہ اس فلم میں راولپنڈی میں جنم لینے والے مشہور فلمی گیت نگار انند بخشی نے پہلی بار اپنی آواز میں لتا منگیشکر کے ساتھ ایک مشہور گانا "باغوں میں بہار آئی ہونٹوں پر پکار آئی۔ گایا تھا۔
موم کی گڑیا کی ناکامی کے دو سال بعد 1974 میں موہن کمار نے فلم "امیر غریب" بنائی جس میں انہوں نے دیو انند اور ہیما مالینی کو لیا۔ اس فلم کی کہانی انہوں نے کے اے نارائن اور احسان رضوی کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔
امیر غریب کے دو سال بعد 1976 میں موہن کمار نے ششی کپور اور ہیما مالینی کو لیکر فلم اب بیتی بنائی۔ 1981 میں موہن کمار نے کناڈا زبان میں ایک فلم "الیمنائی" بنائی جس میں کناڈین اداکار سریش اور روپا نے کام کیا تھا۔ دو سال بعد 1983 میں موہن کمار نے ایک یادگار فلم اوتار بنائی جس نے راجیش کھنہ کے کیرئیر کی ڈوبتی کشتی کو بچایا۔ اس فلم میں راجیش کھنہ کے ساتھ اداکارہ شبانہ اعظمی نے کام کیا تھا۔ فلم کی کہانی ایک ادمی اوتار کشن یعنی راجیش کھنہ کے گرد گھومتی ہے جسے خود غرض بچے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں لیکن وہ انکے بغیر مشکلات بھری زندگی بہتر کرنے کیلئے پھر سے جدوجہد کرتا ہے اور اسکی بیوی رادھا (شبانہ اعظمی) اسکا بھر پور ساتھ دیتی ہے۔ اس فلم میں انند بخشی کا لکھا گیت جو کشور کمار اور لتا منگیشکر نے ملکر گایا تھا بہت مشہور ہوا جو اج بھی لوگ بہت چاہ سے سنتے ہیں۔ گیت کے بول یوں ہیں۔
دن مہینے سال گزرتے جائینگے…
ہم پیار میں جیتے پیار میں مرتے جائینگے…
اس فلم کی کامیابی پر موہن کمار کو بہترین فلم ڈائریکٹر اور بہترین سٹوری رائٹر پر فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا اور فلم فلم کے بہترین ڈائیلاگ لکھنے پر مشتاق جلیلی کو بھی فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا جبکہ بہترین اداکاری پر راجیش کھنہ اور شبانہ اعظمی کو بھی فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
1984 میں موہن کمار نے ونود مہرا کے ساتھ اپنے دوست راجندر کمار کے بیٹے کمار گورو اور انکے مقابل رتی اگنی ہوتری کو لیکر فلم "ال راونڈر بنائی" اس فلم کی کہانی مہندرا دہلوی جبکہ سکرین پلے خود موہن کمار نے لکھی تھی۔
دو سال بعد 1986 میں موہن کمار نے اپنی لکھی کہانی پر فلم "امرت" بنائی جس میں انہوں نے ایک بار پھر راجیش کھنہ کے کیریئر کو سہارا دیا اور انکے مقابل سمیتا پاٹل کو لیا۔ اس فلم کی کہانی راجیش کھنہ اور سمیتا پاٹل کے گرد گھومتی ہے جو اپنے اپنے بچوں کی بدسلوکی سے تنگ اکر ایک ساتھ رہنے پر امادہ ہوجاتے ہیں۔ موہن کمار کی اخری فلم امبا تھی جو 1990 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کی کہانی انہوں نے خود لکھی جس میں انیل کپور اور میناکشی شیشادری نے کام کیا تھا۔
موہن کمار کی زیادہ تر فلموں کی موسیقی لکشمی کانت پیارے لال نے ترتیب دی۔ ان دونوں کا رشتہ بائیس سال تک رہا اور ان بائیس برسوں میں انہوں نے موہن کمار کیلئے فلم انجانا، اپ ائے بہار ائی، موم کی گڑیا، امیر غریب، اب بیتی، اوتار، امرت اور امبا شامل ہیں۔ موہن کمار نے زیادہ تر اپنی فلمیں بھی خود پروڈیوس کیں جن میں اپ کی پرچائیاں، امن، انجانا، آپ ائے بہار ائی، موم کی گڑیا، امیر غریب، آب بیتی، اوتار، آل راونڈر شامل ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ انہوں نے تین اور فلمیں پروڈیوس کیں یہ وہ فلمیں تھیں جو انہوں نے خود ڈائریکٹ نہیں کیں۔ ان میں فلم آتش 1979 آپ ایسے تو نہ تھے 1980 اور آزمائش 1995 شامل ہیں۔
اگر ہم غور کریں تو موہن کمار کی یہ دلچسپ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ انکی سبھی فلموں کے نام الف سے شروع ہوتے ہیں چاھے وہ فلمیں انہوں نے ڈائریکٹ یا پھر پروڈیوس کیں۔
موہن کمار کا بڑا بیٹا گوتم کمار خود فلم پروڈیوسر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر رہ چکے ہیں انہوں نے اپنے باپ کے ساتھ فلم آوتار، امرت، اور آزمائش میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔ بعد میں انہوں نے بطور پروڈیوسر اپنی فلم "آپ مجھے اچھے لگنے لگے 2002 میں بنائی۔ جبکہ موہن کمار کے دوسرے چھوٹے بیٹے روہیت کمار خود اداکار رہ چکے ہیں۔ جنہوں نے فلمی کیرئیر کا آغاز اپنے باپ کی پروڈیوس کردہ فلم آزمائش سے کیا بعد میں انہوں نے مقدر 1996 انٹی نمبر ون 1999 اپ مجھے اچھے لگنے لگے 2002 اور بھوت 2003 جسکے وہ خود پروڈیوسر بھی تھے۔
موہن کمار کو اپنے بہترین کام کیوجہ سے فیملی ڈرامہ کنگ کا خطاب بھی ملا۔ انکی فیملی ڈرامہ فلمیں دیکھ کر جب لوگ سینما سے نکلتے تھے تو وہ یہ ضرور سوچتے کہ اتفاق میں برکت ہے اپس میں مل جل کر رہنا چاہیئے۔ اور جیت ہمیشہ اچھائی کی ہوتی ہے اس لئے کسی کے ساتھ برا نہیں کرنا چاہیئے۔
موہن کمار اپنی بہترین فلموں کیوجہ سے ہمیشہ امر رہینگے جب جب ہندی سینما کا ذکر ہوگا تو موہن کمار کا نام ضرور فخر سے لیا جائیگا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔