میں نے ، ابھی اپنے کمپیوٹر سے، ایک ڈی وی ڈی نکالی ہے۔ یہ فلم ’ لوو پر سکوئیر فُٹ ‘ ( Love per Square Foot) کی ہے ۔ 2018 ء کی اس فلم کا ہدایت کارنئی نسل کا ’ آنند تیواری‘ ہے جو ہدایت کاری کے ساتھ ساتھ اداکاری بھی کرتا ہے ۔ یہ فلم ایک ایسے لڑکے اور لڑکی کی کہانی ہے جو ممبئی میں ایک رہائش حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بظاہر یہ فلم ایک رومانٹک کامیڈی ہے لیکن ’ Between the lines ‘ اس میں کیا ہے ؟ یہ سوال مجھے اپنی جوانی کے دِنوں کی طرف لوٹا دیتا ہے ۔
یہ پچھلی صدی کی 7 ویں دہائی کا آغازہے ۔ بھٹو حکومت کا زمانہ ہے ، نیف ڈیک کا ادارہ بن چکا ہے اور اس نے لاہور کے ٹاﺅن ہال میں بدیسی فلمیں دکھانے کا آغاز کیا ہے ۔ یہ ہر ہفتے ایک فلم دکھاتا ہے جس کی ٹکٹ دس روپے ہے ۔ یہیں میں نے جہاں ’ متوازی ‘ سینما کے حوالے سے ڈی سیکا ( Vittorio De Sica ) جیسے ہدایت کاروں کی فلمیں دیکھیں ہیں ۔ میں یہاں پہلی بار بنگالی ہدایت کار ستیہ جِت رے اور اس کی فلموں سے متعارف ہوتا ہوں ؛ ’ پاتر پنچلی‘ ،’ اپراجیتو ‘ ،’ جولسہ گھر‘ ، ’ آپور سنسار‘ ، ’ جاناآریانا ‘۔ یہ بنگالی فلمیں مجھے احساس دلاتی ہیں کہ یہ فلم کے میڈیم کی عمومی چال نہیں ہے ؛ یہ فلمیں کچھ ہٹ کر ہیں ۔ یہیں میں شیام بینیگل کی ’ انکر‘ اور ’ نشانت ‘ دیکھتا ہوں ۔
ضیاءالحق کے مارشل لاء لگنے پر جہاں اور پابندیاں لگتیں ہیں جن کی وجہ سے جمیل دہلوی ’ بلڈ آف حسین ‘ مکمل نہیں کر پاتا اور اسے اس فلم کے رَش پرنٹس لے کر ملک چھوڑنا پڑتا ہے ، وہیں نیف ڈیک کی یہ فلم کلب بھی بند ہوجاتی ہے لیکن وی سی آر اور فلموں کی VHS کاپیوں پر پابندی لگانا ضیاء کے بس کی بات نہیں ہے ؛ اس کے اپنے جرنیلوں کے بیٹے اس کاروبار سے لمبے نوٹ چھاپ رہے ہیں جیسے کے خود جرنیل اونیکس ماربل کے بنے برتنوں میں ہیروئن چھپا کر بدیس سے مال بٹور رہے ہیں ۔
ہم اپنی کلب بنا لیتے ہیں ؛ ’ لاہور کلچرل فورم ‘ اور متوازی سینما کی فلموں کو سٹڈی سرکلز میں استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ آٹھویں دہائی کا آغاز ہوتا ہے ار ہم ’ سعید اختر مرزا ‘ سے واقف ہوتے ہیں۔ یہ اختر مرزا کا بیٹا ہے ؛ اختر مرزا جو اپنی فلموں ’ وقت ‘ اور ’ نیا دور‘ جیسی فلموں کے سکرپٹ رائٹر کے طور پر مشہور ہے ۔ ’ البرٹ پنٹوکو غصہ کیوں آتا ہے ‘ ، یہ بھلا کیا نام ہوا ؛ میں ’ ریڈیو سٹی ‘ ، اسلام آباد کی دکان میں اس نام کیVHS کیسٹ ہاتھ میں پکڑے سوچتا ہوں ۔ میں جُوا کھیلتا ہوں ؛ پانچ سو روپے کاﺅنٹر پر ادا کرتا ہوں اور اس کی ’ فرسٹ کاپی‘ ( ماسٹر نہیں ) اٹھا لیتا ہوں اور یوں ہم ایک اور ہدایت کار سے واقف ہوتے ہیں جو اپنی فلموں کو آرٹ فلمیں نہیں ،’ سینما آف کنوِکشن ‘ ( Cinema of Conviction ) کہتا ہے ۔ 1984 ء میں اس کی فلم ’ موہن جوشی حاضر ہو! ‘ کی کاپی مارکیٹ میں آتی ہے ۔ ہم جو خود اَربن ہیں اور ہم میں سے کئی خود فلیٹوں ، کٹڑیوں اور’ چالوں‘ میں رہنے والے ہیں اور جنہیں بڑے شہروں میں مکان یا فلیٹ ، کسی کٹڑی یا ’ چال‘ میں کمرہ یا دو کمرے حاصل کرنے میں دشواری اور مالک کی جھک جھک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، پہلی بار اس بات کا ادراک کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ کیا ہے اور اس کے ساتھ دیوانی مقدمے اور نظام ِعدل کس طرح جڑا ہے ۔
’ موہن جوشی حاضر ہو! ‘ ، بظاہر ایک ایسی فلم ہے جو پاک و ہند کے عدالتی نظام پر طنز کے تیر برساتی ہے جس میں مدعاالیہ برسوں دیوانی مقدمے لڑتے لڑتے پیسہ ضائع کرتے ہیں ، اُمید کھو بیٹھتے ہیں یہاں تک کہ مر بھی جاتے ہیں ، جبکہ بدعنوان لوگ صاف بچ جاتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق بد عنوان وکیلوں سے بھی جُڑا ہے ۔ بظاہر یہ ایک سادہ سی کہانی ہے ۔ ایک مالک مکان ( امجد خان) اپارٹمنٹس والی اپنی عمارت کی مرمت و دیکھ بھال نہیں کراتا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ خستہ حال ہو چکی ہے اور امکان اس بات کا ہے کہ یہ کسی وقت بھی گِر سکتی ہے ۔ اسی عمارت میں کرائے پر رہنے والا ایک بوڑھا جوڑا ’ موہن جوشی ‘ ( بہشام ساہنی ) اور اس کی بیوی ( دینا پاٹک ) ’ کرایہ داری کے قانون ‘ کے مطابق مالک مکان پر دعویٰ دائر کر دیتا ہے ۔ اس کے لئے وہ ایک ساتھ پریکٹس کرنے والے دو عیار وکیلوں (نصیرالدین شاہ اور ستیش شاہ ) کی خدمات حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے مدمقابل مالک مکان کی وکیل ( روہنی ہتھنگدی ) بھی کم شاطر نہیں ہے ۔ مقدمہ برسوں چلتا ہے ۔ موہن جوشی اپنے وکیلوں کے لئے ایک دودھ دیتی گائے ہے جسے وہ دوہتے دوہتے خود امیر ہو جاتے ہیں جبکہ موہن جوشی اور اس کی بیوی غریب سے غریب ؛ انہیں اس ’ چال ‘ میں رہنے والے دیگر کرایہ داروں کے مذاق کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جو انہیں مالک مکان کے خلاف مقدمے سے باز رہنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ موہن جوشی اور اس کی بیوی البتہ ڈٹے رہتے ہیں ۔ مقدمہ بالآخر اس سٹیج پر پہنچتا ہے کہ عدالت ’ اہل کمیشن ‘ مقرر کرتی ہے کہ وہ عمارت کا معائنہ کرکے رپورٹ دے تاکہ اس کی روشنی میں فیصلہ کیا جا سکے ۔ مالک مکان کے آدمی عمارت کی عارضی سہاروں سے ٹیپ ٹاپ کر دیتے ہیں اور ’ اہل کمیشن ‘ کو قائل کر لیتے ہیں کہ عمارت اتنی بھی بُری حالت میں نہیں ہے ۔ اب موہن جوشی کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ’ عارضی سہاروں ‘ کو ہٹا دے اور عمارت کو خود پر گرنے دے ۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ بوڑھا جوڑا اِس ’چال ‘ کو چھوڑ کر کہیں اورجا کر کیوں نہیں بس جاتا ۔ فلم میں اس کی کچھ تاویلیں بھی موجود ہیں لیکن بین السطور اہم بات یہ ہے کہ ممبئی جیسے کاسموپولیٹن شہروں میں مکان ، اپارٹمنٹ ، فلیٹ یا کسی طرح کی بھی رہائش حاصل کرنا اول تو ایک کٹھن کام ہے اور اسے بدلنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔
2018 ء کی فلم ’ لوو پر سکوئیر فُٹ ‘ ( Love per Square Foot) بھی ممبئی جیسے کاسموپولیٹن شہروں میں اپارٹمنٹ یا فلیٹ حاصل کرنے موضوع پر بنائی گئی ہے اور’ محبت ‘ کو پیمائش کی اصطلاح ’ مربع فٹ ‘ سے جوڑ کرعنوان ہی میں ایک ایسا طنز سمو دیا گیا ہے کہ بندہ اسے پڑھ کر اسی طرح چونک جاتا ہے جیسے سعید ااختر مرزا کی فلم ’ موہن جوشی حاضر ہو! ‘ پر چند لمحے سوچتا ہے کہ فلم کا نام بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
اس فلم میں 1984 ء کی ایک’ چال ‘ دو رہائش گاہوں میں بدل گئی ہے ؛ ایک ریلوے کا چھوٹا ، تنگ اور ایک باتھ روم والا کوارٹر ہے ۔ اس میں سنجے ( وِکی کوشال ) اپنے والد ( رگھو بیر یادیو) ، جوممبئی آیا تو گلوکار بننے کے لئے تھا لیکن ریلوے میں اناﺅنسر بننے پر مجبور ہے ، اور اپنی ماں ( سُپریا پاٹھک ) کے ہمراہ رہتا ہے۔ اس کا سپنا ہے کہ اس کے پاس اپنا ایک فلیٹ ہو جس میں الگ سے ایک مہمان خانہ اور کم از کم دو باتھ روم ہوں ۔ دوسری ایک ایسی ہی عمارت میں ہے جس کی چھت سے ہر وقت سفیدی نیچے گرتی رہتی ہے ؛ اس میں کرینا ڈی سوزا ( انگیرا دَھر ) اپنی ماں (رتنا پاٹھک شاہ) کے ہمراہ رہتی ہے ۔ سنجے اپنی باس کے ساتھ افیئر میں ہے ، جس کا خاوند اسے چھوڑ کر لندن میں کسی گوری کے ساتھ رہ رہا ہے ۔ کرینا ڈی سوزا اور سنجے ایک ہی بنک میں کام کرتے ہیں ؛ سنجے اس کے آئی ٹی شعبے میں ہے جبکہ کرینا ڈی سوزا اس بنک کے اُس شعبے میں ہے جو بنک کے ملازموں کے قرضے منظور یا رد کرتا ہے۔ کرینا کا اپنا بھی ایک ہم مذہب ، قدرے بوائے فرینڈ ہے ۔ سنجے کی طرح کرینا کا بھی یہ خواب ہے کہ اس کا ممبئی میں اپنا فلیٹ ہو جس میں وہ اپنے خاوند کے ساتھ ہر شے کی ففٹی ففٹی کی شریک ہو ؛ فلیٹ کے باہر تختی پر اس کے خاوند کے ساتھ اس کا نام بھی لکھا ہو ؛ لیکن اس کا بوائے فرینڈ ، مالدار ہونے کے سبب ، اس کے وچاروں سے اتفاق نہیں کرتا ۔ سرکار ’ شادی شدہ جوڑوں‘ کے لئے ایک ملٹی اپارٹمنٹ بلڈنگ کا اشتہار دیتی ہے جس میں فلیٹ کے لئے سنجے درخواست دینا چاہتا ہے اور اس کے لئے وہ بنک میں قرضے کے لئے درخواست دیتا ہے اور اس کے رد ہونے پر وہ کرینا کے قریب آتا ہے ۔ دونوں شادی کیے بِنا مل کر اس فلیٹ کے لئے درخواست دیتے ہیں ؛ ان میں سمجھوتا ہوتا ہے کہ فلیٹ ملنے پر یا تو شادی ( اگر تعلق بن پایا ) کر لیں گے یا کوئی ایک دوسرے کا حصہ دے کر فلیٹ خود لے لے گا یا پھر یہ کہ وہ اسے کرایے پر دے دیں گے یا بیچ دیں گے ۔ ملاقاتیں انہیں نزدیک لے آتی ہیں اور عمومی مصالے کے ساتھ فلم آگے بڑھتی ہے۔ اختتام میں 550 مربع فٹ کا یہ فلیٹ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود سنجے اور کرینا کی شادی کا سبب بنتا ہے ۔
فلم کے عمومی مصالے کو ایک طرف رکھیں ، اس کے مزاحیہ پن ( جو کئی جگہ خاصا بھونڈا ہے ) کو بھی الگ کر دیں اور صرف فلم کے آغاز اور اختتام پر ہی غور کریں تو یہ کاسمو اور میڑوپولیٹن شہروں میں ’ ہاﺅسنگ ‘ کے مسئلے پر ایک طنز بھرا تیر ہے ؛ فلم کے آغاز میں سنجے چھت پر کھڑا ٹوتھ برش سے دانت صاف کر رہا ہے اور باتھ روم خالی ہونے کے انتظار میں دور ایک ملٹی سٹوری بلڈنگ کو دیکھتے ہوئے اپنے فلیٹ کا سپنا دیکھ رہا ہے ۔ فلم کے اختتام پر بھی ایسا ہی کچھ ہے ۔ سنجے کے فلیٹ والی عمارت کے بازو والی بلڈنگ کی چھت پر ایک اور نوجوان اسی انداز میں کھڑا دانت صاف کر رہا ہے ، جس طرح سنجے کرتا رہا ہے ؛ یہ نوجوان بھی دور کسی عمارت پر نظریں جمائے اپنے فلیٹ کاخواب دیکھ رہا ہے ؛ مطلب مسئلے کا انت نہیں ہوا ، یہ لامتناہی ہے ۔
’ موہن جوشی حاضر ہو!‘ کو بنے 34 برس ہو چکے ہیں ۔ موہن جوشی کی ’ چال ‘ زمین بوس ہو جاتی ہے لیکن ’ رہائش‘ کا مسئلہ ایسا مینار بن جاتا ہے جو بڑھتے سمے کے ساتھ ساتھ بلند سے بلند ہوتا جاتا ہے ۔ حکومتی نظام ، جو انڈیا اور ہمارے جیسے ملکوں میں ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو آبادی کا 10 فیصد بھی نہیں ۔ ۔ ۔ اور جن کا اپنا مسئلہ تو یہ ہے ہی نہیں ۔ ۔ ۔ تب بھی کچھ نہیں کر پاتا اور 2018 ء میں بھی اس کے پاس ، اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا بلند بانگ دعویٰ کرے اور بس ایک دو ملٹی سٹوری بلڈنگیں بنائے اور قرعہ اندازی کرکے کرینا اور سنجے جیسوں کو فلیٹ الاٹ کر دے جن کی محبت پیمائش کی اصطلاح ’ مربع فٹ ‘ سے جڑی ہے ؛ ’ مربع فٹ ‘ ذرا سُکڑا یا پھیلا تو ’ محبت ‘ کا مطلب بھی بدلا ۔ ۔ ۔
’ موہن جوشی حاضر ہو!‘ ایک آرٹ فلم تھی یا ایک ایسی جسے سعید اختر مرزا ’ Cinema of Conviction ‘ کہتا ہے ۔ یہ سینما اب نہیں رہا ؛ کمرشل سینما اور یہ سب گڈ مڈ ہو ہو گئے ہیں ؛ شاید زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے ۔ مجھے بہرحال ’ آنند تیواری‘ جیسے نئی نسل کے جوانوں سے یہ امید ہے کہ وہ ’ Love per Square Foot ‘ جیسی فلمیں بناتے رہیں گے ، وہ بس یہ خیال رکھیں کہ ان میں ’ Conviction ‘ کا عنصر زیادہ ہو اور مصالہ کم ۔