ایک دن ماسٹر غلام حیدر بمبئی کی لوکل ٹرین میں سفر کررہے تھے. زیادہ رش نہیں تھا۔ کچھ دور بیٹھی ایک نوخیز و نحیف لڑکی گنگنا رہی تھی۔ اس کی سریلی آواز نے متوجہ کیا تو ماسٹر صاحب نے اسے بلاکر اپنے قریب بیٹھنے کیلئے کہا۔ وہ بیٹھ گئی تو کہا ’’ اگر کچھ تمہیں سناؤں تو کیا تم ویسا گانے کی کوشش کروگی؟‘‘ لڑکی نے ہاں میں جواب دیا تو ماسٹر صاحب کچھ گنگنائے۔۔۔ لڑکی نے اسے ہو بہو گاکر سنادیا۔ اس کی اس کوشش سے ماسٹر صاحب بہت خوش ہوئے اور کہا تم کل اس وقت فلاں جگہ میرے پاس آؤ ، میں تمہارا مائیک پر آڈیشن لینا چاہتا ہوں۔ اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ میوزک کے ساتھ تمہاری آواز کی سنگت کیسی لگتی ہے۔ اگلے دن وہ لڑکی مقررہ وقت پر پہنچ گئی۔ ماسٹر صاحب نے آواز کا ٹیسٹ لیا۔ مائیک پر وہ آواز اور زیادہ اچھی لگی۔ ماسٹر صاحب بہت خوش ہوئے۔ اس لڑکی کو لتا منگیشکر کے نام سے آپ سب جانتے ہیں۔
انہی دنوں ماسٹر غلام حیدر فلم ’’ مجبور‘‘ کا میوزک ترتیب دے رہے تھے۔ انہوں نے لتا منگیشکر سے ایک گانا’’ دل میرا توڑا، مجھے کہیں کا نہ چھوڑا تیرے پیار نے‘‘ گوایا۔ یہ فلم میں لتا کا پہلا سولو گانا تھا۔ فلم مجبور کے گانے 1947 میں ریکارڈ ہوئےاور فلم 1948 میں ریلیز ہوئی۔ اسی سال ماسٹر غلام حیدر نے لتا سے فلم ’’ آبشار‘‘ کے گانے بھی گوائے۔
دل میرا توڑا، مجھے کہیں کا نہ چھوڑا، ناظم پانی پتی کا لکھا ہوا تھا، جنہوں نے بعد میں لاہور میں زندگی گزاری
مجھے اپنے کیریر کے استحکام کیلئے شاید اتنے پاپڑ نہ بیلنے پڑتے، اگر ( بہن) لتا نے میرا ساتھ دیا ہوتا۔ اگر وہ چاہتی تومیرے لیے سب کچھ آسان ہوجاتا۔۔ مگر لتا نہیں چاہتی تھی کہ میں آگے بڑھ سکوں۔
… آشا بھوسلےCNN.IBN کو انٹرویو
فلم ’’دلاری ‘‘کیلئے میں نے گانا
’’ سہانی رات ڈھل چکی ، نجانے تم کب آؤگے ‘‘ ریکارڈ کیا۔ محمد رفیع نے یہ گانا جس انداز،جس خلوص اور جس جذبے سے گایا ، اس سے میں خوش ہوگیا۔ لیکن دوسرے دن رفیع صاحب میرے گھر آئے اور رونے لگے۔ میں نے کہا کیا ہوا؟
کہنے لگے یہ گانا پھر ریکارڈ کر لیجیے، میں شاید وہ جذبات نہیں لاسکا، جو آپ چاہتے تھے۔۔ میں نےان کی پیٹھ ٹھونکی اور کہا کہ ایک سچے فنکار کی یہی نشانی ہوتی ہے، آپ کی ایمانداری کی میں داد دیتا ہوں۔ میں نے وہ گانا پھر سے ریکارڈ کیا تھا۔
… موسیقارِ اعظم نوشاد
او پی نیر کے ساتھ گانے کا موقع آیا تو لتا منگیشکر نے انہیں نووارد سمجھتے ہوئے انکار کردیا. اس سے نیر کو اتنا صدمہ ہوا کہ انہوں نے کبھی ایک گانا بھی لتا سے نہیں گوایا.
1950 میں مدن موہن نے اپنی پہلی فلم آنکھیں کیلئے لتا سے رجوع کیا تو انہیں بھی نیا ہونے کی وجہ سے انکار کردیا. لیکن بعد میں اسی مدن موہن نے لتا کی آواز کا وہ رخ دنیا کو دکھایا جس کی کھوج کوئی دوسرا موسیقار نہ لگا سکا.
محمد رفیع نے بہت سے بالکل نئے موسیقاروں کی دھنوں پر گایا بلکہ ان کی مالی اعانت بھی کی تاکہ وہ اپنی جگہ بنالیں.
قیصر اقبال کی کتاب" آوازِ عشق، محمد رفیع" سے
“