ذوق کے دیوان میں غزلوں کے علاوہ زیادہ تر قصیدے ملتے ہیں جو بادشاہوں کی مدح میں کہے گئے ہیں۔سودا کے بعد ذوق اردو زبان کے سب سے بڑے قصیدہ نگار ہیں۔ انھوں نے اپنی قصیدہ گوئی کے لئے فارسی شعراء کے شاہکار قصائد کو اپنا معیار بنانے کے بجائے سودا کی ہی پیروی کی لیکن اس سے ذوق کی ادبی شان میں کوئی کمی نہیں آئی۔کلیم الدین احمد لکھتے ہیں:
"ذوق نے بھی قصائد نہایت اہتمام کاوش سے لکھے، ہر قصیدے کا رنگ جدا ہے، ہر قصیدے میں ایک نئی بات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تنوع میں بھی سودا کی پیروی کرتے ہیں لیکن وہ جوش، وہ گرمی، وہ اصلیت میسر نہیں”
ذوق نے کئی قصائد لکھے لیکن کہا جاتا ہے 1857ء کے ہنگامے میں آگ ذوق کے گھر میں کچھ اس طرح لگی کہ جو کچھ تھا سب جل گیا۔جو قصائد بچ گئے محقیقین و ناقدین نے ان کی تعداد 25 کے قریب بتائی ہے۔ بعض جگہ یہ تعداد 27 بھی ملتی ہے۔ ذوق کی قادر الکلامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے بادشاہ اکبر ثانی کی شان میں ایک قصیدہ لکھا جس کے کل 18 اشعار مختلف 18 زبانوں میں تھے۔ اسی کے عوض میں اکبر شاہ ثانی نے انہیں ‘خاقانی ہند’ کا خطاب عطا کیا تھا۔اور بعض جگہ یہ ملتا ہے کہ انھیں ایک گاؤں بھی انعام میں دیا گیا۔ ذوق کی قصیدہ نگاری کی فنی خصوصیات اس طرح سے ہے۔
تشبیب
فنی اعتبار سے ذوق کی قصیدہ نگاری کا جائزہ لیا جائے تو وہ علمی اصطلاحوں کے بادشاہ ہیں۔ تشبیب میں وہ عام طور پر فلسفہ، منطق، نجوم، تصوف اور موسیقی وغیرہ سے متعلق اصطلاحوں اور صنعتوں کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ان کی تشبیں بڑی متوازن، پسندیدہ اور نئے پہلو سے پر ہوتی ہیں ض۔سنبل نگار کے مطابق "ذوق کی تشبیب سے بلعموم ایک فرضی تصویر ابھرتی ہے، لفظوں کا زیرو بم اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، فنکارانہ صورت گری کی داد دینی پڑتی ہے۔ وقت پسندی اور نزاکت آفرینی کا قائل ہونا پڑتا ہے لیکن دل پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا”
گریز
قصیدہ کا یہ مقام خون جگر کا تقاضا کرتا ہے۔ سودا کی طرح نہ سہی پھر بھی ذوق گریز کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے قصائد کے اس مقام پر اس قدر بات کا پہلو بدلتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوبخود بات سے بات پیدا ہو گئی ہے اور ممدوح کا ذکر چھڑ گیا ہے۔ ایک قصیدے میں بطور تشبیب اپنی روش طبیعت اور خاطر نازک کا ذکر کرتے ہیں اور پھر فطری انداز میں زمانے کی مہربانیوں کو بیان کرتے ہیں تو یہیں سے مدد کے لئے فضا ہموار ہو جاتی ہے۔
لے آیا آج مقدر اس آستاں پہ مجھے
کہ سجدہ کرتے ہیں جھک جھک کے جس پہ لیل و نہار
مدح
ذوق ایک دربار شاعر تھے اس لئے ان کے ممدوح کا دائرہ بھی محدود ہے۔انہوں نے ایک قصیدہ مرزا مغل کی مدح میں کہا اور باقی سب کے سب اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کی مدح میں لکھے ہیں۔ اس بات پر سنبل نگار نے حیرت جتائی ہے کہ” مذہب سے گہرا شغف ہونے کے باوجود بھی ذوق نے بزرگان دین کی شان میں کوئی قصیدہ نہیں کہا” اصل میں ذوق کے ممدوحین اپنا جاہ و جلال کھو چکے تھے اس لئے مدح گوئی میں مبالغہ آرائی کا سہارا لے کر سودا سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ذوق ممدوح کی خدا ترسی، عدل و انصاف، عقل و حکمت، شان و شوکت اور شجاعت کی تعریف پرزور انداز میں کرتے ہیں۔
آگے جلوے کے ترے پرتو خورشید ہے گرد
آگے رتبے کے ترے خاک ہے بزم کیواں
مدعا و دعا
ذوق کے قصائد کا خاتمہ حسن طلب پر نہیں بلکہ دعا پر ہوتا ہے۔ وہ ایک قناعت پسند انسان تھے اس لئے انہوں نے کبھی بھی اپنے قصائد میں ممدوح کے سامنے دست سوال دراز نہیں کیا۔ اس سے ان کے قصیدوں میں اور بھی نکھار پیدا ہوگیا ہے۔ ایک قصیدے کا خاتمہ اس دعا پر کرتے ہیں:
ختم کرتا ہے سخن ذوق دعا پر اس طرح
تا ہو دریا میں گہر، کان میں پیدا الماس
مجموعی طور پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ذوق کے قصائد میں جہاں علمیت پسندی، تخیل پرستی، مضمون آفرینی، مبالغہ آرائی، علوم و فنون، تشبیہات و استعارات اور صنائع بدائع کی بھرمار ہے وہیں ان کے قصائد پرکاری و فنکاری، اثریت و شعریت اور سادگی و صفائی سے بھی محروم نہیں ہیں۔ذوق قصیدہ نگاری میں سودا کے مد مقابل نہ سہی لیکن سودا کے بعد وہ اردو قصیدے کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔یہاں فراق گورکھپوری کی اس رائے سے ہمیں اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ "سودا اگر آسمان قصیدہ کے نصف النہار ہیں تو ذوق اسی آسمان کے ماہ کامل ہیں”
قصیدہ نگاری کے باب میں نقدِ ذوق کے بعض تسامحات
شیخ محمد ابراہیم ذوق ]۱۲۰۳ ھ-۱۲۷۱ھ / ۱۷۸۸ تا ۱۸۵۴[دلی کے کابلی دروازے کے پاس ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے اور تمام عمر اسی چھوٹے سے گھر میں گذار دی۔ ذوق غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ذوق اپنے والد شیخ رمضانی کی اکلوتی اولاد تھے۔مکتب میں ذوق کے استاد شاعر غلام رسول شوق تھے جن کی مناسبت سے ذوق نے اپنا تخلص اختیار کیا۔
اردو کی ادبی تاریخ میں شیخ محمد ابراہیم ذوق وہ نام ہے جس کو زوال آمادہ تہذیب کا نمائندہ قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ذوق نے ایک مٹتی ہوئی صنف سخن پر طبع آزمائی کی یعنی وقت کا زیاں کیا۔ ذوق، قصیدہ اور اس صدی کے حوالے سے یہ بات اس قدر دھڑلے سے دہرائی جاتی ہے گویا کسی مسلمہ حقیقت کا اظہار یا کسی اسطورہ کا بیان کیا جارہا ہو۔ اس بات پر غور نہیں کیا جاتا کہ آخر کوئی شئے، کوئی فرد، کوئی ہستی، کوئی سماج، کوئی عہد، کوئی سلطنت زوال پر کیسے آمادہ ہوسکتی ہے؟ کوئی چیز روبہ زوال ہوسکتی ہے، زوال پذیر ہوسکتی ہے، لیکن زوال آمادہ کیسے ہوسکتی ہے؟ ذوق کے عہد میں قصیدہ ایک مٹتی ہوئی صنف سخن ہے، اس بات کو کہنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس عہد میں ذوق یا ان کے بعد کے شعرا کا اس صنف میں طبع آزمائی کرنا، صنف کو زندہ رکھنے کی کوشش سے عبارت ہے۔ ظاہر ہے اس نتیجے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ بڑا شاعر ہو یا اہم شاعر، قادر الکلام شاعر ہو یا مقتدی شاعر، چھوٹا شاعر ہو یا غیر اہم شاعر، ان سب کی صنف قصیدہ پر طبع آزمائی کا سب سے بنیادی مقصد اپنے شاعرانہ کمالات کا اظہار تھا۔ اور اس عہد میں قصیدہ گوئی کو شاعرانہ کمالات کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی نے شعرالعجم کی پانچویں جلد میں درست ہی لکھا ہے کہ مختلف شاعرانہ مضامین کے لیے قصیدہ سب سے بڑا میدان ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ قصیدہ کسی زوال آمادہ تہذیب کی مٹتی ہوئی صنف سخن نہیں ہے اور نہ ہی ذوق اس کے نمائندہ۔ یہ نمائندگی کی بات بڑی سنجیدگی کا تقاضہ کرتی ہے لیکن اسے یوں ہی رواروی میں کہہ کر عبارت آرائی کا ذریعہ بنادیا جاتا ہے۔
ذوق کی قصیدہ نگاری کے حوالے سے عام طور پر دو باتیں کہی جاتیں ہیں جو کہ یکسر متضاد ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مرزا محمد رفیع سودا کے بعد شیخ محمد ابراہیم ذوق اردو قصیدے کے سب سے بڑے شاعر ہیں ، یعنی سودا کی طرح ذوق بحیثیت شاعر قصیدے کے مرد میدان ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ قصیدہ گوئی کے اعتبار سے ذوق محض ایک مقلد شاعر ہیں اور انھوں نے اپنے قصائد میں کسی جدت سے کام نہیں لیا۔
ہم ذرا پہلی بات پر غور کرتے ہیں ۔ اگر سودا کے بعد ذوق ہی قصیدے کے تنہا یا قدرے غنیمت شاعر ہیں تو ذوق کو سودا کے بعد قصیدے کا بڑا شاعر کہنا ہمارا مجبوری ہے۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت نہیں اور نہ ہی ذوق کے بارے میں یہ قائم کرنا ہماری ادبی تاریخ کی کوئی مجبوری۔اگر سودا اور ذوق کے درمیان سرسری طور پر چند اہم شاعروں کا بطور قصیدہ گو ذکر کیا جائے تو میر، انشا اور مصحفی کا نام آئے گا۔ ایسے استاد شعرا کے ہوتے ہوئے قصیدہ گوئی میں سودا کے بعد ذوق کا رتبہ تسلیم کرنا محض تقلید کا شاخسانہ نہیں ہوسکتا۔ جدت سے ہماری کیا مراد ہے یا یہ کہ کسی شاعر کی جدت سے ہم کیا توقع کرتے ہیں ۔ اگر جدت سے ہماری مراد موضوع یا ہیئت کی تبدیلی یا انداز بیان کی تبدیلی ہے تو ذوق ہی کیا اردو کے تقریباً ہر شاعر کے بارے میں یہی کہنا پڑے گا کہ صرف تقلید سے کام لیا۔ کیوں کہ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ اردو شاعری نے بڑی اور اہم اصناف سخن میں صرف مرثیہ گوئی کو چھوڑ کر ہر اعتبار سے فارسی شاعری اور فارسی کے شعرا کا تتبع کیا ہے۔ اور قصیدہ کے ضمن میں یہ بات تو کہی ہی جاتی ہے کہ سودا نے فارسی قصائد کا تمام عرق نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔ یہ بات درست بھی ہے لیکن پھر وہی بات پیدا ہوگی کی سودا کی جدت کیا ہے؟ میں ایک مثال پیش کرتی ہوں جس کی طرف محمود الٰہی نے اشارہ کیا ہے۔ عرفی کا ایک شعر ہے ؎
منادیے است بہر سو کہ اے خواص و عوام
میٔ نشاط حلال و شراب غصہ حرام
مرزا سودا کہتے ہیں ؎
صباح عید ہے اور یہ سخن ہے شہرۂ عام
حلال دختر رز بے نکاح و روزہ حرام
ظاہر ہے مضمون عرفی کا ہے، سودا نے تتبع کیا لیکن بات کو الگ ڈھنگ سے کہنے کی وجہ سے مضمون آفرینی کی جو فضا پیدا ہوئی ہے اس کی وجہ سے سودا نے عرفی سے بازی مارلی۔ سودا کے شعر میں موجود لفظی رعایتوں اور مناسبتوں اور صنعتوں کی وجہ سے جو حسن پیدا ہوا ہے وہ سودا کی جدت ہے۔
website designing services in delhi
لہٰذا جدت سے ہماری مراد اگر، مضمون سے مضمون بنانے کی ہے، ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے کی ہے تو اس اعتبار سے ہمیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ سودا جیسے عظیم قصیدہ گو شاعر کے بعد ذوق نے اس طرز عمل میں کتنی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سوال کے حل کے لیے میں بہت زیادہ مثالیں نہیں دوں گی کیوں کہ مضمون کی تیاری کے لیے نہ تو اتنا وقت ہی ملا اور نہ ہی یہاں اس کا موقع ہے۔ یہاں میں صرف ’’کاشف الحقائق‘‘ از امداد امام اثر کے حوالہ پر اکتفا کروں گی۔ اثر نے ذوق کی قصیدہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سودا کے بعد قصیدہ گوئی میں ذوق کا نمبر ہے۔ ذوق کی مضمون آفرینی میں کوئی شک نہیں ، خلاقیِ سخن میں کوئی گفتگو نہیں ، فکر بہت عالی ہے، بندش مضامین استادانہ ہے اور اداے مطلب کی روش خوب اور مرغوب ہے۔ امداد امام اثر کو ذوق سے بس ایک ہی شکایت ہے کہ ان کے کلام میں نیچرل کلام کی دل آویزی نہیں ہے۔ اثر کی ان آرا سے قطع نظر میں سودا اور ذوق کے اس قصیدے کے چند اشعار پیش کرنا چاہوں گی جس کی تشبیب کو امدادامام اثر نے موازنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ سودا نے اپنے ایک قصیدے کی تشبیب میں خوشی سے مکالمہ کیا ہے، اسی طرح ذوق نے بھی خوشی سے مکالمہ کیا ہے۔ ظاہر ہے تشبیب کی نوعیت تو یکساں ہے، لیکن انداز بیان اور اداے مطلب کی روش جدا ہے۔ سودا کی تشبیب کے اشعار ہیں ؎
ناگنی بیچ میں آ ان کے نہ مانگے پانی
کھیل جاوے وہیں کالا جو ڈسے ان کی لٹک
جبیں ایسی کہ جگر ماہ کا ہوجاوے داغ
اس کی تشبیہ سے جب اس کو تجاوز دے فلک
قتل کرنے کا یہ جوہر نہ ہو شمشیر کے بیچ
اس کے ابرو سے مشابہ نہ بناویں جب تک
سودا نے جس شاعرانہ صناعی اور خلاقی کا مظاہرہ کیا ہے اور جس مبالغے سے کام لیا ہے، جن رعایتوں ، مناسبتوں اور لفظی انسلاکات کو برتا ہے وہ ذوق کی تشبیب میں نہیں ہے لیکن اشعار کے ذریعے یہ بات تو واضح ہو ہی جائے گی کہ معاملہ محض تقلید کا نہیں ہے۔ ذوق کہتے ہیں ؎
نگاہ ساغر کشِ تماشا بیاضِ گردن صراحی آسا
وہ گول بازو وہ گورے ساعد وہ پنجہ رنگیں بخونِ مرجاں
کمر نزاکت سے لچکی جائے کہ ہے نزاکت کا بار اٹھائے
اور اس پہ سو نور لہر کھائے پھر اس پہ ہیں دو قمر فروزاں
ذوق نے سودا کی تشبیب کے ہوتے ہوئے اپنی تشبیب میں جو جدت پیدا کی ہے وہ اشعار سے واضح ہے۔ یہ ایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنے سے عبارت ہے۔ ہماری کلاسکی شاعری مضمون پر مضمون بنانے کے عمل کا نام ہے۔ ظاہر ہے سودا جیسی صناعی نہیں لیکن سودا کی جعد اور ذوق کی زلف میں فرق ہے۔ زلفوں کو سو نور کہنا اور پھر لہرانا نہ صرف سودا سے مختلف انداز بیان اختیار کرکے جدت کوشی کا مظہر ہے بلکہ ذوق کی قوت متخیلہ پر بھی دال ہے۔ ہماری تنقید اداے مطلب کی اس روش اور اس طرز بیان کو لاکھ مصنوعی اور غیر فطری کہے لیکن جدت اور شاعرانہ حقیقت کا اظہار اپنی جگہ موجود ہے۔