پاکستان کے بانی محمد علی جناح نے 1947 میں مذہب کے نام پر جو ملک بنایا اس کی بنیاد ہی ٹیڑھی اینٹ پر تھی تو نتیجہ سامنے ہے، پاکستان انارکی، دہشتگردی، بھوک و ننگ، ملائیت، منافقت، لاقانونیت میں ڈوبا ہوا ہے۔ بغیر کسی مقصد، صرف مذہبی منافرت اور دو قومی نظریہ جیسی مضحکہ خیز بنیاد پر وجود میں آنے والے ملک سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
بہت سے لوگ جناح کو انکی ایک تقریر پر سیکولر ثابت کرنے پر جتے ہوئے ہیں جبکہ جناح پاکستان بننے سے پہلے اور پاکستان بننے کے بعد کی لاتعداد تقریروں اور بیانات کی روشنی میں جانچے جا سکتے ہیں جس میں انہوں نے بجائے کسی سیاسی، سماجی، معاشی یا معاشرتی نظام کے صرف اسلام اور مسلمان کی رٹ لگائی ہوئی تھی۔
آئیں جناح کے فرمودات کا جائزہ لیں۔
*مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمۂ توحید ہے‘ نہ وطن نہ نسل… ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرکہ کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال‘ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔
(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ‘ 8 مارچ 1944)
*وہ کون سا رشتہ ہے جس نے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہوگئے۔ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے‘ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ‘ وہ چٹان‘ وہ لنگر خدا کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے‘ ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا‘ ایک رسولؐ‘ ایک کتاب اور ایک امت۔
(مسلم لیگ اجلاس‘ کراچی 1943)
*مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ میں کون ہوتا ہوں پاکستان کے طرز حکومت کا فیصلہ کرنے والا؟ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے 13 سو سال پہلے قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور تا قیامت موجود رہے گا۔
(مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھر کے اجلاس سے خطاب‘ 12جون 1947)
تحریک پاکستان کے کارکن سید بدرالدین احمد نے 26 نومبر 1946ء کو قائداعظم سے پاکستان کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے پوچھا۔
جناح کا جواب
*’’میرا ایمان ہے کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر ریاست پاکستان‘ دنیا کی بہترین اور مثالی ریاست ہوگی۔ مجھے اقبالؒ سے پورا اتفاق ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل اسلام سے بہتر نہیں ملتا۔ ان شاء اللہ پاکستان کے نظام حکومت کی بنیاد لا الٰہ الہ الااللہ ہوگی یہ ایک فلاحی و مثالی ریاست ہوگی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان بن گیا تو چند دن بھی نہیں زندہ نہیں رہ سکے گا لیکن مجھے پختہ یقین ہے کہ اللہ اسے ہمیشہ قائم دائم رکھے گا۔
(ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر کا مضمون ’’قائداعظم سیکولر نہیں تھے)
*میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ سنہری اصولوں والے اس ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون‘ پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ ’’ملک کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروںسے کیا کرو۔‘‘
(سبی دربار بلوچستان‘ 14 فروری 1948)
*قرآنِ مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر ضابطۂ حیات ہے۔ مذہبی‘ سماجی‘ شہری‘ کاروباری‘ فوجی‘ عدالتی‘ تعزیری اور قانونی ضابطۂ حیات جو مذہبی تقریبات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک‘ روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک‘ تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک‘ اخلاق سے لے کر جرم تک‘ اس دنیا میں جزا اور سزا سے لے کر اگلے جہان تک کی سزا وجزا تک کی حد بندی کرتا ہے۔
(پیامِ عید‘ 1945)
*اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بنا کر شیوۂصبر و رضا پر کاربند ہوں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی ایک طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ہم فتح یاب ہوں گے‘ اسی طرح جس طرح مٹھی بھر مسلمانوذں نے ایران اور رو م کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیے تھے۔
(جلسہ عام‘ حیدرآباد دکن‘ 11 جولائی 1946)
*میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔
(شاہی دربار‘ سبی بلوچستان‘ 14 فروری 1947)
*پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہ مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا‘ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا۔
(8 مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب)
*ہماری بنیاد کی چٹان اور ہماری کشتی کا لنگر اسلام اور صرف اسلام ہے۔ ذات پات کیا‘ شیعہ سنی کا بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ ہم ایک ہیں اور ہمیں بحیثیت ایک متحد قوم ہی کے آگے بڑھنا ہے۔ صرف ایک رہ کر ہی ہم پاکستان کو قائم رکھ سکیں گے۔ ہمارے لیے صرف اسلام ہی کافی و شافی ہے۔
(پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کانفرنس منعقدہ 19 مارچ 1944ء سے خطاب)
*اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی‘ نہ کسی شخصی اور ادارے کی۔ قرآنِ کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرسکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و حکام کی حکومت ہے۔
(کراچی 1948)
*یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسی دستور ساز اسمبلی جس میں مسلمان بھاری اکثریت میں ہوں‘ وہ مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین منظور کرے گی جو شریعت کے قوانین سے مطابقت نہ رکھتے ہوں گے اور مسلمان کسی بھی حالت میں اس بات کے پابند نہیں ہوں گے کہ وہ کسی غیر اسلامی قانون کی پابندی کریں۔
(1945ء کو پیر صاحب مانکی شریف کے نام قائداعظمؒ کا خط بحوالہ: اسلام کا سفیر‘ مرتبہ: محمد متین خالد)
*اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے‘ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔
(اسلامیہ کالج‘ پشاور‘ 13جنوری 1948)
*میں اشتیاق اور دلچسپی سے معلوم کرتا رہوںگا کہ مجلس تحقیق‘ بینکاری کے ایسے طریقے کیوں کر وضع اور اختیار کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں‘ کیونکہ مغرب کے معاشی نظام نے انسان کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ ہمیں دنیا کے سامنے مثالی نظام پیش کرنا ہے‘ جو سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔
(جولائی 1948ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر قائداعظمؒ کا خطاب)
ایک انگریز دانشور نے قائداعظمؒ سے سوال کیا تھا ’’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں تو کیا مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟‘‘
اس پر جناح صاحب نے فرمایا:
*’’آپ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے۔ میں زندگی کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں اپنی تاریخ ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظام عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر نہ صرف ہندوئوں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہے‘ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘
(ہیرولی نکلسن کی کتاب Verdict on India مطبوعہ 1944)
*مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ خود اپنے ضابطۂ حیات‘ اپنے تہذیبی ارتقا‘ اپنی روایات اور اسلامی قانون کے حکمرانی کر سکیں۔
21 نومبر 1945‘ فرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس سے خطاب.
جناح صاحب کے بارے میں پاکستان کی تاریخ کے انتہائی معتبر محقق ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی نے
اپنی کتاب ’’تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان‘‘ میں
اپنےخیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ الرحمن صدیقی کے خیالات:
’’قائداعظمؒ کی ایک نہیں متعدد تقریریں ہیں‘ جن میں انہوں نے اسلام کے اجزائے ترکیبی یعنی قرآن و سنت‘ کلمۂ توحید‘ اسلامی ضابطۂ اخلاق‘ مسلم تہذیب‘ مسلم روایات‘ اسلامی تصورات‘ امت واحدہ اور مسلم اتہاد کو پاکستان کی اساسی قدر قرار دیا ہے۔‘‘
عورت کا سلیقہ
میری سَس کہا کرتی تھی ۔ "عورت کا سلیقہ اس کے کچن میں پڑی چُھری کی دھار بتادیتی ہے ،خالی...