آج – 3/جنوری 1994
اردو کے ممتاز شاعر” محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام محمد عبد الحمید صدیقی، تخلص نظرؔ لکھنوی، 3 جولائی 1927ء کو لکھنؤ موضع 'چنہٹ ' میں پیدا ہوئے۔ ہائی سکول کی تعلیم موضع اُترولہ ضلع گونڈہ سے 1944ء میں مکمل کی اور 1945ء میں ملٹری اکائونٹس لکھنؤ میں ملازم ہو گئے۔ دسمبر 1947ء کو پاکستان ہجرت کی اور ملٹری اکائونٹس راولپنڈی میں تعینات ہوئے۔ اس طرح راولپنڈی دارالہجرت قرار پایا۔ پہلی اہلیہ کا 5 جنوری 1958ء کو راولپنڈی میں انتقال ہوا۔ ان سے پانچ اولادیں ہوئیں جن میں سے تین بیٹے شیر خوارگی کی عمر میں ہی وفات پا گئے اور دو اولادیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی حیات رہے ۔عقد ثانی 1960ء میں کیا جن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری اہلیہ کا انتقال بھی3جنوری 1980ء میں راولپنڈی میں ہوا۔ ملازمت کے آخری دس سال فیلڈ پے آفس(FPO)، آرٹلری سنٹر اٹک شہر میں گزارے اور وہیں سے 1979ء میں چونتیس سالہ ملازمت کے بعد اپنی بیمار اہلیہ کی تیمار داری کے لئے بحیثیت اکائونٹنٹ ریٹائرمنٹ لے لی۔ اپنی عمر کے آخری دس سال اسلام آباد میں گزارے۔ 3 جنوری 1994ء کو وفات پائی۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
ممتاز شاعر محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور خراجِ عقیدت…
جہاں میں جنس وفا کم ہے کالعدم تو نہیں
ہمارے حوصلۂ دل کو یہ بھی کم تو نہیں
ہم ایک سانس میں پی جائیں جامِ جم تو نہیں
سرشکِ غم ہیں پئیں گے پر ایک دم تو نہیں
تمہارے قہر کی خاطر اکیلے ہم تو نہیں
نگاہ مہر بھی ڈالو تمہیں قسم تو نہیں
خدا کا گھر ہے مرا دل یہاں صنم تو نہیں
یہ مے کدہ تو نہیں ہے یہ کچھ حرم تو نہیں
مرے غموں کا تجھے کیا لگے گا اندازہ
کہ تجھ کو اپنے ہی غم ہیں پرائے غم تو نہیں
مرے خیال میں پیچیدگی سہی لیکن
تمہاری زلفوں کی مانند پیچ و خم تو نہیں
جنوں نہیں ہمیں پیچھے لگیں جو دنیا کے
خدا کے بندے ہیں ہم بندۂ شکم تو نہیں
ہزار کیف بہشت بریں میں ہیں لیکن
دل اپنا جس کا ہے خوگر وہ کیفِ غم تو نہیں
لگے گی دیر سنبھلنے میں لغزشِ دل سے
سنبھل کھڑے ہوں نظر لغزشِ قدم تو نہیں
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
کہیے کس درجہ وہ خورشیدِ جمال اچھا ہے
مختصر یہ کہ وہ آپ اپنی مثال اچھا ہے
دوسروں کے دل نازک کا خیال اچھا ہے
کوئی پوچھے تو میں کہہ دیتا ہوں حال اچھا ہے
آئے دن کی تو نہیں ٹھیک جنوں خیزیٔ دل
موسمِ گل تو یہ بس سال بہ سال اچھا ہے
مجھ کو کافی ہے میں سمجھوں گا اسے حسن جواب
بس وہ فرما دیں کہ سائل کا سوال اچھا ہے
یہ جو بگڑا تری تقدیر بگڑ جائے گی
دل ہے دل یہ اسے جتنا بھی سنبھال اچھا ہے
اس سے زائل ہو نظرؔ اس سے ہو دل تک روشن
روئے خورشید سے وہ روئے جمال اچھا ہے
●━─┄━─┄═••═┄─━─━━●
آلودۂ عصیاں خود کہ ہے دل وہ مانع عصیاں کیا ہوگا
جو اپنی حفاظت کر نہ سکا وہ میرا نگہباں کیا ہوگا
ذوق دل شاہاں پیدا کر تاج سر شاہاں کیا ہوگا
جو لٹ نہ سکے وہ ساماں کر لٹ جائے جو ساماں کیا ہوگا
غم خانہ صنم خانہ ایواں یا خانۂ ویراں کیا ہوگا
قصہ ہے دل دیوانہ کا حیراں ہوں کہ عنواں کیا ہوگا
جو سیرِ چمن کو آتا ہے وہ طالبِ گل ہی ہوتا ہے
پوچھے کوئی ان نادانوں سے خار چمنستاں کیا ہوگا
کچھ شکوہ نہیں اتنا سن لے اے مست ستم ناوکِ افگن
دل ہی نہ رہے گا جب میرا پھر تیرا یہ پیکاں کیا ہوگا
اے ہنسنے ہنسانے والے جا افسردگئ دل بڑھتی ہے
جس کو ہو ازل سے نسبتِ غم ہنسنے سے وہ خنداں کیا ہوگا
آج اپنی نظرؔ سے وہ دیکھیں یہ سلسلۂ طوفاں آ کر
کل کہتے تھے جو حیراں ہو کر ساحل پہ بھی طوفاں کیا ہوگا
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
محمّد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ