میں کئی ایسے مرد و خواتین کو جانتا ہوں جو بہت زیادہ بُری ازدواجی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ میرے نزدیک اس کی وجہ ‘اچھی بیوی نہ ملنا’ یا پھر ‘اچھا شوہر نہ ملنا’ نہیں ہے۔ کیوں کہ ‘اچھی بیوی’ یا ‘اچھا شوہر’ نام کی کوئی جنس شادی کے بازار میں دستیاب ہی نہیں ہے۔
ہم دونوں کے لیے ‘اچھے’ کی کیا تعریف کرتے ہیں؟
یعنی ایک عورت وفا شعار بیوی ہے، کھانا پکا کر دیتی ہے، کپڑے استری کر دیتی ہے، بوٹ پالش کر دیتی ہے، جھاڑو پوچا کرتی ہے، بچوں کو تیار کر کے اسکول بھیجتی ہے اور رات کو خاوند کی خواہش پر اپنا جسم بغیر چوں چراں پیش کر دیتی ہے؟
ایسی ہی تعریف ایک ‘اچھے’ شوہر کی وضع کی گئی ہے۔ یعنی ایک باوفا مرد، جو اپنی فیملی کی کفالت کے لیے گدھوں کی طرح دھکے کھاتا ہے، بچوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، بیوی کے سماجی و فطری تقاضوں پر پورا اترتا ہے، ایک بہترین چھت مہیا کرتا ہے، ایک اچھی سواری رکھتا ہے، اپنی فیملی کا محافظ ہے؟
ہوسکتا ہے کہ ایسے ربوٹ اکثریت کی ‘اچھی بیوی یا اچھا شوہر’ جیسی تعریف پر پورا اترتے ہوں اور جو ان معیارات پر پورا نہیں اترتے لوگ انہیں برے سمجھتے ہوں۔۔۔ لیکن میں اس برائی یا اچھائی کو بے رونق روحوں کی نام نہاد خوشحال یا برباد زندگی کا ظاہری اور بے کار سا عذر سمجھتا ہوں کیونکہ میری نظر میں انسان بیک وقت اچھے اور برے دونوں اوصاف کا مالک ہے۔ یہ تو فقط اتفاقات، حالات، عادات پر مبنی شخصیت کی بات ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہر انسان اچھا اور برا ہوتا ہے تو ازدواجی رشتوں میں فرق کہاں ہے؟
فرق انسانی رویوں کے تصادم میں ہے، خیالات کی عدم ہم آہنگی میں ہے۔ فرق عدم جسمانی ہم آہنگی میں ہے یا پھر انسان کی خواہشات پر سماجی قدغن میں فرق ہے اور ہم اس تضاد و تصادم کے فرق کو سمجھے بغیر ‘شرائط و ضوابط’ کی لمبی فہرست شادی کی رسید کے ساتھ تھما دیتے ہیں۔ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے کوئی مشین خریدی ہے اور ساتھ آپ کو احتیاطی تدابیر کا کتابچہ دیا گیا ہے کہ اس پر عمل کریں گے تو خوشحال زندگی کی ضمانت ہے اور بے احتیاطی شارٹ سرکٹ پر منتج ہو سکتی ہے۔ رونا اسی بات کا ہے کہ انسانی فطرت مشین نہیں ہے، انسان کو انسان سمجھ کر معاشروں کو ترتیب دینا ہی واحد حل ہے۔ ہم نے ایسے معاملات کو زیر بحث لانا ہی شرمناک حرکت سمجھا ہے، اپنا معاشرہ تباہ کر لیا مگر کسی دوسرے بہتر خیال کو اپنی روایات پر حاوی نہیں ہونے دیا۔
اس معاملے میں’ میں نے برٹرینڈ رسل (Marriage And Morals) اور رچرڈ کارلائل (Every Women’s Book) سے کافی استفادہ کیا ہے۔ گو کہ ان دونوں کے خیالات میں اور ہم میں صدیوں کی مسافت ہے، یعنی رچرڈ نے اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں خیالات کا اظہار کیا اور رسل نے انیسویں صدی کے آغاز میں۔۔۔ آج ہم ان سے دو اور ایک صدی آگے نکل آئیں ہیں مگر یقین اور افسوس کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ان دونوں سے ابھی تک ہم چار صدیاں پیچھے ہیں۔
رسل کو میں اکثر موضوع بناتا ہوں لیکن آج کارلائل کے خیالات کی ایک جھلک دوستوں کیساتھ شئیر کرنا چاہوں گا؛
کارلائل کا استدلال ہے کہ دو لوگوں کو آپس میں ایک رشتے کی رسی سے باندھ دینا دراصل معاشرے کو واہیات قسم کی بیماریوں اور خرابیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ان دو لوگوں کے بندھن میں پورا معاشرہ اپنی ٹانگ گھساتا ہے اور قانون اپنی ناک۔۔۔ دو لوگوں کے انفرادی تعلق میں بھلا تیسرے کی دخل اندازی کا کیا جواز ہے۔۔۔؟ وہ کیسے رہتے ہیں، کیسے رہنا چاہتے ہیں، رہنا چاہتے بھی ہیں کہ نہیں یہ ان کی ذاتی چوائس ہے۔ رسل کی طرح کارلائل کے نزدیک بھی جنسی خواہشات کے حصول کے لیے ایک کنٹریکٹ سائن کرنا دراصل جسم فروشی کی ایک قسم ہے۔
اس کنٹریکٹ میں آتے ہی بچوں کو دنیا میں لانا دراصل دوسری بڑی غلطی ہے جو ایک جوڑا بہت آغاز میں کر بیٹھتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بہتر تعلق کی بنیاد بچے نہیں ہیں اور نہ ہی پیدا کرنے پر حکومتِ پاکستان آپ کو کوئی میڈل دیتی ہے، یہ ایک اضافی مشق ہے جو جوڑا تعلق کے آغاز میں ہی پورے جوش و جذبے کیساتھ شروع کر دیتا ہے اور بچے پیدا کر کے پھر خود کو مزید قید کر لیتا ہے اور اس قید کی پھر بہت حسین تعریفیں اور بے سر و پا دلیلیں بھی پیش کرتا ہے۔۔۔
تیسرا پنجرہ طلاق کو سماجی طور پر مشکل بنا دینا یا اس کو کوئی بہت برا امر سمجھنا ہے۔ مسلسل سمجھوتوں کی طرف مائل رہنا اور ایک دوسرے میں زمین آسمان کا فرق ہوتے ہوئے بھی دونوں کا ایک بستر پر سونا دراصل ایک غیر اخلاقی سرگرمی ہے، طلاق غیر اخلاقی نہیں۔ طلاق میں بھی سب سے زیادہ مشکلات عورت کی زندگی میں پیدا ہوتی ہیں اس لیے کہ ایک اس کی ‘پاکدامنی’ پر سوال اٹھتا ہے، دوسرا اپنی ‘بکارت’ کھو دیتی ہے اور تیسرا اگر بچہ بھی ہے تو پھر تقریباً ناقابل قبول ہی ہو کر رہ جاتی ہے، لہذا اس کے لیے مانع حمل کی تدابیر اس کو سارے نہیں تو کئی غموں سے نجات ضرور دلوا سکتی ہے، تب تک جب تک رشتے کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ دیر پا بہتر بھی ہے کہ نہیں۔۔۔ یاد رہے کہ یہ سب معاشرے میں انحطاط کا باعث بننے کے بجائے اس کی اصلاح میں مدد دیتا ہے۔
شادی، بچے، طلاق اور ان سے جڑے دیگر مسائل جو ہم نے پیدا کیے ہیں اگر جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے دراصل ‘جنسی خواہشات و عوامل’ کو کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی ہے اور نتائج کچھ زیادہ اچھے نہیں آئے۔ کارلائل بھی یہی کہتا ہے کہ جنسی ملاپ سے پرہیز جزوی حل نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کوئی افضل ہو جاتا ہے اور پھر یہ پارسائی کا ضابطہ اخلاق صرف عورت پر ہی کیوں لاگو ہو، وہ ہی اپنی فطری خواہشات اور ضروریات کا قتل کیوں کرے؟
کارلائل کہتا ہے کہ ‘پارسائی’ کا ایک نیا اور جائز نظریہ سوچنے کی ضرورت ہے جو باہمی مساوات، باہمی خواہش اور باہمی رضا کے باوقار اصولوں پر متعین ہو اور اس عقیدے پر قائم ہو کہ جنسی ملاپ افراد کے درمیان کسی بھی قسم کے گناہ سے وابستہ نہیں ہے اور نا ہی یہ کوئی دو جسموں کی تجارت ہے۔۔۔ جنسی تعلق کو جرم و گناہ کی بجائے بنی نوع انسان کی فطرت کے ایک حصے کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کا بنیادی مقصد جنسی تسکین کی خوشی، جسمانی و ذہنی صحت اور دو لوگوں کے درمیان تعلق کی اور شخصیت کی خوبصورتی کے بنیادی ذریعے کے سوا کچھ نہیں۔۔۔ کارلائل یہ بھی کہتا ہے کہ معاشرے کو یہ بات یقینی بنانے کے لیے تعمیرِ نو اور تنظیمِ نو کی ضرورت ہے تا کہ مردوں اور عورتوں کی جنسی ضروریات کو درست طریقے سے پورا کیا جا سکے۔ دونوں کے درمیان احترام کا تعلق قائم رہے اور دونوں ہی برابر سطح پر مکمل مطمئن رہیں۔
کہتا ہے کہ اخلاقیات کی بنیاد ادیان کی بجائے جنسی تعلقات پر قائم کرنا ہوگی۔ جنسی تعلقات کو جواز دینے کے لیے شادی کا راستہ بھی اپنانا ہے تو پھر شادی کو مکمل طور پر باہمی رضامندی میں تبدیل کرنا ہوگا؛ پارسائی، پاکدامنی وغیرہ جیسے تصورات کو نئے سرے سے متعین کرنا ہوگا تاکہ جنسی ملاپ کو برائی، جرم یا گناہ کی بجائے نیچرل سمجھا جائے۔ مانع حمل کو بہت زیادہ اہمیت دینا ہوگی؛ محبت و جنسی خواہشات کے لیے چور راستوں کو ڈھونڈنے کی بجائے کھلے دل سے قبول کرنا ہوگا اور اس معاملے میں ایماندار ہونا پڑے گا؛ اور سب سے بڑی بات کہ مرد و عورت کے درمیان مساوات قائم کرنا ہوگی تا کہ خواتین کو مردوں کے اور مردوں کو خواتین کے غلط استعمال، استحصال سے روکا جا سکے۔
کارلائل ان بنیادوں پر پُرامید ہے کہ اس کا نتیجہ بدحالی یا بے راہروی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی معاشرے کی تشکیل ہو سکتا ہے۔
قُربِ عباس
https://web.facebook.com/100050390534152/posts/pfbid0DzeEt4zeuHHx596KFNzXstr7XbBBbHKGiw3VffH2nAtNS6rZEjESHT67AL6XCUzCl/?app=fbl&_rdc=1&_rdr