دن کی آخری نماز پڑھ کر میں مسجد نبوی سے رخصت ہوا تویک دم احساس ہوا کہ دوپہر کو بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔ ایک پاکستانی سے البیک فاسٹ فوڈ کا پوچھا تو اس نے پندرہ منٹ کا فاصلہ بتایا جسے میں نے احتیاطاً آدھا گھنٹہ سمجھا اور یہی ہوا‘ البیک تک پہنچتے پہنچتے آدھ گھنٹہ لگ گیا حالانکہ میری رفتار اتنی آہستہ بھی نہیں تھی۔ البیک‘ فاسٹ فوڈ کا ایک سلسلہ CHAIN ہے جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے اس کا مالک کوئی مصری ہے یا کم از کم اس کا صدر دفتر قاہرہ میں ہے اور اس نے امریکی فاسٹ فوڈ کی دکانوں کو سعودی عرب میں لوہے کے چنے چبوا دئیے ہیں۔ جدہ میں میں نے دیکھا کہ البیک پر خلق خدا کا ہجوم تھا اور اس کے برابر میں کے ایف سی والا مکھیاں مار رہا تھا! مسجد نبوی سے آدھ گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ البیک جس میں میں کھڑا تھا گاہکوں سے چھلک رہا تھا اتنے بڑے ہال میں ایک میز بھی خالی نہیں تھی۔ میں دوسرے ہال میں داخل ہوا تو کھانا خریدنے کا سسٹم دیکھ کر خوش ہوا۔ قطار بنی ہوئی تھی یا اللہ! تیرا شکر ہے مسلمانوں نے قطار بنانا سیکھ لی ہے۔ میں بھی اس میں کھڑا ہوگیا۔ اپنی باری پر میں نے برگر اور کوکا کولا کا آرڈر دیا۔ قیمت ادا کی اور ایک ٹوکن نما کاغذ لے کر قطار سے نکل آیا۔ وہ جو چند منٹ پہلے قطار دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا تھا اس پر جلد ہی جھاڑو پھر گیا۔ جہاں ٹوکن دیکر کھانے کی ٹرے لینی تھی وہاں قیامت کا سماں تھا۔ مشرق بعید سے تعلق رکھنے والے لڑکے کاونٹر پر پرچیاں (ٹوکن) لے کر کھانا دے رہے تھے لیکن ان تک پہنچنا انہیں ٹوکن تھمانا اور پھر کھانے کی ٹرے حاصل کرنا کم از کم میرے جیسے کم ہمت کیلئے ناممکن لگ رہا تھا۔ آپ نے تصویروں میں دیکھا ہوگا کہ جنگ یا زلزلے کے متاثرین روٹی یا کمبل لینے کیلئے کس طرح بازو لمبے کر کے ہاتھ پھیلا رہے ہوتے ہیں بس یہی منظر تھا میں نے ایک پاکستانی سے کہا کہ یہ کیا سسٹم ہے اور یہ تو بہت گڑبڑ ہے۔ اس نے مسکرا کر جواب د یا کہ سسٹم ہے یا گڑبڑ ہے‘ بس یہی ہے اور آپ کو دھکے دے کر اور لوگوں کو کہنیوں سے ہٹا کر آگے جانا ہوگا مجھے کہنی پر اپنا شعر یاد آیا…؎سنے ہیں تذکرے اس کے مگر دیکھی نہیں ہے محبت پاس سے گزرے تو کہنی مار دینا لیکن کہنی کا جو استعمال یہاں بتایا جا رہا تھا اسے میرا ذوق لطیف گوارا نہ کر سکا۔ میں ایک طرف کھڑا رہا اور دیکھتا رہا اور پیچ و تاب کھاتا رہا۔ اس لئے نہیں کہ مجھے بھوک لگی تھی اور میں کھانا ’’حاصل‘‘ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ میں اس لئے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور میرے پیٹ میں رہ رہ کر مروڑ اس لئے اٹھ رہے تھے اور میری اندر کی آنکھوں سے آنسو اس لئے بہہ رہے تھے کہ میں نے سنگاپور سے لے کر وینکووور تک اور منیلا سے لیکر میکسیکو سٹی تک‘ دنیا کے بے شمار شہروں میں برگر خریدے اور قیامت کا یہ منظر مجھے ڈھاکہ ہی میں یا لاہور ہی میں یا سعودی عرب ہی میں نظر آتا ہے! مجھے یاد آگیا جب میں سنگا پور میں پہلی دفعہ سنگاپور ائر لائن کے دفتر میں داخل ہوا تو ہجوم دیکھ کر ٹھٹھکا لیکن ایک ثانیے میں معلوم ہوگیا کہ یہ ہجوم نہیں‘ یہ گاہکوں کا منظم گروہ ہے۔ مجھے ایک ٹوکن دیا گیا۔ 104 نمبر‘ میں ایک طرف پڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ مجھے سامنے دیوار پر 98 لکھا ہوا نظر آیا جو تھوڑی دیر کے بعد 99 ہوگیا اور جب 104 ہوا تو کسی سے ایک لفظ کہے بغیر میرا کام میری باری پر ہوگیا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ترقی یافتہ قوموں نے انسان کو انسان کی احتیاج سے بچا دیا ہے…؎ آنکہ شیراں راکند روبہ مزاج احتیاج و احتیاج و احتیاج ایمسٹرڈم کا ہوائی اڈہ یورپ کے بڑے ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے آپکو کسی سے کچھ بھی نہیں پوچھنا پڑتا۔ جادو یہ ہے کہ آپ کے دل میں خیال آیا کہ آپ نے چائے پینی ہے‘ سامنے یا دائیں بائیں دیکھئے۔ ریستوران کا بورڈ نظر آ جاتا ہے اور راستے کی ر ہنمائی بھی‘ آپ نے عبادت کے کمرے میں جانا ہے۔ طہارت کیلئے جانا ہے‘ نیم دراز ہو کر آرام کرنا ہے ‘ آپ ادھر ادھر دیکھے‘ کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں‘ رہنمائی موجود ہے۔ لندن کی زیر زمین ریل کے پچیدہ نظام میں آپ کسی سے کچھ پوچھے بغیر ہر جگہ جا سکتے ہیں‘ آپ کو صرف نقشہ سمجھنا ہے‘ وہ نقشہ جو آپ کو مفت ملتا ہے! سنگاپور ائر لائن کے دفتر میں دیوار پر 104 لکھا ہوا نظر آیا اور بغیر سفارش کے میرا کام ہوگیا تو مجھے یاد آیا کہ میں اپنی قومی ائر لائن کے دفتر میں قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ پیچھے سے ایک خطرناک مونچھوں والا آدمی آگے بڑھا۔ اس نے مونچھیں خالص گھی سے چوپڑی ہوئی تھیں اور میں اپنی مکمل جسامت کے ساتھ اس کے نصف کے برابر تھا۔ وہ سیدھا کھڑکی پر گیا اور انتہائی بلند اور پاٹ دارآواز میں کہا کہ … صاحب نے بھیجا ہے۔ ٹکٹ چاہئے اور قطار میں کھڑے ہوئے بے وقعت بے بضاعت حقیر کپڑوں کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے خالص گھی میں چوپڑی ہوئی مونچھوں کو سب سے پہلے ٹکٹ دیا گیا۔ مجھے کوالالمپور کا واقعہ یاد آیا جب میں اپنے اس عزیز کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا جس کے والد کشمیر کے تھے اور والدہ ملائشیا کی تھیں۔ اس کے والد ہمارے گائوں میں آئے‘ میرے دادا جان سے فارسی ادب پڑھنے دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ رخصت ہوئے تو استاد نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔ کشمیری نوجوان کوالالمپور میں آباد ہوگیا شاہی خانوادے میں شادی ہوئی اور بیٹے بیٹیاں حد سے زیادہ لائق اور خدمت گار نکلیں اور اس کا یہ ایمان تھا کہ جھنڈیال والے بابے نے دعا کیلئے جو ہاتھ اٹھائے تھے وہ کارگر نکلے بہرطور میں نے ملاایشین ائر لائن کے دفتر سے اسلام آباد کا ٹکٹ خریدا۔ کاونٹر پر بیٹھی بی بی نے فون کا رابطہ پوچھا تو میں نے ایک ا دائے بے نیازی سے اپنے میزبان کے گھر کا فون نمبر لکھا دیا۔ ائر لائن اور فون کرے؟ ناممکن۔ رات گئے خالد کی ملایشین بیگم نے مجھے فون پکڑایا بھائی آپ کیلئے کال ہے۔‘ ائرلائن سے کوئی بتا رہا تھا کہ ہم نے کراچی تک کی پرواز کنفرم کر دی ہے۔ لیکن کراچی سے اسلام آباد تک کیلئے کئی ٹیلکس کراچی روانہ کئے ہیں۔ وہاں سے کوئی جواب نہیں آ رہا‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے دل میں کہا کہ کراچی سے جواب آئے گا بھی نہیں‘ میں نے پی آئی اے سے اس وقت سفر شروع کیا تھا جب میں 19 برس کا تھا اور ایم اے کرنے کیلئے ڈھاکہ گیا تھا۔آج میں ساٹھ برس کا ہوں۔ ان اکتالیس 41 برسوں میں میں نے کتنی ہی بار قومی ائر لائن سے سفر کیا ہوگا۔ ہر بار فون نمبر پوچھے گئے اور لکھے گئے۔ پہلے صرف دفتر میں فون کی سہولت تھی پھر گھر میں فون لگ گیا۔ پھر موبائل آگیا پروازیں موخر ہوئیں منسوخ ہوئیں ان کتالیس برسوں میں ایک بار بھی قومی ائر لائن سے کسی نے فون پر اطلاع دے کر زحمت سے بچانے کی کوشش نہیں کی اور پچھلے چار پانچ سال میں جو تجربے ہوئے وہ تو عبرت ناک تھے‘ اب تو بیٹے بیٹیاں کھانے کو پڑتی ہیں کہ ’’قومی‘‘ ائر لائن سے آپ سفر کرتے ہی کیوں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک کانفرنس میں ملک کی نمائندگی کرنے میکسیکو جا رہا تھا جو سلوک نیویارک ائرپورٹ پر ہوا جس طرح رات گزاری‘ جو ’’حسن گفتگو‘‘ کاونٹر والی بی بی نے دکھایا اور مقامی منیجر نے۔ جس نے یقیناً سفارش سے نیویارک میں تعیناتی کرائی ہوگی۔ جس طرح ’’تعاون‘‘ کیا اس کا تذکرہ نہ کرنا ہی دانش مندی ہے۔ چند دن بعد ہم تین افراد ملک کی نمائندگی کرنے واشنگٹن جا رہے تھے‘ لندن ائرپورٹ پر ہمیں جب اتارا گیا تو واشنگٹن والے جہاز کا صرف دھواں باقی تھا۔ ہم نے کسی طرح پاکستان فون کر کے قومی ائر لائن کے لندن والے ’’افسروں‘‘ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ کس طرح رات ہوٹل میں بسر کی اور وہ ہوٹل کیسا تھا۔ یہ سب بھی نہ ہی بیان کیا جائے تو عقل مندی ہے۔ ہاں یہ طے ہے کہ لندن والے نے بھی اپنی تعیناتی سفارش سے کروائی ہوگی تو پھر تعجب کیا ہے اگر سنگاپور ائر لائن اور متحدہ امارات کی ائرلائن اپنی ’’استاد‘‘ ائر لائن سے میلوں نہیں کوسوں نہیں‘ کئی نوری سال آگے بڑھ گئی ہیں اور ہماری قومی ائر لائن والے صرف یہ بیان کر کے خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ہم نے یہ ائر لائنیں شروع کی تھیں اور ہم نے انہیں سب کچھ سکھایا ہے۔ ہماری قومی ائر لائن والوں نے فراق گور کھپوری کا نام ہی نہیں سنا ہوگا…؎ جان دے بیٹھے تھے اک بار ہوس والے بھی پھر وہی مرحلہ سود و زیاں ہے کہ جو تھا ویسے قومی ائرلائن کا ایک فائدہ ضرور ہے کہ جہاز میں فضائی میزبان خواتین کو دیکھ کر مسافروں کو اپنی وہ ساری ماسیاں پھپھیاں یاد آتی ہیں جنہیں رخصت ہوئے زمانے ہوگئے اور میزبان مرد اتنے بزرگ ہوتے ہیں کہ ان سے پانی یا کھانا لیتے ہوئے ندامت ہوتی ہے۔ کیا آپکو معلوم ہے کہ ہماری قومی ائر لائن میں مختلف شعبوں میں بھرتیاں کسی اشتہار کسی مقابلے کسی میرٹ کے بغیر کتنا عرصہ ہوتی رہیں؟ اس سوال کا جواب آپ خود معلوم کیجئے لیکن جواب جو بھی ہو‘ پندرہ سال کے عرصہ سے زیادہ ہی کا ہو گا۔ بات البیک سے اور قطار بنانے اور نہ بنانے سے چلی تھی‘ دور نکل گئی اور نوائے وقت نے اس کالم کیلئے جتنی جگہ مخصوص کی ہوئی ہے‘ اس سے تجاوز ہو چکا ہے۔ ورنہ میں بتاتا کہ البیک کے ہال میں جہاں کوئی میز خالی نہیں تھی‘ مجھے تین عرب لڑکوں نے بیٹھنے کی جگہ دی۔ ان میں سے دو یمنی اور ایک سوڈانی تھا۔ تینوں سعودی عرب کے پیدائشی تھے‘ میں بتاتا کہ انکے جذبات کیا تھے‘ وہ کس قسم کے سلوک سے شاکی تھے اور بتاتا کہ سعودی نظام تعلیم میں ان تین نوجوانوں کو کوئی غیر ملکی زبان نہیں آتی تھی اور انٹرنیٹ ان کیلئے اب بھی عجبوہ تھا اور بتاتا کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ’’کفیل‘‘ کیا ہوتا ہے اور غلامی کے قدیم سلسلے کا جدید لباس کیا ہے۔ لیکن …؎اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا