۶ ۔ محبت میں کی گئیں خودکشیاں ( Shinjū ,1926 )
( Love Suicides )
کاواباتا یاسوناری، اردو قالب؛ قیصر نذیر خاورؔ
اسے ایک خط ملا جو اس کے خاوند نے بھیجا تھا ۔ اس کا خاوند جو اس سے نفرت کرتا تھا اور اس کو چھوڑ کر جا چکا تھا ۔ یہ خط بھی اس نے دو سال بعد لکھا تھا اور یہ کہیں دور پار سے آیا تھا ۔
( بچے کو ربڑ کی گیند سے مت کھیلنے دو، جب وہ گیند اچھالتی ہے تو اس کے زمین سے ٹکرانے کی آواز مجھے یہاں تک آتی ہے جو میرے دل پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ )
اس نے اپنی نو سالہ بچی سے گیند لے لیا ۔ اس کے خاوند کی طرف سے اسے ایک اور خط ملا ۔ اس خط کا پتہ پہلے والے خط کے پتے سے مختلف تھا ۔
( بچے کو جوتے پہنا کر سکول مت بھیجا کرو ۔ ان کی آواز بھی مجھے یہاں آتی ہے اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرا دل اس کے پیروں تلے مسلا جا رہا ہے ۔ )
اس نے جوتوں کی بجائے بیٹی کو نرم سینڈل پہنا دئیے ، چھوٹی بچی رو پڑی اور سکول ہی نہ گئی ۔ اس کے خاوند کی طرف سے ایک اور خط آیا ۔ یہ پہلے والے خط سے صرف ایک ماہ بعد ہی آیا تھا لیکن اس کے الفاظ سے ایسا لگتا تھا جیسے وہ یکلخت بوڑھا ہو گیا ہو ۔
( بچے کو چینی کے پیالوں میں کھانے کو مت دو ۔ اس کی آواز بھی مجھے یہاں تک آتی ہے جو میرے دل کو چکنا چور کر دیتی ہے ۔ )
اس نے اپنی بچی کو اپنی ہی ' تیلیوں ‘ سے اس طرح کھلانا شروع کر دیا جس طرح وہ اسے تین سال کی عمر میں کھلایا کرتی تھی ۔ اسے وہ خوشی کے ساتھ بِتائے دن یاد آئے جب اس کی بیٹی واقعی تین سال کی تھی اور اس کا خاوند اس کے ساتھ تھا ۔
لڑکی مضطرب ہو کرگئی اور چینی کے برتنوں والی الماری سے اپنا پیالہ اٹھا لائی ۔ ماں نے اس سے پیالہ چھین لیا اور اس باہر باغ میں پتھروں پر غصے سے پھینک دیا ۔ پیالے کے ٹوٹنے پر اسے اپنے خاوند کے دل کے چکناچور ہونے کی آواز سنائی دی ۔ اس نے ایک دم منہ موڑا اور اپنا پیالہ بھی باغ میں پتھروں پر دے مارا ۔ اس بار پیالہ ٹوٹنے کی آواز میں اس کے خاوند کے دل کے چکناچور ہونے کی آواز شامل تھی ؟ اس نے کھانے کی میز کو بھی باہر باغ میں پھینک دیا ۔ اس آواز میں کیا تھا ؟ اس نے خود کو دیوار کے ساتھ لگا لیا اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر دیوار کو مارنے لگی ، پھر وہ نیزے کی سے سرعت سے سلائیڈنگ دروازے سے باہر نکلی اور پشت کے بل باغ میں جا گری ۔ اور اس کی آواز؟
” ما ما ۔ ۔ ۔ ما ما ۔ ۔ ۔ ما ما ! “
اس کی بیٹی بھی اس کے پیچھے پیچھے روتی ہوئی نکلی لیکن اس نے اس کے گال پر ایک تھپٹر جڑ دیا ۔ ' لو ، یہ آواز بھی سنو! '
تھپٹر کی اس آواز کی ’ باز گشت ‘ کے طور پر اس کے خاوند کا ایک اور خط آیا ۔ ایک نئے پتے سے ، اس پتے سے بھی کہیں دور سے ، جہاں سے پہلے آیا تھا ۔
( ایک بھی آواز مت نکالو ، گھر میں لگے گھڑیال کو بھی ساکت کر دو ۔ نہ دروازہ کھولو اور نہ ہی بند کرو ، یہاں تک کہ سانس بھی نہ لو ۔ )
” تم دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ، ۔ ۔ ۔ تم دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ، ۔ ۔ ۔ تم دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ، ۔ ۔ ۔ “
یہ منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اس کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو ٹپکنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ پھرہر طرف خاموشی چھا گئی ۔ کوئی آواز نہیں ، ہلکا سا شور بھی نہیں ، پھر دوبارہ کبھی نہیں ۔ ظاہر ہے ماں اور اس کی بیٹی مر چکیں تھیں ۔
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا خاوند بھی انہی کے ساتھ مرا پڑا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ تیلیوں ‘ = Chopsticks
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔