کچھ چہرے اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان پر خوابوں کا گمان ہوتا ہے
وہ اتنی ہی پیاری تھی نازک سی بڑی بڑی ہرنی جیسی آنکھیں کشادہ پیشانی جیسے قدرت نے بہت ہی تفصیل سے اسکی قسمت اسکی پیشانی پر لکھنے کیلئے کینوس بچھایا ہو
نازک پنکھڑی جیسے ہونٹ، بارش میں بھیگتے وقت ایسے لگتے جیسے بارش کی بوندوں سے لرز رہے ہوں
صراحی دار گردن جیسے، ہونٹوں کے کناروں سے شراب انڈیلنے کیلئے تیار ہو سڈول جسم نقرئی رنگت ایک مکمل سراپا بس یوں سمجھیں جیسے خواب میں بھی کسی خواب کا ایک نا ممکن سا تصور اتنے حسن کی حفاظت کرنے کیلئے قدرت کو بھی لاکھوں جتن کرنے پڑتے ہیں اسی لئے اسے ساری دنیا کی نظروں سے چھپا کر اسے کانتکا کے جنگل میں ایک انمول موتی کی طرح چھپا کر رکھا تھا
برسوں پہلے کا ذکر ہے جب شہزادی نیویا کے باپ اپنے ہی خاندان کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوکر اپنی سلطنت اور جان کی بازی دونوں ہار گئے اور جان آفرین سپرد کرنے سے پہلے اپنے ایک قابل اعتماد خادم کو اپنی بیٹی کی حفاظت سونپ گئے اور مرتے دم تک اسکی حفاظت کا وعدہ لے لیا
شہزادی نیویا انھیں بابا ایلوس ہی کہتی تھی
بابا ایلوس کو اس وقت سوائے اپنے آبائی جنگل کے اور کوئی جائے پناہ سمجھ نہیں آئی۔ ایک تو وہ دور بہت تھا دوسرا اس ویران بے آباد جنگل میں کوئی آتا جاتا نہیں تھا
بابا ایلوس شہزادی نیویا کو اپنی پہلی بیوی کے پاس کانتکا کے جنگل میں لے آیا جہاں دونوں میاں بیوی نے شہزادی کو اپنے دیگر بچوں کیساتھ ہی اپنی بیٹی ہی سمجھ کر پرورش کی۔
===============================
اس دنیا میں انہونی کوئی نہیں ہوتی
جو ہوتا ہے وہ پہلے سے طے شدہ ہی ہوتا ہے
ایسا ہی ماننا تھا جیک کا کوئی بھی انہونی اسکے لئے انہونی نہیں ہوتی تھی، وہ کہتا تھا کہ اگر کچھ خلاف توقع ہورہا ہے تو اس میں انسان کا قصور ہیکہ وہ ایک ہونے والی بات کے ہونے کا اندازہ نہیں لگا سکا
وہ ایک غریب مچھیرے کا بیٹا تھا جس نے اپنا سارا بچپن اپنے مچھیرے باپ کو روز صبح اپنی کشتی کو سمندر کی موجوں کے حوالے کرتے اور شام میں چند مچھلیاں لاتے دیکھا
بچپن میں وہ سوچا کرتا تھا کہ شاید سمندر ہی خدا ہے جو اسکے باپ کو روزانہ رزق دیتا ہے وہ سوچتا تھا کہ جب وہ بڑا ہوجائے گا تو خدا سے کہے گا کہ ہمیں چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے بجائے بڑی مچھلیاں دیا کرے تاکہ انکے پاس بہت سارے پیسے آجائیں
اسکا چھوٹا سا دماغ یہ فیصلہ نہین کرپاتا تھا کہ خدا بڑا ہے یا بادشاہ
کبھی وہ بادشاہ کو ہی خدا سمجھتا تھا
کبھی وہ سوچتا تھا کہ بادشاہ بن کر سمندر کو حکم دے گا کہ سارے مچھیروں کو ساحل پر ہی مچھلیاں لاکر دے تاکہ کسی کا باپ سمندر کی بے رحم موجوں کا نشانہ نہ بنے
یہ اور اس طرح کے کئی خواب اپنی پلکوں پہ سجائے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا
چھوٹے سے گاوں کا ایک مکھیا بھی تھا، جو کہ ہر ظالم جتنا شقی القلب ہی تھا، جیک دیکھتا تھا جب اسکا باپ ہر روز شام میں مچھلیاں پکڑ کر لاتا تھا تو مکھیا اسکی محنت میں سے بڑا حصہ لے لیتا تھا اور جیک کا بوڑھا باپ حسرت بھری نظروں سے بچی کچی مچھلیاں لے جاتا تھا
قسمت کبھی کبھِی خنجر کی نوک سے انسان کیلئے انعام لکھتی ہے، ایسا ہی ایک دن تھا جب جیک کا باپ شام میں خالی ہاتھ آیا اور مکھیا کے غضب کا نشانہ بن کر ہمیشہ کیلئے پر سکون ہوگیا
جیک سے برداشت نہیں ہوا اور مکھیا پر حملہ کردیا
مکھیا کے پالتو غنڈوں سے اکیلے لڑ کر وہ جیت نہیں سکتا تھا لیکن قسمت نے یہ پہلی لکیر کھینچی تھی اسکے مقدر پر اور وہ بھی خنجر کی نوک سے
===================================
شہزادی نیویا اب بڑی ہورہی تھی، بچپن اس طرح رخصت ہورہا تھا جیسے سورج غروب ہوتے وقت شام کے سائے تیزی سے اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ جوانی اس طرح بے تاب ہوکر آرہی تھی جیسے اگلے دن کے سورج کی کرنوں کو دھرتی ک چھونے کی جلدی ہو- جس طرح بارش کی بوندیں بادل سے الگ ہوکر زمین کی چھاتی کو چومنے کی لگن میں تیزی سے منزلیں طے کرتی ہیں۔ لڑکپن میں بھی وہ اتنی شوخ اور چنچل تھی کہ اس کے قہقہے جنگل میں پیڑوں پر بیٹھے پرندوں کی چہچہاہٹ کو بھی سن کر دیتی تھِی
اسکی ہنسی سن کر پیڑوں پر چہچہاتے پرندے چہچہانا بھول کر اسکے حسن میں محو ہوجاتے تھے- خوگوشوں کو تو جیسے اس انسیت ہی تھی
اسے اس طرح گھیر کر بیٹھ جاتے تھے جیسے دادی اماں کے چاروں طرف بچے کہانیاں سننے کیلئے بیتاب ہوکر گھیرا ڈال کر بیٹھتے ہیں
انہی خوشگوار یادوں اور اپنے دوست خرگوشوں کیساتھ مگن شہزادی نیویا عمر کی منزلی طے کررہی تھی اس بات سے انجان کہ ہونے والی بہت ساری انہونیاں اسکا انتظار کررہی ہیں
==========================================================
اپنے باپ کی موت کا بدلہ لینے کا عزم لئے جیک گاوں سے فرار تو ہوگیا۔ زخمی تھا، لیکن ہمت نہیں ٹوٹی تھی
اسے پتا تھا کہ یہ انہونی نہیں
اور ایسی کئی ہونے والی باتیں ممکنات میں سے ہیں
ہونے والی ممکنات کو روکا جاسکتا ہے، ناممکنات کو ممکنات میں بدلا جاسکتا ہے- جنگل میں بھاگتے بھاگتے زخموں سے چور ہوکر وہ گر پڑا اور ہوش نہیں رہا کہ کتنے دن بیہوش رہا
جب آنکھ کھلی تو ایک شفیق بزرک کو اپنے سامنے پایا جو اسکے زخموں پر مرہم رکھ رہے تھے
اسے اٹھتا دیکھ کر بزرک کا مرہم رکھتا ہاتھ رک گیا اور وہ اسکے چہرے کو بغور دیکھنے لگے
انکی آنکھوں میں جسم کی گہرائیوں تک اتر جانے والی یخ بستگی تھِی
جیک کو اپنی طرف متوجہ پاکر بزرک سٹپٹا کر جلدی جلدی مرہم رکھنے لگے اور اٹھنے ہی لگے تھے کہ جیک نے انکا ہاتھ پکڑ پوچھا کہ میں کہاں ہوں، آپ کون ہیں، میں کہاں ہوں
بزرک نے ایک لمحہ توقف کرکے کہا
تم اس وقت کون ہو یہ اہم نہیں ہے، تم کیا بننے والے ہو یہ اہم ہے
تم کہاں ہو یہ اہم نہیں، تم کہاں پنہچنے والے ہو یہ اہم ہے
میں کون ہوں یہ اہم نہیں، میں نے اپنا کام کردیا ہے یہ اہم ہے
بزرک کی باتیں پوری ہونے سے پہلے جیک دوبارہ ہوش کی منزل پار کرچکا تھا
==============================================
شہزادی نیویا بہت خوش تھی اس دن
بابا ایلوس سے فرمائش کی کہ مجھے جھولا ڈال کر دیں، بابا ایلوس کہاں اسکا حکم رد کرنے والے تھے، فورا درختوں کی شاخوں میں جھولا ڈال دیا اور شہزادی نیویا درختوں کی بلند شاخوں میں ڈلے چھولے پر بیٹھی مگن چڑیوں سے باتیں کررہی تھی
ان سے شکایت کررہی تھی کہ میرا کوئی دوست نہیں ہے
کچھ دیر گزرہ تھی کہ سنہری چونچ والی ایک پیاری سی چڑیا اسکی گود میں آکر بیٹھ گئی
ویسے تو شہزادی نیویا پرندوں سے، پھولوں سے، بارز کی بوندوں سے باتیں کیا کرتی تھی بغیر کسی جواب کی منتظر ہوئے لیکن آج ایسا لگا جیسے چڑیا کچھ کہنا چاہ رہی ہو
جھولا ہلکے ہلکے ہلکورے لے رہا تھا
ہوا شہزادی کے بالوں سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی اسکے گالوں کے بوسے لے رہی تھی کہ چڑیا بولی
پیاری شہزادی آج میں بہت اداس ہوں کیونکہ تم بہت جلد اپنے دیس واپس جانے والی ہو اور پھر کبھی ہمارے پاس پلٹ کر نہیں آو گی
اتنا کہہ کر چڑیا اڑ گئی اور جنگل کے گھنے درختوں کی شاخوں میں گم ہوگئی
==================================
جیک صحت مند ہوچکا تھا، اسکی دیکھ بھال کرنے والے بزرگ جا چکے تھے اور انکی کہی ہوئی چند باتوں کی گونج اب بس اسکے کانوں میں گونجتی تھی
ایک دن ہمت کرکے جیک نے واپس اپنے گاوں جانے کا فیصلہ کیا
گاوں پنہچا تو لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے، انھیں نہیں لگتا تھا کہ اتنے زخموں کے بعد بھی وہ زندہ بچ پائے گا
آنا فانا جنگل کی کی آگ کی طرح یہ خبر مکھیا تک پنہچی تو وہ اپنے جاہ و جلال کے ساتھ گاوں کے بازار میں آن پنہچا
جیک اسے دیکھ لڑے کیلئے تیار تھا کہ اس نے مکھیا کو اکیلے لڑنے کا چیلنج کردیا
اپنے ایک گاوں کے معمولی مچھیرے کے باغی بیٹے کا چیلنج کرنا مکھیا کو ناگواو گزرا اور غیض و غضب کے عالم میں سوچے سمجھے بغیر لڑائی میں کود گیا
جیک چاہتا بھی یہی تھا
غصے میں انسان کا آدھا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے
مکھیا غصے کے عالم میں وار پہ وار کرتا رہا اور جیک ہوش و حواس میں اسکا ہر وار ناکام بناتا رہا
تھکاوٹ مکھیا کے چہرے سے عیاں تھی
قانون کے مطابق کوئی تیسرا شخص بیچ میں نہیں آسکتا تھا اور اس لڑائی کا فیصلہ کسی ایک کی موت پر اختتام پزیر ہونا تھا
مکھیا نے فیصلہ کن وار کرنے کیلئے جھپٹا اور اسی اثنا میں جیک نے بجلی کی سرعت سے وار کوبچ کر پلٹ کر ایک کاری ضرب لگائی جو کہ مکھیا کی پیشانی پر لگی ڈھلتی عمر میں مکھیا کو شاید پہلی بار اندازہ ہوا کہ مظلوم اگر بھوکا بھی ہو تو بھِی اسکے ہاتھ میں اپنے حق کی خاطر لڑنے کیلئے ایک عجیب سی طاقت ہوتی ہے
مکھیا گرا اور جیک نے اسکی انکھوں میں پشیمانی کی آکری جھلک دیکھی اور اسکی کلائی کی رگیں کاٹ دیں
خون تیزی سے بہہ رہا تھا
مکھیا دھیرے دھیرے موت کے ظالم پنجوں کی گرفت پہلی بار محسوس کی
جیک نے مجمعے کی طرف دیکھا
قاعدے کے مطابق جیک اب گاوں کا مکھیا تھا
آن کی آن میں سارا گاوں دو زانو بیٹھ کر جیک کے چڑھتے سورج کو سلام کر رہا تھا
===========================
شہزادی نیویا اداس رہنے لگی تھی
ایک انجانا سا خوف اس کے دل میں بیٹھ گیا تھا، جب سے مانوس چڑیا اسے ایک پیغام دے کر گئی تھِ تب سے اداس تھی وہ
ایک دن بابا ایلوس نے پوچھا تو سارا ماجرا انھِیں سنا دیا
بابا ایلوس نے اسے غور سے دیکھا اور کہنے لگے
شہزادی نیویا
چڑیا نے ٹھیک ہی کہا تھا، اور یوں بابا ایلوس نے شہزادی کو سارا قصہ سنادیا
نیویا زار و قطار رو رہی تھی
بابا ایلوس نے کہا
کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی، صرف کردار اپنے حصے کا کام کرتے جاتے ہیں کہانی جاری رہتی ہے
تمھارے والد اپنے حصے کا کام کرچکے تھے، وہ چلے گئے جتنا کام میرے حصے میں آیا تھا میں کر رہا ہوں۔ یہ باتیں کرتے ہوئے دونوں ایک جھرنے کے ساتھ بنی پگڈنڈی پر چلتے جا رہے تھے- دور مشرق کی طرف ایک نیم منہدم دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس دیوار کی طرف دیکھو، کبھی بھی اس دیوار سے آگے جانے کی غلطی مت کرنا-
===========================================
ایلگزینڈریا کے قانون کے مطابق ملک چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بنٹا ہوا تھا جہاں چھوٹے چھوٹے علاقوں پر مکھیاوں کا راج ہوتا تھا، یہ سب مکھیا ملکر ایک بادشاہ کو خراج دیتے تھے اور اس سے وفادار رہتے تھے جس کے بدلے میں بادشاہ انکی حفاظت کرتا تھا۔ خراج دینے کے بعد اپنے حصے کی جاگیر کے سیاہ سفید کا مالک ہوتا تھا اسی لئے ہر مکھیا اپنے اپنے علاقے میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا تھا اور کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ آواز اٹھا سکے
جیک کو مکھیا بنے کئِ مہینے گزر چکے تھے۔ اس دوران اس عوام کی فلاح و بہبود کے کئی کام کئے
لگان کم کردیا
مچھیروں اور کسانوں کی آمدنی میں سے مکھیا کا حصہ ختم کردیا
اتنے سارے اچھے کام دیکھ کر آس پڑوس کی جاگیروں سے عام لوگ جیک کے گاوں آنے لگے
جیک نے اپنی ایک سادہ سے فوج بنائی، تا کہ دوسرے جاگیر داروں کی من مانیاں ختم ہوسکیں اور اپنی جاگیر کے لوگوں کی حفاظت کرسکے
کچھ ہی عرصی میں جیک اپنی جاگیر کا مقبول ترین مکھیا بن چکا تھا
آس پڑوس کے جاگیر داروں کو اس سے خطرہ محسوس ہونے لگا
آپس میں چھوٹی موٹی جنگیں ہونے لگیں اور ہر مقابلے میں جیک دوسرے جاگیر دار کو پچھاڑتا رہا
قانون کے مطابق ہر جیت کے ساتھ ہی ہارنے والے جاگیر دار کی جاگیر جیک کے حصے میں آتی رہی
اسکی تمام جاگیروں کی رعایا اس سے بہت خوش تھی اور اسکے کسی بھی مفتوحہ علاقے میں کبھی بغاوت نہیں ہوئی
کامیابیاں جیک کے قدم چومتی رہیں اور جیک بادشاہ وقت کے قریبی مصاحبوں میں شمار ہونے لگا۔ ہر محاذ سے پہلے اور بعد میں بادشاہ جیک کی رائے لینا ضروری سمجھتا تھا
ڈھلتی عمر میں بادشاہ نے ایک دن جیک کو بلایا اور ملک کے مشرقی سرحد کے بارے میں مشورہ کیا
اور کہا کہ ملک کی سرحدیں تین اطراف سے محفوظ ہیں سوائے مشرقی سرحد
گو کہ وہاں سے کبھی در اندازی نہیں کی گئی لیکن ایک انجانا سا خوف لاحق رہتا ہے
میں چاہتے ہوئے بھی کبھی اپنی فوجوں کو کبھی مشرقی سرحدوں کے پار جھانکنے کی اجازت نہیں دے سکا
اب میں یہ چہاتا ہوں کہ یہ کام تم انجام دو اور کانتکا کے جنگل کے اس پار مشرق تک ہماری سرحدوں کو محفوظ کردو۔
==============================================
شہزادی نیویا کا روز کا معمول بن چکا تھا کہ صبح ہوتے ہی اس نیم شکستہ دیوار کے پاس جاتی تھی اور اس کے پار دور تک دیکھتی رہتی تھی۔ وہ اپنے ماحول سے بے خبربس گھورتی رہتی تھی اس کے پاس گلہریاں آکر بیٹھ جاتی تھیں اور اسکے انچل سے چھیڑ چھاڑ کر کے چھپ جاتی تھیں
اچانک اسے محسوس ہوا کہ کسی کا دست شفقت اسکے کاندھے پر رکھا ہے
مڑ کر دیکھا تو بابا ایلوس تھے
کہنے لگے میں سمجھ سکتا ہوں تمھاری پریشانی کا سبب
ایک گہرے سناٹے کے بعد بابا ایلوس بتانے لگے کہ جب اسکے ماں باپ کے قتل ہوجانے کے بعد وہ اسے یہاں اس جنگل میں لائے تھے تب اپنے آبا و اجداد کی طرف سے ملے ایک پر اسرار عمل کے زریعے انھوں نے اس جنگل میں ایک نہ نظر آنے والی باڑ کھینچ دی ہے تاکہ دشمنوں سے اسکی حفاظت ہوسکے
اور اس حفاظت کی ایک ہی شرط ہیکہ نیویا کبھی اس دیوار کے اس پار نہ جائے
نیویا نے حہرت زدہ ہوکر پوچھاکہ بابا ایسا کب تک رہے گا، کیا میں ساری زندگی اس جنگل سے نہیں نکل سکوں گی؟ اس دن چڑیا نے مجھے کیوں کہا کہ میں اس جنگل سے چلی جاونگی؟
بابا ایلوس نے تھوڑے توقف کے بعد کہا
غلط میں بھی نہیں ہوں اور چڑیا بھی ٹھیک ہی کہہ رہی تھی
تمھاری حفاظت اس جنگل میں تب تک ہے جب تک ایک بہادر سپہ سالار یہاں نہیں اجاتا
یاد رکھو یہ جنگل مشرق اور مغرب کے درمیان حد فاصل ہے
اور جنگل کا گھنا پن، یہاں عام انسانوں کے نہ پڑنے والے قدم ہی اب تک اسے محفوظ بناتے ہیں
جب مغرب سے آنے والا سپہ سلار یہاں سے گزرے گا تب ہی تمھارے جنگل میں محفوظ رہنے کا سحر ٹوٹے گا
نیویا سحر انگیز سی ہوکر یہ سب سن رہی تھی اچانک بولی،
جب۔۔۔۔
وہ ۔۔۔۔
یہاں سے گزرے گا تو واپس نہیں آئے گا؟؟
بابا ایلوس نے کہا جب وہ یہاں سے گزرے گا تو مشرق میں اس ملک میں جائے گا جہاں تمھارے ماں باپ کا قتل ہوا تھا
===================================================
جیک نے سرسری نظر ڈالی اپنے پیدل اور سوار دستوں پر
ماہر، کاریگر، لڑنے والے سپاہی، شکار کرنے والا دستہ ان سب کی الگ الگ ٹولیاں بنا کر خود شان سے رتھ میں سوار ہوا اور یوں کارروان چل پڑا
ان کی منزل کانتکا کا جنگل تھا جہاں سے گزر کر انھیں مشرقی سرحدوں کے
پار ایک انجانے دشمن سے لڑنا تھا
بادشاہ نے محل کی بالکونی سے اپنی تا حد نگاہ پھیلی فوج پر ڈالی، تمکنت سے ہاتھ ہلایا اور کھانستا ہوا اپنی محل سرا میں چلا گیا۔
باشاہ کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن اب وہ مطمئن تھا کہ اسکے بعد اسکا ملک چلانے والا جیک جیسا ایک بہادر سپہ سالار ضرور تھا جو اسکی فتوحات کو سنبھال کر رکھ سکتا تھا
شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے جب فوجیں کانتکا کے جنگل تک پنہچ چکی تھیں
جیک نے وہیں پڑاو ڈالنے کا حکم دیا تاکہ اگلے روز دن کی روشنی میں جنگل سے گزرا جائے
فوجی پڑأ ڈال کر موج مستی میں مگن ہوگئے
شرابیں لنڈھائی جانے لگیں
رقص و سرور کی محفلیں الگ جم گئیں
کچھ لوگ کہیں چوکر کھیلنے میں مگن
اور جیک اپنے گزرے ہوئے سالوں کا جائزہ لینے میں مگن
اسے آج بھی یاد تھا جب اسکا باپ سارا دن سمندر میں مچھلیاں پکڑنے جاتا اور کبھی خالی ہاتھ آجاتا تھا اور اسکی ماں روکھی روٹی پانی میں ابال کر اسے کھلا دیتی تھی یہ کہہ کر کل خدا ہمیں بہت اچھا رزق دے گا
==================================================
چڑیوں کی چہچہاہٹ سے جنگل گونجنے لگا تھا
قافلہ جاگ چکا تھا
جیک نے آگے بڑھنے کا حکم دیا اور سب چل پڑے
جیسے جیسے جنگل میں داخل ہورہے تھے ویسے ویسے سورج کی روشنی گھنے درختوں میں یوں قتل ہورہی تھِی جیسے جیک کی تلوار کے سامنے دشمن کے سپاہی گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہوتے تھے
دن میں بھی رات کا سا سماں تھا اور ایک عجیب سا سحر چھایا ہوا تھا جنگل میں
کہیں کسی پرندے کے اڑنے کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی تھی تو کبھی جھینگر کی جھائیں جھائیں ماحول کے سناٹے کو چیرتی تھی
نیم شکستہ سی دیوار کے قریب پنہچ کر جیک نے قافلے کو پڑاو ڈالنے کا حکم دیا
کچھ دیر بعد جیک نیم شکستہ دیوار کے پاس آیا اور ہلکی سی کوشش سے ہی دیوار پًھلانگنے میں کامیاب ہوگیا
ایک عجیب سا احساس تھا اسکے دل میں
ایک انجانا سا خوف یا ایک انجانی سی خوشی
دبے قدموں وہ چلتا ہوا ایسی جگہ پنہچ چکا تھا جہاں کھلا آسمان نظر آرہا تھا
جھرنوں سے پانی کے گرنے کا شور واضح سنائی دے رہا تھا
فضا میں ایک مدہم سی گنگناہٹ گونج رہی تھی
بہت غور کرنے پر احساس ہوا کہ کوئی گنگنا رہا ہے
جیک چلتا ہوا آگے گیا
پانی کا جھرنا چٹان سے پھسلتا ہوا گر رہا تھا اور اس پانی کے گرتے جھرنے میں ایک صندلی بدن کی لڑکی نہا رہی تھی
پانی کے چھینٹے اسکے نازک بدن کو بوسے دے دے کر زمین کا انچل بھگو رہے تھے
لڑکی اپنے حسن کے نشے میں مدہوش پانی کی بوندوں سے اٹھکھیلیاں کررہی تھی
جسم کے نشیب و فراز ایسے مسحور کن کہ جیک کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کتنی دیر کھڑا اس روپ کی دیوی کو تکتا رہا
کچھ چہرے اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان پر خوابوں کا گماں ہوتا ہے
جیک بھی اس وقت ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھا اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ وہ یہ سب خواب میں دیکھ رہا ہے یا پھر ایک خواب میں آنے والا ایک اور خواب ہے
ہوش تب آیا جب شہزادی نیویا غصے عالم میں اسے گھور رہی تھی
جیک کی حیرت تمام ہوئی ارد گرد دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ اپنے پڑاو سے کافی دور چلا آیا ہے
نیویا اسے ابھی بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی
جیک نے معزرت کے بعد اپنا تعارف کروایا
اب حیران ہونے کی باری نیویا کی تھی
اس کے کان سائِیں سائیں کررہے تھے
نیویا کو ایسے لگا جیسے ہرے بھرے جنگل سے ایک دم کسی لق و دق صحرا میں آ کھڑی ہوئی ہو اور گرم ہوا کی لپٹیں اسکے چہرے کو چھو رہی ہوں۔ اسکے کانوں کی لووئیں سرخ ہوچکی تھیں
بابا ایلوس کے بتائے گئے واقعات کے مطابق جیک ہی وہ سپہ سالار تھا جو اسے اس جنگل سے لیکر جائے گا
نیویا کا غصہ ختم ہوچکا تھا اور اب وہ جیک کو ستائش بھی نظروں سے دیکھ رہی تھی
جیک ابھی تک نیویا کے حسن کے سحر سے باہر نہیں آیا تھا۔ جیک کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک روح ہے جسم کے بغیر اور اسکے سامنے بیٹھی حسن کی مورتی نیویا حسن کی ایک دیوی جس نے جیک کو اپنی اطاعت کیلئے دور دراز کا سفر در پیش کرکے خود بلوایا ہے
وہ بہت پرسکون تھا
اسے پتا تھا کہ یہ انہونی نہیں صرف وہ ایک ہونے والی بات کے ہونے کی توقع نہیں کرسکا
نیویا نے اسے پینے کیلئے تازہ اناروں کا کشید کیا گیا شربت پیش کیا جو دنیا کی کئی شرابوں سے زیادہ لذیذ تھا
دوسرے گلاس میں نیویا خود بھی انار کا شرت پی رہی تھی
گھونٹ بھرنے کے بعد اسکے ہونٹوں پر انار کے رس کی ایک ہلکی سی رہ جانے والی تہہ جیک کو واضح نظر آرہی تھی
جیک نے آگے بڑھ کر نیویا کا ہاتھ تھاما
نیویا کو حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا
یہ پہلی بار تھا جب اس نے کسی مرد کا لمس محسوس کیا تھا
لیکن اسے بہت اچھا لگا
جیک نے نیویا کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور آہستہ آہستہ نیویا کے مدافعت کم ہورہی تھی
وہ خود کو جیک کے قریب ہوتا محسوس کررہی تھی
ایک انہونی ہونے کو تھی
جیک جانتا تھا کہ یہ انہونی ہونے والی ہے
نیویا چاہ رہی تھی کی انہونی ہوجائے
محبت کی پہلی نگاہ اپنا بیج بو چکی تھی دونوں کی دلوں کی دھرتی پر
محبت بادل بن کر ٹپ ٹپ برس رہی تھی اور دونوں کو بھگو رہی تھی
محبت کی دیوی اپنے ہاتھوں سے آب حیات تیار کرکےدونوں کو پہلا گھونٹ پلانے کیلئے تیار کھڑی تھی
جیک نے نیویا کو خٔد سے قریب کھینچا نیویا کے ہونٹ لرز رہے تھے
ان دیکھے ہزاروں سپنے اسکی آنکھوں سے یوں گزر رہے تھے جیسے بارش کے بعد ہزاروں جگنو کسی ندی کے پاٹ پر رات میں چراغاں کررہے ہوں
اسکی تیز سانسوں سے اسکا سینہ ایسے دہل رہا تھا جیسے جوار بھاٹا کے دوران سمندر کی لہریں
نیویا کو لگ رہا تھا جیسے وہ زندہ تو تھی مگر زندگی اب شروع ہونے جارہی تھی
جیک نے اسے اپنی باہوں میں بھرا اور اسکے لرزتے ہونٹوں پر اپنے گرم سلگتے ہوئے ہونٹ رکھ دئیے
نیویا کو لگا جیسے اسکے بے جان جسم میں روح کی آمد ہورہی ہے
وہ ساری زندگی جنگل کے سحر میں قید تھی لیکن آج ایسا لگ رہا تھا جیسے سحر سے آشنا ہی آج ہوئی ہو
کہانی کبھی ختم نہِں ہوتی لوگ آتے ہیں اور اپنا کردار ادا کرکے چلے جاتے ہیں نیویا کو لگ رہا تھا جیسے اسکی کہانی تو بہت پہلے شروع ہوچکی تھی لیکن اسکے حصے کی پہلے کردار نگاری اب اسکے حصے میں آئی ہے
محبت کے نغمے اسکے کانوں میں گونج رہے تھے
اجنبیت، چاہت میں بدل رہی تھی
اسے نہیں لگ رہا تھا کی وہ ایک انجان شخص کی باہوں میں ہے جسے تھوڑی دیر پہلے تک وہ جانتی بھی نہ تھی
ایسا لگ رہا تھا کہ جیک ہمیشہ سے اسکے ساتھ تھا وہ دونوں ہمیشہ سے اس جنگل کے باسی ہیں
پھولوں تتلیوں جگنووں کیساتھ انکا بچپن گزرا ہے
جیک کے ہونٹوں کا لمس وہ اپنے ہونٹوں پر محسوس کررہی تھی
دوہونٹوں کیساتھ وہ اس انجانی خوشی کا احساس ہی نہیں کرپائی جو اس وقت بار ہونٹ مل کر کر رہے تھے
محبت کی راجدہانی مکمل ہوچکی تھی
محبت کی بادشاہت کا اعلان کردیا گیا تھا
جہاں جیک اور نیویا راجا رانی تھے
جنگل کے سحر نے محبت کو دو زانو ہوکر اسکی عظمت کا اقرار کیا اور رخصت چاہی
نہ جانے کتنی دیر دونوں ایک دوسرے میں گم رہے پھر دونوں کو ہوش آیا
نیویا کو جیک کے مضبوط ہاتھوں کی سختی اپنے بدن پر اچھی محسوس ہورہی تھی پھر بھی اٹھلاتے ہوئے ایک نشیلی مسکراہٹ کے ساتھ خود کو الگ کیا
اپنے پیرہن کو ٹھیک کیا
جیک بھی ہوش میں آکر بھی نیویا کے ہونٹوں سے پی معطر شراب کے نشے میں نیم مدہوش تھا
محبت مکمل ہوچکی تھی
سھر ٹوٹ گیا تھا
جنگل میں پرندوں نے ہوا میں رقص کی محفل جمائی ہوئی تھی
اگلے روز بابا ایلوس کی موجودگی میں دونوں کا ازلی ملن ہوا
جیک نیویا کو لیکر اپنے قافلے سے ملا جہاں
سے قافلے اپنے راستے پر رواں ہوگیا
کہانی میں آگے چل کرایک عام دیکھنے والے کیلئے کئی انہونیاں ہوگئیں لیکن جیک نے کبھی انہیں انہونی نہیں مانا
جیک نے مشرق کی سرحدوں کو محفوظ کیا
کافی عرصہ بعد جب واپس اپنے لک پنہچا تو بادشاہ کا انتقال ہوچکا تھا اور بادشاہ کی وصیت کے مطابق جیک
ایک مچھیرے کا بیٹا
بادشاہ تھا
انہوںی تھی
لیکن جیک کیلئے نہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...