” محبت” لذتوں اور مسرتوں کے بحرِ بیکراں میں محوِ غرق رکھنے والا احساس تو کبھی ارمانوں کو قتل کروا کے خوابوں کے جنازوں پہ ماتم کروانے والا یہ احساسِ قاتل کس بلا کا نام ہے ۔؟؟؟
اسکی حقیقت کیا ہے۔؟؟؟ انسانی جبلت میں اسکی اشتراکیت کا کا کیا عالم ہے۔؟؟؟ یہ انسانی زندگی کا ایک جزوی پہلو کیونکر ساری حیات پر غالب آجاتا ہے۔۔؟؟؟
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے آپکو اس الفت کے سمندر میں غوطہ زن کرنے کا فیصلہ کرتے وقت چند ساعتیں بھی سوچنا گوارا نہیں کرتے؟؟؟؟
کیا محبت ہماری زندگیوں کو معنی دیتی ہے۔؟؟؟
یا محبت گوشہ تنہائی سے فراغت کے حصول کا ایک کلیہ ہے؟؟؟
یا اپنی پریشانیوں اور اکتاہٹ بھری زندگی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔؟؟؟؟
یا یہ جبلت انسانی میں شامل جنسی ہوس کو پورا کرنے کا بہانہ ہے۔؟؟؟
یا یہ فطرت کی بقائے نسل کی ایک رنگین چال ہے۔؟؟؟
یا یہ صرف کیمیکلز اور ہارمونز کا ذہن پہ حملہ ہے جو سوچنے کی صلاحیت کو اور صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو سلب کر دیتا ہے۔؟؟؟
یا کوئی طلسماتی لہروں کا کمال ہے جو انسان کے شعور پر قابض ہوجاتی ہیں ۔؟؟؟
کسی نے محبت کو زندگی قرار دیا تو کسی نے اس دنیا کی اساس قرار دیا۔ محبت کی ہزاروں تعریفیں کی گئیں لاکھوں لوگوں نے اس مقفل باب کو کھولنے کیلئے علمی اور فکری جستجو کی ۔ شاعروں دن رات محبت کے قصیدے لکھے اور کبھی محبوب کو خدا کے درجے پہ فائز کیا تو کبھی صنم بنا کے اسکو پوجتے رہے۔ کبھی تعریفوں کے پل باندھتے وقت گلشن کے حسن کو ماند قرار دے دیا تو کبھی جبین کی چمک کو ستاروں سے تشبیح دے کر مبالغہ رائی کی حدیں پار کردیں۔
کبھی رانجھے نے ہیر کیلیئے ساری دنیا ترک کردی تو کبھی مجنوں لیلٰی کی گلی کے کتے کے پاؤں چومتا پایا گیا ۔ کبھی فرہاد نے شیریں کی الفت کی خاطر پہاڑ کو چیڑنے کیلیے اپنی ساری زندگی جوکھم میں ڈال دی تو کبھی رام نے سیتا کیلیئے راون کی لنکا ڈھا دی ۔ لاکھوں عاشقوں نے اس جذبہِ الفت کے زیرِ اثر موت کو سینے سے لگالیا ہزاروں لوگ اس الفت کے نشئے میں اپنی زندگیاں برباد کر بیٹھے تو لاکھوں لوگ اس شدتِ عاشقی کے باعث دیوانے ہوگئے۔
سائنس نے جہاں طبعی دنیا کے اسرار کو منکشف کیا ہے اور تاریخ کی الجھی ہوئی پہیلوں کو حل کیا ہے وہیں غیر مادی قوتوں کے مخرج اور انکا مدیت سے تعلق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ جہاں اس نے کششِ ثقل کے قوانین دریافت کیے تو وہیں سائکالوجی اور نیوروسائنس نے انسانی شعور کا احاطہ کیا ہوا ہے ۔
نیوروسائنس کے ماہرین محبت کو تین مراحل میں تقسيم کرتے ہیں ۔
شہوت (LUST)
کشش (Attraction)
بندھن (Attachment)ان تینوں مراحل میں مخلتف کیمیکلز اور مختلف ہارمونز حصہ لیتے ہیں ۔ اور مختلف ہارمونز مختلف احساسات کو جنم دیتے ہیں اور مختلف خواہشات اور جذبوں کے مخرج کا سبب بنتے ہیں ۔
*شہوت (LUST) *:
شہوت (LUST) محبت کا پہلا مرحلہ ہے اور جو سیکس ہارمونز Testosterone اور Oestrogen کی وجہ سے مرد و خواتین دونوں میں اجاگر ہوتا اس کا انحصار انسان کے طبعی خدوخال اور جسمانی بناوٹ کا متقاضی ہوتا یہ چہرے کی رعنائی اور آنکھوں پر بھی بڑی حد تک منحصر ہوتا ہے ۔ جو لوگ جنسی طور پر زیادہ پرکشش ہوتے ہیں ان کو دیکھ کے یہ عمل بلا خیز سرعت کے ساتھ آغاز پکڑتا ہے ۔
کشش (Attraction)
کسی کی طرف شعوری طور پر توجہ کا مائل ہونا اور گوشہ تنہائی میں اگر آپکی سوچ کو کسی دلربا کی یاد گھیر لے اور آپکو اس دلربا کو سوچ کر مسرت و راحت کا احساس ہو تو سمجھیے آپ محبت کے دوسرے مرحلے میں قدم رکھ چکے ہیں ۔
یہ فکری رجوع کی کیفیت یہ کینچھاؤ اور یہ کششِ لاثانی بھی تین کیمیکلز کی مرہونِ منت ہے۔ یہ تینوں کیمیکلز بھی تین جزوی مراحل کی تکمیل کا کام کرتے ہیں ۔ تینوں کیمیکل کے خواص درج ذیل ہیں
Adrenaline
Dopamine
Serotonin
ایڈرینا لین (Adrenaline ) :
جب آپ کسی دلربا کی یاد میں محوِ غرق ہوتے ہیں اور اس گہری سوچ میں آپ من سے مکالمہ کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت آپکے خون میں ایڈرینالین اور کورٹی سول Cortisol کا لیول بڑھ جاتا ہے آپکی دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے اور منہ سوکھ جاتا ہے ۔ اس حیران کن اور عجیب احساس کی اساس مندرجہ بالا کیمیکل ہوتا ہے ۔
ڈوپامائن (Dopamine )
یہ کیمیکل خواہشات کی بیداری کا کام کرتے ہیں۔ جب آپ اپنے محبوب کے خیالوں میں ہوتے ہیں تو طرح طرح کی خواہشات اور ان خواہشات کی تکمیل کی خواہش ایک عجب سی خوشی ایک منفرد سی راحت کو جنم دیتی ہے۔ اور آپکو ان خواہشات کی تکمیل کیلیئے محرک کرتی ہے اور آپکو فرحت اور مسرت کا ایک لاثانی احساس بخشتی ہیں ۔جب ڈوپامائن کا لیول بڑھتا ہے تو انسان کو سونے کی , کھانے کی اس طرح کی ساری باتیں مائل کرنے قاصر رہتی ہیں ۔ اور وہ پورے انہماک کے ساتھ اپنی محبت کو گہرائی بخشنے اور مراسم کو تواتر اور مظبوطی دینے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔ اسکا تعلق تقریباً دنیا سے کٹ جاتا ہے یہ ایسی ہی کیفیت ہے جو کسی منشیات کی لت میں لگے کسی نشئ کو ہوتی ہے۔ جس میں اسکا آرام اس دوا میں پنہاں ہوتا ہے ۔
سیروٹونین (Serotonin )
جذبہِ الفت میں خاصی اہمیت کا حامل یہ کیمیکل آپکو تسلسل کے ساتھ آپکے محبوب کی یاد میں محوِ غرق رکھنے کا کام تسلی بخش کرتا ہے۔ آپکی توجہ کو مکمل آپکے محبوب کی طرف جھکائے رکھتا ہے۔آپ اسکو سوچتے ہوئے کبھی درد و الم کی دنیا میں پہنچ جاتے ھیں کہ کہیں وہ آپکو چھوڑ نہ جائے ۔ کہیں اسکے کسی اور کے ساتھ مراسم نہ ہوں ۔ اس طرح کے خیال آپکو چڑچڑا بنادیتے ہیں تو کبھی ایک عجیب سی پریشانی کے قفسِ مسلسل میں مقید کردیتے ہیں ۔ تو کبھی آپ اسکو سوچ کر اپنائیت اور خیالی کی ایسی دنیا میں مگن ہوجاتے ہیں جو آپکو مسرتوں کے گلشن اور خوشیوں کی کہکشاؤں میں لیے اڑتی ہے۔
بندھن (Attachment)
محبت کا آخری مرحلہ جس میں دو پریمی رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں ۔ اور اپنی نسل بڑھاتے ہیں اور ایک دوسرے کی زندگی کا سماجی اور قانونی حصہ بن جاتے ہیں ۔ اس مرحلے میں بھی کیمیکل کی سامراجی قائم رہتی ہے اور یہ بندھن بھی اصل میں مائکروسکوپیک لیول پر کیمیکلز کی سازش کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اس عمل میں حصہ لینے والے دو معروف اور خاصی اہميت کے حامل کیمیکلز اپنی طلسماتی قوت سے اپنائیت کا احساس دلواتے ہیں رشتے کی بقاء کی سعی کرتے رہتے ہیں
آکسی ٹاکسن Oxytoxcin جس کا اخراج جنسی عمل کے دوران ہوتا ہے اور یہ اپنائیت اور صدا ساتھ رہنے کے جذبے کا موجد ہے یہی وہ کیمیکل ہے جس کی وجہ سے ماں کا اپنے بچے کے ساتھ بے مثالی رشتہ قائم ہوتا ہے ماں کی الفت و وارفتگی کے پیچھے مضمر اصل میں یہ کیمیکل ہوتا ہے اور اسکا اخراج بچے کو جنم دیتے وقت بھی ہوتا ہے۔اسی سحری قوت کے حامل کیمیکل کی وجہ سے ماں کے سینے سے آٹومیٹک دودھ کا اخراج ہونے لگتا جب ماں بچے کی آواز کو سنتی ہے یا اسکو صرف دیکھتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر اس کیمیکل کا اخراج روک دیا جائے تو تجربات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بکری اپنے بچوں کو پہچانے اور دودھ پلانے سے انکار کردیتی ہے۔ اور یہی تجربہ چوہوں پر بھی کر کے یہی نتیجہ اخذ کیا گیا۔ اس کے برعکس اگر کسی فی میل چوہے کو جس نے کبھی جنسی عمل نہ کیا ہوا اسکو آکسی ٹاکسن کا انجکشن لگایا جائے تو وہ کسی اور چوہیا کے بچے کو اپنا بچہ جان کر پالنا شروع کردیتی ہے۔۔
ویسو پریسن (Vasopressin)
اس کیمکل کا عمل دخل بھی اپنائیت کا احساس دلوانے اور گہرے تعلق کی تعمیری میں رہتا ہے۔ یہ پیاس کی شدت کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔ اور اسکا اخراج بھی جنسی عمل کے دوران ہوتا ہے۔ اس سے اجاگر ہونے والے احساس انسان کو اپنی الفت سے جوڑے رکھتے ہیں ۔
جہاں تک فلسفہ الفت کا تعلق ہے تو بہت سے معروف فلاسفرز نے اپنی فکری صلاحیت سے اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی ہے۔
پلاٹو کے مطابق محبت ہمیں مکمل کرتی ہے ۔ ہماری جبلت کے اندر جذبہ محبت شاید اس لیے مضمر ہے کہ انسان اپنی کاملیت کو پالے ۔
اپنے symposium میں پلاٹو ایک ڈنر پارٹی کا ذکر کرتے ہیں جس میں Aristophanes جو ایک مزاحیہ لکھاری ہے مہمانوں کو ایک دلچسپ کہانی کی طرف مائل کرتا ہے
کہ ایک وقت تھا جب انسان چار ہاتھ چار ٹانگوں والی مخلوق ہوتے تھے جن کے دو چہرے ہوتے تھے ایک دن اپنی شیطانی کی وجہ سے انہوں نے خدا کو غصہ دلا دیا اور Zeus نے انکو دو حصوں ( مرد و عورت ) میں منقسم کردیا ۔ تب سے ہر آدھا انسان اپنی کاملیت کے حصؤل کیلئے اپنے آدھے پن کو ڈھونڈتا ہے تاکہ وہ پھر سے مکمل ہوسکے۔۔۔
جرمن فلاسفر Arthur Schopenhauer کے مطابق محبت کی بنیاد جنسی ضرورت ہے Arthur کے مطابق ہم محبت اس لیے کرتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں مضمر جنسی خواہشات ہمیں اس طرف مائل کرتی ہیں ۔ اصل میں محبت میں ملنے والی خوشی اور محبت میں پنہاں لذت ہمیں اس چال اور اس دھوکے میں محو رکھتی ہیں تاکہ نسل کی افزائش کا سلسلہ چلتا رہے۔اور ہر محبت کی کہانی شادی کے بندھن میں ڈھل کر ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے ۔ شادی کے بندھن کے کچھ عرصہ بعد ہماری جنسی پیاس بھی کسی حد تک بجھ جاتی ہے ۔ اب وہ محبت اور وہ ورافتگی باقی نہیں رہتی اور محبت کی شدت میں یہ کمی فطرت کی دھونس اور محبت کی چال کو بے نقاب کرتی ہے
محبت ہماری تنہائیوں اور خلوتوں سے باہر نکلنے کا ایک سنہرا باب ہے جو ہمیں تنہائیوں کی رنجشوں اور پنہائیوں کی دنیا سے نکال کر سکون اور قرار کے عالم میں لے آتا ہے ۔یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسکو سکون اور قرار کی طرف مائل ہونا ہوتا ہے۔
معروف نوبل پرائز یافتہ برٹش فلاسفر Bertrand Russel کے مطابق ہم محبت کی سیڑھی اس لیئے چڑھتے ہیں کیونکہ یہ سیڑھی ہماری جسمانی تسکین اور نفسیاتی تسکین کا واحد راستہ ہے فطرت انسان کی بقاء کیلئے محبت کی چال چلتا ہے کیونکہ اسکے بغیر جنسی عمل ( مباشرت) بےلذت سا عمل ہوتا جس میں مسرت اور خوشی کا کوئی عنصر نہیں ہوتا۔ اس عمل میں فطرت نے لذت رکھ دی اور محبت کو بطورِ کشش درمیانی رشتہ بنا دیا گیا۔گویا محبت فطرت کی چال ہے جسکا مقصد بقائے نسلِ انسانی کے سوا کچھ نہیں ۔ یہ جذبہِ الفت ہمیں خوشی اور مسرت کے احساسات فراہم کرتا ہے اور جینے کی امید دیتا ہے
بدھ مت مذہب کے بانی گوتم بدھا کے مطابق محبت ایک مضمر دکھ ہے۔ ایک چھپا اور ڈھکا ہوا درد کا سامان ہے۔ بدھا کے مطابق ہم محبت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بات شاید جتنی گہری لگتی ہے اس سے کئی گہری ہے ۔ یعنی محبت اصل میں محبت نہیں بلکہ ہماری خواہش کی تکمیل کا نام ہے ۔ اور جب ہماری خواہشات کے مطابق ہمیں ثمر نہیں ملتا تو یہ محبت جو ہمارے لیئے سکون اور قرار کا باعث تھی وہ اب غم و غصے اور وحشت کا واحد سبب بن جاتی ہے اور کبھی یہ ضد کا روپ ڈھال لیتی ہے تو کبھی یہ ناکام محبت یعنی ادھوری خواہش نفرت کا لبادہ بھی چڑھا لیتی ھے۔ اور کئی واقعات ملتے ہیں جس میں اس وحشت و نفرت کے عالم میں عاشق اپنی محبوبہ کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔
محبت کے نفسیاتی پہلو کو دیکھا جائے تو ہم کبھی بھی اصل شخص سے محبت کرتے ہی نہیں جس شخص ہم محبت کرتے ہیں وہ ہمارے خیالوں تشکیل دیا ہوا اس شخص کا ایک خیالی انسان ہوتا ہے۔ جسے ہم اپنا سب کچھ مان رہے ہوتے ہیں اور اس سے سب اچھے کی ہی امید رکھتے ہیں اسکو باوفا سچا جانتے ہیں ۔ اسکو ہمدرد سمجھنے والا سمجھتے ہیں الغرض اسکو عقیدت کے ایسے مقام پر کھڑا کرتے ہیں کے اسکا احاطہ لفظوں میں کرنا کافی کٹھن ہے۔ لیکن ہماری ملاقات اور ہمارے معاملات تو اصل انسان سے ہؤنے ہوتے ہیں نہ کہ اس خیالی محبوب سے جس کا تصور ذہن سے سجایا ہوا ہوتا ہے تو جب وہ اصل انسان ہماری امیدوں اور ارمانوں کی دھجیاں بکھیرتا نظر آتا ہے تو ہم اسکو بےوفا کے خطاب سے نواز دیتے ہیں جبکہ اصل میں بےوفا وہ نہیں بلکہ ہماری توقعات اور ہماری خواہشات نے ہمیں بیوقوف بنا رکھا تھا
اور جب ہماری امیدوں کے بت پاش پاش ہوتے ہیں تو ہم محبت کو دھوکہ قرار دے دیتے ہیں اور اس انسان کے کردار پہ سوال اٹھا دیتے ہیں ۔ اصل میں محبت کا کوئی وجود ہی نہیں یہ فطرتی پکار پہ لبیک کی صدا کے سوا کچھ نہیں ۔ جو روپ اسکا ہمیں نظر آتا ھے یا جو محسوس ہوتا ہے اسکی اصل وہ نہیں ہے یہ فطرت کا تقاضا ہے بقائے نسلِ انسان کے سفر کی ایک لازمی کڑی ہے۔ ایک فطرت کا خلق کیا نظام ہے جس میں محبت مستعمل پائی جاتی ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...