مہندی کے رنگ ہر طرف بکھرے ہوۓ تھے، خوشیوں کی گیت گاۓ جارہے تھے، مہمانوں میں میں بھی موجود تھی جب لڑکے والے مہندی لے کر آۓ تو دلہن کی ساس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر پلکیں چھپکنا بھول گٸی کیونکہ سننے میں یہی تھا کہ سادہ سے لوگ ہیں مگر ساس صاحبہ کا میک اپ اور سج دھج دیکھی تو مجبوراً پوچھنا پڑا کہ ماجرا کیا ہے ،اور حقیقت جان کر مجھے بے پناہ خوشی ہوٸ کہ ساس صاحبہ شادی کے فنکشن کی وجہ سے تیار نہیں ہوٸیں بلکہ دلہا کے والد کی فر ماٸش پر وہ اکثر ایسے ہی تیار ہوتی ہیں اور سفید بالوں والے بزرگ اپنی بیٹیوں سے اکثر کہتے ہیں ”جیسے خود تیار ہوتی ہو میری بیگم کو بھی ویسے ہی تیار کرو اور جو لپ سٹک خود لگاتی ہو وہ اپنی ماں کو بھی لگاٶ“،ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کہیں بھی الگ الگ نہیں جایا کرتے اور ماشاءاللہ آٹھ بچوں کے والدین ہیں ،سب کو بیاہ کر رخصت کر دیا کہ ”ہم نے کون سا بچوں کا مال کھانا ہے“،کچھ روز بعد دلہن والوں کے ساتھ ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو دروازے پر ہی تھے کہ پرانے گانوں کا ردھم کانوں میں جھوم اٹھا جب گھر میں گیۓ تو بزرگ اتوار منا رہے تھے اپنی نٸ نویلی بہو بیٹے اور بیگم کے ساتھ ،جتنا سکون مجھے ان کے گھر میں محسوس ہوا بہت ہی کم گھروں میں وہ خوشی اور ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں ساتھ دیکھنے کا سکون کہیں دیکھنے میں آیا ہے ،ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتے ہیں کہ نجانے کب زندگی کا برسوں پرانا ساتھ چھوٹ جاۓ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بابا جی کی بیگم کا حق ہے چاہے کوٸ راضی ہو یا ناراض،ازداوجی رشتہ محض مادی نہیں ہوا کرتا یہ تو ایک ساتھ کا نام ہے جو مل جاۓ تو زہے نصیب رشتوں کی عمر انسانی زندگی سے طویل ہوا کرتی ہے زندگی روٹھ جاتی ہے مگر کہانیاں رہ جاتی ہیں جو آنے والوں کے لیۓ کبھی نہ کبھی ضرورمشعل راہ بنتی ہیں۔