نشہ کیا ہے؟
ایک بار لگ جائے تو چھوڑنا مشکل ہے، زیادہ سے زیادہ کی طلب ہوتی ہ
وقت کے ساتھ لذت میں کمی آتی ہے لیکن عادت بن جاتی ہے
اس کے پیچھے زندگی کی اہم چیزیں چھوڑ دی جاتی ہے
اگر لت چھوٹ جائے تو واپس عام دنیا میں آنے میں وقت لگتا ہے
کیا نشہ بری شے ہے؟ اس کو جاننے کیلئے پہلے ایک کہانی۔
“میرا پہلا بچہ جب پیدا ہوا تو وہ خوف کا وقت تھا، جنگ کے سائے تھے۔ مجھے خوف رہتا تھا کہ میرے بچے کو کچھ نہ ہو جائے لیکن میری بیوی پرسکون تھی۔ اس دور میں میں نے بہت کچھ نیا دریافت کیا۔ ہمارا بچہ ہمیں راتوں کو جگایا کرتا تھا۔ اس کی ضرورتیں پوری کرنا، ڈائپر بدلنا ایک مشقت تھی، لیکن ہم یہ مشقت خوشی سے کرتے۔ اس کی مسکراہٹ کے پیچھے ہم کچھ بھی کر سکتے تھے۔ میں اور میری بیوی کئی بار سوچتے تھے کہ جس طرح ٹوٹ کر ہم اپنے بچے سے محبت کرتے ہیں، کیا وہ بھی ہم سے ویسے ہی محبت کر سکتا ہے؟ ہمیں پتا تھا کہ جب ہم اس کے آس پاس ہوتے ہیں تو اس پر بڑا مثبت اثر ہوتا ہے، خاص طور پر اپنی ماں کے ہونے کا۔ اس کا اونچی آواز میں رونا، صرف اپنی ماں کو دیکھ کر سسکیوں میں بدل جاتا تھا۔ ہمیں دیکھ کر سب سے زیادہ مسکراتا تھا۔ اجنبیوں کو دیکھ کر تو خوفزدہ ہو جاتا۔ ہمیں یہ تو پتا تھا کہ اسے ہم سے کچھ لگاوٗ ہے لیکن اس کو ویسی محبت تو نہیں کہا جا سکتا جیسی بڑوں کو ہوتی ہے۔ چھوٹے بچے تو بڑوں کی طرح پیچیدہ جذبات کی اہلیت نہں رکھتے۔
جب تک ہمارا دوسرا بچہ پیدا ہوا تو کچھ برس گزر چکے تھے۔ مجھے اب نیوروکیمسٹری کا اتنا پتا لگ چکا تھا کہ میں اس سوال کا جواب دے سکتا جو ہمارے ذہنوں میں آتا رہا تھا۔ بچے محبت کرتے ہیں اور یہ محض بچگانہ جذبہ نہیں، ویسا ہی ہے جیسا بڑوں کی محبت کا۔
بڑوں کی محبت میں ہزاروں یادیں ہوتی ہیں۔ پرانے وقت، شاعروں کے شعر، رومانٹک فلمیں، اور سب سے زیادہ وہ شخص، جسے دیکھ کر یہ احساسات جنم لیتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی زندگی میں اتنا وقت نہیں گزرا ہوتا کہ ان میں یہ یادداشتیں بنی ہوں۔ ان کے ذہن میں وہ سسٹم نہیں بنا ہوتا کہ وہ اپنی یادداشتوں کو دہرا سکیں۔ لیکن ان یادوں سے ہٹ کر بڑوں کی محبت ایک جذبہ ہے جس کی اپنی کیمسٹری ہے اور اپنی زندگی ہے۔ اس کی کاک ٹیل کو ہم ابھی ٹھیک طرح سے نہیں جانتے۔ ہمیں یہ پتا ہے کہ آکسی ٹوکسین اور اینڈورفین وغیرہ اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس جذبے سے حاصل ہونے والا اطمینان اور زندگی کے اچھا لگنے میں ان کا ہاتھ ہے۔ یقینیا، یہ کیمیکل ہی محبت کی مکمل کہانی نہیں لیکن اس کا بڑا حصہ ہیں۔
یہی وہ کیمسٹری ہے جو ہم اپنے بچوں سے شئیر کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں بھی۔ جب میرا چھوٹا بیٹا اپنی ماں کو دیکھ کر کِھل اٹھتا ہے تو اس وجہ سے کہ ماں کی صورت پہچان کر اس کی دماغ کی نیوروکیمسٹری میں کچھ تبدیلیوں رونما ہوئی ہیں۔ جب ماں واپس اپنے بچے کو کھلکھلاتا دیکھ رہی ہے اور اس کو ایک فرحت کا احساس ہو رہا ہے تو اس کے دماغ میں بھی وہی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ محبت یکطرفہ نہیں۔ اس احساس کا کلیدی پراسس ان دونوں کے دماغوں میں بالکل ایک ہی طرح سے ہو رہا ہے۔
یہ سوچنا اچھا لگتا ہے کہ ہم سب اپنے منفرد طریقے سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اس کو ایک مشترک اور دوطرفہ تجربے کے طور پر سمجھنا کہیں زیادہ طاقتور احساس ہے۔ والدین اور ان کے نوزائیدہ بچے ابھی الفاظ کے ذریعے بات نہیں کر سکتے۔ اپنا مطلب دوسرے تک نہیں پہنچا سکتے۔ ان کے پاس کوئی مشترک ماضی کی یادیں نہیں جس کو شئیر کر سکیں۔ لیکن محبت کی کیمسٹری کا ایک کامن ڈیزائن ان کے پاس شئیر کرنے کو ہے۔
اپنے بچے کو دیکھ کر مجھے بھی وہ وقت یاد آتا ہے، وہ پرانا وقت، جب میں اس دنیا میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ کسی کو دیکھ کر میرے دماغ نے اشارہ کرنا شروع کیا تھا۔ “تم اس کے پاس محفوظ ہو۔ اس کے ساتھ رہو”۔ میری ماں کے دماغ میں بھی اس وقت ایسے ہی سگنل چل رہے ہوں گے۔ یہ ہماری عادت بن گئی۔ دہائیاں گزر گئیں مگر ابھی تک ہمارا دماغ ایک دوسرے کو دیکھ کر وہی سگنل دیتا ہے۔ یہ نشہ کبھی اترا ہی نہیں۔”
نیوروکیمسٹری کے حوالے سے روتے بچے کو دیکھتی ماں، چرس کی طلب والی نشئی اور آہیں بھرتے محبوب کے برین سکین میں زیادہ فرق نہیں۔
ہر نشہ برا نہیں ہوتا۔
یہ ان دو کتابوں سے
Mind Wide Open: Steven Johnson
When to Rob a Bank: Dubner & Levitt