ان کا اصل نام غلام محمد زرگر تھا۔ 30 مارچ 1929 کو سرینگر میں پیدا ہوئے۔ تحریک آزادی کشمیر میں سرگرم ہونے کی وجہ سے بھارتی جیل بھی کاٹی ۔ ہجرت کے بعد حکومت آزاد کشمیر کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے۔ ڈائریکٹر کے عہدے پر تھے جب 7 اگست 1982 کو راولپنڈی میں وفات پائی۔
احمد شمیم نے افسانے اور ڈرامے بھی لکھے۔ کشمیری زبان کی شاعری میں بھی وہ بلند مقام رکھتے ہیں۔ انگریزی میں بھی نظمیں لکھیں۔ ان کی مطبوعہ کتابوں میں اجنبی موسم میں ابابیل(طویل نظمیں، 1983)،ریت پر سفر کا لمحہ (نظمیں، 1988) ،دگ تہ داغ(کشمیری شاعری، 1989) کبھی ہم خوب صورت تھے( کلیات) ،ہوا نامہ بر ہے(اہلیہ منیرہ کے نام خطوط، 1995) شامل ہیں۔
ان کی وفات پر شفقت تنویر مرزا نے لکھا احمد شمیم پرندوں کے پروں پر خوب صورت لفظ لکھنے سے آزاد ہو گیا۔
ممتاز مفتی نے کہا احمد شمیم ایک چومکھیا دیا تھا جو بجھ گیا۔
مظہر الاسلام نے کہا احمد شمیم تمہارے جانے کے بعد موت کا فلسفہ سمجھ آ گیا۔
منو بھائی نے لکھا احمد شمیم کے چہرے پر ہمیشہ خوبصورت مسکراہٹ دیکھنے کو ملی ، یہ مسکراہٹ اس نے موت کی گود میں لیٹے ہوئے بھی قائم رکھی، اور یہ مسکراہٹ اپنے دوستوں کے لئے چھوڑ گیا، جنہیں رنگوں کے جگنو اور تتلیاں آواز دیتی ہیں۔
احمد ندیم قاسمی نے کہا احمد شمیم کی نظمیں اردو کے شعری ادب میں آیندہ صدیوں تک زندہ رہنے والے اضافے ہیں۔
افتخار عارف نے کہا جدید اردو نظم کا منظر نامہ احمد شمیم کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، کبھی ہم خوبصورت تھے، اس کی ایک اعلی' مثال ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد شمیم l ریت پر سفر کا لمحہ
کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی
خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی
بہت سے ان کہے لفظوں سے
تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھہ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے
لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھہ
آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھے
امی تتلیوں کے پر
بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
کہ ہم کو تتلیوں کے
جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی مسافت
رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھہ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
ہمیں ماتھے پہ بوسا دو
۔۔۔۔۔۔۔
مستنصر حسین تارڑ کا کالم
سوچ کے دریا سے ابھرے گا ایک سفینہ۔۔۔ احمد شمیم
اپنےگزشتہ کالم میں، مَیں نے احمد شمیم کی نیرہ نور کی گائی ہوئی نظم ’’کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘ کا حوالہ دیا تھا۔۔۔ ایک پُرتاثیر نظم لکھنا مشکل ہوتا ہے، آپ کے پاس نہ تو قافیے ردیف کی قلابازیاں ہوتی ہیں اور نہ ہی آپ بے وجہ شوکت الفاظ کی ڈفلیاں بجا سکتے ہیں۔۔۔ اور ایک نظم کو آواز اور سُر میں ڈھالنا بھی کچھ کم مشکل نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن ’’کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘ کو نیر ہ نور نے جس طور ایک گہرے جذبے اور سُر سانس کے ساتھ گایا تو گویا اس نظم کو تتلیوں کے پَر لگ گئے اور یہ ہم سب کے دلوں میں اُتر کر پھڑپھڑانے لگی۔۔۔ تتلیوں کے پروں کے کچے رنگ ہمارے خون میں گردش کرتے ہمارے اندرون کو رنگین کر گئے۔۔۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم احمد شمیم جیسے ترقی پسند کو آج یاد کر لیں۔۔۔ آج کے دَور میں جبکہ اچھی شاعری دبک کر گمنامی کے کونے میں جا بیٹھی ہے اور بُری شاعری ٹیلی ویژن، شاعروں اور اخباروں میں راج کرتی ہے ہم احمد شمیم کو یاد کر لیں اور ہمیں احساس ہو کہ بڑی شاعری کیا ہوتی ہے۔۔۔ احمد شمیم بلکہ آفتاب اقبال شمیم بھی میرے من پسند نظم گو ہیں۔ ایک شاعر کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ایک مشہور شاعر ہے لیکن وہ ایک اچھا شاعر نہیں ہے۔۔۔ کسی نے کسی کے بارے میں یہ کہا، مجھے بِھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ یہ نہیں کہ ان دنوں اچھی شاعری نہیں ہو رہی، بے شک ہمارے درمیان میں چند ایک کمال کے شاعر ہیں لیکن بُری شاعری کی بھرمار میں اچھی شاعری دفن ہوتی جاتی ہے۔۔۔ ویسے نظم کے حوالے سے مجھے مجید امجد، ن۔م۔ راشد، فیض اور اختر حسین جعفری اسی ترتیب سے پسند ہیں، عہدِ حاضر میں گلزار اور وحید احمد میرے دل کو لگتے ہیں۔۔۔ جبکہ نہ صرف احمد شمیم کشمیر کو اپنے وطن کی جنت کو ساری عمر یاد کرتا رہا لیکن وہ اس جنت میں دوبارہ نہ جا سکا۔ ’’وہ سرینگر کے ایک خوبصورت گوشۂ چنار کا مکین تھا، وہاں کی خوش رنگ فضاؤں میں پل کر جوان ہونے والا ہجرت تک چناروں کی آگ اپنے اندر سموتا رہا، کشمیر کی محبت اور اس سے دوری کا احساس، اس کی شاعری میں ٹھنڈک، مٹی کی خوشبو، ہواؤں کی لچک، چاند ستاروں کی روشنی اور گُل لالہ کی مہک کی طرح رچا بسا تھا۔ کشمیر سے دوری اور اپنی دھرتی سے محبت احمد شمیم کی شاعری کے جذباتی اور فکری مسائل کا مرکز اور محور نظر آتے ہیں‘‘۔ احمد شمیم نے کشمیر کی آزادی کی خاطر بھارتی جیل بھی کاٹی:
جب ست رنگی آوازوں کی برکھا برسے بستی پر
سارے زخم ہرے ہو جائیں یاد آئے کشمیر بہت
اور بھی ہوں گے مُلک بہت سے ہرے بھرے کھیتوں والے
لیکن اُس مٹی کی خوشبو پاؤں کی زنجیر بہت
’’کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘ بھی کشمیر کے سوگ میں لکھی گئی نظم ہے۔ احمد شمیم نے اردو اور انگریزی کے علاوہ کشمیری زبان میں بھی اتنی بڑی شاعری کی کہ غلام احمد مہجور کے بعد انہیں اہم ترین کشمیری شاعر تسلیم کیا گیا۔۔۔ میرے سامنے اس کی کُلیات ’’کبھی ہم خوبصورت تھے‘‘ کی صورت کُھلی ہے اور میں چناؤ نہیں کر رہا جو بھی ورق سامنے آیا اس پر لکھی شاعری کو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ ایک بڑے شاعر کی تخلیقی قربت سے لطف اندوز ہو سکیں۔
ہنستے بولتے لوگ بھی ہم کو حیراں حیراں تکتے ہیں
تو ہی بتا اے راہ تمنا ہم کس دیس سے آئے ہیں
تم اِک چاک گریباں دیکھ کے ہم کو رسوا کرنے لگے
اچھا کیا جو ہم نے تم سے دل کے چاک چھپائے ہیں
چین کہاں لینے دیتی ہے درد کی میٹھی میٹھی آگ
ہم نے چھپ کر دامنِ شب میں کتنے اشک بہائے ہیں
ایک ذرا سی بات تھی لاکھوں افسانے مشہور ہوئے
ہم بھی تیرے پیار کے صدقے دیوانے مشہور ہوئے
ہم کو تنہا تنہا چھوڑ کے کس نگری کو چلتے ہو۔۔۔چُپ چُپ چلنے والے لمحو ٹھہرو ہم بھی چلتے ہیں۔۔۔اپنی یادوں میں بسا رکھی ہیں کیا کیا صورتیں۔۔۔ سنگدل، گل رو، سمن بر، شعلہ آسا صورتیں ۔۔۔اور ہوں گے جن کے سینے میں اجالا کر گئیں۔۔۔ ہم کو یارو دے گئیں داغِ تمنا صورتیں ۔۔۔جب بھی تنہائی کے آنگن میں سنی قدموں کی چاپ۔۔۔ درد بن بن کر ابھر آئیں سراپا صورتیں۔۔۔سوچ کے صحرا میں مرجھایا ہوا نخلِ خیال۔۔۔چھوڑ کے ایسے گئی ہیں ہم کو تنہا صورتیں۔۔۔خاک میں مِلتے دیکھے ہم نے کیا کیا راج دُلارے لوگ۔۔۔کیسی سُندر سندر کلیاں، کیسے پیارے پیارے لوگ۔۔۔میرؔ ملیں تو ان سے کہیو اب بھی اس دکھ نگری میں۔۔۔تیرے بہانے، اپنے فسانے، کہتے ہیں دکھیارے لوگ۔۔۔دھوپ کو اپنے گھروندوں میں سمیٹے رکھو ۔۔۔جانے کب برف پہاڑوں سے اترنا چاہے۔۔۔کون تجھ کو میرے ہونے سے رہائی دے گا۔۔۔جو ملے گا میرا ہم شکل دکھائی دے گا
احمد شمیم بیشتر شعراء کی مانند نعت کہتے نہیں تھے، بناتے اور گھڑتے نہیں بلکہ عشق رسولؐ ایک بے اختیار جھرنے کی مانند اُن کے سینے میں سے پھوٹتا انہیں سیراب کرتا تھا۔
ہم بھٹکتے ہیں خلاؤں میں صدا کی صورت
کون سنتا ہے ہمیں حرف دعا کی صورت
دل کے صحراؤں میں گونجی ہے دعا زمزم کی
یا نبیؐ تیری شفا برسے گھٹا کی صورت
تیرے انفاس میں چمکا ہے سماوات کا نور
تیری صورت میں نظر آئی خدا کی صورت
ریت میں پھول کِھلے تیری محبت کے طفیل
دھوپ ویرانوں پہ برسی ہے گھٹا کی صورت
احمد شمیم کے تخلیقی معجزے کا نکھار نظم میں ہے لیکن گنجائش کم ہے۔۔۔ غزل کی مانند آپ ایک دو شعروں کا چناؤ نہیں کر سکتے نظم کا تاثر اس کی کاملیت میں ہی ظاہر ہوتا ہے تو ان کی صرف ایک نظم پیشِ خدمت ہے۔۔۔ اس کی آخری دو سطروں نے تو میرا دل روک دیا۔۔۔ یہ ایک نعتیہ نظم ہے۔
میری عُمر کا سرکش گھوڑا۔۔۔چلتے چلتے تھک جائے گا ۔۔۔اپنے لہو میں سورج، ستارے اور دھرتی بہہ جائیں گے۔۔۔میں صدیوں کی نیندیں اوڑھ کے سو جاؤں گا ۔۔۔ رُت کا فسوں، بارش کا نوحہ، بین ہوا کا۔۔۔دن اور رات کے سب ہنگامے۔۔۔مجھ سے جدا فریاد کریں گے۔۔۔ جانے والے، آنے والے۔۔۔ مجھ کو بھولنے کی خواہش میں۔۔۔مجھ کو اکثر یاد کریں گے۔۔۔پھر صدیوں کے صحراؤں میں۔۔۔میری صورت۔۔۔آنے والے، جانے والے کھو جائیں گے!۔۔۔پھر آواز کی آہٹ سُن کر۔۔۔صدیوں کے در کھل جائیں گے۔۔۔میں اعمال کا میلا کُرتا، اوڑھ کے۔۔۔زندہ ہو جاؤں گا۔۔۔تیز ہوا میں۔۔۔تپتی دھوپ میں۔۔۔جلتی بارش کے طوفان میں ۔۔۔ میں سوچوں گا۔۔۔ کیا سوچوں گا۔۔۔سوچوں گا۔۔۔ سوچ کے دریا سے اُبھرے گا ایک سفینہ۔۔۔شہرِ مدینہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ہم خوبصورت ہیں
احمد فراز
(احمد شمیم کی یاد میں)
ہمارے جسم اوراقِ خزانی ہو گئے ہیں
اور ردائے زخم سے آراستہ ہیں
پھر بھی دیکھو تو
ہماری خوشنمائی پر کوئی حرف
اور کشیدہ قامتی میں خم نہیں آیا
ہمارے ہونٹ زہریلی رُتوں سے کاسنی ہیں
اور چہرے رتجگوں کی شعلگی سے
آبنوسی ہو چکے ہیں
اور زخمی خواب
نادیدہ جزیروں کی زمیں پر
اس طرح بکھرے پڑے ہیں
جس طرح طوفاں زدہ کشتی کے ٹکڑوں کو
سمندر ساحلوں پر پھینک دیتا ہے
لہو کی بارشیں
یا خودکشی کی خواہشیں تھیں
اس اذیت کے سفر میں
کون سا موسم نہیں آیا
مگر آنکھوں میں نم
لہجے میں سم
ہونٹوں پہ کوئی نغمۂ ماتم نہیں آیا
ابھی تک دل ہمارے
خندۂ طفلاں کی صورت بے کدورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
زمانے ہو گئے
ہم کوئے جاناں چھوڑ آئے تھے
مگر اب بھی
بہت سے آشنا نا آشنا ہمدم
اور ان کی یاد کے مانوس قاصد
اور ان کی چاہتوں کے ہجر نامے
دور دیسوں سے ہماری اور آتے ہیں
گلابی موسموں کی دُھوپ
جب نو رُستہ سبزے پر قدم رکھتی ہوئی
معمورۂ تن میں در آتی ہے
تو برفانی بدن میں
جوئے خوں آہستگی سے گنگناتی ہے
اُداسی کا پرندہ
چپ کے جنگل میں
سرِ شاخِ نہالِ غم چہکتا ہے
کوئی بھولا ہوا بِسرا ہوا دکھ
آبلہ بن کر ٹپکتا ہے
تو یوں لگتا ہے
جیسے حرف اپنے
زندہ آوازوں کی صورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
ہماری خوشنمائی حرفِ حق کی رونمائی ہے
اسی خاطر تو ہم آشفتہ جاں
عشّاق کی یادوں میں رہتے ہیں
کہ جو اُن پر گزرتی ہے وہ کہتے ہیں
ہماری حرف سازی
اب بھی محبوبِ جاں ہے
شاعری شوریدگانِ عشق کے وردِ زباں ہے
اور گلابوں کی طرح شاداب چہرے
لعل و مرجاں کی طرح لب
صندلیں ہاتھوں سے
چاہت اور عقیدت کی بیاضوں پر
ہمارے نام لکھتے ہیں
سبھی درد نا آشنا
ایثار مشرب
ہم نفس اہلِ قفس
جب مقتلوں کی سمت جاتے ہیں
ہمارے بیت گاتے ہیں
ابھی تک ناز کرتے ہیں
سب اہلِ قافلہ
اپنے حدی خوانوں پر آشفتہ کلاموں پر
ابھی ہم دستخط کرتے ہیں اپنے قتل ناموں پر
ابھی ہم آسمانوں کی امانت
اور زمینوں کی ضرورت ہیں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...