کیا سیاست، جنگ اور محبت میں سب کچھ جاٸز ہوجاتا ہے ،اس محاورہ میں کافی حدتک صداقت موجود ہے،ہندو دھرم میں باقاعدہ ایسی طریقے موجود ہیں جوتین سو سال قبل مسیح لکھی جانے والی کتاب ارتھ شاستر سے اخذ کیۓ گیۓ جسے کوٹلیہ چانکیہ نے تحریر کیا وہ ایک اعلٰی پاۓ کا سیاسی مدبر تھا کوٹلیہ نام کے معنی ایسا شخص جو تھوڑے پیسوں ،خوراک پر قناعت کرے اور دکھ سکھ کی حالت میں یکساں رہے ،اس نے حقیقت میں اپنے نام کا بھرم رکھا اور ایسے اصول وضع کیۓ جو صدیوں بیتنے کے باوجود آج بھی ساری دنیا کے ممالک میں راٸج ہیں،
ارتھ شاستر سیاست ،جنگی حکمت عملی ،خارجہ پالیسی،رعایا پر قابو پانے کے طریقے،عوامی فلاح کے ادارے،اور زہر سازی و جادو ٹونے کی ایسی چالبازیاں بیان کی ہیں جن پر عمل کر کے دنیا اور رعایا پر قابو پایا جاسکے اور سب و مرعوب رکھا جاۓجو اسلحہ کے وار کے علاوہ استعمال کیے جاتےہیں کیونکہ ہر جگہ اسلحہ قابل استعمال نہیں ہوا کرتا،روایتی جنگ میں تو سرحدوں کا تعین ہوتا ہے اور روایتی اسلحہ سے لیس فوجیں زمینی اور فضاٸ حدود کی مختلف ذراٸع سے حفاظت کرتی ہیں اور انسان جانوں کے ضیاع کی صورت میں یا زمین پر قابو پاکر فتح کا اعلان کرتی ہے یہ جنگ دنیا کے ہر خطہ میں لڑی جاتی ہے مگر چانکیہ نے جنگ جیتنے کے لیۓ جادو اور زہر سازی کے ساتھ خفیہ طور پر دوسروں کی جاسوسی کو بھی پسند کیا اور مشترکہ مفادات کو ممالک میں دوستی و دشمنی کی وجہ قرار دیا،دشمن کے دشمن کو دوست بناکر کمزوریوں کا پتہ لگانا اور فتح یاب ہونا سیاست کا اہم گر قرار دیا یہی وجہ ہے کہ جنگ ہو یا سیاست حرف آخر کچھ نہیں ہوتا ،کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے دوست کسی بھی وقت دشمن بن سکتے ہیں یہ دنیا بھر کا راٸج اصول ہے ،دوسرے الفاظ میں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ ہی حقیقت ہے.
کچھ یہی حال محبت کے میدان کا بھی ہے جہاں ہتھیار مخفی ہوتے ہیں ،جیسے زمینی علاقے مخصوص ممالک کے زیر نگیں ہوتےہیں ویسا ظاہری حدود کا تعین بھی نہیں ہوتا مگر پھر بھی انسانوں کے مخصوص داٸرے ہوتے ہیں جن میں سے باہر نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے کبھی انا کا داٸرہ کبھی دولت کا داٸرہ کبھی ذات پات کا داٸرہ اور رشتوں کا داٸرہ تو سب سے مضبوط ہوتا ہے جسے توڑ کر کسی دوسرے داٸرہ میں جانا جان جوکھم کا کام ہے،محبت کرنے والے اپنے اپنے داٸروں میں گول گول گھومتے ہوۓ مد مقابل کا جاٸزہ بھی لیتے رہتے ہیںکہ کہیں کوٸ کمزور لمحے ہاتھ آجاٸیں تو دھاوا بولا جاسکے دراصل صبر بہت بڑا ہتھیار ہے محبت کی جنگ میں،بالکل جیسے بھیڑیا بہت صابر درندہ ہے اپنے غول میں بیٹھے منتظر رہتے ہیں کہ اپنا ہی کوٸ ساتھی کب تھک کر نیند کی آغوش میں جاۓ تو باقی سب بھیڑٸے مل کر نیند کی آغوش میں جانے والے کا قلع قمع کریں،یہ حال محبت کا بھی ہے جو فریق ثانی سے قربانی کے نام پر عمر بھر کا خراج وصول کرتی ہے ،اس داٸرہ میں زیادہ تر عورت کو قربانی دینا پڑتی ہے ، محبت انسان کو سنوار بھی دیتی ہے اور بگاڑ بھی دیتی ہے.ایک مرد کی محبت جب اپنی والہانہ شکل میں وقوع پذیر ہوتی ہے تو کاٸنات کا ہر ذرہ مسکرا اٹھتا ہے اور عورت پر رشک کرتا ہے ایسی عورت دنیا کو بہت کچھ دے بھی سکتی ہے اور تکبر میں آکر بہت کچھ برباد بھی کر دیتی ہے ،مرد کی دی ہوٸ محبت کو عورت کی طرف سے عزت اور مان ملے تو آٸیڈیل خاندان وجود میں آتا ہے جسے دین کی زبان میں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا دو لوگ مل کر ایک گھر کا خواب دیکھتے ہیں ان خوابوں میں سے کچھ تعبیر پاتے ہیں کچھ ادھورے رہتے ہیں جب پورے ہونے والے خوابوں کا اعزاز ایک فریق لے اور ادھورے رہ جانے والے خواب دوسرے کی ذمہ داری ٹھہریں تو ٹکراٶ ہوتا ہے اور سب کچھ چکنا چور ہوجاتا ہے ،دراصل محبت ککا رشتہ ایک دوسرے کو انسان ماننے سے شروع ہوتا ہے ایک دوسرے کی خامیوں کو نظر انداز کر کے خوبیوں کو سراہنا طنز وتحقیر کے نشتر سے بچنا اور ایک دوسرے کے لیۓ ایسی چھاٶں بننا ہے جو ہر بدلتے موسم میں اپنا رنگ موسم کی شدت کو معتدل کر دے محض باتوں کی سیڑھی پر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی نہ کھینچ لی جاۓ بلکہ ایسی فضا بنے جس سے فریق ثانی دنیا کے سامنے قابل قدر کارہاۓ نمایاں انجام دے سکے اور دنیا میں اپنے وجود کی منتہا تک پہنچ پاۓ کیونکہ ”زوج“ کا اصل معنی یہی ہے مگر چانکیہ کے اصول محبت پر بھی لاگو ہوتے ہیں یہاں بھی جادو ٹونا اور زہر سازی قابل عمل ٹھہرے ہیں ایک دوسرے کو پانا یا نہ پانے کی صورت میں انتقام کی آگ جلا کر انسان کو راکھ کر دیتی ہے اور جو بہت تگ ودو کے بعد ایک دوسرے کو پا لیتے ہیں وہ ملکیت کے احساس میں ڈوب کر محبت کو اندھی وادیوں میں دھکیل دیتے ہیں اور پھر قسمت سے شکوہ کناں ہوتے ہیں کہ سوچا کیا تھا اور ہوکیا گیا