“محبت” انسان کو پیدائشی طور پر ودیعت نہیں ہوتی شاید اسی لیے یہ اب تک جینیات میں دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کا سبق ہمیں بچپن سے پڑھایا جاتا ہے، خدا سے محبت سے لے کر انسان سے محبت تک، جانوروں سے محبت سے لے کر مٹی سے محبت تک۔ جنسی عمل جاندار کی جبلت ہے اور کشش و لگاؤ مامالیائی صفت۔ جبلت اور صفت مل کر اس سبق پر عمل پیرا ہونے کا وصف بنتا ہے جس کی تبلیغ و تشہیر میں سارے ہی ذرائع، سماج سے ابلاغ تک، شعوری طور پر ہمہ تن مصروف ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ محبت کا رواج ثقافت کی دین ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
ماہرین نفسیات محبت میں مبتلا ہونے کے ضمن میں دو نکات کا خصوصی ذکر کرتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر انسان نفسیات کے حوالے سے مختلف نہ ہوتے جس طرح جانور جبلت اور ضرورت کے تحت ایک سے ہوتے ہیں تو کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص سے محبت نہ کر سکتا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ محبت اصل میں نفرت کا عکس معکوس ہے۔ محبت سے پہلے نفرت کا ہونا ضروری ہے۔ ہر انسان اصل میں نامکمل ہے۔ دوسرے شخص میں اپنی شخصیت کے معدوم اجزاء یا صفات کو دیکھ یا آنک کر حسد کا جذبہ سر اٹھاتا ہے اور اگر اس شخص تک رسائی ہو جائے تو حسد رشک میں ڈھل کر ان صفات کے آگے سر نیہوڑا دیتا ہے پھر محبت پر اکتفا کرکے اپنی ذات کی تکمیل کا نہ پورا ہونے والا خواب دیکھنے لگ جاتا ہے۔
اپنی ذات کے بارے میں عدم اطمینان، نامکمل ہونے کا شعور، ناستلجیا یا تنہائی کا احساس اور ضرورت کی خواہش یہ سب مل کر محبت کے سراب کی رغبت کا باعث بنتے ہیں۔ اکثر لوگوں میں یہ بے چینی لاشعوری ہوتی ہے مگر بعض لوگوں میں اس کا شعور معمولی سے اضطراب، جوہڑ کی سی ساکت بے اطمینانی یا بلاوجہ پریشان ہونے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ان مطالبوں کو پورا نہ کرنے کی پیشیمانی ہوتی ہے جن کا تقاضا انسان کی ذات خود سے کرتی ہے۔ اپنے آپ کو یا دوسروں کو اس کے بارے میں چاہے جو بھی جواز پیش کیے جائیں لیکن یہ کیفیت اصل میں ذاتی نااہلیت یا ذاتی ناکافی پن کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔
اگر ہم اپنے آپ سے دیانت دار ہیں (جو ہم کبھی نہیں ہو سکتے) تو ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم اپنے آپ سے کبھی کبھار ہی مطمئن ہو پاتے ہیں۔ ہمیں اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں سے پورا فائدہ اٹھانے کی مکمل صلاحیت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی ہم زندگی میں حاصل کردہ مقام سے از بس خوش ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے ذہنوں میں اپنے بارے میں جو وجدان ہے وہ درحقیقت اس شخصیت کا عکس ہوتا ہے جو ہمیں واقعی ہونا چاہیے۔ جب ہم کبھی کبھار سنجیدگی سے اپنی ذات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پچھڑا ہونے کا احساس اپنے لیے ہی ترس میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اس تصور کو نفسیات کی اصطلاح میں ” مثالی انا ” یعنی Ego ideal کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح فرائڈ کی اصطلاح “مافوق الانا” یعنی Superego سے زیادہ مناسب ہے اگرچہ دونوں اصطلاحوں کا مطلب تقریبا” ایک ہے لیکن محبت کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اوّل الذکر اصطلاح کم تجریدی محسوس ہوگی۔ اس اصطلاح کو فرائڈ کی اصطلاح کی طرح جگہ جگہ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
ہم اپنی اس ذات سے جو کہ وہ ہونی چاہیے یعنی ” عملی انا”، جسے آپ چاہیں تو پسندیدہ انا کہہ لیں، کئی طرح سے پیش آتے ہیں۔ بعض اوقات اس کے خلاف بغاوت بھی کرتے ہیں مگر اکثر اوقات خصوصا” عالم جوانی میں ہم اس کے معترف ہی رہتے ہیں اور اس کو انتہائی قیمتی جانتے ہوئے اسے خفیہ خزینے کی طرح محفوظ رکھتے ہیں۔ ہماری تعریف کے برعکس ہماری ذات ہماری جانب سرد مہری اور بعض اوقات ناپسندیدگی کے ساتھ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ بمشکل ہی ایسا ہوتا ہوگا کہ ہماری ذات ہم سے مطمئن ہو اور وہ بھی لمحاتی طور پر۔
ذات ہم پر ملامت ہی کرتی رہتی ہے۔ کبھی کبھار ہم جھوٹ موٹ تصور کر لیتے ہیں کہ ہماری زات وہی ہے جس کی ہم نے تصویر کشی کی ہوئی ہے اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ جو ہمیں ہونا چاہیے ہم اس سے قطعی طور پر مماثل نہیں ہیں۔ ذات کا یہ بڑھایا چڑھایا ہوا تصور یعنی Ego ideal نہ تو عورت ہوتا ہے اور نہ مرد۔ بس یہ وہ ہوتا ہے جو ہم ہونا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنی ایک تصویر بناتا ہے جو حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔ اپنی ذات کے آئینے میں ہمیں اپنا حقیقی عکس پسند نہیں ہوتا اس لیے اس میں ہم اپنی مرضی کے رنگ بھر لیتے ہیں۔ یہ نقلی تصویر ہم بس خود کو ہی دکھاتے ہیں۔ یہ تصویر دوستوں کو اس لیے نہیں دکھا سکتے کیونکہ ہم شرمسار ہوتے ہیں۔ اس میں ہم سے ملتی جلتی بات اصل میں کم ہی ہوتی ہے۔
درحقیقت یہ تصویر ذات ہمارے آخری بچپنے کا ایک نفسیاتی اظہار ہوتی ہے جس کے دوران ہمیں اپنی ذات کی عدم تکمیل کا شعور ہونے لگتا ہے۔ بچے کو بچپن کے اوائل میں وہ تضاد معلوم ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ وہ والدین بالخصوص ماں کا کہا ماننے کی کوشش کرتا ہے لیکن بچے کے اپنے شوق اور خوشیاں ہوتی ہیں۔ وقت گذرتا ہے ہم پسندیدہ انا کو گاہے بگاہے بالکل بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے کہ بعض اوقات اس سے بغاوت کرنے کی سعی بھی کرتے ہیں لیکن اس کوشش میں کم ہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔
یہ ساری عمر ہمارے ساتھ رہتی ہے اور ہمیں ملامت کرتی رہتی ہے کہ جس طرح کا تمہیں ہونا چاہیے تھا تم ویسے نہیں ہو تاہم بڑھاپا آنے کے بعد اس کے تقاضے کم ضرور ہو جاتے ہیں۔ بالآخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس کے ہم سے مطالبے بےجا اور حد سے زیادہ تھے اور یہ کہ ان کی تکمیل کا اب وقت ہی نہیں رہا۔ ہم ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھتے ہیں یعنی محبت میں مبتلا ہونے سے گریز کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔
پر شخص کی شخصیت کا تعین اس کی اصل ذات اور پسندیدہ ذات یعنی Ego ideal اور ان دونوں کے درمیان کی خلیج کی جانب اس کے رویوں سے ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی تصور “تصور محض” نہیں ہے کیونکہ تصور خلاء سے جنم نہیں لیتا۔ تصور اصل زندگی سے ہی ابھرتے ہیں۔ پسندیدہ ذات کی بنت بھی حقیقی زندگی کے کرداروں کے پسندیدہ اجزاء سے ہوتی ہے۔
ان کرداروں میں والدین، اساتذہ، مرد اور عورت سب شریک ہوتے ہیں جن میں سے کچھ کی ہم عمر بھر تعریف کرتے ہیں۔ بچپن میں پسندیدہ ذات کی تصویر مرتب کرنے میں بھائیوں، بہنوں، دوسرے بچوں، اجنبی لوگوں، کتابوں، تصویروں میں موجود کرداروں کے اچھے اور پسندیدہ اوصاف شامل ہوتے ہیں جنہیں ہم تعصب بھرے رشک سے دیکھتے ہیں اور شک میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم ایسے کبھی نہیں ہو سکتے۔ ہم ان کے سامنے شرمساری محسوس کرتے ہیں۔ بڑے ہونے پر ان کے اوصاف ہمارے لیے زندگی کے مختلف شعبوں میں جگہ بنانے کے لیے مثالی بن جاتے ہیں۔
بچپن اور لڑکپن میں ذات کے ماڈل (Ego Model) پوری عمر ہمارے لیے اہم رہتے ہیں۔ ہم جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہوئے اپنے پسندیدہ افراد کے بہتر اجزائے صفات کی خود میں تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن یہ ایک ایسی خلیج ہے جو پاٹے جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ اس طرح عدم اطمینان اور عدم تکمیل کا احساس جنم لیتا ہے اور محبت کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تاکہ کسی اور کے ذہنی و جسمانی اختلاط سے ذات کی تکمیل کیے جانے کا چارہ ہو اور اطمینان مل پائے۔
محبت بعض اوقات اس لیے بھی ضروری ہو جاتی ہے کہ “پسندیدہ ذات” کی تکمیل کا احساس انسان کو اطمینان سے ہمکنار کرتا ہے اگرچہ وہ محبت کی صورت میں یکسر عارضی نوعیت کا ہوتا ہے کیونکہ ذات کی تکمیل کی صدا مسلسل اٹھتی رہتی ہے اگر یہ آواز بند کی جا سکتی تو شاید لوگ محبت سے پاک ایک خوش باش زندگی بسر کرتے۔
ایسا ہونا انسانی سماج میں ناممکن ہے۔ محبت تکمیل ذات یعنی پسندیدہ ذات میں ڈھلنے کے احساس کا متبادل ہے۔ سچ کہا جائے تو یہ خود سے محبت سے زیادہ خود سے نفرت ہے۔ پسندیدہ ذات کے حصول کی خاطر محبت کی جاتی ہے جو کبھی خود مکمل نہیں ہوگی۔ محبوب سامنے آ کر عارضی طور پر پسندیدہ ذات کی جگہ لے لیتا ہے دوسرے لفظوں میں محبت کا مطلب پسندیدہ ذات کا اس بیرونی معروض سے تبادلہ ہوتا ہے جس میں ان تمام صفات کا اجماع محسوس ہوتا ہے جو ہم میں اپنے طور پر مفقود ہوتی ہیں۔ محبت کرکے ہم یہ بوجھ اتار کر دوسرے کے کندھے پر ڈال دیتے ہیں اور سکھ کا سانس لیتے ہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے ہم اپنی پسندیدہ ذات کی تصویر کسی دوسرے کی شخصیت پر منعکس کر دیں، اس انعکاس سے وہ نفسیاتی تشنج دور ہو جاتا ہے جس کے کرب سے ہم مضمحل ہوتے ہیں۔اس طرح یہ اندرونی انتشار عارضی طور پر تو رفع ہو جاتا ہے مگر پھر عود کر آتا ہے جس کے باعث انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ ایک شخص کسی مقصد کے حصول میں جان کھپاتا ہے تو دوسرا محبت کے گڑھے میں گر کر عارضی استراحت کو فوقیت دیتا ہے کیونکہ یہ بھی تو ایک نفسیاتی قصد ہی ہے۔
محبت کی پہلی شے (Love object) رنگ بھری انا ہے یعنی ذات کا وہ بھوت جس کا عکس ہم نے جاگتی انکھوں کے خوابوں میں وضع کیا تھا اور اس کی مار میں آنے والا دوسرا شخص اس عکس کی حقیقی تعبیر کے مترادف تھا کیونکہ تصور باہر کے افراد کی صفات سے مرعوب ہو کر مرتب کیا گیا تھا۔ یہ محبت اپنے بچپن میں تیار کردہ رنگ بھری تصویر کے تشخص کی جانب مراجعت ہے اور اس کے بعد ہونے والی ہر محبت پرانی تصویر کا ہی ایک مختلف اظہار ہوتی ہے۔
یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ ذات کی تکمیل کے احساس سے بلند کیوں نہیں ہوا جا سکتا یا اس بارے میں صبر کیوں نہیں ہوتا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ محبت کے اس “گھن چکر” یا “مایا جال” میں دو افراد اپنے اپنے Ego ideal کا تبادلہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے محبت کر ہی اس لیے رہے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے میں اپنے لیے چاہے جانے والی صفات کو دیکھتے ہیں۔ اگر یہ مایاجال نہ ہوتا تو کوئی بھی کسی کی محبت میں کبھی گرفتار نہ ہوتا۔
ہم محبت کرتے ہی اس لیے ہیں کہ ہم اپنی “رنگ بھری ہوئی ذات” کو حقیقی رنگ دے ہی نہیں سکتے، یہی قلق و اضطراب ہمیں ایسا کرنے کی جانب دھکیلتا ہے۔ ایک مخصوص نفسیاتی سطح کی ذات یا ایگو آئیڈیل انسانی ترقی کا محرک بھی ہے کیونکہ اگر لوگ مکمل طور پر اپنی ذات سے مطمئن ہو جائیں تو ان کے لیے محبت کرنا ناممکنات میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہم اپنی ذات کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر زندگی کے دوسرے کام نمٹانے میں لگ جاتے ہیں۔ جس سے محبت ہوتی ہے وہ بھی اصل میں ایک تخئیل کی تجسیم ہوتا ہے۔ اس کی اپنی ذات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کھونٹی پر ہم اپنی ذات کے بارے میں خواہشوں کے سراب ٹانگ دیتے ہیں جبکہ وہ شخص، محض ایک مواد ہوتا ہے، ایک پتھر کی مانند جسے آپ تراش کر ایک مجسمہ بنا چکے ہوتے ہیں۔ تبھی تو اکثر محبت کرنے کے دعویدار لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں،” پتہ نہیں میں تم سے اتنی محبت کیوں کرتا/ کرتی ہوں”:
کیا پیار اندھیرے روشنی کا گھمچال نہیں
کیا پیار اک مایا جال نہیں؟
محبت اپنے تمام رومانی جذبات اور جنسی فعالیت کے باوجود ایک دھوکہ ہے کیونکہ اپنی جذباتی شکست و ریخت پر اپنے ہی جیسے فانی اور ٹوٹے ہوئے شخص کا مرہم لگانے سے کیسے اس شکست و ریخت کو ختم کیا سکتا ہے؟ اپنی ناامیدی کو پھسلایا،ورغلایا جانا ممکن نہیں اور جسمانی تعلق کے توسط سے حقیقی محبت یعنی عشق کی راہ پا لینا عبث ہے۔
لگتا ہے جیسے رشک حسد کی دوسری شکل ہے، کچھ مثبت سی۔ یہ سوچنا کہ فلاں کا اپنا گھر کیوں ہے (خدا کرے جل کر راکھ ہو جائے) حسد کہلائے گا اور اس کا اپنا گھر ہے (میرے پاس بھی ہو چاہے اس کا ہی کیوں نہ ہو) رشک ہوگا لیکن جو چیز آپ کے پاس نہیں ہوتی اس کو پانے کی خواہش ہی رشک ہوتی ہے اور اگر یہ خواہش باوجود کوشش کے پوری نہ ہو پائے تو حسد بن جاتا ہے یعنی رشک دراصل حسد کی کونپل ہے چنانچہ رشک مثبت معانی نہیں رکھتا۔ رشک کا جذبہ ہر شخص میں ہوتا ہے کیونکہ خصائل سے وسائل تک سب کے سب ایک شخص کے پاس نہیں ہوتے۔ رشک کے جذبے کا اظہار کم ہی کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے اظہار سے آپ کے پاس باعث رشک شے کے نہ ہونے کا زیادہ گمان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جب آپ رشک کرتے ہیں تو اپنی کم مائیگی کا اعتراف بھی کر رہے ہوتے ہیں یعنی اس کا اظہار باعث خفّت اور اس کے نتیجے کا اعتراف کرنے کا مطلب ہوگا کہ آپ کا سماج کے سامنے قد کم ہو جائے گا۔
تعریف کرنا رشک کی ہی کڑی ہے مثلا” جب کوئی کہے کہ فلاں تو بے حد حسین ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ کہنے والا شخص یہ باور کر رہا ہے کہ وہ اتنا حسین نہیں ہے۔ یا مثلا” کوئی کہے کہ فلاں خود کو بہت ذہین و فطین سمجھتا ہے، کیا خاک ذہین ہے وہ۔ تو وہ دراصل اس پر خاک ڈال کر اس کی ذہانت کو تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔ رشک میں ترقی کے دو مدارج ہیں یا تو رشک کرنا چھوڑ دیا جاتا ہے اور لاتعلقی اختیار کر لی جاتی ہے یا پھر یہ بڑھ کر نفرت اور عداوت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی محبت کے پس پردہ عامل نفرت ہے تو بظاہر یہ منطق عجیب و غریب لگے گی مگر جب آپ ایک غیر مطمئن انا کو مدنظر رکھتے ہیں جو اپنے اطمینان کی خاطر قابل رشک شے کے حصول کی خواہاں ہوتی ہے تو یہ منطق سمجھنا اتنا مشکل نہیں رہتا۔
ضرورت ہی لالچ کو جنم دیتی ہے۔ محبت کی مرض میں لالچ، اختیار، حصول، قبضہ، ملک ایسے سبھی منفی جذبے موجود ہوتے ہیں۔ کسی شخص کو اپنے ورطہ اختیار میں لینے یا اپنانے کی جذباتیت جراثیم ہے اور ایک لاشعوری عناد مرض کی اولیں علامت۔ عموما” یہ علامت واضح نہیں ہوتی کیونکہ لاشعوری ہوتی ہے مگر بالآخر حسد، نفرت، بے رخی اور عناد، محبت نما وقت گذر جانے کے بعد عیاں سے عیاں تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اس کی مثال اس ندی جیسی ہے جو بڑے دریا میں گر کر لگتا ہے جیسے اس میں ضم ہو گئی ہو مگر کچھ دور جا کر یہ ندی پھر سے اپنی حیثیت میں دوبارہ ابھر آتی ہے۔ یہ منفی جذبے جو محبت کرنے والوں میں ایک خاص وقت گذر جانے کے بعد ابھرتے ہیں، نئے نہیں ہوتے بلکہ یہ انہیں جذبوں کا پرشور اظہار ہوتے ہیں جو لگاؤ کے باعث عارضی طور پر خاصے ماند پڑ چکے ہوتے ہیں۔
عناد یا نفرت کے برعکس بے رخی ایک ایسا جذباتی پہلو ہے جس سے محبت کے چشمے کا عود کر آنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ عام زندگی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جب کسی شخص سے نفرت کی جائے تو محبت کا دروازہ کہیں نہ کہیں ہوتا ہے اس کے برعکس جب نہ تعلق ہو نہ عداوت تو بات دوسری ہوتی ہے۔
لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
ہو نہ کچھ تو اور دھوکہ کھائیں کیا؟
لاگ پر لگاؤ کی فوقیت ایک بڑے جذباتی ردعمل کے تحت ہوتی ہے۔ یہ بہت دیر تک طے نہیں ہو سکتا کہ دونوں میں سے دشمن کون ہے اور دوست کون کیونکہ لگاؤ کی وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہی نہیں ہے۔ لاگ کو شکست ہو گئی تھی لیکن اس نے شکست مانی کبھی نہیں تھی۔ یہ کہنا فضول بات ہے کہ محبت ایک جامد حالت ہے مگر محبت جانتی ہے کہ اس نے ایک ضدی مزاحمت پر قابو پایا تھا جس کے خلاف دفاع کی مسلسل ضرورت رہتی ہے کیونکہ وہ کسی بھی وقت سر اٹھا سکتی ہے۔
محبت جس طرح شروع ہوتی ہے اسی طرح دم توڑتی ہے۔ اگر ایک نظر کا پیار تھا تو یہ بندھن یک لخت ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر محبت کے دوران کوئی رکاوٹ نہیں آئی تھی تو اس کا خاتمہ بھی بغیر رکاوٹ کے ہوگا۔ اگر یہ علالت رونے دھونے اور دکھ تکلیف سے شروع ہوئی تھی تو اس کا انجام بھی انہیں اعمال کے ساتھ ہوگا۔ اگر یہ عمل ترس کھائے بغیر ختم ہو رہا ہوتا ہے تو چوٹ کھانے والا دوسرے کو ظالم گردانے گا اور اگر ترس کھاتے ہوئے اس کو توڑنے کے عمل سے گذرا جائے گا تو یہ زیادہ ظالمانہ محسوس ہوگا۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب سے مایوس ہو جاتا ہے یا یہ کہ اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ یہ تو وہ شخص ہی نہیں تھا جس کا اس نے خواب دیکھا تھا۔ ساتھ رہ کر قریب آنے سے وہ بھیانک نظر آنے لگتا ہے۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ محبوب عموما” زیادہ تبدیل نہیں ہوتا بس محبت کرنے والے کا دیکھنے کا زاویہ بدل جاتا ہے اس لیے اسے لگتا ہے کہ جو کچھ وہ دیکھ رہا ہے یا محسوس کر رہا ہے وہ بدلا ہوا، نیا اور عجیب و غریب ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے چونکہ محبوب کا تصور بہت مضبوط ہوتا ہے جس کے سحر میں گرفتار انسان یا تو نقائص و عیوب پر نگاہ ہی نہیں ڈالتا یا انہیں قابل تحسین محاسن سمجھ رہا ہوتا ہے یا انہیں اتنی اہمیت ہی نہیں دیتا۔
پھر اس نے اپنی پسندیدہ انا کی تسکین کی خاطر قائم کردہ تصور میں اتنے خصائل و اوصاف ڈھالے ہوئے ہوتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے نقائص و عیوب پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ پہلے پہل محبت کرنے والا ان پر معترض نہیں ہوتا، عیوب و نقائص کو دیکھتے ہوئے، جانتے بوجھتے ان کی اصلاح کرنے سے اغماض برتتا ہے کیونکہ محبت کے بخار میں اسے اس کی خواہش ہی نہیں ہوتی۔ اپنے ذہن میں ایک مثالی تصور بنائے ہوئے وہ محبت کو تعریف و محاسن کے رنگ میں ہی دیکھنے پر مائل ہوتا ہے۔
جب واپسی کا سفر غیر محسوس طور پر یا پھلانگتے ہوئے شروع ہوتا ہے تو اسے چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نظر آنے لگ جاتی ہے۔ وہ محبوب کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر بھی منہ بسورتا ہے، شکوے کرتا ہے اور فساد کھڑا کر دیتا ہے۔ کیا وہ اپنے مثالی متصور محبوب سے مایوس ہو گیا جو آخر انسان تھا کوئی دیوی یا دیوتا نہیں تھا؟ جی ہاں، لیکن ہوا کیا؟ محبت کرنے والا دراصل خیالی دنیا سے حقیقی دنیا میں واپس آ گیا ہوتا ہے۔ تصور کردہ محبوب اور محبوب بطور حقیقی شخص میں تمیز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس نے ایک تصور سے ہٹ کر اب محبوب کا کوئی اور تصور بنا لیا ہو۔
محبوب کے سامنے آنے سے پہلے ہی محبت کرنے والے کے ذہن میں محبوب کا ایک تصور ہوتا ہے۔ اصل محبوب کی متصور محبوب سے لڑائی ہوتی ہے اور وہ ایک بہتر شکل اختیار کرتا ہوا تصور پر چھا جاتا ہے تاحتٰی پہلے سے بنا تصور اور اب موجود شخص یعنی محبوب کے بارے میں رنگ بھرا بہتر تصور ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔
ایک وقت آتا ہے کہ بالکل ہی معکوس عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اصل شخصیت اور اس کی رنگ بھری ذہنی تصویر آہستہ آہستہ یا بھک سے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں۔ اب جس شخص کو آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اس تصور سے مماثل ہی نہیں ہوتا جو کہیں پہلے سے آپ کے ذہن میں جا گزیں ہوتا ہے۔ یوں محبت کے خواب محل میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں یا پھر وہ کانچ گھر کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔
مگر محبت اتنی جلدی ہار نہیں مانتی۔ جس شخص کو آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اور ہے وہ نہیں، جو باتیں آپ سن رہے ہوتے ہیں وہ دوسری ہیں، پہلے جیسی نہیں۔ یہ عمل اذیت ناک ہوتا ہے مگر جب مدغم شدہ تصاویر بالکل جدا ہو کر علیحدہ علیحدہ دکھائی دینے لگتی ہیں تو محبت کا احساس بھی مر جاتا ہے۔
محبت کے دم توڑنے کے جذباتی پہلو قطعی مختلف ہیں۔ یہ محبت کرنے والے کی انا میں واقع ہونے والی تبدیلیوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ انا تو اپنی مستور مثالی انا یعنی ایگو آئیڈیل کو فتح کرنے نکلی تھی۔ اس کی ساری جدجہد ہی اس نقطے پر مرکوز تھی۔ عارضی طور پر یہ شبیہہ اسے ایک محبوب میں دکھائی دے گئی تھی لیکن اصل تصور تو بذات خود نازک شے ہے۔
آئیڈیل تو مل ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ تصور انسانی نہیں بلکہ ماورائے بشر ہے۔ انا کو اپنا مشن یک لخت ناکام دکھائی دینے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے خیال میں آپ کی محبوبہ کو معصوم اور عزت مآب ہونا چاہیے لیکن لاشعوری طور پر آپ چاہتے ہیں کہ وہ حرافہ، فاحشہ، گناہکار اور کسبی کے رویوں والی ہو۔ اس بارے میں شعوری طور پر آپ کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یہ خیال اور تصور الٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے یہ دونوں طرح کے خصائص ایک ہی انسان میں یک جا ہوں یا کر دیے جائیں اور آرزوئیں پھر بھی پوری نہ ہوں۔
اگر ایک طرف کا پلڑا بھاری ہوتا ہے تو دوسری طرف کے پلڑے کے بھاری ہونے کی خواہش سر اٹھا لیتی ہے۔ یہ خواہشیں عملا” ایک دوسرے کے متضاد ہوتی ہیں۔ ان تمام خواہشوں کو پورا کرنا، ان تمام خصائص کو ایک ہی شخص میں مرتکز کرنا انسان کے بس میں ہے ہی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے “ایگو آئیڈیل” کا ایک ہی رخ معلوم ہوتا ہے جبکہ دوسرا رخ اندھیرے میں رہتا ہے۔ اس سارے قضیے میں لاشعور ملوث ہوتا ہے اور اگر لامحالہ یہ کھل کر ہمارے سامنے آ بھی جائے تو ممکن ہے وہ ہمیں پسند ہی نہ آئے۔
جب محبت کرنے والا اس شخص پر جس کی محبت کا وہ سزاوار ہوتا ہے، اعتراض کرتا ہے تو وہ خود پر اعتراض کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی مثالی انا کو پورا نہیں دیکھ پایا تھا۔ محبت میں ناکام ہونے والے دونوں ہی فریق ہمیشہ ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہراتے ہیں اس لیے کہ دونوں ہی کے مثالی تصور پورے نہیں ہو پاتے۔ اس پر بحث کرنا اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرنے اور مخمصے میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے۔
اس کی بڑی اچھی مثال والٹیئر نے دی تھی کہ دو شخص ہوتے ہی نہیں۔ والٹیئر نے ایک نکتے پر کسی شریف شخص سے بحث کرنے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بحث میں بہت زیادہ لوگ ملوث ہیں۔ اس شخص نے حیران ہو کر کہا تھا،”جناب ہم دونوں ہی تو ہیں بس” لیکن والٹیئر نے کہا تھا،”آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے محترم۔ اس بحث میں کم از کم چھ آدمی محو گفتگو ہونگے۔ ایک وہ آدمی جو میں آپ کو سمجھتا ہوں، ایک وہ آدمی جو آپ اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور ایک وہ آدمی جو آپ اصل میں ہیں اور تین میری طرف سے بھی لگا لیجیے”۔
یہ سب ان کے بارے میں ہے جو ایک بار یا چند بار محبت کا مزہ چکھتے ہیں۔ مگر ان لوگوں کی نفسیات کیا ہوتی ہے جو بار بار یہ شہد چاٹتے ہیں، یا یوں کہہ لیں جنہیں محبت کرنے کی لت لگ جاتی ہے۔ ہر لت کی جڑیں کسی درد یا بدصورتی میں گڑی ہوتی ہیں جس سے چھٹکارہ پانے کے لیے وہ شخص مدہوشی کا سہارا لیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ مدہوشی کسی عام فہم کیمیائی مادے یعنی نشہ اور چیز سے ہی ہو۔ یہ مدہوشی کا عالم جوئے کی لت میں بھی ہو سکتا ہے اور جنسی اختلاط کے حظ میں بھی کیونکہ اس سے انکار کرنا یا اس کا اقرار کرنا کہ جنسی عمل میں تلذذ ہوتا ہے، بے معنی ہے۔ ظاہر ہے ہوتا ہے، تلذذ کے نشے کے ضمن میں ایک مثال یہ ہے کہ 1950 کی دہائی میں تحقیق کرنے والوں نے تجربہ کیا تھا کہ برقی انگیخت کے انتہائی لطف آور عمل کا دماغ پر کتنا اثر ہوتا ہے۔ اس انگیخت کے حصول کی خاطر چوہوں کو لیور دبانا ہوتا تھا، چوہے لیور دبا دبا کر اس انگیخت کی خاطر نڈھال ہو جاتے تھے مگر لیور دبانا جاری رکھتے تھے۔
محبت کرنے کی لت میں مبتلا شخص کو اپنی نومولودانہ خواہشات کا گیان نہیں رہتا، یہی خواہشیں بڑے ہو کر جنسی تصورات میں ڈھل جاتی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اسے مکمل اور غیرمشروط توجہ حاصل رہے۔ ایسے لوگوں کو یہ توجہ بار بار کے تقاضوں سے مل تو جاتی ہے مگر محبوب کے ماں بن جانے یا اس کی توجہ کاروبار حیات میں زیادہ ہو جانے سے انہیں شدید بے بسی کا احساس ہونے لگتا ہے اور وہ جھنجھلا جاتے ہیں۔ توجہ حاصل کرنے کا یہ سفر تھمنے کا نام نہیں لیتا اور ساتھ ہی وہ تلذذ کی لت میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہر محبوب کو وہ یہی باور کراتے ہیں کہ وہ اصل محبوب ہے پر ساتھ ہی ساتھ دوسرے اور تیسرے کو بھی یہی احساس دلائے رکھتے ہیں۔اس طرح زیادہ سے زیادہ توجہ اور تلذذ حاصل کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ قوٰی نے مضمحل تو ہونا ہی ہوتا ہے اور توجہ کی نوعیت نے بھی بدلنا ہوتا ہے۔ پھر ایسے لوگوں کو یکسانیت کا احساس یاسیت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔
محبت کی نفسیات کی توضیح کے لیے اور بھی کئی نظریے ہو سکتے ہیں کیونکہ نفسیات کا علم بذات خود مشاہدات اور تجزیات پر مبنی ہے۔ ان دونوں ہی افعال یعنی محبت اور جنسی عمل کی انفرادی اساس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی نفسیات کو سمجھنے کی خاطر تجرباتی جانوروں پر تجربات کیے جا سکتے ہیں لیکن بذات خود انسانی نفسیات کے ساتھ نہیں کھیلا جا سکتا البتہ اس عارضہ، المیہ یا حماقت کے جنسی عمل کی جانورانہ جبلت سے تعلق کے بارے میں تمام مکاتیب فکر متفق ہیں اور اس سے بھی کہ بچپن کے دبے ہوئے احساسات اس میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں اور اس بارے میں بھی کہ یہ روحانی مسئلہ ہرگز نہیں ہے بلکہ محض اور محض اکتسابی معاملہ ہے جس میں معاشرت اور انسانی ذہن دونوں ملوث ہوتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...