اک پل کی تھی بس حکومت یزید کی
صدیاں حسین کی ہیں،زمانہ حسین کا
حضر طارق بن شہاب سے مروج ہے کہ ایک شخص نے آپٌ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ کونسا جہاد افضل ہے ۔
آ پٌ نے فرمایا :
ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے ۔
اور پھر ایک وقت آ یا کہ نواسہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے یہ جہاد کرکے حالت نماز میں سر کٹوا کر اسلام کا سرچشمہ ہمیشہ کے لیے بلند کر دیا ۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ دس محرم صبح امام حسین رضی اللہ عنہ کے بال مبارک کالے تھے جو کہ دوپہر تک سفید ہو گئے ۔
لیکن پھر بھی وہ کلمہ حق پر ڈٹے رہے ۔وہ حوض کوثر کے مالک جن کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خاتون جنت ہیں ۔ اُنہوں نے اپنی جان نثار کر دی، پر یزید کو بیت نہ کی۔
محرم مسلمانوں کا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے۔
نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
جس نے حسن و حسین سے محبت کی گویا اس نے مجھ سے محبت کی۔
آپٌ اپنے نواسوں سے اتنا پیار کرتے کہ ان کی سواری بن جایا کرتے تھے۔
ایک اور جگہ پر فرمان نبوی صلی علیہ وآلہ وسلّم ہے کہ
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔
حسن علیہ السلام سینہ مبارک سے اوپر سر تک اور امام حسین سینہ سے نیچے آپٌ سے مشابہت رکھتے ہیں۔
حضرت عبداللہّ بن عمر فرماتے ہیں کہ عمر فاروق نے فرمایا کہ
اللہ تعالیٰ نے تین موقعوں پر میری راۓ کے مطابق حکم نازل فرمایا :
1) امہات المومنین کے پردہ پر
2) مقام ابراہیم کو نماز کے لیے مصلیٰ بنانے
3)جنگ بدر میں قیدیوں کے لیے
مسلم شریف(2399)
حضرت عمر کی وفات بھی محرم الحرام میں ہوئی وہ دو لاکھ مربع میل تک کے حکمران رہے۔ اسلام کو رائج کروانے میں بہترین حکمت عملی اختیار کی۔
کیونکہ جب اسلام کمزور تھا تو رسول خدا نے التجا کی ۔
یا اللہّ ابو جہل بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے جو تجھے محبوب تر ہے اس کے ذریعے اسلام کو سر بُلندی سے نواز۔
اور خدا نے حضرت عمر چُن لیے تو آپ نے فرمایا ان دونوں میں سے خدا کے پسندیدہ عمر تھے ۔
پھر
علی نے نہیں کہا کہ میں مولا ہوں
محمد صلی علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ علی مولا ہے
مطلب جیسا کہ ہم مسلمان ہیں خدا روز آخرت اور آپٌ کو اپنا آخری نبی مانتے ہیں اور محرم صرف شیعہ کا ہی مہینہ نہیں ہے بلکہ تمام مومنین مسلمانوں کے لیے غم گزاری کا مہینہ ہے۔
کیونکہ خلیفہ راشدین ہوں یا اہل بیت سب نے اسلام کی بلندی اور حکم خداوندی کی پیروری کی ہے۔
خصوصاًاہلبیت کا غم امت مسلمہ کا سب سے بڑا غم ہے۔اس میں شعیہ،سنی،حنفی،بریلوی کی کوئی تقسیم نہیں کیونکہ جب ہم مسلمان ہیں تو پنجتن سے محبت بھی ایمان کا لازمی جزو ہے ۔کیونکہ اس میں رسول خدا ان کی سا جزاسی حضرت بی بی فاطمہ ،علی شیر خدا اور ان کے دو نواسے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی مسلمان ان سے پیار یا ان کی عزت و احترام سے انکار کرے۔
اور جو ان کے وجود کو نہ مانے وہ مسلمان کیسے ہو سکتا ہے۔
اقبال نے بھی فرمایا کہ تمام مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہوں وہ ایک ہی قوم ہیں کیونکہ ہم سب کا مقصد جو ایک ہے خدا اور اس کے رسول کی پیروری کرنا ہے لیکن ہم اپنے مقصد سے ہٹ کر فرقوں ،گروہوں اور تفرقوں میں بٹ کر کمزور ہو گئے ہیں ۔
صحابہ کرام ہوں یا اہلبیت سب نے راہ حق کا درس دیا۔اللہ کا پیغام دنیا میں پھیلایا دشمن کے آگے نہ جھکے اگر اہلبیت اور صحابہ کی شان میں فرق ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم صحابہ سے کیسے رشتہ داری کرتے کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داماد تھے اور علی شیر خدا آپٌ کے داماد تھے ۔
رشتہ داری برابری میں کی جاتی ہے نہ کہ فرق والی جگہوں پر۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہر فیصلہ اللہ کے حکم کی تعمیل میں کیا جب نبی آ خر زماں نے کوئی تضاد یا فرق نہیں کیا تو ہم کیسے فرقوں میں بٹ کر دشمن کی چالوں میں آکر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں ۔
حدیث کساء میں ہے کہ جب پنجتن یمنی چادر میں آ گئے
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ میرے خاص ہامی ہیں ان کا گوشت میرا گوشت ہے۔
جو انہیں رنج دے گا وہ مجھے رنجی کرے گا جو ان سے دوستی رکھے گا وہ میرا دوست ہوگا ۔
اے خدا ان کونجاست سے دور رکھ اور انہیں پاک و پاکیزہ رکھ ۔
تو اللہ نےفرمایا
میری عزت اور بزرگی کی قسم میں نے یہ مضبوط آسمان ،پھیلی ہوئی زمین ،روشن چاند،تھلکتا سمندر یہ سب کچھ ان کی پانچ لوگوں کی محبت میں بنائی ہیں ۔اس سے بڑھ کر اہلبیت کے مقام میں اور کیا بیان کیا جا سکتا ہے۔