محبت
ویسے تو ہر انسان کا یہ دعوی ہے کہ وہ محبت کو جانتا ہے۔لیکن حقیقت میں انسان اور انسانیت محبت سے واقف نہیں۔صرف چند نایاب انسان ہی ہیں جو محبت کی انڈراسٹینڈنگ رکھتے ہیں ۔محبت ہماری دنیا میں نایاب ہوچکی ہے،کیونکہ محبت سے مزین تجربات ہر ایک انسان نہیں کرسکتا ۔محبت کے بارے میں گھر میں ،آفس میں ،فلموں میں ،ڈراموں میں ،بہت باتیں کی جاتی ہیں ۔گانے لکھے جاتے ہیں ،یہ محبت بھرے گانے پکچرائز کئے جاتے ہیں ،لیکن پھر بھی ہم انسان محبت کو نہیں جانتے ۔ٹی وی پر ،ریڈیو پر ،کتابوں میں محبت کے قصے بیان کئے جاتے ہیں ،لیکن انسان محبت کو نہیں جانتے اور یہی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔محبت ہماری دنیا میں اب بھی ایک معمہ ہے،جو ابھی تک نامعلوم ہے اور شاید آخری انسان تک نامعلوم ہی رہے گی۔جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے،اس وقت وہ محبت سے بھرپور اور مزین ہوتا ہے اور محبت کو جانتا ہے۔وہ محبت کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے۔بچے کو یہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی کہ محبت کیا ہے؟اور کیوں ہے اور کہاں ہے؟لیکن اس بچے کی محبت آہستہ آہستہ مرجاتی ہے یا محبت کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے ،اس کی وجہ والدین ہیں جو محبت کو نہیں جانتے ۔والدین اپنے خمار میں ہوتے ہیں،وہ بچے سے محبت نہیں کرتے ،صرف محبت کی حقیقی ڈرامہ بازی کرتے ہیں ۔ایسا رویہ اس بچے کے ساتھ اختیار کیاجاتا ہے کہ جلد ہی وہ محبت کو بھول جاتا ہے اور انہی والدین جیسا بن جاتا ہے۔بچے کو والدین ایک انسان یا فرد نہیں سمجھتے بلکہ ایک مسئلہ سمجھتے ہیں ۔بچوں کو والدین سے نجات دلانی چاہیئے ۔۔والدین سے بچوں کو نجات دلانے کا مطلب ہے جو پروگرامنگ والدین بچوں کے اندر کی دنیا کے ساتھ کرتے ہیں ،اس پروگرامنگ کو ختم کیا جائے ۔ان کے اندر سے وہ پروگرامنگ باہر نکال کر سمندر کی گہرائیوں میں پھینک دینی چاہیئے ۔پھر بچے بھی والدین کے لئے ہمدردی محسوس کریں گے ۔والدین خود بچوں کے ساتھ زلت آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں ،لیکن وہ تو خیرخواہی کے جذبے سے کرتے ہیں۔انکی اس خیر خواہی پر شک نہیں کیا جانا چاہیئے۔کیونکہ وہ روبوٹ ہیں ،ان کے والدین نے بھی ان کے ساتھ یہی کیا ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہ کچھ دہراتے ہیں ۔یہ سب پروگرامنگ کا کمال ہے ۔وہ بچے کے لئے ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ بچہ بیچارہ روبوٹ بن جاتا ہے ۔محبت ایک فطری معمہ ہے۔جو انسان کے ساتھ ابھی تک نہیں ہوا ۔اب تک انسان روبوٹ ہی ہیں اور شاید دنیا کے آخری انسان تک رہیں گے ۔جیسے سانس لینا ،پانی پینا ،کھانا کھانا فطری عمل ہے ،اسی طرح محبت بھی ایک فطری تجربہ ہے۔زندہ اور جاگتا انسان صرف محبت کو جانتا ہے ۔محبت میں مطالبہ نہیں ہوتا ۔اس میں ڈیمانڈ اور سپلائی والا اصول نہیں چلتا ۔ ۔محبت ایک معجزہ ہے اور صرف محبت دی جاتی ہے ۔جو آتا ہے اسے محبت دیتےجاؤ،شکریہ ادا کرو اور آگے بڑھ جاؤ۔اس انسانیت میں ملکیت اور حسد کا زہر محبت کو تباہ کرتا ہے اور یہی چیزیں والدین کے راستے بچوں میں منتقل ہوجاتی ہیں اور پھر یہ پروگرامنگ آٹو میٹک ہوتی رہتی ہے اور ہم انسان تیزی سے روبوٹ بنتے رہتے ہیں ۔محبت ایک نازک پھول کی مانند ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیئے اور اسے خوراک اور پانی دے کر طاقتور بناتے رہنا چاہیئے۔بچے کی محبت نازک ہوتی ہے۔کیونکہ بچہ نازک ہوتا ہے ۔اس کا احساس نازک ہوتا ہے ۔اگر والدین بچے کو چھوڑدیں تو وہ مر جائے گا۔اس لئے والدین بچے کو چھوڑتے نہیں ،لیکن اس کو دھمکیاں دیتے ہیں ۔اسے خوف زدہ کرتے ہیں۔اس لئے بچہ بھی کمپرو مائز کرنا شروع کردیتا ہے ۔یہی وہ سیاست ہے جو بچوں کے ساتھ کی جارہی ہے؟اس بیچارے پر شرائط عائد کی جاتی ہیں ۔اس لئے وہ اپنی جبلت کو چھوڑ دیتا ہے اور اپنے آپ کو گناہ گار سمجھنے لگتا ہے ۔جس طرح موت ،پیدائش اور خدا کو define کرنا ناممکن ہے،اسی طرح محبت کی تعریف کرنا بھی ناممکن ہے ۔محبت وہ معمہ ہی نہیں جسے دیکھا جا سکے ۔محبت حاصل بھی نہیں کی جاتی ،صرف دینا اور دینا یہی محبت ہے ۔اس پر قبضہ بھی نہیں جمایا جاتا ۔،جو صرف محبت دیتے ہیں وہی تو ہیں جو محبت کو انجوائے کرتے ہیں اور خوش رہتے ہیں ۔محبت بزنس نہیں ہے یہ فطرت ہے اور ہم نے اسے بزنس بنادیا ہے ۔جب بچے والدین سے نجات پا جائیں گے یعنی ان کی پروگرامنگ کا خاتمہ کردیں گے ،پھر ان کو معاشرے ،تہذیب ،تعلیم سے بھی نجات مل جائے گی ۔کیونکہ والدین کی گود سے یونیورسٹی تک سب پروگرامنگ کرتے ہیں ۔سب ایک ہی چیز دہراتے ہیں ۔پروگرامنگ ختم ہو گی ،بچہ طاقتور فرد بنے گا ۔مجمع کا ھصہ نہیں رہے گا ۔تو پھر وہ طاقتور فرد ہی محبت کو انجوائے کرے گا اور محبت کے آرٹ فطری انداز میں سیکھے گا ۔محبت ایسی خوشی ہے جو انجوائے کرنے سے شناخت کی جاسکتی ہے ۔فرد بن جاؤ،عام لوگوں کو محبت دو ،عام لوگ ہی خاص ہیں اور منفرد ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔