اشتہارات کی بارات ہو یا اخلاقیات کا بھنور عورت کے وجود سے وابستہ ہے انسانی معاشرہ جو صدیوں پہلے مادر سری ہوا کرتا تھا یعنی ماں ہی قبیلہ کو سنبھالتی تھی اور مردوں کے شکار پر جانے کی وجہ سے گھر، بچے، زراعت، اندھیرے میں جنگلی جانوروں سے بچاٶ کے ذریعہ انسانی نسل کی حفاظت کی ذمہ داری بطریق احسن پوری کرتی رہی مگر جب پدر سری معاشرہ وجود میں آیا تو عورت عضو معطل بن گٸی اب مرد شکار پر جاتے تو عورتوں کو مخصوص زنجیریں پہنا دی جاتیں جو عورتوں کی عصمت کی حفاظت کی دلیل ہوا کرتیں پھر جنگوں میں ہار کی صورت میں عورت کو تاوان کے طور پر دیا جانے لگا کبھی عورتوں کو جنگ ہارنے کے خوف کے پیش نظرایک میدان میں اکٹھا کر کے مار دیا جاتا تاکہ شکست کی صورت میں دشمن کے ہاتھ نہ لگیں، وراثت میں میراث کے ساتھ ماں بھی ملک تصور ہوتی،عرب بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے ہندو مت میں کچھ عرصہ قبل تک بیوی کو خاوند کے مرنےپر مردہ کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا، یورپ کے تاریک دور میں عورتوں کو جادوگرنی کہا جاتا اور ان کے گھروں کو آگ لگا دی جاتی یونانی فلاسفر بھی عورت کو انسان ماننے کو تیار نہیں تھے۔ آخر اس سب کے پیچھے کیا وجہ ہے،آدم حوا کے بغیر ادھورا تھا مگر حوا کے آنے پر بھی ناخوشی مقدر ٹھہری،مذہب سے لے کر مجرا تک مرد کو ہر خوشی وسکون بہم پہنچانے والی، نسلوں کے آبیاری کرنے والی جنس خود کبھی مکمل انسان کا درجہ نہ پا سکی، صرف بحث کی غرض سے برابری کا نعرہ بلند کرنا الگ معاملہ ٹھہرا مگر اس میں بہت حد تک حقیقت بھی موجود ہے،مرد قدرت کی مضبوط مخلوق ہے مگر عورت کے معاملے میں اصول وضوابط ادھورے حتٰی کہ ادب جیسی وسیع صنف میں بھی دنیا بھر میں عورت ہی موضوعِ بحث رہی، تعریف ہو یا تنقید سب کچھ عورت کے سراپا کے گرد ہی گھومتی ہےاور محبت کا میدان بھی عورت کے دل کو جیتنے کی بجاۓ مخصوص جیت تک محدود رہی ،تاج محل میں دفن ممتازمحل چودھویں بچے کی پیداٸش کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوئی اس سنگِ مر مر کے تاج محل کا اس مرنے والی کو کیا فاٸدہ ہوا؟
دراصل عورت ہمیشہ ایک چیز ہی رہی کبھی پورا نام بھی نصیب نہ ہو سکا پیداٸش کے وقت باپ،پھر شوہر کا نام وابستہ ہوتا ہے چلیں نام کی خیر مگر عزت تو پوری ملے چاہے مرد کے حوالے سے ہی ہومگر انسانی معاشرہ میں مضبوط مخلوق مرد جب آپس میں لڑاٸی جھگڑا کرتے ہیں تو جسمانی داٶ پیچ آزمانے کے بجاۓ گالی کی ڈکشنری استعمال کرتے ہیں پرانے زمانے کے جنگجوٶں کے بر عکس اب عورت کو نۓ طریقہ سے استعمال کیا جارہا ہے، اب زبان و بیان میں اتنی فصاحت آچکی ہے کہ اپنے ہی ہم جنس کو نیچا دکھانا مقصود ہوتو ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی بجاۓ ان سے وابستہ عورتوں کے لیۓ ایسے ہوش ربا الفاظ ایجاد کیۓ جو جسمانی تشدد کے بجاۓ ذہنی اذیت کا سبب بنیں یہی اس دور کی کامیابی ہے، ترقی کی راہوں پر چلتے خلا کو سر کرنے والے اپنے جیسی جیتی جاگتی، زندگی کے دکھ سکھ کی ساتھی کو وہ مقام دینے کو تیار نہیں جو قدرت نے اسے دے رکھا ہےترقی یافتہ ممالک جو ہر وقت عورت کی آزادی کا ڈھول پیٹتے نہیں تھکتے عورت کو کام کرنے کی مشین بنا دیا ہے امریکہ جیسے برابری کے دعٰویدار ملک میں کوٸی خاتون صدر کے عہدہ تک نہ پہنچ سکی،اب تک تو جنگ کے اس میدان میں عورت ہمیشہ ہارتی چلی آٸی اور معاشرہ یک طرفہ ٹریفک کی طرح چلتے آرہے ہیں مگر اب جدید عورت نے بھی میزاٸل سر پر اٹھا لیۓ ہیں جو زیادہ تکلیف دہ حالات ہیں اب کہیں عورت مارچ ہے تو کہیں عورتیں گالیوں پر مشق ستم آزما رہی ہیں، مردوں کو راہ راست پر لانے کی بجاۓ اب جدید دنیا میں خواتین بھی لڑاٸ کے وہی غیر مہذب طریقے اپنانا شروع ہوگٸ ہے دیکھیےاب بات جا کر رکتی ہے مگر میں اور میرے جیسی قدیم سوچ رکھنے والی خواتین” عورت مارچ“ اور ”گالی برگیڈ“ جیسے افلاطونی نظریے کو مہذب معاشروں کے انہدام کا سبب مانتے ہیں اور معاملات کو باہمی اتفاق راۓ سے حل کرنے پر زور دیتے ہیں، عورت گالی عورت کو دے یا مرد کو،گالی میں استعمال عورت ہی ہوتی ہے۔