چند دن پہلے دونوں چھوٹے بیٹے گاؤں جا رہے تھے ۔ ڈرائیونگ سیٹ پر اُنیس سال والا جبکہ پچھلی سیٹ پر دس سالہ بیٹا ۔
تقریبا ساٹھ کی سپیڈ ہو گی ۔ جبھی دونوں بچے ایک کُھلی سڑک پر پہنچے تو آگے بائیک پہ جانے والے بابا جی کا موٹر سائیکل ایک دم سے رائیٹ کو سَلپ ہوا ۔ اینٹی بریکنگ سسٹم والی کار ہے ، بیٹے نے بریک لگائی اور گاڑی کو بڑے پیار سے بائیں ہاتھ روڈ سے نیچے اُتار لیا ۔ اِسی دوران پچھلی بائیک والا لڑکا بہت زور سے کار کے پیچھے ڈِگی میں دھڑام سے آ لگا ۔ ٹکر کی شِدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مارکیٹ کی مضبوط ترین باڈی والی کار ہے پر پیچھے والا بمپر ٹوٹا اور سنٹر سے ڈِگی اندر کو دب گئی ۔۔
اس ایکسیڈنٹ کی تمام تر انویسٹیگیشن کا نچوڑ یہ ہے کہ پچھلی بائیک پر آنے والا اُنیس بیس سالہ لڑکا بایاں پیر کرش بار پہ رکھے موبائیل پہ مصروف اپنے دھیان میں آ رہا تھا ۔ اُس نے دیکھا ہی نہیں کہ سامنے کیا ہے ۔ ؟۔
سڑک کنارے بِچھی ایک چارپائی اور چند کرسیاں میرا آفس ہے ۔ کل دوپہر ایک گھنٹہ میں نے سڑک پر سامنے سے آنے جانے والے دوستوں کا بغور جائزہ لیا ۔ اُس ایک گھنٹہ میں ۔؟۔
تقریباً سترہ ، اٹھارہ اکیلے بائیک سوار لڑکے کان ساتھ موبائیل لگائے سامنے سے گُزرے ۔۔
تقریباً تیس بائیک سوار ، ہر عمر کے دوست جن کے پیچھے ایک دو تین یا چار سواریاں تھیں وہ بھی چلتی بائیک پر موبائیل میں مصروف نظر آئے ۔۔
دس ، پندرہ سال کے بارہ چودہ چھوٹے بچے سکول سے بہنوں کو لاتے بائیک چلاتے ہوئے موبائیل ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھے ۔۔
بارہ تیرہ سال عُمر کے تین چار بچے ماؤں کو پیچھے بٹھائے ساٹھ ستر کی سپیڈ پر موبائل پہ باتیں کرتے نظر آئے ۔۔
چلتے بائیک کے پیچھے بیٹھی ہر چوتھی ، پانچویں خاتون یا مرد کے کان ساتھ موبائیل تھا ۔۔
ہر تیسرے کار ڈرائیور جبکہ ہر دسویں گیارہویں پیدل والے صاحب موبائیل استعمال کرتے نظر آئے ۔۔
اللّہ پاک ہم سب کو اچھی صحت ساتھ لمبی زندگی نصیب فرمائیں۔