آپ یہ پوسٹ جس طرح پڑھ رہے ہیں، صرف اسی پر تفصیل سے غور کرتے چلے جائیں تو دنیا کی بہت سے چیزیں پتہ لگتی جائیں گی۔ اگر لیپ ٹاپ پر پڑھ رہے ہیں تو اس کے اندر صرف ٹرانسسٹرز کو گنیں تو ان کی تعداد ایک ارب سے زائد نکلے گی۔ مواصلاتی ذرائع جن سے یہ آپ تک پہنچے، کمپیوٹر سائنس، بائیولوجی سمیت دوسرے بہت سے علم کے شعبوں کو صرف اس پوسٹ کے پسِ پردہ جا کر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں پر ایک نظر سپلائی چین پر جس سے اندازہ ہو گا کہ دنیا کس طریقے سے آپس میں جڑی ہوئی ہے۔
اگر آپ یہ پوسٹ آئی فون پر پڑھ رہے ہیں تو اس کے اندر گھس کر دیکھتے ہیں۔ اس کی کہانی خام مال سے شروع ہوتی ہے۔ اگر کیمسٹری کا پیرئیوڈک ٹیبل دیکھیں تو اس میں سے باسٹھ عناصر ایسے ہیں جو ایک فون کا حصہ بنتے ہیں۔ اس میں سونا پیرو سے آتا ہے، تانبا چلی سے، کچھ رئیر ارتھ منرلز منگولیا سے کان کنی کے ذریعے نکالے جاتے ہیں اور اسی طرح یہ جال خود پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔
اس کے بعد اس کے سپلائیر ہیں جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور یہ سینکڑوں بیٹری، سکرین، کیمرے کا لینز، وائیفائی اینٹینا، میموری جیسی بہت سی چیزیں بناتے ہیں وہ دنیا میں کدھر ہیں، یہ تفصیل پہلی تصویر سے۔ ان سب سپلائیرز سے بڑے ہی دلچسپ اور پیچیدہ معاہدے ہیں جو کہ یہ یقینی بناتے ہیں کہ تمام مال وقت پر ملتا رہے، مطلوبہ معیار کا ملے اور فون بنانے میں کوئی خلل نہ آئے۔ پوری دنیا سے یہ سب چائنہ میں دو جگہوں پر پہنچ کر جوڑا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک یونٹ میں روزانہ پانچ لاکھ آئی فون بنتے ہیں اور پھر دنیا کے مختلف مقامات کا سفر شروع کرتے ہیں۔ ان بڑے وئیر ہاؤسز میں سب سے بڑا کیلی فورنیا میں ہے لیکن یہ تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دوسری تصویر اس ترسیل کے راستے اور وئیر ہاؤس دکھاتی ہے۔
خریداری تمام سال یکساں نہیں رہتی۔ جب نیا ماڈل آنا ہو یا خاص مواقع جیسے کرسمس ہوں، اس وقت یہ ڈیمانڈ اوسط کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کو دیکھ کر طے کیا جاتا ہے کہ کب کس جگہ بحری جہاز کا استعمال ہو گا اور کب ہوائی جہاز کا۔
تیسری تصویر اس فیکٹری کے اندر سے ہے جہاں ان سب کو آپس میں جوڑ کر فون بنایا جا رہا ہے۔ اس میں زبردست یہ ہے کہ ایک وقت میں کبھی بھی پانچ دن سے زیادہ کا سٹاک نہیں ہوتا لیکن تواتر سے یہ سپلائی اور خرید جاری رہتی ہے۔ اس پوری چین کے پیچھے افرادی قوت کی اپنی چین کی کہانی الگ ہے۔
آپ نے اگر ہاتھ میں کوئی اور فون پکڑا ہے تو اس کی سپلائی چین بھی اسی طرز کی ہے۔ اور اس کا بننا پوری دنیا میں بکھری سینکڑوں کمپینیوں کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہوا۔
اور اگر آپ غور کریں تو دودھ کا ڈبہ ہو یا پاؤں کا جوتا یا سر درد کی دوا، ہر ایک کے پیچھے اسی طرح کی لمبی رسد کی زنجیریں ہیں جو آپ تک کسی چیز کو پہنچنا ممکن بناتی ہیں اور اکیسویں صدی کی بڑی جدت اس وقت اسی شعبے میں ہو رہی ہے جس کے ٹھیک طرح اور باہمی تعاون کے ساتھ چلنے کے بغیر کئی چیزوں کی فراہمی ممکن نہیں رہی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔