افغانستان میں 53 پولیس والوں کو موبائل فون پر پیغام آیا۔ انہیں یقین نہیں آیا۔ لازماً، کوئی غلطی تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ 2009 میں ایک پائلٹ پراجیکٹ میں شرکت کر رہے ہیں جس میں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کیا پبلک سیکٹر میں کام کرنے والوں کی تنخواہ موبائل منی سروس کے ذریعے منتقل کی جا سکتی ہے؟ یہ نئی سروس ایم پیسہ تھی۔ لیکن انہیں جو پیغام ملا تھا، اس میں انہیں وصول ہونے والی تنخواہ زیادہ تھی۔ کیا ان کی تنخواہ بڑھا دی گئی تھی؟ کیا کسی نے بھیجتے وقت غلط ٹائپ کر دیا تھا؟
نہیں، اصل میں یہی تنخواہ تھی جو انہیں پہلے بھی ملنی چاہیے تھی۔ لیکن پہلے، انہیں یہ کیش میں ادا کی جاتی تھی۔ وزارتِ خزانہ سے ہوتے ہوئے، افسرانِ بالا کے راستے سے جب یہ ان تک پہنچتی تھی تو تیس فیصد گھٹ چکی ہوتی۔ اس کے علاوہ دس فیصد کے قریب وہ پولیس والے تھے جو اصل میں تھے ہی نہیں۔ یہ سب اضافی پیسے اس کے درمیان کہیں خورد برد ہو چکے ہوتے۔
پولیس والے کے لئے یہ خوشگوار حیرت تھی کہ انہیں ان کی پوری تنخواہ مل گئی تھی۔ (درمیان میں اپنا حصہ رکھنے والوں کے لئے نہیں تھی)۔
افغانستان ایک ایسی اکانومی ہے جس کو ٹیکسٹ میسج سے پیسے منتقل کرنے کا نظام تبدیل کر رہا ہے۔ اپنے پیسے جمع کروانے، ان کو کسی کو بھیجنے اور ان کو نکلوا لینے کا طریقہ عام ہو رہا ہے۔
اس ایجاد کی جڑیں کئی جگہوں پر ہیں لیکن سب سے پہلی اور بڑی کامیابی اس کو کینیا میں ملی۔ اس کی کہانی سب سے پہلے 2002 میں جنوبی افریقہ سے شروع ہوئی۔ ووڈافون میں نک ہیوز نے اس آئیڈیا کے بارے میں پریزنٹیشن دی۔ یہ ایک ترقیاتی فنڈ DFID کو دی جا رہی تھی۔ جو مسئلہ حل کرنے کی کوشش تھی وہ لوگوں کو زیادہ مالیاتی خدمات تک رسائی کا تھا اور موبائل فون ایک ممکنہ ذریعہ لگتے تھے۔ DFID نے نوٹ کیا تھا کہ لوگ اپنا بیلنس ایک کرنسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے ووڈافون سے رابطہ کیا تھا کہ کیا وہ اس سلسلے میں کچھ کر سکتے ہیں۔
ہیوز کا آئیڈیا سرکاری سیکٹر میں کرپشن روکنے کا نہیں تھا اور نہ ہی کسی ایسی چیز کے بارے میں تھا جس کے لئے موبائل منی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک محدود آئیڈیا تھا جو مائیکروفائننس کے بارے میں تھا۔ اس وقت یہ موضوع توجہ کا مرکز تھا۔ وہ دسیوں کروڑ لوگ جو اتنے غریب ہیں کہ بینکاری کا نظام استعمال نہیں کر سکتے، انہیں چھوٹے قرضے کیسے دئے جائیں جس سے وہ گائے، سلائی مشین، مرغیاں، موٹربائیک جیسی چیزیں خرید سکیں اور کاروبار کر سکیں۔ ہیوز یہ آئیڈیا دیکھنا چاہ رہے تھے کہ کیا مائیکروفائننس کے کلائینٹ قرضے کی واپسی بذریعہ ٹیکسٹ کر سکیں گے۔
یہ پراجیکٹ زیادہ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ 2005 میں سفاری کام کی سوزی لونی کینیا میں گرمی میں لوگوں کو تربیت دے رہی تھیں کہ ایم پیسہ استعمال کیسے کرنا ہے۔ اس سے پہلے انہیں یہ بتانا پڑا تھا کہ موبائل کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پائلٹ پروگرام میں ان کو اس میں دشواری ہو رہی تھی۔
لیکن پھر عجیب ماجرا ہوا تھا۔ لوگ اسے استعمال کرنے لگے اور ان لوگوں نے جلد ہی دریافت کر لیا کہ اس سے قرض واپس ہی نہیں، بہت کچھ اور بھی کیا جا سکتا ہے۔ لونی نے ریسرچرز کو یہ پتا لگانے کے لئے بھیجا تھا کہ اس کا استعمال پائلٹ پراجیکٹ میں کس طریقے سے ہو رہا ہے۔
ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر کا بٹوہ کسی جیب کترے نے نکال لیا تھا تو انہوں نے اپنے شوہر کو ایم پیسے کے ذریعے بس کا واپسی کا کرایہ بھیجا۔ کسی نے کہا کہ وہ سفر سے پہلے پیسے جمع کروا دیتے ہیں اور منزل پر پہنچ کر نکلوا لیتے ہیں۔ لوگ سیف میں پیسے رکھنے کے بجائے موبائل میں رکھوا دیتے تھے۔ ایک دوسرے کو ادائیگیاں کی جا رہی تھیں۔ لوگ دیہات میں اپنے رشتہ داروں کو پیسے بھجوا رہے تھے۔ یہ کسی کو پیسوں والا لفافہ امانت کے طور پر دے کر بھجوانے کے مقابلے میں بہت محفوظ تھا۔
لونی کو احساس ہوا کہ کچھ بڑا ہونے لگا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم پیسہ باقاعدہ طور پر 2007 میں کینیا میں لانچ ہوا۔ پہلے آٹھ ماہ میں ہی اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ گئی۔ دو سال میں دو کروڑ تک۔ اب اس کے ذریعے ہونے والی ادائیگیاں کینیا کے نصف جی ڈی پی کے برابر ہیں۔ کینیا میں ATM مشینوں سے سو گنا زیادہ تعداد میں ایم پیسہ کے کھوکھے ہیں۔
ایم پیسہ leapfrog ٹیکنالوجی کی مثال ہے۔ یہ ایجاد اس لئے مقبول ہوئی کہ متبادل بہت برے تھے۔ چونکہ ٹیلی فون لائنز کا سسٹم ناقص تھا، اس لئے موبائل فون بہت جلد اپنا لئے گئے۔ چونکہ روایتی بینکاری یہاں کی غربت کی وجہ سے کام نہیں کرتی تھی تو اس کو بہت جلد اپنا لیا گیا۔ اور ایک بار اگر آپ بینکاری کے نیٹ ورک میں آ جائیں تو پھر بجلی کا بل ادا کرنے کی لمبی قطار میں لگ کر وقت ضائع کرنے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے۔ پیسے بچا کر گدے کے نیچے رکھنے سے بہتر جگہیں مل جاتی ہیں۔ موبائل پیسہ نے کینیا میں چند سالوں میں غریب طبقے کے لئے یہ سہولیات ممکن کر دیں۔
موبائل پیسے افغانستان جیسے ممالک میں بھی بہت جلد اپنا لئے گئے۔ لیکن کئی ممالک میں ابھی ان کی پہنچ کم ہے یا پھر ہے ہی نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکسٹ کے ذریعے ادائیگی کی سہولت موجود نہیں (اگرچہ کہ یہ بینک کی ایپ استعمال کرنے سے زیادہ آسان ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم پیسہ کینیا میں ہی کیوں اتنا زیادہ کامیاب ہوا؟ اس کی بڑی وجہ ریگولیشن کا نہ ہونا ہے۔ بینکاری اور ٹیلی کمیونیکیشن میں حکومت نے اس سب میں کوئی دخل اندازی ہی نہیں کی۔ سست ہونے کی وجہ سے ریگولیٹر درمیان میں نہیں آئے۔ لیکن ایسے ممالک، جہاں پر بیوروکریٹ اتنے ڈھیلے نہیں تھے، وہاں پر یہ ایجاد نہ چل سکی۔
اس کا سب سے بڑا استعمال رشتہ داروں کو پیسے بھجوانے کا ہے لیکن اس کے دو اور بہت گہرے فائدے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے افغان پولیس والوں کی کہانی میں دیکھا یعنی کرپشن کا مقابلہ کرنا۔ کینیا میں ڈرائیوروں کو جلد پتا لگ گیا کہ جو پولیس والے انہیں چالان کرنے کے لئے روکتے تھے، وہ ایم پیسہ کے ذریعے رشوت نہیں لے سکتے تھے۔ اس ٹرانزیکشن کا ریکارڈ ہوتا ہے جو کسی کے فون نمبر کے ساتھ ہے اور ثبوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کینیا میں منی بس ٹرانسپورٹ کی ایک تہائی آمدنی بھتہ خوری اور چوری میں چلی جاتی ہے۔ افغانستان میں رشوت جی ڈی پی کا ایک چوتھائی ہے۔ دنیا میں کئی جگہوں پر اس طرح کی کرپشن ہر جگہ پھیلی ہے۔ موبائل پیسہ اس کو روک سکتا ہے۔
اور اس کا ایک اور دوسرا بڑا فائدہ بھی ہے۔ کینیا میں جب حکومت نے منی بس پر موبائل منی کو لازم کرنے کی کوشش کی تو بس ڈرائیوروں نے اس کے خلاف مزاحمت کی۔ لیکن یہ تو انہیں بھتہ خوروں سے بچاتی تھی۔ پھر کیوں؟ اس کی وجہ جاننا مشکل نہیں۔ کیش کے بجائے دستاویزی طریقے سے کاروبار نہ صرف کرپشن روکتا ہے بلکہ ٹیکس چوری بھی۔ یہ ڈرائیور جانتے تھے کہ اگر آمدنی کا ریکارڈ رکھا جا سکتا ہے تو پھر ٹیکس بھی لگایا جا سکتا ہے۔
یہ موبائل پیسے کا دوسرا بڑا ممکنہ فائدہ ہے یعنی ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھانا۔ کرپٹ پولیس کمانڈرز سے ٹیکس چوری کرنے والے ٹیکسی ڈرائیور تک موبائل پیسے کی یہ ایجاد کئی لوگوں کی لئے بری خبر بن سکتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...