یہ تصویر موبائل فون سے کھینچی جانے والی پہلی تصویر ہے۔ 1997 میں فلپ کاہن اپنے گھر میں ہونے والی نئی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ خالی انتظار کرنے کے بجائے انہوں نے اپنے موبائل فون کو ڈیجیٹل کیمرے سے منسلک کیا، اپنے لیپ ٹاپ پر سافٹ وئیر پروگرام لکھا جس کو فون پر منتقل کیا۔ اپنی بیٹی کی پیدائش کے بعد انہوں نے یہ تصویر کھینچی جو دو ہزار لوگوں کو بھیجی۔
کاہن نے اگلے تین سال میں اس پر کام کر کے اس کو قابلِ عمل ٹیکنالوجی میں بدلا اور 2000 میں شارپ کمپنی نے پہلا فون مارکیٹ میں متعارف کروایا جس میں کیمرہ موجود تھا۔ صرف اٹھارہ سال پہلے ایجاد ہونے والی یہ ٹیکنالوجی اس وقت دنیا میں دو تہائی لوگوں کے پاس ہے۔ اس کے ذریعے کھینچی جانی والی روزانہ تصاویر کی تعداد ایک ارب کے قریب ہے۔
اس تصویر کی مقبولیت کی بڑی طاقت یہ ہے کہ اس کو آسانی سے کاپی کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کو آسانی سے کاپی کر سکنے کی وجہ اس کا ڈیجیٹل شکل میں موجود ہونا ہے۔ اس شکل میں ہونے کے باعث اس کو آگے بڑھانا بہت آسان ہے۔ پھل فروش محمد بو عزیزی کے اپنے آپ کو آگ لگا لینے سے شروع ہونے والی عرب بہار ہو، ندا آغا کی بے جان آنکھوں سے آنے والی ایران میں تبدیلیاں یا دنیا میں کئی طرح کے دوسرے واقعات جو پہلے قالین تلے دبا دئے جاتے تھے، اب اس آسان طریقے کی وجہ سے قتل کا چرچا آسان ہو گیا ہے۔
فلپ کاہن کا اپنی بیٹی کی یہ تصویر لیتے وقت شاید خیال نہ ہو کہ تھوڑے ہی عرصے میں یہ ٹیکنالوجی دنیا کے اربوں لوگوں کی جیب میں ہو گی۔ اس کے بغیر نہ سنیپ چیٹ ہوتا، نہ انسٹا گرام اور شاید نہ ہی فیس بُک مقبول ہو پاتا۔ صرف دو دہائیاں پہلے یہ ممکن نہیں تھا۔
یہ ڈیجیٹل شکل کیا ہے؟ کسی معلومات کو مختصر سیٹ کی شکل میں محفوظ کر لینا۔ اس معلومات کو جب اسی طریقے سے دہرایا جائے تو بالکل وہی کاپی تیار۔ عام طور پر اسے دو حالتوں کی صورت میں کیا جاتا ہے جسے 0 اور 1 کہتے ہیں۔ اس کے برعکس جب ایک مصور تصویر بنا رہا ہے یا پرانی فلم پر تصویر کھینچی جا رہی ہے تو اس دوران ایک کیمیائی ری ایکشن ہوتا ہے جسے بالکل اسی طریقے سے اس طرح نہیں دہرایا جا سکتا۔
لیکن ڈیجیٹل حالت میں سٹور کرنے کے بنیادی یونٹ دو سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال موسیقی لکھنے والے حروف ہیں جن سے موسیقی کی دُھن کو کاپی کیا جا سکتا ہے۔ یہ ڈیجیٹل طریقہ چار ارب سال پہلے زندگی نے بھی ڈھونڈ لیا تھا۔ زندگی خواہ معدے میں رہنے والے جراثیم کی شکل میں ہو، برگد کے پیڑ کی صورت میں، اڑتا پرندہ ہو، گھاس، بھینس یا پھر ہم خود، صرف چار حروفِ تہجی سے لکھی گئی ہے۔ اس کے ڈیجیٹل صورت میں ہونے کی وجہ سے اس کی کاپی بن جاتی ہے جس نے زندگی کا پھیلنا ممکن بنایا۔ زندگی کی اس کاپی بننے میں ایک معمولی سا فرق یہ کہ یہ کاپی پرفیکٹ نہیں۔ اس ڈیجیٹل انکوڈڈ شکل پر چلتے الگورتھم خود زندگی ہے۔ اپنےکاپی ہونے کے طریقے کی وجہ سے یہ پھیلی اور معمولی سا بدلاؤ نے زندگی کے کینوس میں طرح طرح کے رنگ بھر دئے۔
لیکن اب ہم ہمارے اپنے ڈیجیٹل عکس بہت سی دوسری شکلوں میں سٹور ہیں۔ صرف تصاویر ہی نہیں بلکہ آپ کی نادرا کے پاس محفوظ معلومات، آپ کی ای میل یا فیس بُک پروفائل، یہ ان عکسوں کی مثالیں ہیں۔ ڈیجیٹل صورت میں محفوظ ہونے سے ان پر بھی طرح طرح کے الگورتھم آسانی سے چل سکتے ہیں۔ چاہے وہ اس وقت آپ کی سکرین پر آپ کے مطابق چلتے اشتہارات ہوں یا پھر قرضے کی درخواست پر ہونے والا فیصلہ۔