"مٹی پائو"
پنجابی کے اس محاورے میں اگر کوئی حکمت ہے تو صرف یہ کہ اگر الجھا ہوا معاملہ سلجھ جائے، جھگڑا نپٹ جائے تو اس پر مٹی ڈال دینی چاہیے۔ لیکن جب نا حل شدہ معاملات پر یہ کہا جاتا ہے کہ مٹی پائو تو مجھے اس رویے یا سوچ میں کہیں درستی نظر نہیں آتی۔ کسی بےگناہ کو قتل کرکے اگر مٹی میں دبا بھی دیا جائے تو اس کا بھوت خود پر ہوئے ظلم کی داستان سنانے اور مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کو بےتاب رہتا ہے۔۔۔۔ اقوامِ عالم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کئی اقوام پر دوسری اقوام کی طرف سے کیے گئے مظالم پر اس وقت تک مٹی نہ ڈالی جا سکی جب تک ظالم قوم کی بعد کی نسلوں نے مظلوم قوم سے معافی نہ مانگی۔ آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ کے آبائی باشندوں کی نسل کشی پر کئی صدیوں بعد معافی مانگ کر ان المناک داستانوں کا آخری باب رقم کیا گیا۔
پاکستان بننے سے اب تک ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے شرمناک معاملات کا سلسلہ بہت دراز ہے: آئین کی بے حرمتی، اقلیتوں کے حقوق پر ڈاکہ زنی، چھوٹے صوبوں کے ساتھ عدمِ مساوات کا حکومتی برتاو، سول ملٹری اختیارات میں عدمِ توازن، اعلی عدلیہ کے غیر منصفانہ فیصلے، سیاسی مخالفین کے اغوا اور قتل، جمہوری، عوامی تحریکوں کا بےدردی سے کچلا جانا اور ان سب کے نتیجے میں عوام کا بالعموم اور چھوٹے صوبوں کے عوام کا بالخصوص انتہائی درجے کا استحصال ایسے مظاہر ہیں جن پر آسانی سے مٹی نہیں ڈالی جا سکتی۔ غلطی کی تصحیح کیے بغیر تو ایک لفظ قابلِ قبول نہیں ہوتا یہاں تو پوری داستان خون آلود ہے۔ اور اس خون الود داستان کا انتہائی خونی باب اگر ضیاع الحق کے مارشل لا ، آئین سےکھلواڑ، اس کی مذہبی انتہا پسندانہ پالیسیوں، ان کے المناک نتائج نے لکھا ہے تو اس باب کا عنوان ایک منتخب وزیرِ اعظم کا عدالتی قتل ہے۔ ۔۔۔۔ پاکستان جب تک اپنی تاریخ کا یہ داغ نہیں دھوئے گا، اس طرح کے نئے داغوں سے خود کو بچا نہیں سکے گا۔ لیکن داغ تو اسی وقت دھلے گا جب انھیں نظر آئے گا جو یہ داغ دھو سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ یاد رہے، خون کے یہ دھبے برساتوں سے نہیں دھلا کرتے۔ ہاں البتہ، انقلابات کی جل تھل کی اور بات ہے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“