مٹی کی خوشبو سے دنیا کی کسی خوشبو کا موازنہ یا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ مٹی کی مہک اس وقت عروج پرپہنچ جاتی ہے جب اس میں بارش کے چھینٹے مل جائیں۔یہ مٹی اگر اپنے وطن کی ہو تو پھر کیا ہی بات ہے۔شاہد یہی وجہ ہے کہ انسان ترقی کی منازل طے کرتا کرتا چاہے شہرت اور دولت کے ساتویں آسمان تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے اسے اپنے دیس، اپنے وطن اور اپنے جنم بھومی کی مٹی کی کشش مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ اور اس کو جیسے ہی موقع ملتا ہے وہ اپنے گھر کی طرف بھاگا چلا آتا ہے۔
پردیس میں انسان کو چاہے دنیا کی جدید سے جدید تر اور زندگی کو سہل کر دینے والی سہولیات ہی کیوں نہ ہوں اسے اپنے وطن اور اپنے گاؤں کے کچے کوٹھے، ٹوٹی ہوئی کھڑکیاں اور دروازے، مٹی سے لیپا ہوا صحن ہی سکون دیتا ہے۔ پردیس کے سنگ مرمر پر پھسلتے پھسلتے جب انسان اپنی مٹی پر قدم رکھتا ہے تو اس کو زیست کی حقیقی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔
ادب میں جو لٹریچر وطن سے محبت کی غمازی کرتا ہے کو ہمیشہ عظمت حاصل رہی ہے۔ اختر شیرانی کی مشہور نظم '' او دیس سے آنے والے بتا '' کا ایک ایک لٖٖفظ وطن سے محبت کی شیرینی سے بھرا ہوا ہے۔
او دیس سے آنے والے بتا
او دیس سے آنے والے بتا
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی
سرمست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو
وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا
آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شاعری کو نچوڑا جائے تو اپنی مٹی سے محبت کا عرق کشید ہو گا۔ رنگون میں قبر تو مرنے کے بعد ملی لیکن انہوں نے چشم تصور سے پہلے ہی حالات کا اندازہ لگا لیا تھا
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
مشہور انگریز شاعر اور ناول نگار ٹام ہارڈی نے اپنے علاقے ویسیکس کو EGDON HEATH کے فرضی نام سے لافانی اور لازوال اہمیت دے دی۔ ہارڈی کا یہ تصوراتی علاقہ اپنے سے محبت کرنے والوں کو نوازتا ہے لیکن جو اس سے بھاگنا چاہتا ہے اس کو ذلیل کر کے رکھ دیتا ہے۔ ہارڈی کے اکثر ناولوں میں HEATH کو زندہ کرداروں جیسی اہمیت حاصل ہے۔اہلِ دل لوگوں کو ایسی موسیقی بھی رلا کے رکھ دیتی ہے جس میں دیس، وطن، گھر اور مٹی کے گُن گائے گئے ہوں۔ عیسیٰ خیلوی کا درد بھرا گیت تو ان کو بھی رلا کے رکھ دیتا ہے جن کو سرائیکی یا پنجابی کی صحیح سمجھ نہیں آتی۔
بس کر ظالم مدتاں ہوئیاں۔۔۔۔
وطن نوں موڑ مہاراں نوں
کامیاب زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ موت ایمان کے ساتھ آئے اور اپنے خاندان اور اپنے پیاروں کے سامنے آنکھیں بند ہوں اور اپنی مٹی نصیب ہوجائے۔ اگر یہ سب کچھ مل جائے تو اور کیا چاہیئے۔