زمین پر مٹی ہمیشہ سے نہیں تھی۔ جب دہکتی زمین سرد ہوئی تھی تو چٹانوں کی صورت میں۔ اس پتھریلی زمین پر درخت نہیں اگ سکتے تھے۔ درخت کی جڑیں چٹانوں میں نہیں رہ سکتیں۔ چھوٹے پتھروں میں جڑ تو جا سکتی ہے لیکن غذائیت اور پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ مٹی نہ ہوتی تو درخت نہ ہوتے۔ درخت نہ ہوتے تو زمین کی شکل بڑی ہی مختلف ہوتی۔ مٹی زمین کے میٹابولزم سے بنی۔ زمین پر پانچ بڑے برفانی ادوار آ چکے ہیں۔ سب سے پہلا اور بڑا برفانی دور آج سے دو ارب چالیس کروڑ سال پہلے آیا اور تیس کروڑ برس تک رہا۔ یہ دور اُس وقت آیا جب نئی بنتی آکسیجن کے حملے نے زندگی کا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا تھا (تفصیل نیچے لنک سے)۔
ان برفانی ادوار میں نقطہ انجاد سے نیچے کے درجہ حرارت نے چٹانوں کو کھول دیا۔ رفانی گلیشئیر ٹھہرے نہیں رہتے، چلتے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بوجھ تلے چٹانوں کے ٹکڑوں اور پتھروں کو پیس کے رکھ دیا۔ ریزہ ریزہ کر دیا۔ یہ مٹی تھی۔ برف ہٹی۔ پانی اس پسے مادے کو بہا لے گیا۔ نچلی جگہوں پر، وادیوں میں۔ طوفان اس کو اڑا لے گئے، زمین پر بکھیر دیا۔ دسیوں فٹ کی موٹائی کی تہوں میں یہ زمین پر بکھر گئی۔
پھر زندگی نے خشکی کا رخ کیا۔ بیکٹیریا، فنگس اور پھر پودے (پودوں کے زمین پر ارتقا کے سفر پر تفصیل نیچے لنک سے)۔ یہ آتے گئے، مرتے گئے، اس مٹی کا حصہ بنتے گئے۔ یہ نامیاتی مادہ اس مٹی کو زرخیز کرتا گیا۔ زرخییز مٹی نے اونچے درختوں کا آنا ممکن کیا۔ اونچے درخت زمین پر اگنا شروع ہوئے۔ انہوں نے اس مٹی کو مزید قیمتی بنا دیا۔ ان کی جڑوں نے مٹی کو پکڑ لیا۔ بارشوں اور طوفانون کے نتیجے میں مٹی کا بہنا مشکل ہو گیا۔ کٹاوٗ ماضی کی بات ہو گئی۔ کتاوٗ کسی بھی زمین کی زرخیزی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ زمین کو مٹی سے صاف کر کے زمین کو بنجر کر دیتا ہے اور زندگی چھین لیتا ہے۔
اگر جنگل اس بارش کے پانی کو جذب نہ کر سکے تو پانی مٹی کے ذرے ساتھ لے جاتا ہے۔ اگر کبھی تیز بارش کے بعد گدلا پانی بہتا دیکھ رہے ہیں تو یہ وہ مٹی ہے جو بہہ کر جا رہی ہے۔ نئی مٹی کی مسلسل تخلیق موسم پتھروں کو گھسا کر کر رہا ہے۔ ایک علاقہ سالانہ 2900 ٹن فی مربع میل مٹی بارش سے کھو سکتا ہے۔ نئی بننے والی مٹی اس کا صرف دس فیصد ہوتی ہے۔ ایسے علاقے جہاں پر نباتاتی کور نہ ہو، وہاں سے جلد یا بدیر مٹی ختم ہو جائے گی، صرف پتھر بچ جائیں گے۔ آج دنیا کے کئی علاقوں میں ایسی زمین موجود ہے جو کئی صدیاں پہلے کاشت کی جاتی تھی، مگر اب یہ ممکن نہیں رہا۔ وہ مٹی ہی نہیں، جہاں پودے جڑ بنا سکیں۔
اس کے برعکس وہ زمین جہاں پرانا جنگل چھیڑا نہ گیا ہو، سالانہ محض ایک سے چودہ ٹین فی مربع میل بارش اور طوفانوں کو لے جانے دیتا ہے۔ ایسی جگہوں پر مٹی کی تہہ کی موٹائی بڑھ رہی ہوتی ہے۔ درختوں کے بڑھنے کے حالات مسلسل بہتر ہو رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ صرف مٹی ہی نہیں۔ اس مٹی میں زندگی ہے۔ محاورے والی ہی نہیں۔ اصل زندگی۔ ایک جنگل میں جتنی زندگی زمین کے اوپر ہے، بڑے درختوں، جانوروں، پرندوں کی صورت میں، اتنی ہی اس مٹی کے اندر۔ انواع و اقسام کے جاندارو جو مٹی پر مسلسل کام کرتے ہیں۔
مٹی ان درختوں کو اگنے، پھلنے پھولنے کا موقع دیتی ہے۔ نامیاتی مادوں کو ذخیرہ کرتی ہے۔ یہ چلی جائے تو درخت نہیں رہتے۔
درخت اس مٹی کو جڑوں کے ذریعے پکڑ کر رکھتے ہیں، پانی کو جذب کرتے ہیں، مٹی بہنے نہیں دیتے، یہ چلے جائیں تو مٹی نہیں رہتی۔
چٹانیں، فضا، سمندر، برف اور زندگی۔ ان کے چکر زمین کو مسلسل شکل دے رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے سے الگ نہیں۔