انسان ابتدا میں جنگلی پھل وغیرہ کھاتا تھا ۔ اسے اگر کوئی مرا ہو جانور مل جاتا تو اس کے گوشت سے پیٹ بھر لیتا تھا ۔ اس کے بعد انسان نے پتھروں کے اوزار بنائے اور ان سے جانوروں کا شکار کرنے لگا ۔ یہ پتھروں کے اوزار بظاہر معمولی چیز ہے لیکن انسان کے لیے بہت اہم قدم تھا ۔ ان پھروں کے اوزاروں کی بدولت انسان نے انسان کی زندگیوں میں اہم تبدیلی آگئی اور وہ اپنے ان اوزاروں سے جانوروںکا شکار کرنے لگا بلکہ اس نے صنعت و حرفت کی بنیاد رکھ دی ۔
دوسری تبدیلی اس کی زندگی میں جب آئی اس نے آگ کا استعمال سیکھا ۔ آگ سے وہ اپنے شکار کئے ہوئے گوشت اور بعض دوسری غذائوں کو بھونے لگا ۔ یہ غذا اسے زیادہ مزے دار لگی ۔ مگر انسان اپنی غذاؤں کو جمع یا دوسرے وقت کے لیے رکھ نہیں سکتا تھا اور نہ ان کو پکا سکتا تھا ۔ کیوں کہ اس کے پاس کوئی برتن نہیں تھا اور نہ ہی بعض پالتوں جانوروں کا دودھ نکال نہیں سکتا تھا ۔ اگرچہ اس نے پتھروں کے بعض برتن بنالیے مگر وہ مختصر اور بے ڈول تھے اور اس میں کوئی چیز ذخیرہ یا پکائی نہیں جاسکتی تھی ۔ پھر اس نے دیکھا کہ کچی مٹی گلی ہونے کے بعد اس سے چیزیں بنائی جاسکتی ہیں ۔ گو گیلی مٹی کے برتن اس نے بنالیے اس سے بھی اس کی زندگی میں انقلاب آگیا ۔ کہ وہ خشک چیزیں ان پرتنوں میں جمع کرلیتا تھا ۔ مگر ان برتنوں میں یہ خرابی تھی کہ وہ بہت نازک ہوتے تھے اور اس میں کوئی محلول وغیرہ نہیں رکھ سکتا تھا ۔ پھر اس نے مشاہدہ کیا کہ جہاں آگ جلائی جاتی ہے وہاں کی مٹی سخت ہوجاتی ہے اور آسانی سے نہیں ٹوٹتی ہے ۔ اس لیے اس نے اپنے بنائے ہوئے برتنوں کو آگ میں پکانا شروع کیا ۔ اس سے اس کے برتنوں میں مظبوطی آگئی ۔ اس نے ان برتنوں میں بہت سی چیزیں جمع اور پکانا شروع کیں ۔ ان کے ٹکرے آج بھی بہت سے جگہوں سے ملے ہیں ۔
انسان نے اگرچہ برتن بنالیے اور ان کو پکا کر مظبوط بھی آگئی ۔ مگر قباحت یہ تھی کہ اس کے برتن بے ڈول تھے اور زیادہ بڑے برتن نہیں بنائے جاسکتے تھے ۔ پھر جلد ہی انسان نے اس کا حل نکال لیا ۔ انسان جو گھاس کی چٹائیاں بنانے لگا تھا اور اس میں اتنی ترقی کی کہ ان چٹایوں کی ٹوکریوں بنانے لگا ۔ ان ٹوکریوں میں مختلف چیزوں کا ذخیرہ کرتا تھا ۔ مگر اسے بڑے برتنوں کی شدید ضرورت تھی ۔ پھر اس سے خیال سوجا اور اس نے ٹوکری بنائی اور اس پر مٹی تھوپ دی اور اس کے بعد اس نے اس کو آگ پر پکایا ۔ جس سے ٹوکری تو جل گئی مگر مظبوط برتن تیار ہوگیا ۔ اس برتن سے اسے بہت سہولت ہوگئی ۔ ایسے بہت سے برتن جو ٹوکری والے برتن کہلاتے ہیں پاکستان میں بھی بہت سی جگہوں پر ملے ہیں ۔ مگر یہ برتن بے ڈول ہوتے تھے اور ٹوکری کی شکل کے مطابق بنتے تھے ۔ پھر اس نے ان ٹوکری کے برتن میں نذاکت اور پیدا کرنی چاہی ۔ اس کے لیے اس نے اس برتن کو سڈول کے کے لیے اس کے گرد ہاتھ کے ذریعہ برابر کرنا چاہا تو برتن کے ہر طرف برابر کرنے میں اسے دقت ہوئی ۔ اس لیے اس اس پرتن کو ایک لکڑی کے ٹکڑے پر رکھا ۔ جس کو اس نے گھما گھما کر برتن کو برابر کرتا تھا ۔ اس طرح اس کے برتن پہلے سے خوبصورت ہوگئے ۔ مگر اس کے برتنوں میں نذاکت نہیں تھی ۔ وہ اپنے برتنوں میں مزید خوصورتی اور نذاکت پیدا کرنا چاہتا تھا ۔ اس کے لیے اس نے لکڑی کے ٹکڑے کے نیچے اور اور گول لکڑی کا ٹکڑا رکھا اور اس پہ اس نے مٹی کو رکھ کر گھما گھما کر برتن بنانے شروع کئے ۔ وہ حیران رہ گیا کہ اس کے برتنوں میں زیادہ خوبصورتی اور نذاکت آگئی ہے ۔ مگر اس میں قباحت یہ تھی کہ اسے برتن بنانے کے لیے دو آدمیوں کی ضرور ہوتی تھی ۔ ایک اس چاک کو گھماتا اور دوسرا برتن بناتا تھا ۔ لیکن برتن بنانے والے کے سامنے کئی مسلے تھے ۔ چاک زمین پر رکھا ہوتا تھا اور اسے اس کے سامنے بیٹھ کر برتن بنانے ہوتے تھے ۔ اس نے سوچ بچار بعد ایک گول گڑھا کھودا اور اس میں اپنے چاک کو رکھا اور چاک کو اپنے پیروںسے گھما لگا ۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا چاک ایک ردھم میں گھوم رہا ہے ۔ اس نے چاک پر گیلی مٹی رکھی اور چاک کو پیروں سے گھمانے کر برتن بنانے لگا ۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس سے برتن اب آسانی سے بن رہے ہیں اور اس کے بنائے ہوئے برتنوں میں زیادہ نذاکت اور خوبصورتی کے ساتھ تیزی سے بن رہے ۔
چاک کی ایجاد انسان کی اہم ایجاد تھی اور اس کی بدولت انسان ہوش سمھالنے کے لاکھوں سال کے بعد اس قابل ہوا تھا کہ وہ صنعت اور ثقافت میں قدم رکھا اور چاک کی بدولت وہ برتنوں میں مختلف جدتیں کرکے ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے قابل ہوگیا ۔ کر برتن بنانے لگا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔