مٹی کے پتلے۔۔۔۔۔۲
چھوٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ابّووو۔!!؟؟
چھوٹی مسکرا رہی تھی لیکن آنکھوں میں شکایت، ملامت اور شرارت سبھی کچھ تھا۔جیسے کہہ رہی ہو ابو آپ بھی؟ ابو کو اس نے بہت اونچے استھان پر بٹھا رکھا تھا اور ابو کے منہ سے اتنی چھوٹی، اتنی ہلکی سی بات نے اسے مایوس کیا تھا۔
اس کا دل شیشے کی طرح ایسا صاف شفاف تھا کہ آر پار دیکھ لو۔ نہ کسی کیلئے دل میں کوئی کھوٹ تھی نہ کسی اور کے ساتھ کسی کی پیٹھ پیچھے بات کرنا اسے اچھا لگتا۔ اس کے نزدیک سب ہی اچھے تھے۔ کوئی کچھ برا کرتا بھی ہو تو شاید کسی مجبوری سے ہی کرتا ہو ، ورنہ کون برا رہنا چاہتا ہے۔
دفتر میں لیکن رقابت، چپقلش، سازش ، چھینا جھپٹی تو چلتی ہی رہتی ہے، جیسے باہر کی دنیا میں ہر پل ہر آن یہی کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ کوئی بھی کسی کا بھروسہ نہیں کرتا۔ سارے ہی ایک دوسرے سے چوکنا رہتے ہیں۔
لیکن یہ چھوٹی نجانے کونسی دنیا میں رہتی تھی۔ اسے کسی سے کوئی خطرہ، خدشہ اور ڈر ہی نہیں تھا۔ آس پاس کے سارے لوگ اس کیلئے اچھے تھے، لیکن اس کے ابو ان سب سے الگ تھے کہ وہ اسکے نزدیک سب سے زیادہ من موہنیے، سشیل، شریف، ، شائستہ اور دلنواز تھے۔ وہ ابو کو ایسا کیوں سمجھتی تھی ، ابو خود بھی نہیں جانتے تھے ۔ ہاں ابو کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کے اندر ہر وہ خباثت، منافقت، شیطنت اور کھوٹ کپٹ موجود ہے جو تھوڑی یازیادہ ہر انسان میں ہوتی ہے اور یہی کچھ ہے جو اسے انسان بناتا ہے نہیں تو وہ فرشتہ نہ ہوجائے۔
میں نے کسی دفتری ساتھی کے بارے میں کوئی طنزیہ جملہ کہا تھا۔ چھوٹی کے نزدیک میں ان باتوں سے ماوراء تھا۔ اسے مجھ سے ایسی چھوٹی سی ، ہلکی سی بات کی امید نہیں تھی۔
یہ چھوٹی ہمارے دفتر میں عارضی طور پر آئی تھی۔ نام اس کا ماہیکا تھا۔ چھوٹا سا ، بوٹا سا قد، دبلا پتلا جسم، سانولی رنگت اور بالکل سیدھے، گہرے کالے بال، لیکن جو چیز سب سے نمایاں تھی وہ اس کی بڑی بڑی شریر سی، ہر وقت مسکراتی آنکھیں تھیں۔
وہ میرے ہی ڈیپارٹمنٹ میں آئی تھی لیکن میرا اس سے کوئی خاص دفتری تعلق نہیں تھا۔ اس کی نشست چائے کے کمرے اور میری میز کے درمیان تھی۔ میں اس دفتر میں کئی سال سے تھا اور جس شعبے سے میرا تعلق تھا وہاں صرف میں اور میرے افسر اعلی کے علاوہ پانچ لڑکیاں تھیں۔ میرا اور ان لڑکیوں کے عمر میں خاصافرق تھا۔ لیکن دفتر میں ایک بے تکلف ماحول تھا کہ ان سب نے مجھ سے ہی کام سیکھا تھا اور ہر طرح کی دفتری اور ذاتی مشکل وہ بلا جھجک مجھ سے بیان کرتی تھیں۔ میں ان کا ساتھی، دوست اور بزرگ سب کچھ ہی تھا۔ دفتر میں ہر وقت ہنسی مذاق اور لطیفے چلتے رہتے۔ کام کا دباؤ بے حد ہوتا لیکن میرے تجربے اور دفتر کے ماحول کی وجہ سے ہم ہنستے بولتے مشکل مراحل سے بھی گذرتے۔ ہمارا ڈیپارٹمنٹ پورے ادارے میں مقبول تھا اور جسے بھی فراغت ہوتی یا کچھ دیر کیلئے سستانا چاہتا ، ہماری طرف چلا آتا۔ اکثر دوسرے ڈپارٹمنٹ کے ساتھی بھی اپنی الجھنیں مجھ سے بیان کرتے۔ اس دفتر میں صرف میں ہی پاکستانی تھا۔ عرب، فلپائنی اور گورے بھی تھے لیکن بہت کم، زیادہ تر بلکہ ہندوستانی ہی تھے جن میں اکثریت ہندو اور عیسائیوں کی تھی۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ میں یہاں کے چند پرانے ترین لوگوں میں سے تھا ، تو ان سب کی پہلی دوستی مجھ سے ہی ہوتی۔ اکثر کے ساتھ فیملی کی تعلقات تھے اور ہم ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے خاص کر تہوار وغیرہ کے دنوں میں۔ یہ سارے انڈین تھے اور میں تنہا پاکستانی لیکن وہ سب میرا احترام کرتے اور مجھ سے کبھی کوئی ایسی بات نہ کرتے جس سے کہ میں بد مزہ ہوں۔ میں بھی یہی کوشش کرتا کہ دفتر کے ماحول کو ہر ممکن پر سکون رکھوں۔ ہم ہنسی مذاق میں ایک دوسرے پر جملےکستے لیکن دل میں میل نہ لاتے۔
ماہیکا کسی عارضی پروجیکٹ کیلئے آئی تھی۔ مجھ سے مختصرا تعارف ہو چکا تھا جیسا کہ ہمارے ہاں دستور تھا کہ ہر نئے آنے والے کو دفتر کے تمام لوگوں سے ملوایا جاتا۔ ماہیکا کے آنے کے بعد یہ شاید دوسرا یا تیسرا دن تھا۔ میں چائے بنانے جا رہا تھا، وہ ہتھیلی پر تھوڑی رکھے چپ چاپ کمپیوٹر اسکرین پر نظریں گاڑے بیٹھی تھی۔ چائے کے کمرے سے پانچ دس منٹ بعد واپس آیا تو وہ اسی انداز میں بیٹھی ہوئی تھی۔ کچھ دیر بعد ریکارڈ روم سے ایک فائل لیکر پلٹا تو اس کو اسی طرح پایا۔ میں اس کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا۔ وہ چونکی اور مسکرا کر میری طرف دیکھنے لگی۔
" تم نے وہ جوک (لطیفہ) سنا ہے مینٹل ہاسپٹل والا" میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" نہیں ! کون سا؟ "
میں نے اسے پرانا گھسا پٹا لطیفہ سنایا کہ ایک پاگل خانے میں ایک ذہنی مریض کسی دیوار کے ساتھ کان لگائے بیٹھا تھا جیسے کچھ سننے کی کوشش کر رہا ہو۔ ہسپتال کے ایک ملازم نے اسے دیکھا اوراپنے کام کیلئے چلا گیا، کچھ دیر بعد وہاں سے گذرا تو وہ شخص یونہی کان لگائے بیٹھا تھا۔ ملازم پھر آگے بڑھ گیا۔ تین گھنٹے بعد جب چھٹی ہوئی تو ملازم نے دیکھا کہ وہ شخص اب بھی کا ن لگائے بیٹھا ہے۔ ملازم کو تشویش ہوئی اور وہ بھی وہیں دیوار سے کان لگا کر بیٹھ گیا۔ چند منٹ گذرے تو ملازم نے مایوسی سے سر ہلایا اور اس شخص سے کہا کہ مجھے تو کچھ سنائی نہیں دے رہا، تم کیا سن رہے ہو۔؟
" میں صبح سے کان لگائے بیٹھا ہوں، قسم لے لو کہ کوئی آواز سنائی دی ہو اور تم پانچ منٹ میں پوچھ رہے ہو کہ کیا آواز آرہی ہے" وہ ذہنی مریض بولا۔
ماہیکا لطیفہ سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑی پھر چونک کر پوچھا " سو واٹ ڈز اٹ میں" ( اس کا کیا مطلب ہے) میں نے بتانا چاہا کہ تمہیں یوں بیٹھے دیکھ کر۔۔۔۔وہ سمجھ گئی اور پھر ہنسنے لگی۔ میں نے سنجیدگی سے پوچھا خیریت تو ہے،
" نہیں کچھ نہیں، بس یونہی"
اور یوں ہم دوست ہوگئے۔ وہ جنوبی ہند کی رہنے والی تھی لیکن اس کی زبان بہت صاف تھی بلکہ وہ ہندی سے زیادہ اردو کے الفاظ بے حد صاف تلفظ سے ادا کرتی۔ دوسری چیز جو اسے دیگر ہندوستانی لڑکیوں، جنکی اکثریت ساؤتھ انڈین اور گو انیز کی تھی، سے ممتاز کرتی تھی وہ تھا اس کا لباس۔ وہ ہمیشہ پاکستانی فیشن کی تراش کے کپڑوں میں نظر آتی۔ اسکے والد مرکزی حکومت کے ملازم تھے اور ان کا زیادہ تر دہلی اور یوپی میں رہنا ہوا، یہی وجہ تھی کہ ماہیکا دیگر ہندوستانیوں کے مقابلے میں بہت ستھری زبان بولتی تھی۔ اسکی شادی بھی ایک متمول سندھی ہندو گھرانے میں ہوئی تھی اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کی ایک پڑوسن پاکستانی تھی، جس سے یہ پاکستانی جدید فیشن کے لباس منگواتی رہتی تھی۔ عام طور پر ساؤتھ انڈین لڑکیوں کا فیشن کا ذوق دوسروں ہندوستانیوں سے مختلف ہے۔ وہ جدید فیشن کو فورا" نہیں اپناتے۔
لیکن یہ زبان اور لباس نہیں بلکہ اس کی صاف دلی، بھولپن اور ہر وقت کی مسکراہٹ تھی جو ہر ایک کو اس کا گرویدہ بنائے رکھتی۔
اور اس دن میں کسی الماری سے کچھ تلاش کر رہا تھا کہ میرے فون کی گھنٹی بجلی۔ وہ قریب ہی کھڑی تھی۔ میں نے اس اشارہ کیا کہ فون اٹھالے، اس نے فون پر کچھ سنا اور مجھے آواز دی" ابو".
یہ میری چھوٹی بیٹی کا فون تھا۔ چونکہ ہمیشہ میں ہی فون اٹھا تھا، اس نے مجھے آواز دی تھی۔ ماہیکا کے انداز میں شرارت تھی۔
اب اس نے مجھے ابو کہنا شروع کردیا اور میں اسے " چھوٹی" کہہ کر پکارتا۔ چھوٹی کو ہر وقت ابو کی فکر رہتی۔ اور وہ واقعی ابو کی بیٹی بن گئی تھی۔
میں بہت کم گھر سے کھانا لا یا کرتا۔ دفتر لاکر کھانا گرم کرنا اور کھانے کے بعد برتن وغیرہ دھونا میرے لئے بڑا جھنجھٹ کا کام تھا۔ اکثر قریب کے ریسٹورنٹ سے سینڈویچ یا برگر کھا کر کام چلا لیتا۔ لیکن جس دن میں کھانا لاتا، چھوٹی میری میز پر ہوتی۔ وہ خود تو شاید ایک چڑیا کے جتنا کھاتی لیکن جب تک میں کھانا ختم نہ کرتا وہیں بیٹھی رہتی۔ میرے لئے گلاس میں پانی یا کوئی مشروب انڈیل کر رکھتی۔ کھانا ختم ہوتے ہی میں روکتا رہ جاتا اور وہ برتن اٹھا کر لیجاتی اور پھر دھوکر، کچن ٹاول سے خشک کرکے میرے بیگ میں رکھ دیتی۔
اسے میرے چائے کا اوقات کا پتہ تھا۔ اب وہ مجھے چائے بنانے نہ دیتی بلکہ وقت پر میری میز پر وہی چائے لاتی جیسی کہ میں پیتا تھا۔ اس کے کام کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن وہ ابو کی ہر ضرورت سے باخبر تھی۔ میری عادت بگڑتی جا رہی تھی۔ وہ یہاں مستقل ملازم نہیں تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں کیا کرتا۔
اور انہی دنوں میں شدید قسم کا زہر خورانی ( فوڈ پوائزننگ) کا شکار ہوا۔ ایک دن کام پر نہ جا سکا۔ لیکن کام بہت زیادہ تھا اگلے دن بھی طبیعت بدستور ویسی ہی تھی لیکن دفتر جانا پڑا۔ ہر تھوڑی دیر بعد غسلخانے کی دوڑ لگاتا۔ دوسری بار جب واش روم سے واپس آیا تھا چھوٹی میری میز پر "ہر بل ٹی" لئے منتظر تھی۔
" یہ کیا ہے"
"بس آپ اسے پئیں' چھوٹی نے حکم دیا۔ "اس سے پیٹ ٹھنڈا ہوجائے گا"
وہ نجانے اپنے بیگ میں کیا الم غلم لئے پھرتی تھی۔ دن میں دو تین بار' ہر بل ٹی ' سے مجھے واقعی افاقہ ہوا۔ وہ گلاس لئے آتی تو میری آنکھیں نمناک ہو جاتیں کہ اس طرح تو کبھی بیٹیاں بھی خیال نہیں رکھتیں۔
میری بڑی بیٹی کی منگنی تھی۔ میں نے اسے بتایا۔ "اوہو۔۔ کب ہے بہنا کی منگنی" ۔۔۔۔ یہ ایک مختصر اور خالصتا" خاندانی تقریب تھی دفتر کے کچھ قریبی ترین دوستوں کو میں نے مدعو کیا تھا۔ چھوٹی بھی ان میں تھی۔
" بہنا کیلئے"
یہ ایک چھوٹے سے باکس پر لکھا ہوا تھا جس میں بہت خوبصورت بالیاں تھیں، جن پر نگینے جڑے ہوئے تھے،اور ابھی اسے ہمارے ہاں کام کرتے بمشکل ڈیڑھ ماہ ہوئے تھے۔
جیسی دلنواز اور ہمدرد وہ دفتر میں تھی ویسی ہی شاید اپنے سسرال میں بھی تھی۔ اس کے دیور کی شادی ایک پنجابی ہندو خاندان میں ہورہی تھی۔ میں اور میری اہلیہ بھی دوبئی کے ایک بڑے پنج ستارہ ہوٹل میں مدعو تھے۔ چھوٹی خوبصورت سی ساڑھی میں بنی سنوری، گڑیا سی لگ رہی تھی اور سارے میں منڈلاتی پھر رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ ایک ایک مہمان کی دلداری صرف اسی کا فرض ہے۔ ہماری میز پر آئی۔ میری بیگم سے گلے ملی، میں نے سر پر ہاتھ پھیر کر دعائیں دیں، بیگم نے سرزنش کی، " ارے اس کا جُوڑا خراب ہوجائے گا"
" نہیں ، ابو کو نہ روکیں' جُوڑا پھر بن جائے گا" چھوٹی پھر مہمانوں کی طرف چلی گئی لیکن ہر تھوڑی دیر بعد خبر گیری کرتی رہتی۔ یہ سندھی اور پنجابی خاندانوں کے درمیان شادی تھی۔ ان کے ہاں دوسروں کے مقابلے میں بہت رسومات ہوتی ہیں۔ دونوں خاندان کاروباری اور پیسے والے تھے۔ بہت دھوم دھڑکا رہا۔ جیسے ہی رسمیں ختم ہوئیں، چھوٹی ہمیں اپنے سسرال والوں سے ملانے لے گئی۔ " یہ ہیں میرے ابو" اس نے اپنے شوہر کو بتایا۔ وہ میرے گٹھنے چھونے جھکا، میں نے اپنے آپ کو سمیٹ کر پیچھے کیا اور اسے گلے لگا لیا۔
دفتر میں لیکن میں اسے کبھی کبھار کہیں کھویا ہوا دیکھتا۔ نجانے کیا سوچتی رہتی۔ کھانے کی میز پر میں اس سے کہتا کہ تم نے کیا کھایا ہے تو کہتی کہ بس بھوک نہیں ہے۔
کچھ دن بعد چھوٹی نے کام چھوڑ دیا۔
مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ کھانا زیادہ کھا ہی نہیں سکتی تھی۔ اسے آنتوں کی نجانے کیا بیماری تھی کہ وہ صرف بہت ہی ہلکی غذا کھاسکتی تھی۔ اس کے ہلکے پھلکے پن کا بھی شاید یہی راز تھا ورنہ سندھی اور پنجابی گھرانوں کی خواتین تو اپنی صحتمندی کیلئے مثال تھیں۔
کچھ دن فون پر بات چیت ہوتی رہی۔ پھر آہستہ آہستہ میں اپنے کام اور گھر میں مصروف ہوتا گیا۔ پھر یہ ہوا کہ میرا موبائل فون بدل گیا مجھے خیال نہ رہا کہ اس کے ساتھ ہی اس کا فون نمبر بھی غائب ہوگیا۔ بہت دن بعد اسے فون کرنا چاہا تو اس کا نمبر ندارد۔ میرے علاوہ کسی کے پاس اس کا نمبر ہی نہیں تھا۔
پھر ایک دن اس کا فون آیا۔ اس نے ہمارے ایک ڈیلر ، جو کہ ایک بڑی فرنچائز تھی، کے ہاں ملازمت کرلی تھی۔ ہمارے دفتر کا ایک نمائندہ جو وہاں جاتا رہتا تھا مجھے اس کی خبریں دیتا رہتا۔
پھر ایک دن اس نے بتایا کہ چھوٹی ہسپتال میں ہے۔ اسے کوئی سنگین بیماری تھی۔ میں نے پوچھا کہ کیا بیماری ہے تو کہںے لگا کہ ہے کوئی بری بیماری۔ اسے چھوٹی سے میرے تعلق کا علم تھا اور وہ بتاتے ہوئے ڈرتا تھا۔ مجھے اب فکر سی ہوگئی۔ میری دعاؤں میں اب چھوٹی سرفہرست ہوگئی۔ میں نے اپنے ساتھی سے اس کا نمبر لیا۔ اسکے شوہر نے فون اٹھایا اور کہا کہ میں بعد میں کبھی فون کرلوں۔ پھر میرا وہ ساتھی بھی کسی دوسری کمپنی میں چلا گیا۔ مجھے دوبارہ فون کرنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ ایک انجانے خوف نے مجھے گھیرا ہوا تھا۔ میں نے اپنے ساتھی کو فون کیا اس نے بتایا کہ اب وہ گھر آگئی ہے۔
کچھ عرصے بعد ایک اور خبر نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا۔ پتہ چلا کہ اس کے ہاں بیٹی ہوئی ہے۔ اسکی جسمانی حالت جیسی میں نے دیکھی تھی اور اس کے بعد اس گمنام بیماری کا سن کر تو مجھے فکر پڑگئی کہ چھوٹی کیونکر ماں بننے کے جاں گسل مرحلے سے گذری ہوگی۔
بہت عرصہ ہوا مجھے چھوٹی کے بارے میں اور کچھ نہ معلوم ہوا کہ میں خود اپنی زندگی کے ایک مشکل ترین دور سے گذر رہا تھا۔ مجھے اپنا ہی ہوش نہ تھا۔ یہ داستان پھر کبھی سناؤں گا۔ بات تو چھوٹی کی ہورہی ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ شاید اب کہانی میں کوئی دردناک موڑ آنے والا ہے کہ ہر ایسی کہانی کا انجام المناک ہی ہوتا ہے۔
وہ جو عرش بریں پر بیٹھا دنیا کو چلا رہا ہے۔ جو دکھائی بھی نہیں دیتا لیکن ہر جا جسکی قدرت کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں۔ وہ صرف ہماری بداعمالیوں کی سزا ہی نہیں دیتا نہ ہر وقت عذاب نازل کرتا ہے۔ وہ ، وہ ہے جس کی رحمت کا ، کرم کا کوئی شمار نہیں۔ جس کے ادنی ترین احسان کا شکر ہم تمام زندگی کی صلاحیتیں جمع کرکے بھی ادا نہیں کرسکتے۔ وہ رحمان اور رحیم بھی ہے اور یہ وہ صفت ہے جسکے ہم سب ہمیشہ محتاج رہتے ہیں اور جو اپنی یہی صفت سب سے زیادہ ہم پر نچھاور کرتا ہے۔
جی ہاں ۔۔۔میں چھوٹی کو ڈھونڈتا رہا کہ مجھے وہ فیس بک پر مل گئی۔ "ابو، کہاں ہیں آپ۔۔اپنی چھوٹی کو بالکل ہی بھول گئے" ۔ میں شرمندہ تھا۔ میری طلب صادق ہوتی تو میں ضرور اسے دیکھنے جاتا۔ لیکن میری فکر کرنے سے دنیا نہیں چل رہی۔ دنیا وہ چلا رہا ہے جس نے اسے بنایا ہے۔ چھوٹی اب ماشاءاللہ بالکل صحتمند ہے۔ اسکی پیاری سی بچی ہے۔ اپنے شوہر کے ساتھ دنیا کے کئی شہر گھوم چکی ہے۔ یہ ایک معجزہ ہی ہے۔
وہ جو عرش بریں پر بیٹھا دنیا کو چلا رہا ہے، جو دکھائی بھی نہیں دیتا لیکن ہر جا جس کی قدرت کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں۔ چھوٹی کو نئی زندگی دے کر ہم سے شاید کہہ رہا کہ دیکھو جینا ہے تو اس طرح جیو۔ میں اسی طرح کے جینے والوں کے طفیل دنیا پر اپنی رحمتیں برسا رہا ہوں۔