اس بد بخت کونسلر کو اللہ ہدایت دے…..بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہوں تو کشکول لے کر ووٹ مانگنے آ جاتا ہے…..اس کے بعد اس کا کہیں دُور دُور تک کوئی نشان نہیں ملتا…..اسے ذرا سا احساس نہیں کہ محلے کی اس سڑک کی کتنی بری حالت ہے…..اس پر توپیدل چلنے والے کی بھی سلامتی محفوظ نہیں !‘
چونتیس برس کی بھرپور سروس کے بعدحال ہی میں محکمہ انہار سے ریٹائر ہونے والے محمد صدیق اپنی بیٹھک میں اپنے محلے دار دوست راناسلیم کے سامنےاپنا دکھڑا تقریباً ہر روز باقاعدگی کے ساتھ بیان کیا کرتا۔ وہ اپنے گھر کے سامنے والی سڑک کی ابتر حالت سے اس قدرخفا رہا کرتا تھا کہ وہ بلا جھجھک اسے ابتر ملکی حالات سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ قرار دیا کرتاتھا۔اس کے غصے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے دمے کی شکایت تھی اور زیر تعمیر سڑک سے اڑنے والی دُھول گھر کے دروازے اور دریچوں کے ذریعے اپنا راستہ بنا کر اس کے نتھنوں تک پہنچ ہی جایا کرتی تھی۔اس نے اپنی زندگی کی جمع پونجی اور گریجویٹی سے یہ گھر یہاں اس لئے بنایا تھا کہ یہ نئی کالونی تھی اورتب یہاں زمین ارزاں نرخوں میں دستیاب تھی ورنہ پورے شہر کے رہائیشی علاقوں میں قیمتوں کو تو جیسے آگ لگ ہوئی تھی۔ جب اس گھرکی تعمیر مکمل ہوئی تھی تو اس نئی کالونی میں ایک لائن میں اِکا دُکا ہی گھر تھے جن کے سامنے سے گذرنے والی اکلوتی سولنگ سڑک نئی نویلی دلہن کی طرح اس سے گذرنے والے لوگوں سے شرمایا کرتی تھی اور کبھی کبھی تو گھنٹوں اس راہ پر آنے والے کسی راہی کا شدت سے انتظار کیا کرتی تھی۔اس کالونی کا ایک اور حسن اس کے ارد گرد پھیلے سر سبز کھیت اور سرخ کھجوروں سے لدے اونچے پیڑ تھے اور ان کے درمیان رنگ و روغن سے محروم سرخ اینٹوں والے تازہ تعمیر شدہ مکان بالکل یوں لگا کرتے تھے جیسے سرخ پروں والے خانہ بدوش پرندے ہجرت کر کے اس سر سبز نئے علاقے میں بسیرا کرنے اُتر آئے ہوں۔اور تو اور محمد صدیق نے یہاں سستا پلاٹ لینے اور اس پر اپنے گھر تعمیر کرنے کے اپنےاچھے تجربے سے متاثر ہو کر اپنی بیاہی ہوئی دونوں بیٹیوں، اپنے بڑے بیٹے اوراپنی چھوٹی سالی کو بھی دلیلیں دے کر یہاں پلاٹ لینے اور اپنا گھر بنانے کے لئے قائل کیاتھا!
وقت گذرتا گیا اوراس کالونی میں مکان بڑھنے اور اس کے اردگرد واقع سر سبز کھیت گھٹنے لگے۔ کھجوروں کے درخت کٹ کر زمین سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے۔اس کالونی میں جتنی تیزی کے ساتھ پلاٹوں کی قیمتیں بڑھیں اس سے کہیں زیادہ تیزی سے یہاں نئے مکانوں کی تعمیر کی رفتاربڑھتی چلی گئی۔آبادی بڑھی تو سب سے پہلے نو فٹ کی سولنگ والی سڑک کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔گھروں کے مرکزی دروازوں کے نیچے سے اژدہوں کی طرح رینگ کر باہر آنے والے اکثرچبوترے سڑک کے ساتھ بغلگیرہونے لگے اور سڑک کی چوڑائی نو فٹ سے سمٹ کر ایک ڈیڑھ فٹ مزید کم ہوگئی۔ کچھ عرصے پہلے تک آبادی کے ساتھ مناسبت رکھنے والے گٹر باقاعدگی کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے تواتر کے ساتھ اُبلنے لگے۔ایک ہی وقت میں دو گاڑیاں آمنے سامنے آ جاتیں تو گاڑی چلانے والوں کوبچپن میں پڑھی ہوئی دو بکریوں اور چھوٹے پُل والی کہانی یاد آ جاتی۔پھر اکثر دو ہی صورتیں ہوتیں، یا تو ایک بکری نیچے بیٹھ جاتی اور دوسری بکری اس کے اوپر سے محبت اور اتفاق کے ساتھ گذر جاتی یا پھر دونوں بکریاں ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے لگتیں اور نتیجتاً دونوں بکریاں پل سے نیچے گرکر مر جاتیں!
محمد صدیق نے اپنے طور ہر کوشش کر دیکھی ،بلدیہ کے بہتیرے چکر لگائے اور اس کے افسران سے لے کرعام اہلکاروں تک سب کی منت سماجت کر ڈالی مگر اس کے کہنے اور زور لگانے کا بس یہی فائدہ ہوا کہ اس کی اپنی بس ہو گئی اور وہ دمے کے مرض میں مزید شدت لے کربالکل ہی بستر سے جالگا۔ان دنوں سیوریج کے نئے پائپ بچھانے کے لئے بلدیہ کی آمد ہوئی تو رہی سہی کسر اس کھدائی نے پوری کر دی۔پہلے مسئلہ صرف سڑک کا تھا مگراب کھدائی کے باعث سڑک پر پڑے مٹی کے ڈھیرآہستہ آہستہ کبھی ہَوا اور کبھی آنے جانے والی ٹریفک کے ہاتھوں مجبور ہر کر فضاؤں میں بکھر کر آس پاس کے گھروں میں منتقل ہونے لگے۔محمد صدیق نے مٹی سے بچنے کے لئے اپنے تئیں اس کمرے کا انتخاب کیا تھا جو سڑک کی بالکل مخالف سمت پر واقع تھا مگر مٹی منہ زور ہوا کرتی ہے، دستک دئیے بغیر کہیں بھی جا سکتی ہے۔ یہ تو ان جگہوں پر بھی اپنی تہہ جما سکتی ہے جہاں انسان اس کا داخلہ ممنوع کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی تک کا استعمال بھی کر ڈالتے ہیں۔عجیب مخلوق ہیں ہم انسان بھی ، مٹی سے بنے ہیں مگر ساری زندگی ہماری مٹی سے نہیں بنتی۔اسے برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور اس سے دُور بھاگتے رہتے ہیں مگر یہ اپنی خام اور ماخذ کوکبھی نہیں چھوڑتی!
دمے کی وجہ سے اب محمد صدیق کی توجہ پکی سڑک پر کم اور اڑنے والی مٹی پر زیادہ رہنے لگی جو اس کے لئے دن بدن وبالِ جان بنتی چلی جا رہی تھی۔رانا سلیم اب ان کی طبیعت کا حال پوچھنے آتے تو سڑک سے زیادہ موضوعِ بحث اڑنے والی دُھول ہوتی۔
’رانا صاحب…..سڑک تو گئی بھاڑ میں…..ان مٹی کے ڈھیروں کا تو کسی کو کہہ کر کچھ کروائیے…..مجھے مٹی کے یہ ڈھیر اب اپنی قبر لگنے لگے ہیں……یہ ایک دن میری جان لے کر رہیں گے…..مَیں مروں گا تو سب اس کی وجہ بڑھاپا یا دمہ سمجھیں گے یا پھر زیادہ سے زیادہ کہیں گے کہ محمد صدیق کے جانے کا وقت آ گیا تھا….. کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ میری موت کی اصل وجہ کیا تھی…..میری نواسی اس روز مجھے کسی کتاب میں سے پڑھ کر بتا رہی تھی کہ یورپ ، چین اور جاپان میں اوسط عمر شہری اور طبّی سہولتوں کی وجہ سے تقریباًاسّی برس تک جا پہنچی ہے…..مَیں تو ابھی چونسٹھ برس کا ہوں…..زندگی میں بہت سے کام ابھی کرنے باقی ہیں…..مَیں صرف اس اڑتی ہوئی مٹی کی وجہ سے اس دنیا سے پندرہ سولہ برس پہلے چلا جاؤں اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے بھلا…..میرے جیسے کتنے ہی لوگوں کی قاتل ہماری سیاسی و بلدیاتی قیادت اور عوام کی فلاح و بہبود کے متعلق ان کی مجرمانہ غفلت ہے جو انہیں اپنے حصے کی پوری زندگی بھی جینے نہیں دیتے…. یہ بہت بڑی زیادتی اور بہت بڑا ظلم ہے رانا صاحب!‘ محمد صدیق ہانپتے ہوئے اپنا دل کا بوجھ ہلکا کیا کرتا۔
’عام انسان کی آواز ہمارے ایوانِ بالا تک نہیں پہنچتی تو اس کمرے میں دمے سے لڑتے ہوئے شخص کی کیا مجال ہے بھائی صدیق…..یہاں تو زندگی اسی طرح آتی اور اسی طرح جاتی رہے گی…..اسی کثرت کے ساتھ…..مجال ہے کسی کے کان پر جوں بھی رینگ جائے….جتنی دفعہ جاتا ہوں متعلقہ شخص اور افسران ہی موجود نہیں ہوتے اور اگر موجود ہوں تو اردلی سے پیغام ملتا ہے کہ ’صاحب میٹنگ میں مصروف ہیں!‘
’کاش ہماری ان عوامی نمائیندوں کی ایک میٹنگ ہمارے کالونی کی ادھوری سڑک اور اس پر اڑتی دھول کے بارے میں بھی ہوجائے ……مجھے لگتا ہے میری سانس اس روز بحال ہو گی جس روزمَیں اس سڑک پرسفید پتھروں والی بجری دیکھوں گا، مزدوروں کواس پر تارکول کا چھڑکاؤ کرتے دیکھوں گا اور جس روز ایک بڑا پیلا بلڈوزر اس سڑک کو آخری بار ہموار کرے گا تو مجھے لگے گا کہ میری زندگی کے باقی کے سولہ سال مجھے واپس مل گئے!‘ یہ کہتے ہوئے محمد صدیق کی آنکھوں میں امید کی کرن خواہ مخواہ روشن ہو گئی!
جاڑا آگیا مگر نہ سڑک بننے کی کوئی خبر آئی اور نہ اڑتی ہوئی دھول پر کسی کی نظرکرم ہوئی۔ موسم بدلتے ہی محمد صدیق کی حالت بھی بگڑ گئی اور پوری سردیاں اس نے جان کنی کے عالم میں گذاریں۔ کتنی ہی راتیں ایسی تھیں کہ وہ کراہتے ہوئے اپنے سرہانے بیٹھی اس کے لئے دوا اور دعائیں کرتی اپنی بیوی کو یوں دیکھتا جیسے وہ اپنا اور اس کا وقت ضائع کر رہی ہو!
’کچھ نہیں ہو گا ثریا…..چھوڑ دو یہ سب محنتیں…..مَیں یہ سردیاں نہیں نکال سکوں گا…..میری جان میری سانس کی نالی میں پھنسی ہے…..کم بختوں نے میری عمر کے سولہ سال مجھ سے چھین لئے….سوچا تھابچوں کی شادیوں سے فارغ ہو کرتم اور مَیں اکھٹے حج پر چلیں گے…..ساری عمر اکھٹے بیٹھ کر جن باتوں کو کرنے کا کبھی وقت نہیں ملا وہ اپنے آنگن میں بیٹھ کر کریں گے…..گذرے وقت کو یاد کریں گے…..مگر اب تو لگتا ہے مَیں ہی گذرنے والا ہوں…..کانوں میں اپنی نمازِ جنازہ کی تکبیریں سنائی دیتی ہیں!‘
اور محمد صدیق کی بیوی ثریا ہمیشہ کی طرح وہی کام کرتی جو اس نے ساری عمر کیا تھا۔ وہ اسے صبر کی تلقین کرتی اور اس کی دلجوئی کرتی رہتی ۔ اس کی آواز اب محمد صدیق کو کم ہی سنائی دیتی اور اس کے رکھے مرہموں سے اس کے زخموں کی پِیڑھ کم نہ ہوتی!
سردیاں خدا خدا کرکے رخصت ہوگئیں اور بہار نے درختوں کی شاخوں سے امیدِ رنگ بکھیرنے شروع کئے تو ان دنوں خدا خدا کر کے بلدیاتی الیکشن کا دَور بھی آن پہنچا۔محمد صدیق کی حالت کافی خراب تھی۔ پچھلے دنوں میں اس کی سانس کی نالی کا آپریشن بھی ہوا تھا مگرکچھ دنوں کے افاقے کے بعد اب صورتحال پھر ابتر ی کی جانب لَوٹ رہی تھی۔وہ روز اس کی زندگی کا خوبصورت ترین دن تھا جب رانا سلیم نے اسے یہ نوید سنائی ۔
’ہماری سنی گئی بھائی صدیق…..ہماری کالونی کی سڑک بننے جا رہی ہے…..مجھے پتہ تھا اس طرح کے کام بلدیاتی الیکشن کے موقعوں پر ہی ہوتے ہیں…..مٹی کے بچے کچھے ڈھیر اٹھائے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ اب بجری کے ڈھیروں نے لے لی ہے…..تارکول کے ڈرم بھی پہنچ گئے ہیں اور جس پیلے بلڈوزر کا آپ کو انتظار تھا وہ بھی گلی کی نکڑ پر کھڑا ہے…..اب مٹی نہیں ہو گی…..اب صاف ستھری نئی سڑک ہو گی…..اب آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں….مٹی اور سڑک کے بارے میں آپ کا پرانا گلہ دُوراب ہونے جا رہا ہے!‘
محمد صدیق کی خواہش پراس کے بیٹے نے اس کے ہلکے پھلکے وجود کوگود میں اٹھا یا اورگھر کے دروازے کی دہلیز پرلے جا کر اسے باہر کا بدلا ہوا منظر دکھایا۔ محمد صدیق کی آنکھوں میں امید کا موہوم سا دِیا روشن ہوا اور لبوں پر لرزتی ہوئی مسکراہٹ ابھر آئی مگر وہ نقاہت اور طبیعیت کی خرابی کے باعث کچھ کہہ نہ سکا!
الیکشن میں چند روز باقی رہ گئے تھے۔ موجودہ کونسلر نے اگلی دفعہ انتخاب پھر سے جیتنے کے لئے اس روز ساری رات کھڑے ہو کر خود سڑک مکمل کروائی مگر اسی رات محمد صدیق زندگی کی بازی ہار گیا۔اس نئی سڑک پر جو پہلی ٹریفک چلی وہ اس کا جنازہ تھا۔جس جگہ یہ نئی سڑک ختم ہوئی اس سے آگے قبر کی مٹی ایک بار پھراس کی راہ دیکھ رہی تھی۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...