مِسوسو رونات {Mitsou Ronat} ک شہرت اور ان کے ادبی اور فکری کارناموں کی بھنک اردوکی ادبی، لسانی اور تنقیدی مباحث کا حصہ نہیں بن بائی۔ اپنی مختصر اور ان کی ناگہانی حادثے کے سبب وہ اپنی فکریات مکمل نہ لاسکیں۔ انھوں نے اپنی 38 سالہ زندگی میں لسانی اور ادبی بساط پر کئی فکر انگیز نظریات کو پیش کیا اور کئی مروجہ نظریات سے بھی سخت اختلاف کیا یا ان پر ازسر نومکالمے کی ضرورت کو محسوس کیا۔ جس پر مغرب میں ادبی نظریہ دان اور نقادین بات پرتے ہوئے اغماّص برتے تھے۔ ان کے فکری نظریات پر بہت کم لوگ بات کرتے ہیں۔ بہر حال اردو میں اب یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ان کے لسانی اور ادبی فکریات کا جائیزہ لیا جائے اور جدید تر ادبی نظریات سے تقابل اور تجزیہ کرکے نئی سمتیں اور اس کے اطلاقی پہلوں کواجگر کیا جائے۔
ان کی شناخت ہم عصر نظریہ دان نقادوں ہنری ڈیلوئی ، مارٹین بروڈا ، جیکس روؤڈ اور الزبتھ روڈینسکو {Henri Deluy, Martine Broda, Jacques Roubaud and Elisabeth Roudinesco} کے ساتھ کی جاتی ہے۔ وہ جریدے ایکشن پوٹیک { Action poétique }کی کمیٹی کی رکن کی حیثیت سے سے بھی کام کرتی رہی ،مِسوسو رونات ۔ے" تل کوئیل" {Tel Quel} کے بارے میں تنقیدی خیالات کا اظہار کیا۔ اور اس کے حکمت عملیوں سے سخت اختلاف کیا۔ اور جولیا کرسٹیوا کے لسانی ماڈل اور اس سے متعلقہ نظریات پر شید اتراضات کرتے ہوئے ان نظریات کو سخت ہدف تنقید بنایا۔
مِسوسو رونات 1967 میں وہ" اجتماعی تبدیلی" کے نظرئیے کے زیر اثر ایک حلقے میں شامل ہوئی۔ جس کی بنیاد ژاں پیئر فائی { Jean-Pierre Faye,}نے رکھی تھی ، اس وقت انہوں نے نوم چومسکی کے خیالات ،لسانی اور سیاسی خیالات کو توسیع اور ترویج دی۔ اور ادب کے تجزیے میں" اجتماعی تندیلی" کے نظرئیے کے زیر اثر اس لسانیات کے استعمال کی حمایت کی تھی۔ اور اس کی فکری تاویلات پیش کی۔
وہ پولیوانوف {Polivanov} کے دائرے میں بھی شامل تھیں ، جہاں انھوں نے متعدد ماہر لسانیات اور شاعروں سے ملاقات کی جن میں جیک روؤڈ ، ژان کلاڈ ملنر، جیکولین گورون اور پیری لوسن شامل تھے۔ انھوں نے متعدد مقالے شائع کیے جن میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چومسکی کے رکاوٹوں کے تصور کو ادب کے مطالعہ تک بڑھایا جاسکتا ہےاور انھون نے چومسکی کے نظریات کی پیچیدگیوں ، ابہام اور تضاداتکی طہارت کرتے ہوئے نئے مفاہیم عطا کئے۔
مِسوسو رونات کے ساتھ ایک گفتگو پر نوم چومسکی نے مٹسو روونٹ پر لکھا ہے۔ جومسکی امریکہ کا ماہر ماہر لسانیات اور شاید اس کا سب سے متنازعہ سیاسی نقاد ہیں جواپنی زندگی کے دونوں اطرافسے حقائق کو اکٹھا کرتے ہیں اور اس وسیع ، غیر رسمی اور انتہائی رسائی کے ساتھ اپنا بڑی ذہانت سے کرتے ہیں۔۔ مِسوسو رونات کے ساتھ مکالموں کی شکل میں شائع ہونے والی کتاب " زبان اور ذمہ داری"میں نوم چومسکی نے سب سے پہلے "دانشوروں کی ذمہ داری" میں کئی حساس اور متنازعہ موضوعات کو چھیرا۔ اورجو جدید لسانیات میں کلیدی امور کی قابل ذکر معلوماتی ، قاموسی، لسانی فہم سے قابل فہم تحقیقات کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ اس راستے میں چومسکی اپنی سیاسی ، اخلاقی اور لسانی سوچ کا خود پورٹریٹ پیش کرتے ہیں۔ وہ امریکی دانشوروں کے بارے میں اپنے تجزیہ کو گہرا عمیق تناظراور افق فراہم کرتے ہیں۔ جس نے امریکی معاشرتی سائنس کے دیوالیہ پن کو واضح طور پربیاں کیا ہے اور وہ امریکی امن تحریک ، واٹر گیٹ ، امریکی خارجہ پالیسی ، روسی اختلاف رائے رکھنے والے دانشوروں اور اہل فکر جو موجودہ موجودہ سیاسی امور کی میزبانی کرتے ہیں۔ اس کا ایک روشن جائزہ پیش کرتا ہے۔ جس سے نت نئی فکری ابھرتی ہے۔
امریکی دانشوروں کے عمومی نظریاتی عقائد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ، چومسکی تخلیقی گرائمر کی تاریخ کا ایک انمول تعارف پیش کرتا ہے۔ انہوں نے گذشتہ پینتیس سالوں سے ان تنازعات کی نقاب کشائی کی جنہوں نے زبان کے بنیادی ڈھانچے کو تشکیل دیا ہے اور ان سیاسی معاشرتی نتائج کو پیش کیا ہے جو معاصر معاشرے کے مطالعے میں اس طرز عمل سے متاثر کن رویوں کے مفروضوں سے پائے جاتے ہیں۔
مِسوسو رونات اسٹیفن ملیارمی اور جیمس جوائس کی تفھیمات اور انتقادات کی بھی ماہرہ اور ناقدہ ہیں۔ مِسوسو رونات نے فلپ سولرز کے تشکیل دئیے ہوئے فکرکے خاکے کردہ جیمس جوائس کے تجزیے پر تنقید کی اور قاری کو اس حوالے سے نئے زاوئیے سے سوچنے کا عندیہ دیا۔
1980 میں انھوں نے تبور پیپ {Tibor Papp} کے اشتراک سے ان کی نظم "ان کوپٹ ڈی ڈس جمیس ن ابولیرا لی ہاسارڈ" {Un coup de dés jamais n'abolira le hasard"} کا اشتعال انگیز ایڈیشن شائع کیا۔ جو خاصا متنازعہ اور لوگوں کو اشتعالت تو دلواتی ہیں مگر یہ انتخاب بہت مقبول بھی ہوا۔
این بنفیلڈ اور سیج یوکی کوروڈا{Ann Banfield and Sige-Yuki Kuroda} کے بہت قریب رہی ۔ 1974 میں مِسوسو رونات نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
مِسوسو رونات فرانسیسی ایسوسی ایشن ڈیس سائنسز ڈو لنگیج کی پیئر پیکا {Pierre Pica}اور دیگر لوگوں کے ساتھ شریک بانی تھیں ، وہ نوم چومسکی کے ہمرا متعدد لسانیات کے مقالوں کی مصنف تھیں۔
اپنی زندگی کے آخری حصے میں ، مِسوسو رونات خاص طور پر زبان اور پیشوا وں کے مابین انٹرفیس میں دلچسپی بھی لیتی رہی۔ انھوں نے اس کے علاوہ افزائشی قوائدیات۔ زبان کے لسانی پہلووں، اور رہقانی گرجا پر بھی لکھا ہے۔ مِسوسو رونات متعدد نظموں کی شاعرہ تھیں جہاں انہوں نے زبان اوراس کے وژن کے مابین تعلقات کا تجزیہ کیا۔ جس میں لسانی شعریات اور اس کے اسلوب کے تجربات ہی نہیں کئے بلکہ شعریات میں معاشرتی انسلاک کو بھی دریافت کیا۔ جس میں ان کا شعری وجدان اور تجربہ منفرد اور یکتا ہے۔ ان کا انتقال 8 جولائی 1984 کو ایک کار حادثے میں ہوا۔
*انکی یہ دو کتابیں معروف ہیں:
Ronat, Mitsou (1984), Focus, Intonation, Grammaire, Thèse d'état, unpublished, Paris,
Ronat, Mitsou (1975), La langue manifeste, Littérature et théories du langage, Action Poétique, Paris.
** ان کی سوانح عمری Ronat, Mitsou, Bibliography of Mitsou Ronat, in Formes, Hommage à Mitsou Ronat, Recherches linguistiques de Vincennes, 14/15 (Pierre Pica ed) کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ **