آج بھی یاد ہـے جـب چھـوٹـی تھـی
اور چـلتے ہوئـے تھـک جـاتـی تھـی
مِـرے بابا مـجھے کاندھوں پـہ اُٹھـا کـے چـلتے تھے
اور کہـتے تھے اُڑ رہی ہے پری
ایسـے لگـتا تھا اس جـہان میں سـب سے بلـند تر مَـیں ہـوں
اُن کے بازو پہ سـر رکھے مَـیں رات تاروں بھـرا جـب آسـمان دیکھتی تھی
تـو پوچھـتی تھی کـہ بابا یـہ سـتارے کـیا ہیں
وہ یـہ کہـتے تھے کہ اُڑتـی ہوئـی دنیائیـں ہیں
مـحـوِ پرواز ہـے تمـام کائـنات
اصـل انسـان وہـی ہے جـو جـہل کـی حـدوں کـو توڑتا رہے
عـلم کـے پـنکھ لئے آزاد فضـائوں مـیں اُڑان بھـرے
فـکری بونے فقط انسان نما ہیں
تم نے اُڑنا ہے پـری
مَـیں اُڑونگـی بابا
آسـٹروناٹ بنـونگـی
پـیار سے دیکھ کـر وہ چھومـتے مِـرا مـاتھا
ایک دن اُن سـے شکایـت کـی مَیں نے
دیکھو بابا مـجھے ہی ڈانٹـتی رہـتی ہـیں ہـر وقـت امـی
بھائـی کـو کچھ نہیـں کہـتے
انہوں نے واشـگاف کـہدیا یـہ امـی سے
مِـری پری کـے پر کـترنے کـی غـلطی نہ کـرو
کـسی سے کـم نہیں ہمـاری آسـٹروناٹ
اور اُس پـل مِــرے پائوں زمـیں سے اوپـر تھے
پھـر اچـانک اک دن
کھــو گئـے بابا
ریـنگنے والـوں کـو پرواز سے چــڑ تھـی اُن کـی
مـجھے ایسے لگا
آسـمانوں کـی بلـندی سـی گِـری ہوں مَـیں گـہری کھائی میں
اب یہ عــالم ہے ہـمہ وقـت
ہاتھ مـیں باپ کـی تصـویر لـئے
پھـرتی رہتی ہوں دربدر مَیں ڈھـونڈھـنے اُن کـو
مــیلوں چـلتی ہوں پـر نہـیں تھـکـتی
جــانتی ہـوں کـہ کھـو گـیا مـجھے کاندھـوں پـہ اٹھـانے والا
جھـڑ گئـے پـنکھ پـری کے
ایک ہی کام راہ تکـتی ہوں صبح و شام
روتـی رہـتی ہوں بس فـٹ ہاتھ پہ بیٹھـی
اس انتـظار میں شـاید کـوئی بابا کـی خـبر لے آئے
تھـکی ہاری جـو گھـر میں رات کـسی پہـر
سـو بھـی جـاتی ہوں تو دہلـیز پہ رکھ دیتی ہوں جـگـتی آنکھـیں
درو دیوار و بام مـجھ کـو قـفس لگـتے ہـیں بابا کے بغـیر
مِــرے ســر پر تھا اُن کا ہاتھ مـیری کُل کائـنات
ریـنگنے والے اے اغـواکارو
کچھ تو احـساس کـی عـادت ڈالـو
تـم کـو اپنی ہی بیٹـیوں کـا واسطـہ
مـیرے سـر سے گُـشان مـت چھـینو
تم مِــرا سـائـبان مـت چھـینو
مـیرے بابا ہی پنکھ تھے مـیرے
مـجھ سے مـیری اُڑان مـت چھـینو
“