(Last Updated On: )
آٹھ دسمبر 1989ء کو صبح خیزیا رمضو ٹھگ اپنی آ بائی کمین گاہ کوچۂ چہل جہلا و سفہا سے نکلا اور حسب ِ معمول جب سیاہی وال کے نواح میں گندے نالے کے کنارے واقع خانہ بدوشوں کی جُھگیوں سے کچھ دُور کُوڑے کے ایک ڈھیر کے قریب سے گزرا تو ایک نو مولود بچے کے زور زور سے ہنسنے کی آواز سُن کر وہ چونکا ۔ وہ دبے پاؤں کُوڑے کے ڈھیر کی طرف لپکا اور اُس نے آگے بڑھ کر ایک کمبل میں لپٹے نو مولودبچے کو اُٹھا لیا۔یہ تو نومولودبچی تھی جس کی مامتا سے عاری سفاک اور عیاش ماں نے اپنا جُرم چھپانے کی غرض سے اسے کُوڑے کے عفونت زدہ پر پھینک دیاتھا۔ یہ نو مولود بچی جس کمبل میں لپٹی ہوئی تھی اس میں ایک پوٹلی بھی پڑی تھی ۔رمضو ٹھگ نے للچائی نگاہوں سے پوٹلی کو دیکھاتو اُس کی کر گسی آ نکھوں میںایک شیطانی چمک پیدا ہوئی ۔ اس پوٹلی میں دو کلو کے قریب سونے کے زیورات اور کچھ کر نسی نوٹ تھے ۔ رمضو ٹھگ نے پوٹلی اور زیورات فوراً اپنی قمیص کی جیب میں ٹھونس لیے اور بچی کو بغل میں لے کر گھر کی جانب چل پڑا۔راستے میں ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر جب اُس نے کرنسی نوٹ گِنے تو مجموعی رقم دس لاکھ تھی ۔ گھر پہنچا تو سب نے دیکھا کہ اس نو مولود لڑکی کے منھ میں بتیس دانت تھے،اُس کی بھینگی آ نکھیں دیکھ کر سب ڈرگئے ،وہ مسلسل ہنستی چلی جاتی تھی ۔ کوچۂ چہل جہلا و سفہا کی بزرگ خواتین کی متفقہ رائے تھی کہ یہ نو مولود لڑکی چڑیل ہے یا تشفی مل کنجڑے کی بیوی امیرن بائی جو اپنے زمانے کی رسوائے زمانہ طوائف ،چڑیل اور ڈائن تھی اُس کی بد روح ہے ۔ سیاہی وال کے مغرب میں دریائے جہلم کے کنارے گھنے جنگلوں میں رہنے والی امیرن بائی نے اپنی زندگی میں ایک سو نوجوانوں کا خون پیا اور سیکڑوں گھرانے بے چراغ کر دئیے ۔ اِس پر اسرار نومولود لڑکی کے پاس ایک پاؤ لہسن چِھیل کر ر کھا گیا اور کمرے میں دہکے ہوئے اُپلوں پر ہر مل چھڑک کر اُس کو لوبان کی آگ کی دُھونی دی گئی تو اس کی ہنسی تھم گئی ۔ رمضو ٹھگ اور نائکہ تفسہہ نے کوڑے کے ڈھیر سے ملنے والی اس نومولود بچی کو اپنی بیٹی قرار دیا اور اس کا نام مصبہا بنو رکھاگیا۔ جنم پتری کے ماہر روفی مَل نے اس نو مولود بچی کو دیکھتے ہی آہ بھر کر کہا:
’’ آج سے تیس سال بعدیہ سبز قدم اور اُلٹے پیروں والی منحوس بچی تو ایک بلائے نا گہانی اور محافظہ ٔ رومان بننے والی ہے ۔ یہ طوائف زادی جب گیارہ سال کی ہو گی تو لُوٹ مار ،اخلاق باختگی ، جنس و جنوں اور فحاشی و عیاشی کی ایسی شرم ناک کہانیاں اس حرافہ سے وابستہ ہوں گی کہ لوگ اس کاتک کی کتیا کو دیکھتے ہی لاحول پڑھنے لگیں گے ۔ اس کی لُوٹ مار ،ٹھگی، جنسی جنون ،عریانی اور فحاشی کو دیکھنے کے لیے شیرکے کلیجے اور تیندوے کی بے حیائی کی احتیاج ہوگی ۔اس منحوس لڑکی کا جنم معاشرتی زندگی کے لیے انتہائی بُر اشگون ہے۔یہ اُس زمانے کی بات ہے جب آتش جوان تھاایک شعر مجھے یاد ہے جسے اس موقع پر کچھ تبدیلی کے ساتھ عرض کرتاہوں :
بانجھ ہو جائیں زمینیں اور بیلیں دکھائی نہ دیں
پھرکبھی کُُوڑے پہ ایسی چڑیلیں دکھائی نہ دیں ‘‘
ایک ضعیف ستارہ شناس موکھو بقال نے مصبہا بنو کے بھینگی آ نکھوں کی جانب دیکھا اور کہا ’’ کوچہ ٔ چہل جہلاو سفہاسیاہی وال کے بھڑووں کا یہ قبیلہ کُوڑے کے ڈھیر سے اپنا پُرانا ناتہ خوب نبھا رہاہے ۔ اس لڑکی کو گودلینے والی نائکہ تفسہہ بھی سال 1958ء میں کُوڑے کے اسی ڈھیر سے تشفی مَل کنجڑے کو مِلی تھی ۔ستاروں کی گردش ،ہاتھوں کی لکیروں ، سر ،کانوں ،پیشانی اور کلائیوں کی ساخت سے اس کی حقیقی ماں کے بارے میں سب حقائق مجھے معلوم ہو گئے ہیں مگر میرے موکل اور ہم زادنے مجھے یہ راز ظاہر کرنے سے روک دیاہے ۔ مشکوک نسب کی یہ لڑکی تو میسو پو ٹیمیا کی سمندر ی بلا تیامت ( Tiamat) کی نسل سے ہے۔ بتیس سال کی عمر میں اس چڑیل کی ایک سو بتیس منگنیاں ہوں گی مگر ہر بار یہ سب منگنیاں اس لیے ٹُوٹ جائیں گی کہ یہ منحوس چڑیل اُن سب رشتوں کے تقدس کو پامال کر کے اُن میں مینگنیاں ڈال دے گی ۔ شہر بھر کے قحبہ خانوں میںحسن و شباب کا یہ چمن ہزاروں مرتبہ لُوٹا جائے گا ۔آخر کار اس کے پڑوس میں رہنے والا ایک بزاز کا بیٹا ابزو (Abzu)جو اس کا ہم عمر ،ہم جماعت اور بچپن کا یار ہو گا وہی اِس طوائف زادی کو اپنے خوابوں کی ملکہ بناکر لے جائے گا مگر یہ چڑیل تیامت اُس ابزوکے لیے عذابوں کا حلقہ ثابت ہو گی ۔‘‘
مقامی جوتشیوں اور نجومیوں نے بتایا کہ اس نومولود لڑکی کے سنکھیا جیسے سفید رنگ پر نہ جاؤ یہ تو کالی دیوی کی پُجارن ہے اس کی زبان کالی اور قدم سبز ہیں۔ سال 2020ء میں پوری دنیا ایک عالمی وبا کی لپیٹ میں آ جائے گی ۔ وبا کے وقت یہ سبز قدم لڑکی اپنی جرائم سے آلودہ زندگی کی بتیس بہاریں دیکھ چُکی ہو گی ۔اس وبا میںیہ سبز قدم جنسی جنونی ڈائن علاقے کے امیر لڑکوں کو اس قدر لُوٹے گی کہ وہ سب دولت مند نوجوان کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جائیں گے۔ سیاہی وال سے تعلق رکھنے والی رقاصاؤں،کنچنیوں اور ڈومنیوںمیں نائکہ تفسہہ اور مصبہا بنوکی عریانی ،فحاشی اور جسم فروشی کے ہر طرف چرچے تھے۔ مشاطہ کے ہاں سولہ سنگھار کر کے بیش قیمت لباس پہنے سونے اور چاندی کے زیورات سے لدی یہ طوائفیں گھر سے ایسے نکلتیں جیسے شکاری مسلح ہو کر شکار کے لیے گھر سے گھنے جنگل کی طرف نکلتاہے ۔ چشمِ بینا رکھنے والے اِن طوائفوں کی آرائش اور چکا چوند کو دیکھ کر بلا تامل کہتے کہ اِن کی آرائش بلا شبہ زرق بر ق ہے سوائے کردا ر کے جو قحبہ خانے کی زندگی کی پشیمانیوں ،ہوس کی تباہیوں ، جنس و جنوں کی روسیاہیوں اور عصیاں کی ظلمتوں میں غرق تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وطن عزیز کے ہر شہر میں ان رذیل جسم فروش طوائفوں کے عشرت کدے تعمیر ہو گئے اور دنیا ان طوائفوں کے کالے دھن او رکرتوں کو دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ دہلی کی رذیل جسم فروش طوائف رقاصہ اورمغنیہ لال کنور جو آخر ی عہد ِ مغلیہ کے خفیف و خسیس بادشاہ جہا ںدار شاہ کی اہلیہ بن کر امتیاز محل کا لقب بٹور نے میں کامیاب ہو گئی اور ہندوستان کو مکروہ زوال کی بھیانک تاریکیوں میں دھکیل کررُوسیاہی جس کا مقدر بناوہ اِس خاندان کی مورث تھی۔ سادیت پسندی اوراپنے ضمیر کی نیلامی اِن رقاصاؤں کے خمیر میں شامل تھی ۔ وضیع خاندان سے تعلق رکھنے والی رذیل نائکہ تفسہہ تقدیر کے ماروں سے عجب کھیل کھیلتی رہی نائکہ تفسہہاپنی بیٹی محافظہ ٔ رومان مصبہا بنوکو اپنے آ بائی پیشے کے اسرار و رموزسمجھاتی اور کہتی:
’’ تم اُس طوائف لال کنور کی سگڑ نواسی ہوجو ایک ماہ میں دو کروڑ روپے کما لیتی تھی ۔ایک پیشہ ور طوائف کی حیثیت سے لا ل کنور نے اپنے ترکش کے سب تیرچلا کر اپنے بھائیوں کو منصب دار اور جاگیر دار بنایا مگر تمھارے بھائی گنوار انتھک ، پنواڑی مَل اور اناڑی مَل جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ لال کنور نے اپنی سہیلی زہرہ کنجڑن کو خواصی اور منتظر ملکہ ہند کے منصب پر فائز کرایا ۔ہم تو لا ل کنور ،ادھم بائی ،زہرہ کنجڑن اور بھاگ متی کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ مغل بادشاہ جہا ںدار شاہ جو لا ل کنور کا شوہر تھا چُلّو میں اُلّو بن جاتا اور سب مسخرے ،لُچے ،شہدے اور تلنگے اس جنسی جنونی کو ٹُھڈے مارتے تھے۔ اس جنسی جنونی طوائف کو جب اُس کی حقیقی محبت سے محروم کر دیا گیا تو اُس کی انا مٹی میں مِل گئی اور اُس نے بادشاہ کو اُس کی اوقات میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنی طوائف بیوی لال کنور کے اہانت آمیز سلوک اور گستاخانہ طرز ِ عمل کو دیکھ کر بادشاہ بھیگی بلی بن جاتاتھا۔دہلی کے نواح میں خوب صورت گلشن ’’ ـ ــ لال باغ‘‘ ـ ـ ـ اسی عیاش ملکہ لال کنورکی یاد دلاتاہے ۔ ‘ ‘
رمضو ٹھگ کا شمار علاقے کے خطرناک ڈاکووں میں ہوتاتھا ۔اُس نے اپنی بیٹی مصبہا بنو کو اپنے تجربات کی روشنی میں سمجھایا :
’’ اس علاقے میں جہالت اور توہم پرستی عام ہے اس لیے لوگوں میں شعور کا فقدان ہے ۔اپنی عملی زندگی میںتم چھٹی صدی سے تعلق رکھنے والی انطاقیہ اور استنبول کی جسم فروش طوائف تھیوڈورا کی مثال سامنے رکھو۔ریچھوں کے مداری کی اِس بیٹی نے اپنی دنیا آپ پیداکی ۔یہ حسین و جمیل لڑکی پانچ سال کی عمر میں یتیم ہو گئی ،اس کی ماں نے دوسری شادی کر لی ،سوتیلے باپ اور ماں کے ناروا سلوک کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری ۔اس بلبل نے کئی فربہ چغد پھانس لیے جن میں لبنان کے شہر صور کا ایک امیر نو جوان ہیسبولیس بھی شامل تھا ۔ عیاش اور متمول نو جوان ہیسبولیس نے تھیوڈوار کو اپنی داشتہ بنا لیا ۔پندرہ سال کی عمر میں تھیوڈورا کی گود میں اپنی ایک بیٹی تھی ۔اس کے ساتھ ہی ہیسبولیس نے تھیوڈورا کو چلتا کیا اور گلزار ِ ہست و بود میں کسی نئی تتلی کی تلاش میں نکل گیا۔ دھتکاری ہوئی داشتہ سے ملکہ بننا تھیوڈورا کا دیرینہ خواب تھااس کی تعبیر تلاش کرنے کی خاطر اُس نے لبنان سے استنبول کا سفر کیا ۔ جب تھیوڈورا کی عمر بائیس سال تھی تواُس نے چالیس سالہ عاشق شہزادے جسٹینین کا دِل جیت لیا اور سال 525ء میں جسٹینین سے شادی کر لی ۔ماضی کی اس بھکارن اور جسم فروش طوائف نے اپنی راہ کے سب کانٹے جن میں اُس کی ساس اور سسر شامل تھے ایک ایک کر کے ہٹادئیے اور ملکہ کی حیثیت سے تاج و تخت پر قبضہ کر کے سال 548ء میں اپنی وفات تک سلطنت روم کے سیاہ و سفید کی مالک بنی رہی ۔ اپنی محبوب ملکہ کی وفات کے بعد بادشاہ جسٹینین بہت پریشان رہتاتھا وہ ہر صبح تھیوڈورا کی آخری آرام گاہ پر حاضری دیتا اور دائمی مفارقت دینے والی محبوبہ کی خدمت میں آنسوؤں اور آ ہوں کانذرانہ پیش کرتاتھا۔وہ سال 565ء میں کوہِ ندا کی صدا سُن کر عدم کی بے کراںوادیوں کی جانب سدھارا۔ ‘‘
مصبہا بنو نے اپنے باپ کی باتیں سنیں تو وہ دنگ رہ گئی ۔اس کی آ نکھوں میں شیطانی چمک پیداہو گئی اور بولی :
’’ میری زندگی کی راتیں اسی کشمکش میں گزرتی ہیں کہ میں کیاکروں ؟میری ماں نائکہ تفسہ کہتی ہے کہ میں روس کی تسرینہ الیکزنڈرا بنوں اور اپنے لیے راسپوٹین کو تلاش کروں ۔میرا باپ کہتاہے کہ میں تھیوڈورا بن کر ملکہ بنوں ۔میں بہرام ٹھگ کی پڑپوتی اور لا ل کنور کی پڑ نواسی ہوں اس لیے میں چاہتی ہوں کہ اپنے لیے کسی ایسی راہ کا انتخاب کروں جو سب سے الگ ہو ۔‘‘
سیاہی وال میںطوائف محافظہ ٔ رومان مصبہا بنو اور نائکہ تفسہہ رقص و سرود اور جنس و جنوں کی تمام محفلوں کی روح رواں تھیں ۔ جب رقصِ مے تیز ہوتا اور ساز کی لے بلند ہوتی تو رذیل جسم فروش طوائف محافظہ ٔ رومان مصبہابنو کی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز طوائفیں بر ملا کہتیں :
’’ تخریب کچھ تو بہرِ خرافات چاہیے ۔‘‘
شہر میں ’’ جھٹ پٹ مرکزبیاہ‘‘ نے عیاشی ،بد معاشی اور لُوٹ مار کے ایک خطر ناک اڈے کی صورت اختیار کر لی ۔ محافظہ ٔ رومان مصبہا بنو کی صورت میں نائکہ تفسہہ کو ایک ایسی ماڈل میسر تھی جسے دکھا کر وہ پتھر کو بھی جو نک لگالیتی تھی ۔بے غیرتی ،بے ضمیری اور بے ایمانی کووتیرہ بنانے والی ان طوائفوں نے جن لوگوں کو اپنی لُوٹ مار کا نشانہ بنایا ان میں زیادہ تربوڑھے ریٹائرڈ ملازم شامل تھے ۔ یہ ضعیف چراغ ِ سحری تھے اور چاہتے تھے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کے سر پر سہرے باندھ کرایک خوشی دیکھ سکیں ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ یہ رذیل جسم فروش طوائفیں ضعیف ریٹائرڈ ملازمین کی آ نکھوں میںدُھول جھونک کر نہایت رازداری اور عیاری سے اُن کی زندگی بھر کی جمع پونجی ہتھیا لیتیں۔ ان جلاد منش طوائفوں کی ٹھگی،درندگی اور لُوٹ مار کانتیجہ یہ نکلتا کہ آلام ِ روزگار کے پاٹوں میں پِس کر بوڑھے تو عدم کے کوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لیتے مگران الم نصیب جگر فگار ضعیفوں کے پس ماندگان کے گھر کے اُداس بام ،کھلے در اوردیواروں پر حسرت و یاس بال کھول کر آ ہ و فغاں میں مصروف رہتی۔قحبہ خانے میںاپنا شباب گزارنے کے بعد رمضو ٹھگ کے ساتھ شادی کابندھن تفسہہ کے لیے انوکھا تجربہ ثابت ہوا۔نائکہ تفسہہ نے اپنے لے پالک بیٹی مصبہا بنوکے بارے میں اپنے قحبہ خانے کی جنسی کارکنوں کو بتایا:
’’ مری تربیت سے نوجوان طوائف محافظہ ٔ رومان مصبہا بنو اپنے پیشے میں اتنی ماہر ہو گئی ہے کہ یہ لال کنور،تسرینہ اور تھیوڈورا سے بھی بازی لے گئی ہے ۔روزانہ بیسیوں لُچے ،تلنگے ،مسخرے اور بھڑوے کالا دھن لیے اس نوجوان جسم فروش طوائف کو نوچنے اور اپنا منھ کالا کر نے کے لیے قحبہ خانے میںپہنچ جاتے ہیں ۔مصبہا بنوکی الھڑ جوانی اور چاندی کی گردن میںسونے کی گانی دیکھ کر جنسی جنونی مرد اس طوائف پر مر مٹتے ہیں۔‘‘
واقف ِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاہی وال کے شہر نا پرساں میں نائکہ تفسہہ اور طوائف مصبہا بنوکی کمین گاہوں کی پنہاں پناہ گاہوں میں عیاری کے نیزے ،مکاری کے بھالے ،محسن کُشی کے گُرز،حرص و ہوس کے تیر اور جنسی جنون کے لٹھ دھنسے تھے ۔ شہر کے قدیم باشندوں کا کہنا ہے کہ نائکہ تفسہہ اور محافظہ ٔ رومان مصبہا کی تمنا کے مطابق کہ ان کے شایان شان سیاہی وال کے نواح میں مغربی جانب واقع شہر ِ خموشاں کے سامنے خود رو ’’ نیلا تھوتھا ‘‘ اُجاڑ کے خار ستان میں اُن تمام لوگوں کو دفن کیاجائے جو ان ناگنوں کے کاٹنے سے چل بسے ۔ شہر سے دُ ور ایک ویرانے میں ’ کئی میلوں تک پھیلے ہوئے ـ ’ نیلا تھوتھا ‘‘ اُجاڑ کے خارستان میں بھنگ ،پوہلی ،جوانہہ،لیدھا،پُٹھ کنڈا،اکڑا،لیہہ،کریریں ، زقوم ،حنظل ،تھوہر،ناگ پھنی،دھتورا، اور خار ِ مغیلاں کی کثرت تھی ۔نائکہ تفسہہ کی تربیت سے محافظہ ٔ رومان مصبہا بنونے جنسی کارکن کا لبادہ اوڑھ کر بہت لُوٹ مار کی ۔
رنگ گورا کرنے والی کریموں کے بے تحاشا استعمال کے باعث نائکہ تفسہ کے چہرے پر گھنے بال اُگ آ ئے تھے ۔اِن سفید بالوں کی وجہ سے اِس نائکہ کا چہرہ بہت کریہہ ہو گیا تھا۔وہ ہر روز اپنے چہرے کے بال نوچ کر اُکھاڑ تی اور بن سنور کر نکلتی تھی ۔باسٹھ سالہ رذیل نائکہ تفسہ نے اپنے سر کے خضاب آلودہ بالوں پر ہاتھ پھیر کر کہا ’’ اِس ناتوانی اور ضعیفی نے مجھے عہدِ شباب کی تُربت کی مجاور بنا دیا ہے ۔ اپنی زندگی کے ایام ِگزشتہ کی تسبیح کے بِکھرے ہوئے دانے چنتے چنتے میری اُنگلیاں فگار ہو چُکی ہیں ۔ دنیا میں ٹھگی کی بڑی بڑی وارداتیں ہو رہی ہیں اُن سے بھی کچھ سیکھو۔ تمھاری سادگی کی وجہ سے ہر بار تمھاری منگنی ٹُوٹ جاتی ہے ۔ شادی کی صورت میں سونے کی جِس کان پر ہماری نظر ہوتی ہے منگنی ٹُوٹ جانے کے باعث وہ ہمارے ہاتھ سے نِکل جاتی ہے ۔ اِس ضعیفی میں جب بھی میں اپنے پرانے عشاق کے کوچے میں جاتی ہوں وہاں سے ذلت ، رسوائی اور جگ ہنسائی کے سوا مجھے کچھ نہیں مِلتا۔ میں ایسی کرگس ہوںجس نے اپنا گھونسلہ اَب اِس خارستان سے اُٹھا لیا ہے ۔اَب اِس کھنڈر میں زاغ و زغن ،بُوم و شِپر کا بسیر ا ہو یاکوئی ہمایہاں قیام کرے یہ باتیں میری بلا جانے ۔ میں جانتی ہوں کہ تم تسرینہ الیکزنڈرا (Tasrina Alexandra)سے کم نہیں اور تمھیں کسی گریگوری راسپوٹین (Grigori Rasputin)کی جستجو ہے ۔ قحبہ خانے کی نائکہ کی حیثیت سے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بنا پر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ پڑوسی بزاز کا بیٹا ابزوبھی راسپوٹین سے کم نہیں ۔اب تم جلدی سے ابزو کو اپنا لومگر وکٹورین عہد کی عورت کبھی نہ بنناہوشیاری سے کام لینا اور خوب سے خوب تر کی جستجو بھی جاری رکھنا۔‘‘
محافظہ ٔ رومان مصبہا بنونے اپنی ماں نائکہ تفسہہ کی بات سُن کر غصے سے کہا:
’’ دنیا میں جس طرح ٹھگی ہو رہی ہے میں اُس کے سب انداز اچھی طرح جانتی ہوں ۔ موجودہ زمانے میںبلغاریہ سے تعلق رکھنے والی کرپٹو کرنسی (Cryptocurrency) او رجعل سازی کی ملکہ رُوجا اِگناٹوا ( Ruja Ignatova) میرے قدموں کی دُھول ہے ۔ رُوجا اِگناٹوا نے قانون میں پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی میں نے اردو ادب میں ایم۔اے کیا اور میرا تحقیق مقالہ میر ی جسارت سارقانہ کا نمونہ ہے ۔ اکتیس سال کی عمر میں سرگودھا کی ایک جامعہ کے سیشن ( 2015-2017) کے دوران میںجعل سازی او ر سرقہ کے ذریعے ’’ اُردو اور دکنی زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ ‘‘ پرایم۔ فِل ( اردو )
کیا ہے اب میں نے محسن کُشی ،پیمان شکنی ،غارت گری اور ٹھگی میں پی ایچ ۔ڈی کرنے کا پکا ارادہ کر لیا ہے ۔ میںنے اور میری بہنوں نے بُرج الفریفتہ اور بُرج الضعیفہ میں کئی مکان اور فلیٹ خریدے ہیں۔ اس ملک کے ہر بڑے شہر کے نواح میں ہمارے فارم ہاؤس موجود ہیں۔پھونک پھونک کرقدم رکھنے والے نوجوان لڑکوں کے والدین کی احتیاطی تدابیر کے نتیجے میں اگر میری ایک منگنی ٹُوٹتی ہے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں میرے سامنے سیکڑوں خانداں اور بھی ہیں ۔ اس بار میں نے ایک کھرب پتی بزاز کے بیٹے کو اپنے دام الفت کا اسیر بنایاہے اب تو ہمارے خاندان کی پانچوں گھی میں ہو ں گی ۔‘‘
مارچ 2020ء میں کورونا وائرس کی عالمی وبا نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دیں۔ نائکہ تفسہہ ، رذیل جسم فروش طوائف محافظہ ٔ رومان مصبہا بنو گنوار انتھک اور بھڑوا پنواڑی اپنے قحبہ خانے اور چنڈو خانے کو حیرت و حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے جہاں ہر طرف اُلّو بول رہے تھے۔مکروال ،سیاہی وال اور سبز باغ کے وہ قحبہ خانے جہاں ہر وقت سمن ،شگن ،مصبہا بنو او ر تفسہہ کا رقص دیکھنے والے عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے عیاش تماشائیوں کا تانتا بندھا رہتاتھا کورونا کی وباکے باعث اب وہاں سکوتِ مرگ طاری تھا اور تیرگی ان کا مقدر بن چکی تھی ۔نائکہ تفسہہ نے منھ بنا کر اپنی لے پالک بیٹی محافظہ ٔ رومان مصبہا بنوسے مخاطب ہو کر کہا :
’’ مصیبت کی اس گھڑی میں کسی دیرینہ آ شنا کی آواز ڈھارس بندھانے کو نہیں آ ئی ۔ہم نے سر گرداب کئی بار پکارا مگر ہم اپنے ہی صداؤں کے بھنور میں غرقاب ہو گئے ۔ ایک طرف توکورونا وائرس کی وجہ سے ہمارا دھندا ٹھپ ہو کر رہ گیاہے دوسری طرف میری ضعیفی اور ہزاروں مرتبہ لُٹنے والے چمن کی ویرانی ہماری خوش حالی کی راہ میں سدّ ِ سکنری بن کر حائل ہو گئی ہے ۔اب ہمیں ٹھگی کے پرانے ناٹک میں کام کرنے والے اداکاروں کو نیا انداز اپنانے کا مشورہ دینا چاہیے ۔اَب محافظہ ٔ رومان مصبہا بنو ایک رقاصہ کے بجائے ایک عیار بہو کا کردار ادا کرے گی جو ایسے بوڑھوںکو لوٹے گی جو چراغ ِ سحری ہوں گے۔ یہ سٹھیائے ہوئے بوڑھے تمھارے مکر کی چالوں سے مات کھا جائیں گے ۔اپنے نوجوان بیٹے کی شادی کے موقع پر اُس کے سر پر سہرے دیکھنے کی تمنامیں وہ اپنی ساری جمع پونجی لٹو ادیں گے ۔‘‘
’’ میں کئی بھیس بنا کر سادہ لوح لوگوں کی آ نکھوں میں دُھول جھونک سکتی ہوں ۔یوں تو رازداری سے میری ایک ہزار منگنیاں اور ڈیڑ ھ سو سے زائد شادیاں ہو چُکی ہیں مگر کسی ضعیف،الم نصیب اور بے بس و لاچار شخص کی بہو بننے کا میرا کوئی تجربہ نہیں ۔یہ ایک انوکھا اور حیران کن منصوبہ ہے ۔اس ڈرامے کے لیے بہو کا کردار تو میں اد اکر وں گی مگر دوسر ے کردار کہاں سے لوگی ؟‘‘ محافظہ ٔ رومان مصبہا بنونے اپنی کالی زبان اپنے میلے اور بد وضع دانتو ںکے نیچے دبا کر حیرت سے کہا ’’ میرے لیے ایسا ضعیف سسر اور معمر ساس کہاں سے تلاش کرو گی جو گانٹھ کاتو پورا ہو مگر ہوش و خرد اور فہم و ادراک سے یکسر تہی ہو۔‘‘
’’ اس مقصد کے لیے ہمیں معمر اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو ڈھونڈنا پڑے گا۔یہ بوڑھے سرکاری ملازم جب ریٹائر ہو جاتے ہیں تواپنی نوجوان اولاد کی شادی کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘نائکہ تفسہہ نے غراتے ہوئے کہا ’’ اِن ریٹائر ہونے والے بوڑھو ں کو جی پی فنڈ،بیمہ اور پنشن کی ایڈونس وصولی کی صورت میں بھاری رقمملتی ہے ۔تمھاری اعلا تعلیم اور ملازمت کو دیکھ کر وہ بڑی آسانی سے ہمارے جال میں پھنس جائیں گے ۔اس کے بعد ایک گھنٹے کی ملاقات کا معاوضہ پانچ ہزارروپے نہیں بل کہ پانچ لاکھ روپے ہو گا۔ ‘‘
لوک داستانوں میں چڑیلو ںاور ڈائنوں کے بارے میں لکھا گیاہے کہ ڈریکولا نما یہ مخلوق اجل گرفتہ انسانوں کا خون پی کر گزر اوقات کرتی ہے ۔آج کے دور میں بھی چڑیلوں اور ڈائنوں کی کمی نہیں مگر ماضی کی چڑیلوں اور ڈائنوں سے ان کا معاملہ جداگانہ ہے ۔نئے دور کی چڑیلیں اپنے شکنجے میں آنے والے انسانوں کے خون پسینے کی کمائی پر گُل چھرے اُڑاتی پھرتی ہیں ۔اپنے جنسی جنون اور لُوٹ مار پرمحافظہ ٔ رومان مصبہا بنو کو بہت گھمنڈ تھااُس نے غراتے ہوئے اپنی سہیلی ساحرہ سے کہا:
’’ جہاں تک لُوٹ مار اور عیاش مردوں کو چُلّو میں اُلّو بنانے کا تعلق ہے میں بھی کسی سے کم نہیں ،تم مجھے کیا سمجھتی ہو ؟‘‘
ساحرہ نے جب مصبہا بنو کے تکبر کو دیکھا تو کہا:
’’ واہ ! کیا بات ہے ،باپ تاندلہ ،ماں اکروڑی اور بیٹی اس زعم میں مبتلا کہ وہ تو پیدائشی طور پر کستوری ہی ہے ۔بے سر وپا باتیں کر کے اب میرا منھ نہ کھلواؤ ،تم ایک چربہ ساز اور سارق محقق ہو تم نے رول نمبر PURSO-15 E 05 کے تحت سرگودھا کی ایک نئی جامعہ سے ایم فل ( اردو ) کی سندی تحقیق کے موضوع ’’ دکنی اور موجودہ اُردو زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ‘‘ سال (2015-2017)کے لیے جو مقالہ پیش کیا ہے وہ تمھاری جسارت سارقانہ کی قبیح مثال ہے ۔ ایک بزرگ استاد شبیر رانا کے تدریسی اشارات اور مقالات کا سرقہ کرنے کی خاطرتم نے اُس کی فرضی بہو کا بھیس بنایا اور تقدیر کے مارے ضعیف معلم کو دنیا کے آ ئینہ خانے میں تماشا بنا دیا۔ اے جعلی عقیدت اور فرضی مروّت کی اداکاری کرنے و الی محسن کُش طالبہ تم نے ڈگری ملنے کے بعد ضعیف معلم شبیر راناکو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے ۔ اپنے نوجوان بیٹے سجاد حسین کی وفات ( چھے جولائی 2017ء ) کے بعدشبیر رانا جیسے بزرگ اُستاد جس کی مشعلِ زیست تقدیر کے بے ر حم بگولوں کی زد میں ہے ،اُسے اذیت و عقوبت کا نشانہ بنانا سفاکی اور شقاوت آمیز نا انصافی کی لرزہ خیز اور اعصاب شکن مثال ہے ۔ پوری دنیا میں کسی بھی مہذب معاشرے میں سادیت پسندی کی مظہر محسن کُشی کی ایسی شرم ناک مثال نہیں مِلتی۔تم نے نہایت عیاری سے شبیر رانا کے اس مقالے پر ڈگری لی اور اس کے بعد کبھی ورجینا وولف اور کبھی سیفو کا سوانگ رچا کر واقف لوگوں کو مرعوب کرنا شروع کر دیا۔تم منھ اندھیرے اُٹھتی ہو اور رات گئے تک اپنے قحبہ خانے میں عیاش مردوں اور حسین و جمیل عورتوں کے ساتھ وقت گزارتی ہو ۔جنسی جنون تمھیں دیمک کی طرح کھا رہاہے ۔کچھ ہمیں بھی تو معلوم ہو کہ تم نے کون سے میدان مار لیا ہے اورکس طرح ستاروں پر کمند ڈالی ہے ؟‘‘
محافظہ ٔ رومان مصبہا بنونے اپنا عفونت زدہ بھاڑ جیسامنھ کھولا اور اپنے کر یہہ دانت پیستے ہوئے کفن پھاڑ کر ہرزہ سر اہوئی ’’خرچی کی کمائی سے ہم نے بڑی جائیداد بنا لی ہے ۔میں نے لُوٹ مار میں امریکی دہشت گردبیلے سٹار ( 1848-1889 : Belle Starr)، چین میں دہشت کی علامت سسٹر پنگ (: 1949-2014 Sister Ping )،پھولن دیوی (Phoolan Devi)،فرانس کی بدنام جواری ٹھگ سٹیفنی کلئیر ( : 1886-1969 Stephanie St. Clair )سمنتھا لیوتھویٹ ایکا( Samantha Lewthwaite aka)، کو لمبیا کی گریسلڈا بلانکو( : 1943-2012 Griselda Blanco (منظم جرائم میں ملوث امریکی مے نوش حسینہ ورجینا ہل ( 1916-1966 Virginia Hill : )لندن سے تعلق رکھنے والی جیب تراش میری فرتھ (1584-1659 : Mary Frith)، آئر لینڈ کی قزاق اینی بونی (Anne Bonny)، فرانس سے تعلق رکھنے والی سفاک قاتل شارلٹ کورڈے ( :1751-1829 Charlotte Corday)، امریکی دہشت گردمیری سورت( : 1823-1865 Mary Surratt)،امریکہ کی سفاک قاتل مابارکر ( 1873-1935 : Ma Barker)،سیما پریہار (Seema Parihar)، گھناونے جرائم میں ملوث امریکی بونی پارکر ( 1910-1934 :Bonnie Parker ) ،اٹلی کی بد نام ڈاکو ماریالیکارڈی ( Maria Licciardi) اور سال 2013 ء میں اپنے تئیں ارب پتی خاندان کی وارث ظاہر کر کے لُوٹ مار کا بازار گرم کر کے مکر و فریب کی نئی داستا ن رقم کرنے والی ایک معمولی ٹرک ڈرائیور کی بیٹی روسی ٹھگ اینا سورکن ( Anna Sorokin) کو بھی مات دے دی ہے ۔ اس وقت پوری دنیامیں ہماری وجہ سے خوف و دہشت کی فضا ہے ۔ جنسی جنون، منشیات ،اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ میںہمارے گروہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس شہر اور گرد و نواح کے سب لوگ ہمیں سسلین مافیا کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔میں نے ہر بو الہوس اور عیاش جنسی جنونی کی دعوت کی خاطر شہر بھر میں ہر طرف بساطِ جنس و جنوں پھیلا رکھی ہے۔‘‘
اپنی برائیوں پر گھمنڈ کرنے والی طوائف مصبا بنوکی باتیں سُن کرساحرہ خاموش ہو گئی اور وہاں سے رخصت ہو گئی ۔
جنسی جنون اور منشیات کے بے تحاشا استعمال سے بھڑوے رمضوٹھگ کو ایڈزکا مرض لاحق ہو گیا۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ایڈز کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس نے بھی رمضوٹھگکو دبوچ لیا۔خطر ناک اور مہلک بیماریوں نے رمضوٹھگ کو چڑ چڑا بنا دیا ۔خطرنا ک بیماریوں کے نرغے میں آنے کے بعد بھڑوا رمضوٹھگ اَب بات بات پر نائکہ تفسہہ کو ڈانٹتا اور اُس کے بڑھتے ہوئے مکر و فریب اور لُوٹ مار پر اکثر اُسے ٹوکتا رہتا۔ سب طوائفیں سازش کر کے رمضوٹھگکو اپنے قبیح دھندے سے ایسے نکا ل پھینکنا چاہتی تھیں جیسے دُودھ سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے ۔ نائکہ تفسہہ اور اس کی اولاد کے مظالم کو دیکھ کر رمضوٹھگ تڑپ اُٹھتا اور اس کی یہی کوشش ہوتی کہ کسی نہ کسی طریقے سے بوڑھے والدین کو ان رذیل طوائفوں کے پھندے اور گورکھ دھندے سے بچا لے ۔ نائکہ تفسہہ اپنی اولاد خاص طور پر دو عیاش بیٹوں گنوار انتھک اور اذکار الجھک کو اپنے باپ کے خلاف بھڑکاتی رہتی ۔اس کی بیٹیاں ،صباحت ،پونم ،رابی ،شگن ،سمن اور محافظۂ رومان مصبہا بنو نے اپنے قحبہ خانے کی طوائفوں کو خبر دار کیا کہ وہ خزاں رسیدہ رمضوٹھگکے قریب ہر گز نہ جائیں ورنہ وہ بھی ایڈز اور کوروناکے جان لیوا بیماریوںمیں مبتلا ہو جائیں گی ۔نائکہ تفسہہ کی اولاد کی بد سلوکی اورجان لیوا تنہائیوں نے رمضوٹھگ کی زندگی کو غم و آلام کے فسانے میں بدل دیا ۔
اپنی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور فاقوں سے تنگ آ کر ایک دِن رمضوٹھگ نے قحبہ خانے کے سب مکینوں کو بلایا اور کہا:
’’ میں اپنے اوباش کپوتوں گنوار انتھک اور اذکار الجھک جیسے فاتر العقل درندوں کو تو برداشت کر سکتا ہوں مگر میری اولاد کی خانہ جنگی نے مجھے مضطرب کر دیاہے۔ تمھاری گفتگو سُن کر یہ تاثر ملتاہے کہ تم نے غداری کی راہ اپنا لی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تم سب پر میرا اعتماد ختم ہو چکاہے ۔ شہر کا شہر اس بات کا گواہ ہے کہ یہاں بھانت بھانت کے لوگ آتے ہیں جنھوں نے گھاٹ گھاٹ کاپانی پیاہوتاہے ۔اس قحبہ خانے میں خرچی کی کمائی سے سب لوگ گل چھرے اُڑاتے پھرتے ہیں مگر میرے علاج اوردوا کی کسی کو پروا ہی نہیں ۔ میرے جانی دشمن تمھاری ر اہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں اور ہر وقت تمھیں میرے خلاف اکساتے ہیں ۔پر سوںجب ہولی کی نموداری ہوئی تو میں چلیک ،چپاتی اور حلوے کی جھلک دیکھنے کو ترس گیا۔ تمھارے قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں ہر وقت مداحوں کے ٹھٹھ لگے رہتے ہیں اور تمھارے عشرت کدو ںمیں تِل دَھرنے کی جگہ نہیں ہوتی مگر میں یہاں راکھی کے موقع پر بھی میں دلبروں کی دید کو ترستا رہتا ہوں۔ اپنے ہی خاندان کے ضعیف سر براہ کے خلاف صف آرا ہونا بزدلی اور بد بختی کی انتہا ہے ۔ ‘‘
دوپہر کا وقت تھا شدید سردی کاموسم تھا نائکہ تفسہہ کے پاس ایک مشاطہ بیٹھی تھی جو بھیرے کی مہندی اس بوڑھی نائکہ کے گیسو سنوارنے میں مصروف تھی ۔ آئینے میں کالی مہندی سے اپنے خضاب آ لود سیاہ بال دیکھ کر نائکہ تفسہ کی بڑی بڑی باچھیں کھل گئیں اور وہ نو جوان مشاطہ سے لپٹ گئی ۔میں تم سے لپٹ کر سونا چاہتی ہوں اور تم سے وہی سلوک کروں گی جو ربواوربیگم جان نے لحاف میں کیا تھاجس کا عصمت چغتائی نے اپنے افسانے ’’ لحاف ‘‘ میں ذکر کیا ہے ۔عصمت چغتائی نے اپنی کہانی لحاف میں خواتین کے باہمی میل ملاپ کے جس اصول کا ذکر کیاہے اب تو وہی میرا اور مصبہا بنوکا روز کا معمول ہے ۔یہ مہندی میں نے بھیرے کے ایک نوجوان لڑکے سے خریدی تھی جو سال1861ء میں تعمیر ہونے والے بھیرہ ریلوے سٹیشن کے دروازے کے سامنے زمین پر بیٹھا بھیرے کی مہندی بیچ رہاتھا۔اُس کڑیل نوجوان نے معنی خیز نگاہوں سے میری طرف دیکھااس کے بعد دِل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچ گئے با ت چل نکلی اور رات کو وہی نو جوان مجھے اپنے گھر لے گیااور میری خوب خاطر تواضع کی۔ اُس نوجوان کی سریلی آواز کی بازگشت آج بھی کانوں میں گونجتی ہے :
مہندی بھیرے کی
دِل کی کلی تو سُوکھ گئی
جھوٹی رونق چہرے کی
نوجوان مشاطہ کو ساتھ لے کر نائکہ تفسہہ ایک پلنگ پر جاکر لیٹ گئی ۔ایک گھنٹہ مساج کرنے کے بعد جب مشاطہ رخصت ہوئی تووہ ہانپ رہی تھی اور شدید سردی کے باوجود پسینے میں شرابورتھی ۔ نائکہ تفسہہ باہر نکلی اور جب اُس نے اپنے شوہر کو بیماری کی حالت میں بڑ بڑاتے ہوئے اور زہر اُگلتے ہوئے دیکھا تو وہ بھی آپے سے باہر ہو گئی ۔اُس نے اپنے گلے میں لٹکے اپنے دوپٹے سے اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہو ئے اپنی لے پالک بیٹی مصبہا بنو کو پکارا۔
مصبہا بنو نے وہیں سے آواز دی :
’’اِس بُڈھے کھوسٹ کی باتوں پر دھیا ن نہ دو اِ س نے تو ہماراجینا دوبھر کر دیا ہے ۔ اس گرگ ہی نے ہمیں یہ بتایا تھا کہ جسم فروشی ایسی سیڑھی ہے جو حسین لڑکی کو ملکہ بنا دیتی ہے ۔ ‘ ‘
رمضوٹھگ نے جب محافظۂ رومان مصبہا بنو کو غراتے ہو ئے سناتو اُس نے ترکی بہ ترکی جوا ب دیا۔
’’ دنیا کی تمام قباحتیں بھی تم جیسی محسن کُش عورت کے سامنے ہیچ ہیں ۔ بہت کم لوگو ںکو معلوم ہے کہ تم نے اپنے قلب اور ذہن کی تمام عفونت و سڑاند اپنے سنکھیا جیسے اُجلے چہرے کے پیچھے چُھپا رکھی ہے ۔تم ایسی زہریلی ناگن ہو جو اپنے شکار کو کاٹنے کے بعد اجل گرفتہ شکار کو تڑپتا دیکھ کر قہقہے لگاتی ہے ۔تم ایک ایسی چڑیل ہو جس نے حسینہ کا بھیس بنا رکھا ہے ۔ دولت کی حرص و ہوس نے تمھیں اندھا کر دیا ہے اورتم نے کذب و افترا کو وتیرہ بنا رکھا ہے ہو ش سے کام لو تم نے تو آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی ہے ۔اب میں دیکھوں گا کہ تم بے بس و لاچار ضعیف والدین کو کس طرح فریب دے کر لُوٹتی ہو ؟میں دنیا کے سامنے تمھاراکچا چٹھا کھول کر ر کھ دوں گااور تمھارے سب پروانوں کو بتا دوں گا کہ تمھارا تعلق تیسر ی جنس سے ہے او رتم یونان کی ہم جنس پرست شاعرہ سیفو کی دیوانی ہو ۔،اب یہ قحبہ خانہ،چنڈو خانہ اور عقوبت خانہ بند کرنا ہو گا۔اب میری اجازت کے بغیر یہاں کوئی عیاش مرد نہیں آ سکے گا۔‘‘
’’ اس وقت ہم جس راہ پر گامزن ہیں وہ تم نے ہمیں بتائی ہے ۔اس کے بعدہم کسی کی اجازت کے پا بند نہیں ۔‘‘ مصبہا بنو نے اپنے ضعیف اور بیمار باپ کو گُھورتے ہوئے دیکھا اور بولی ’’ اس تلخ حقیقت کو فراموش مت کرو کہ اس ضعیفی میںآرام و سکون کی جس زندگی کے خواب تم دیکھ رہے ہو کوئی اور بھی اس کا تمنائی ہے ۔ جسم فروشی ،ضمیر فروشی ،محسن کُشی ،چوری ،ٹھگی اور ڈکیتی کے سب طریقے تو ہمیں تم نے سکھائے ہیں۔اب نو سوچُوہے ڈکارنے کے بعد اِس خضاب آلودہ باگڑ بِلّے نے درندگی سے توبہ کرکے گنگا جَل میں نہانے کی ٹھان لی ہے۔ میں کالی دیوی کی متوالی ہوں اب میں دیکھوں گی کہ میرے ساتھ کون ٹکر لیتاہے ۔ تمھاری حرص و ہوس اور جنسی جنون نے تمھیں مفلس و قلاش کر دیاہے تمھاری تکالیف کا ازالہ تو صرف اجل کے ہاتھ میں ہے ۔ تمھاری زبان درازی نہ صرف تمھاری بے صبری کو ظاہر کرتی ہے بل کہ تمھارے باطن کی برائیوں کا حال بھی اس سے معلوم ہو جاتا ہے ۔ ‘‘
رمضوٹھگکی اہلیہ نائکہ تفسہہ اپنے قحبہ خانے میں اپنے پرستاروں کے جھرمٹ میں بن سنور کر بیٹھی تھی ۔نائکہ تفسہہ جب نیم عریاں لباس پہن کر رقص کرتی توقحبہ خانے میں موجود اُس کے سب شیدائی بھی بے خود ی کے عالم میں اُس کے ہم رقص ہو جاتے ۔اس عیاش طوائف کے رقص کا عجیب انداز تھا جو ہپناٹائز کر لیتاتھااور یہ دھما چوکڑی دیکھے والے عیاشوں کے دل و دماغ ہی نہیں جیبیں بھی خالی ہو جاتی تھیں۔جب یہ جنسی جنونی رقاصہ اپنی پنڈلیوں سے گھنگھرو باندھ کر زمیں پر پاؤں پٹختی تو اُس کی عریانی اور فحاشی کے مناظر دیکھ کر تما م شیدائی سمجھ جاتے کہ اس کی زندگی کے کون سے گوشوں کی عکاسی کی جارہی ہے ۔ خرچی کی آ مدنی سے اُٹھان کوٹ میں فارم ہاؤس کی تعمیر اس کی لُوٹ مار کا کرشمہ تھا۔نائکہ تفسہہ نے جب اپنے بھڑوے شوہر رمضوٹھگ کو بلند آواز میں بولتے سنا تو وہ بھی متوجہ ہوئی ۔وہ اپنی طوائف بیٹی محافظۂ رومان مصبہا بنوکی حمایت میں آگئی اور اس نے نحیف و ناتواں رمضوٹھگکو گھونسہ مارا اور اُس کی آنکھوں میں آ نکھیں ڈال کر کہا :
’’ میں اس قدر سادہ دِل نہیں کہ مصلحت اندیش ہو س پرستوں کی چالوں کو نہ سمجھ سکوں ۔تم نے ہم سے تصادم کی راہ منتخب کی ہے لیکن اپنی حقیقت کو مت فراموش کرو ۔ہمارا جوش تمھیں توڑ ڈالے گا اور تم بکھر جاؤ گے ۔ تمھاری یہ جرأت کہ تم میرے قحبہ خانے کی مستقبل کی وارث کے سامنے غراتے ہو ۔ میری خرچی کی کمائی سے تم نے زندگی بھر گل چھرے اُڑائے تمھاری عیاشی،کاہلی اور منشیات کی عادت بہت بڑی نحوست تھی جس نے میری زندگی اجیرن کر دی ۔ دیکھ لینا اب تم جیسے ناکارہ اور نکھٹو بھڑوے کاجاناٹھہر گیاہے تم صبح گئے یا شام گئے ۔ہمارے قحبہ خانے کی ساری آمدنی ختم ہوگئی تھی اور یہاں ہر طرف اُلّو بولتا تھا۔سیاہی وال کی یہ حسینہ مصبہا بنوہی ہے جس کے رقص اور جنس و جنوں کے افسانوں سے یہاں ہُن برسنے لگاہے۔مصبہا بنو کی قدر کرو جس نے تمھیں مالامال کردیا۔‘‘
محافظۂ رومان مصبہا بنو نے اپنے باپ کو قہر بھری نظروں سے دیکھا اور کہا :
’’ تم نے میری ماں اور میری بہنوں کو کوے ہنکنی سمجھ رکھا ہے ۔میں سمجھ گئی ہوں کہ تم میرے ساتھ وہی سلوک کر ر ہے جو مطلق العنان مغل بادشاہ اورنگ زیب نے اپنی سب سے بڑی بیٹی زمیندہ بیگم المعروف زیب النسا مخفیؔ(1637-1702) کے ساتھ کیا تھا۔ زیب النسا مخفی نے حافظہ مریم ،میا بائی اور شاہ رستم غازی سے اکتساب فیض کیا ۔ زندگی بھر تنہائیوں کازہر پینے پر مجبور کی جانے والی زیب النسا مخفی نے لاہور میں چو برجی کا باغ میابائی کو تحفے میںدیا۔نواں کوٹ لاہور کے ایک ویران علاقے میں ردائے خاک اوڑ ھ کر سونے والی زیب النسا مخفی کے مرقد پر دو قدیم درخت صدیوںسے سایہ فگن ہیں ۔ ہزاروں رباعیات ،پانچ سونظمیں اور غزلیں لکھنے والی اس الم نصیب اور جگر فگار شاعرہ شہزادی نے اپنی زندگی کے آخری بیس سال سلیم گڑھ قلعے میںعالم تنہائی میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ اور نگ زیب نے اپنی بیٹیوں زینت النسا بیگم ،زبدۃ النسا بیگم ،بد ر النسا بیگم اور مہر النسا بیگم کے ساتھ بھی اُسی طرح کاظالمانہ سلوک کیا جیسا تم میری بہنوں،پینم،مصبو ، صباحت ،رابی ،سمی اور شگن کے ساتھ کر رہے ہو ۔ اورنگ زیب کی شاعرہ بیٹی زیب النسا مخفی ؔنے سچ کہا تھا:
آ کر ہماری لاش پہ کیا یار کر چلے
خوابِ عدم سے فتنہ کو بیدار کر چلے
جُدا ہو مجھ سے مرا یار یہ خدا نہ کرے
خدا کسی کے تئیں دوست سے جُدا نہ کرے
کہتے ہو تم نہ گھر مرے آیا کرے کوئی
پر دِل نہ رہ سکے تو بھلا کیا کرے کوئی
آکر ہماری لاش پہ کیا یار کر چلے
خواب ِ عدم سے فتنے کو بیدار کر چلے
مصبہا بنو کی مزاج آ شنا سہیلی ساحرہ نے جب تاریخ کے یہ معتبر حوالے سُنے تو اُس نے آ ہ بھر کر کہا :
’’ مصبہا بنو کو یونانی دیو مالا میں مذکور نیموسین ( Mnemosyne) کی نو بیٹیوںجن میں شاعری ،تاریخ ،موسیقی،محبت ،المیہ ، گیت ، رقص ،طربیہ اور فلکیات شامل ہیں کے سروشِ غیبی کے بجائے دس نظر آتی ہیں ۔وہ افلاطون سے متاثر ہو کر یونانی شاعرہ سیفو کو جس کی جنم بھومی لیسبوس ہے ہمیشہ دسویں سروش غیبی سے تعبیر کرتی رہی ہے ۔ مصبہا بنو کے عیارانہ تبسم میںایسی دل فریب رمز پنہاں ہے جو ہر ملاقاتی کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے اور ناتواں طیوربھی دانہ چگنے کی خاطر اِس کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ ‘‘
مقتول دوشیزگی کی دائمی مفارقت میں تڑپنے والی اور اپنی محبوبہ ا یتھیس اور اپنے نو جوان محبوب ملاح لڑکے فاڈن کی تعریف میں شعر کہنے والی شاعرہ سیفو کے بارے میں چند اہم امور کا ذکر کرتے ہوئے رمضو ٹھگ نے کہا:
’’ یونان کے جزیرہ لیسبوس ( Lesbos)سے تعلق رکھنے والی نغمہ نگار شاعرہ سیفو( Sappho , B : c 630 BCE ,D:c,570 BCE )سے مصبہا بنو کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی سے سیاہی وال اور گرد ونواح کے شہروں کے سب لوگ آگاہ ہیں ۔ مصبہا بنو کا کہناہے کہ جنس ،عشق اور حُسن و رومان کے سب سوتے یونانی دیوی افرودیتی(Aphrodite) کی جنسی اشتہا ہی سے پھوٹتے ہیں ۔حُسن و رومان اور جنس و جنون کی اسی یونانی دیوی سے متاثر ہو کر مصبہا بنو نے اپنے قحبہ خانے میں جھاگ، آئینہ ، گلاب کے پھول ،ڈالفن ، بگلے ،بطخ ،موتی ،صدف ،فاختہ ،چڑیا ،کمر بند اور مر غابی کی تصاویر آویزاں کر رکھی ہیں ۔سیاہی وال کی متعدد ضعیف عورتوں کا کہنا ہے کہ مصبہا بنو ایک بدنام زناخی ہے جو اکثر چڑے ، جنگلی کبوتر ، بٹیرے اور تلیر کھا کر اپنے ہٹیرے میں آنے والی اپنی دوپٹہ بدل نو جوان سہیلیوں سے لباس فطرت میں لپٹنے اور اظہار ِ محبت کرنے کی عادی ہے ۔ گھٹیاعیاشوں کا مسکن ہونے کے باعث شہر نا پرساں سیاہی وال بھی عجیب ہو رہا ہے جو رفتہ رفتہ کوفے کے قریب ہو رہا ہے ۔ اس شہر میں ہر طرف مصبہا بنو کے چپٹی باز ہونے کی خبر گرم ہے اور وہ جس طرف چلتی ہے بھرے بازار کی ملامت اور دو طرفہ ندامت اُس کے ساتھ ساتھ چلتی ہے ۔اس پیمان شکن، طوطا چشم،محسن کُش اور کینہ پرور طوائف کی بد اعمالیوں کے باعث اس کے چنڈو خانے کے در و دیوار پر ذلت اور تخریب کے کتبے آ ویزاں ہو چکے ہیں ۔ ‘‘
رمضوٹھگ کی بڑی بہن رقاصہ شمی یہ باتیں سن رہی تھی اُس نے قہر بھری نظروں سے اپنے چھوٹے بھائی اور ساحرہ کی طرف دیکھا اور اُن سے مخاطب ہو کر کہا:
’’ ساحرہ نے سچ کہا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کے ساتھ غیر فطری تعلق بڑھانا مصبہا بنو کا وتیرہ بن چکا ہے ۔جب بھی یہ دوگانہ قسم کی رذیل طوائف کسی نوجوان لڑکی کو دیکھتی ہے اس کے دِل میں ایک لہر سی اُٹھتی ہے اور یہ بے تابانہ انداز میں نووارد لڑکی سے لپٹ جاتی ہے ۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں انا گزیدہ ہو کر گوشہ نشین ہو گئی ہوں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ میں تمھارے ہاتھوں ضرر رسیدہ ہوں اور حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ میری ہنگامہ طلب فطرت اب طوفانوں کا سامنا نہیں کر سکتی ۔ تم نے اپنی بہنوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جو عباسی خلیفہ ہارون الرشید( عہد حکومت : 786-809 ،عرصہ حیات :763-809 )نے اپنی سوتیلی بہن عباسہ بنت مہدی( 765-803) کے ساتھ کیا۔ ہم سب بہنوں نے تمھارے قحبہ خانے سے نجات حاصل کر کے اپنی مرضی کی شادی کر لی اس کے بعد تم ہمارے خون کے پیاسے ہو گئے ۔اب تم انتظار کرو کہ تمھاری زندگی کا آخری سفر شرو ع ہو گادیکھنا یہ ہے کہ تمھیں ٹھکانے لگانے والا قافلہ کس سمت جائے گا شمشان گھاٹ ،دخمہ یا شہر خموشاں میں سے کون سا مقام اس کی منزل ہوگی؟‘‘
بیماری سے رمضوٹھگکے اعضا مضمحل ہو چکے تھے ضعف ِ پیری اور رعشہ کے باعث اُس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے ۔ سب پیمان شکن ،محسن کُش اور آستین کے سانپ اُس کے خلاف متحد ہو گئے تھے ۔ وہ اپنی یقینی موت کو سامنے دیکھ رہاتھا اپنی نائکہ بیوی تفسہہ ،عیاش بیٹیوں محافظۂ رومان مصبہا بنو ،سموں ،شگن ،صباحت اور قحبہ خانے کی رقاصہ بہن شمی کی تلخ باتیں سُن کر اس نے کروٹ بدلی اور کہا:
’’ شعور ِ وقت نے میرے حالات کی ایسی کایا پلٹ دی ہے کہ تمھارا ہر وار اور قبیح کردار مجھے حسبِ حال محسوس ہوتاہے ۔گردشِ ایام نے میرا مزاج بدل دیاہے اور تمھاری شقاوت آمیز ناانصافیاں دیکھ کرمیں تڑپ اُٹھتا ہوں ۔ تن کی دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں کا جال بچھا کر سادہ لوح لوگوں کو ٹھگنے والے تم جیسے لُچوں، چوروں ،تلنگوں ،ٹھگوں ،قاتلوں،بھڑووں اور اُچکوں کو من کی دنیا کے بے بس فقیروں پر گزرنے والے صدموں کا حال کیا معلو م ہوگا؟مظاہر فطرت کی عجوبہ کاریوں کے کرشمے تمھاری عیاریوں کاپردہ فاش کررہے ہیں ۔زندگی ڈھلنے کے ساتھ ہی طیور بھی رفعت افلاک سے نیچے آ کرحیرت ،حسرت و یاس کے عالم میں تن کے شکستہ پیڑ کو دیکھتے ہیں ۔ آج تمھاری رعونت آمیز باتیں سُن کر میں ماضی کی تلخ و شیریں یادوں کے سحر میں کھو گیاہوں ۔اس وقت یہ یادیں اسیر قفس طیور کے مانند اپنے شکستہ پر پھیلائے تڑپتی اور تلملاتی دکھائی دے رہی ہیں۔میں نے جان لیا ہے کہ میری زندگی کا سفر تو افتاں و خیزاں کٹ گیاہے مگر میرا پورا وجود کر چیوں میں بٹ گیاہے ۔میں نے اپنی زندگی کے تجربات و حوادث اور ناقابل یقین طومار اغلاط سے جو سبق سیکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے کوئی اور معلم اس میں شریک و سہیم نہیں۔ آج مجھ پر عجب عالم تنہائی ہے ،سُوکھے درختوں سے پرندوں کو کُوچ کر جاناکسی آفت نا گہانی کا ایک اشارہ ہوتاہے ۔ موقع و محل کی نسبت سے غداری کو تاریخ کا حیران کن مر حلہ سمجھا جاتاہے مگرغدار کو ہمیشہ ذلت ،تخریب ،نحوست ،بے غیرتی اور بے ضمیری کی علامت قرار دیا جاتاہے ۔ محسن کُشی اور سرد مہری کی حدوں سے نکلتاہوا تمھارا بد بختانہ لہجہ،گستاخانہ روّیہ اور شقاوت آمیز لُوٹ مار دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ گنوار انتھک ، شگن ،سمن ،صباحت ،مصبہا بنو اور نائکہ تفسہہ سب مِل کرمیر ے ساتھ وہی سلوک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو نمک حرام بروٹس (B:85 BC ,D: 42 BC)نے اپنے محسن رومن سالار جولیس سیزر ( B: 100 BC,D:44 BC ،Julius Caesar)کے ساتھ کیا تھا۔ یاد رکھوزمانہ بہت ظالم ہے آج تم جن لوگوں کی آ نکھ کاتارا ہو وہ دِن دُور نہیں جب یہی کینہ پرور حاسد تم جیسے پیمان شکن اور محسن کُش درندوں کو لال بیگ یا پھٹے ہوئے بُوٹ کے عفونت زدہ تلوے سے زیادہ اہمیت نہیں دیں گے ۔‘‘
رمضوٹھگ کی عیاشی اور جنسی جنون کی داستان بہت طویل ہے ۔اس کاایک ہم جماعت شبیر جھنگ میں مقیم تھاوہ مختلف اوقات میں اس کی بے راہ روی سے پر دہ اُٹھاتااور لوگوں کو اس سے بچنے کی تلقین کرتاتھا۔ ایک موقع پر شبیر نے رمضوٹھگکے بارے میں بتایا:
’’ رمضوٹھگ، محافظۂ رومان مصبہا بنو ،نائکہ تفسہہ اور گنوار انتھک جیسے پیشہ ور ٹھگ اورعادی دروغ گویہ حربہ استعمال کرتے ہیں کہ وہ اپنے مکر و فریب کو حلف کے فرغلوں میں لپٹ کر پیش کرتے ہیں۔جب کبھی ایسی صورت حال سامنے آئے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب حرف صداقت سے معتبر ربط رکھنے والوں کے سامنے سخت مقام آنے والا ہے ۔حریت ِ ضمیر سے جینا اور حریتِ فکر کاعلم بلند رکھنا تو صرف راست گو لوگوں کا شعار ہوتاہے جوتلوار کی دھات کے نیچے بھی کلمۂ حق کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کینہ پروری ،حسد ،فریب کاری ،عیارکی اور مکاری توکہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کی اولاد کی گُھٹی میں پڑی ہے ۔ایسے ننگ انسانیت لوگوں کو پہچاننے کا سب سے کارگر طریقہ یہ ہے کہ ان کے قول و فعل پر نظر رکھی جائے اور معاشرتی زندگی میں اِن کے رہن سہن اور میل جول کو پیشِ نظر رکھاجائے ۔ کوچۂ چہل جہلا و سفہاسیاہی وال کے یہ جو فروش گندم نما بگلا بھگت بازی گروں کے مانند دھوکا دیتے ہیں۔مجلسی زندگی میں تقدس کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح لوگوں کی آ نکھوں میں دُھول جھونکنے والے یہ شاطر ٹھگ اپنی نجی زندگی میں بندِ قبا سے بے نیازہو کر جس طر ح دادِ عیش دیتے ہیں اُسے دیکھ کر راسپوٹین بھی اپنی ہزیمت پر منھ چھپانے لگتا ہے ۔‘‘
گنوار انتھک جو رمضوٹھگ کالے پالک بیٹااور انڈر ورلڈ کا مہرہ تھاوہ خفیہ طور پر منشیات اور انسانوں کی سمگلنگ جیسے قبیح جرائم میں ملوث تھا۔ اگرچہ یہ ابلہ ایک رذیل بھڑوا بھی تھا مگر اِس کی بد عنوانیوںاس قدر بڑھ گئی تھیں کہ پورا معاشرہتی زندگی کی اخلاقیات اس کی زد میں آ گئی تھی ۔اس درندے کا روّیہ دیکھ کر لوگ اس کے شر سے بچنے کی فکر کرنے لگتے تھے ۔ اس بے ضمیر کے مظالم اور جرائم کا سلسلہ اس قدرطویل ہو نے لگاتھاکہ مظلوم انسانوں کی زندگیاں مختصر ہو نے لگی تھیں ۔سیاہی وال کے تسمہ کش آ ہن گروں کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات تھے ۔ پانچ مارچ2018ء کو گنوار انتھک نے انتہائی پُر اسرار انداز میں اپنے باپ رمضوٹھگ کا کام تمام کر دیا۔ اس واردات کے بعد اچانک گنوار انتھک پُر اسرار طور پر غائب ہو گیا۔ اکثر لوگوں کا گمان تھاکہ اغوا کار سراغ رسانوں کی تلاش سے گھبرا کر وہ بلوچستان میں مچھ کے علاقے میں روپو ش ہو گئے۔گنوار انتھک کے لا پتاہوجانے کے بعد نائکہ تفسہہ اور محافظۂ رومان مصبہا بنو اپنے قحبہ خانے کی دیکھ بھال کرتی تھیں ۔
رمضسو ٹھگ کی ہلاکت کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میںکھالوکنجڑے نے گنوار انتھک سے بدلہ لینے کی ٹھان لی ۔کھالوکنجڑا یہی کہتاتھاکہ تشفی مَل کنجڑے اور کہرام ٹھگ کوگولیوں سے چھلنی کرنے کاظالمانہ منصوبہ گنوارانتھک نے بنایا تھا۔مصبہا بنوکواس بات کا غصہ تھاکہ اُس کی بہن سمن جو ایک بچی کی ماں تھی کو اپنے گھر سے نکال کر کھالوکے بیٹے رازو نے بہت ظلم کیا۔مصبہا بنو نے اُجرتی بد معاشوں کو رازو اور کھالوکے پیچھے لگادیا۔کھالونے نہایت رازداری سے مصبہا بنوکے بچپن کے دوست اورساتھی ابزو سے رابطہ کیا اور اُسے سمجھایا :
’’ بیس سال پہلے کی بات ہے سیاہی وال میں کپڑوں کی سب سے بڑی دکان تمھارے باپ کی تھی جہاں سے ملکی اور غیر ملکی کپڑے کی تمام اقسام دستیاب تھیں ۔اب یہ حال ہے کہ یہاں مُردوں کا کفن زندوں کے سر تھوپا جاتاہے ۔مصبہا بنونے نہ صرف تمھارے گھر کا صفایا کر دیا ہے بل کہ تمھاری دُکان بھی اُس کی عیاشی کی بھینٹ چڑھ گئی ہے ۔اُس نے اُٹھان کوٹ ،کالا باغ ،کالام ،کالا شاہ کاکواورقُلی فقیر میں فارم ہاؤس بنالیے ہیں مگرتمھارا آبائی مکان کھنڈربن چُکاہے ۔ مصبہا بنو ایک تیامت ہے میری مانو تو اب وقت آ گیاہے کہ تم اس تیامت سے نجات حاصل کرکے اپنا گھر بسا لو ۔نائکہ تفسہہ نے اپنی بیٹیوں کولُوٹ مار کے سب طریقے بتا دئیے ہیں ۔ان قتل گہوں سے بچ نکلنے کی جلد کوئی تدبیر سوچو۔‘‘
اگلی شام ابزو نے اپنی داشتہ مصبہا بنوسے کہا:
’’تمھیں معلوم ہے کہ ہماری بزازی کی دکان خالی ہو چُکی ہے ۔ہمارا کروڑوں روپے کا کپڑوںکی تجارت کاجو کاروبار تھا جو اِس وقت ٹھپ ہو کر رہ گیاہے اور ہم کوڑی کوڑی کے محتاج ہو چکے ہیں ۔عشق ومحبت نے مجھے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے ۔ کپڑے کی دکان سے جو کچھ بھی آمدنی ہوتی تھی وہ میں تمھارے قدموںمیں ڈا ل دیتاتھا۔اس وقت ہمیں کچھ قرض درکارہے تاکہ ہم اپنی دکان میں کپڑے کے نئے تھان رکھ سکیں ۔‘‘
مصبہا بنو نے نفرت اور حقار ت سے ابزو کی طر ف دیکھا اورغرائی :
’’ میں نے اپنا جسم اور جان تم پر وار دی ہے اور کچھ بچا کر نہیں رکھا ۔ عیاشی کے لمحات میں تم نے مجھے جو معمولی رقم دی وہ کچھ بھی نہیں ۔تمھاری تو صر ف دُکان خالی ہوئی ہے محبت میں تو لوگوں کے گھروں کا صفایا ہو جاتاہے۔صرف تم ہی تنہا میری محبت کے اسیر نہیں ہواس شہر میں تم جیسے ہزاروں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ایسے ہیں جنھوں نے میر ی خاطر اپنے والدین کی زندگی بھر کی کمائی داؤ پر لگادی مگر وہ گوہر ِ مراد حاصل نہ کر سکے ۔ پچیس برس قبل جب میرے بچپن کا زمانہ تھا میںنے تم سے پیمانِ وفا باندھااب اس بات کو گزرے عرصہ بیت گیا۔ اس زمانے میں تم نو خیزکلیوں کو مسلنے کے عادی تھے اور میںبھی ننھی کونپلوں ،شگوفوں اور غنچوں کی شیدائی تھی ۔اس عرصے میںبے شمار حسین و جمیل لڑکیاں بھی میری زلفوں کی اسیربنیں اور میرے سپنوں کے لمحات میں شریک ِ سفر رہیں ۔ آہ ! آج میرے سب عاشق لڑکے اور محبوب دوشیزائیں در بہ در اور خاک بہ سر مارے مارے پھرتے ہیں۔ قریہ ٔ محبت میں تو سب ہی حاجت مند دکھائی دیتے ہیں میں کِس کِس کی حاجت روائی کروں ؟‘‘
اپنی دیرینہ ساتھی اور پڑوسن مصبہا بنو کی بے رُخی کی مظہر گفتگو سُن کر ابزو نے عاجزانہ اندازمیں کہا :
’’ کرگسی آ نکھوں اور دھتورے ،حنظل ،پوہلی اور اکڑے کے پھولوں جیسی بُھوری او رعفونت زدہ زلفوں والی مصبہا بنو ! کئی دنوں سے میر ی خواہش تھی کہ میں اپنی حالت ِ زار سے تمھیں آ گاہ کروں مگر تمھاری بے حسی دیکھ کر کچھ کہنے سے قاصر رہا ۔تم نے سیفو کے مانند حسین لڑکیوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور یک جان دو قالب بن کر اُن کے ساتھ وقت گزارا۔تمھاری مستانہ ادائیں اور بے باکانہ جفائیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ تم نے میرے جذبات و احسات کی قدر نہ کی بل کہ سدا حسین لڑکیوں کی قربت کو ترجیح دی ۔ پری چہرہ لڑکیوں کی نیم باز آنکھوں میں جھانک کر اُن کے دِل و جگر میں اُترنے اور اپنے جسم و جاں کو نکھارنے کا فن تمھیں معلوم تھا۔ میں نے اس بات کو بھانپ لیا تھا کہ تم نے نوجوان اور چندے آفتاب چندے ماہتاب لڑکیوں کے ساتھ قلب اور جسم کا تعلق سے استوار کر رکھا ہے ۔ حیف صدحیف میں منزل سے نا آشنا سرابوں کے عشرت کدوںمیں سر گرداں رہا۔اِ س وقت خرچی کی آمدن سے تمھارے پاس زرومال کی فراوانی ہے اور کسی چیزکی کمی نہیں ۔مجھے دس لاکھ روپے اُدھار دے دو اس وقت میں بھیک یا امداد کا طلب گار ہر گز نہیں میں نے تو صرف قرض مانگاہے ۔جب ہماری کپڑے کی دکان میں مال آ جائے گاتو آمدنی بھی ہوگی اور اس کے بعد تمھارے قرض کی ادائیگی ہو جائے گی۔‘ ‘
کرگس زادی مصبہا بنوجو اپنی بد صورتی چھپانے کے لیے مشاطہ کی مہارت پر انحصار کرتی تھی آج خوب بن سنور کر شکار کے لیے گھر سے نکلی تھی ۔ اِس مکر ِ مجسم طوائف نے اپنی چالوں سے سیاہی وال کے سیکڑوں نو جوان لڑکوں اور حسین لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا لیا تھا۔محسن کُشی ،عیاری اور مکر و فریب کاری کی پیکر اس چڑیل نے اپنی طوطے جیسی آ نکھیں گھمائیں اور اپنے میلے دانت پیستے ہوئے بولی :
’’ اونہہ ! دس لاکھ روپے ،میرے پاس تو دس روپے بھی نہیں جو کسی مفلس وقلاش فاقہ کش گداگر کو دے سکوں ۔ تم نے اپنی دکان کی بات کی ،کیسی دکان اور کون سا کاروبارمجھے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ تم محبتوں میں ہوس کے اسیر ہو چکے ہو۔تم ایسے راسپوٹین بن گئے تھے جس کو جنسی جنون اور حرص وہوس کے سِواکچھ نہیں سُوجھتا لیکن میں تسرینہ ہر گز نہیں بن سکتی بل کہ سچ تو یہ ہے کہ سیفو کی روح میرے اندر سرایت کر گئی ہے ۔میںحسین و جمیل لڑکیوں کی دل کش اداؤں کی گرویدہ ہوں اور ان کے عشوہ و غمزہ و ادا کی پرستش کرنا سدا میرا شیوہ رہاہے ۔ نگینہ نگینہ کریروں کی جواں سال شاخوں پر لگے ڈیہلوں کے ایسے بُندے جو عام لوگوں کی آ نکھو ںسے اوجھل ہوں اُنھیں اپنے جسم اور قلب پر سجانا اور انھیں نوچ کر کھانا مجھے بہت پسند ہے ۔ کاش تم راسپوٹین کے بجائے فاڈن بن جاتے ۔ میری آ نکھوں سے کچی نیند چُرانے کے بعد کیا اب تم مجھے غربت و افلاس کی دلدل میں گرانا چاہتے ہو ؟میں کہرام ٹھگ کی پوتی ہوں جو یہ بات زور دے کر کہا کرتاتھا:
پیارے اورقریبی لوگوں سے مت کرو بیوپار
اگر کرو بیوپار تو اُنھیں مت دواُدھار
دے بیٹھو اُدھار تو بھول جاؤ نہ کرو سوچ بچار
اُدھار دے کر نہ بھولو گے توہوگے ذلیل و خوار
اپنے باپ رمضو ٹھگ کی پُر اسرار ہلاکت کے بعد میرا بھائی گنوار انتھک کا اتا پتا کسی کو معلوم نہیںہے ۔مصیبت کی اس گھڑی میں تو ہمیں امداد اورسہارے کی ضرورت ہے ۔میری التجا ہے کہ مجھے بیس لاکھ روپے فراہم کرو تاکہ میں اغوا کاروں ،مفسدوں ،جاسوسوں اور مخبروں کا منھ بند کرکے اپنے بھائی گنوارانتھک کو واپس لا سکوں ۔تمھارے خاندان کی عورتوں کا چار کلو سونا جو اِس وقت میرے ماموں کھالو کنجڑے کے گھر میں امانت کے طور پر رکھا ہوا ہے وہ اُس بددیانت شخص سے واپس مانگو ۔ اس مقصد کے حصول کے سلسلے میں کھالو کے بیٹے رازو کا تعاون حاصل کرو ،وہ اپنے باپ کے روّیے سے ناخوش و بیزار ہے ۔اگر کھالو امانت واپس کرنے میںٹال مٹول کرے توتم دونوں تسمہ کش بن جاؤاورکھالوکا گلا گھونٹ کر زیور واپس لاؤ۔کل صبح کسی بھی کمرشل بنک میں سونے کے وہ زیورات گروی رکھ کر قرضہ حاصل کرو ۔اس طر ح تمھیں جورقم ملے گی اس میں سے بیس لاکھ روپے مجھے دے دینا اور باقی رقم دکان کے لیے کپڑے کی خریداری پرخر چ کردینا۔‘‘
ابزونے جب اپنی محبوبہ کی یہ باتیں سُنیں تو وہ گہر ی سوچ میں ڈُوب گیا اورسرجھکا کر باہرنکل گیا۔
اگلی صبح یہ خبر جنگل کی آ گ کی طرح پھیل گئی کہ رات کی تاریکی میںکسی ڈاکو نے کھالو کنجڑے کومار ڈالا اور اُس کے گھر سے نقدی اور زیورات لُوٹ لیے ۔
تین دِن گزر گئے تو لوگوں نے دیکھاکہ گنوار انتھک گلی کے موڑ پر کھڑ اہنہنا رہا تھا۔بعض لوگوںکاخیال تھا کہ مصبہا بنونے بھاری تاوان ادا کرکے گنوار انتھک کو اغوار کاروں کے چُنگل سے چھڑا لیاتھا۔اس کے بر عکس اکثرلوگ اس بات پر متفق تھے کہ گنوارانتھک کا گم ہوجانا محض ایک ڈرامہ تھا جس کا مرکزی خیا ل مصبہا بنو نے لکھا تھا۔اس ڈرامے کے ذریعے مصبہا بنو نے ایک تیر سے دو شکارکھیلے ایک تو ابزو کو لُوٹ لیااور دوسرا اپنے دیرینہ دشمن کھالوکو بھی ٹھکانے لگادیا۔ اس کے ساتھ ہی کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کے قاتل بھی اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے ۔اب گنوار انتھک اور رازو کا معاملہ زمانے کے حوالے ہو چکا ہے ۔شہر کے لوگ مصبہا بنو کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ایک سفاک اور منحوس ڈائن تھی جس نے بے شمار نو خیز پھولوں اور کلیوں کو مسل ڈالا ۔دہکتے ہوئے انگاروں میں لپٹی اِس حریص،خود غرض اور شقی القلب طوائف کے جنسی جنون نے اِسے بے حسی کے متلاطم سمندر میں غر ق کر دیا۔ وہ ایسی سبز قدم چڑیل تھی کہ جہاں جاتی وہاں مصائب و آلام ڈیرہ ڈال لیتے ۔ذلت،،نحوست ،تخریب اور بے غیرتی مصبہا بنو کی پہچان بن گئی تھی ۔ رمضو ٹھگ کی ہلاکت کے تین سال بعد سال 2021 ء کے اوائل میں بتیس سالہ مصبہا بنو کی شادی اپنے پڑوسی بزاز ابزو سے ہو گئی مگر اگلی صبح ابزو نے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والی سیفو قماش کی اس عورت نما چڑیل کو طلاق دے دی ۔
نومبر کا مہینا شروع ہوا موسم سرما کی آمد آمد تھی اورسال 2021ء اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا۔کورونا کی عالمی وبا کی چوتھی لہر نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔محافظۂ رومان مصبہا بنوچند روز سے نزلہ زکام ،کھانسی اور بخارمیں مبتلاتھی ۔ وہ مسلسل چھینکتی رہتی اور اُسے رات بھر نیند بھی نہ آتی تھی ۔نائکہ تفسہہ اُسے لے کرسیاہی وال کے مقامی معالج کے پاس پہنچی ۔ ماہرمعالج نے بتایا کہ یہ علامات تو کورونا کے مریضو ں کی ہیں مصبہا بنو کو فوراً قرنطینہ میں جانا ہوگا۔مصبہا بنو کو اس کے قحبہ خانے کے ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا ۔ غروب ِ آفتاب سے کچھ پہلے مصبہا بنو اپنے کمرے سے نکلی اور مغربی جانب دریا ئے جہلم کی جانب چل پڑی ۔ جب وہ دریائے جہلم کے کنارے پہنچی تو اُس نے موجوں کے اُس گرداب میں چھلانگ لگادی جس کے بارے میں ملاحوں کا کہنا تھا کہ یہاں خونخوار نہنگوں کے نشیمن ہیں۔ مظلوم اور دُکھی انسانیت پر مصبہا بنو نے جو کوہِ ستم توڑے وہ اس چڑیل کے لیے سوہانِ روح بن چکے تھے ۔شاید اُس نے موت کی جبلت کے زیر ِ اثر خود کُشی کو اس خوف اور کرب کاعلاج خیال کیاتھا۔اگلی صبح سب لوگ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ مصبہا بنو پُر اسرار طور پر غائب ہو گئی ہے ۔اس کے کمرے سے جو رقعہ ملا اُس پر لکھا تھا:
’ ’ دنیا میں عالمی وبا کورونا کی ہلاکت خیزیوں کی خبر یں سُن کر میرا دِل دہل گیا ہے اب میںبھی کوئی دم کی مہمان ہوں ۔جس طرح سیفو غروبِ آفتاب کے وقت جزیرہ لیو کاس کی سفید چٹان کی بلندی سے بحیرہ روم میں چھلانگ لگا کر یقینی موت کے منھ میں چلی گئی تھی اور اٹھائیس مارچ 1941ء کوورجینا وولف نے اپنے کوٹ کی جیب میں پتھر ڈال کر شمالی یارک شائر برطانیہ میں اپنے گھر کے نزدیک بہنے والے دریائے آؤز میںکُود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھامیں نے بھی اپنی زندگی کی شمع بجھانے کا تہیہ کر لیا ہے ۔ میںاپنی تردامنی،پیمان شکنی ،محسن کُشی اور بے وفائی کا بوجھ اُٹھائے دریائے جہلم کی روانی اور اپنی مرگِ ناگہانی پر اپنی زندگی کی کہانی ختم کرنے جا رہی ہوں ۔‘‘
—————————————————————————————————————————————————————–
Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad ,Jhang City )