(Last Updated On: )
12فروری،یوم شہادت کے موقع پر خصوصی تحریر
مسلمانوں کے ایک ہزارسالہ دوراقتدار کے بعد تین سو سال تک کم و بیش پوری امت مسلمہ پر غلامی مسلط رہی۔گزشتہ صدی کے نصف اول میں جب پوری امت میں بیداری کی تحریکیں شروع ہوئیں اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں توفکری و نظریاتی قیادت نے امت کی سیادت سنبھال لی۔تجدیددین کا یہ عمل مشرق سے مغرب تک پوری امت مسلمہ میں شروع ہوا۔سیداحمدشہیدؒ،شاہ اسمئیل شہیدؒ،علامہ اقبالؒ،قائداعظم محمدعلی جناح، مولانا مودودیؒ،سیدجمال الدین افغانی ؒ اورامام خمینی ؒاسی باب کاعنوان تھے۔عرب اقوام میں اس دینی و ملی شعور کی تحریک کا آغازکرنے والے امام حسن البنا شہیدؒ تھے۔ان لوگوں کی بیدار مغزقیادت نے امت کو مغرب کی ذہنی غلامی سے آزاد کیااور مسلمان نوجوانوں میں دورغلامی کے احساس کمتری کو اعتماد نفسی سے بدل دیا۔انہیں لوگوں کی کاوشوں کے نتیجے میں مسلمان آج اس قابل ہوئے ہیں کہ اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کرسکیں۔امت مسلمہ میں جہاد جیسے ادارے کی تجدید کا سہرا بھی اسی قیادت کے سر ہے۔
امام حسن البنا شہیدؒنے1906میں مصر کی بستی محمودیہ کے ایک علم دوست گھرانے میں آنکھ کھولی۔امام صاحب کے والدپیشہ کے اعتبار سے اگرچہ گھڑی ساز تھے لیکن وقت کے بہت بڑے عالم دین اوربنیادی طور پرمحدث تھے۔انہوں نے مسند امام احمد بن حنبلؒکو فقہی ابواب کے تحت ترتیب دیااور اسکی شرح بھی لکھی،اسکے علاوہ بھی متعدد کتب حدیث پر آپ کی قابل قدر کاشیں موجود ہیں،گویاامام حسن البناؒ کو والدکی طرف سے دینی تعلیم کاواضع اورشفاف تصور گھر میں ہی میسرآگیا۔سولہ سال کی عمر میں امام حسن البناؒنے قاہرہ کے دارالعلوم میں داخلہ لیااور1927ء میں گریجوئیشن تک کی تعلیم وہاں پر مکمل کی۔آپ کی شاندار تعلیمی کارکردگی کی بناپر آپ کواسمائیلیہ کے ”مدرسہ امیریہ“میں مدرس تعینات کر دیاگیا،یہ سرکاری ملازمت تھی۔یہ دور امت پر فکری زوال کادور تھااور امام حسن البناؒامت کی اس حالت پر صبح و شام گہری سوچ میں غلطاں رہاکرتے تھے۔مسلسل غوروفکر کے بعد اور بہت قریبی ساتھیوں کے مشورے سے مارچ1928میں آپ نے ”اخوان المسلون“کی بناڈالی۔1933ء میں انکاتبادلہ کر دیاگیااور وہ قاہرہ آگئے اور اخوان کا مرکزی دفتر بھی قاہرہ میں منتقل ہوگیا۔”اخوان المسلمون“بہت جلد مصر سمیت تمام ممالک عرب کے مسلمانوں کی عام طور پر اور مسلمان نوجوانوں کی خاص طور پر دلوں کی دھڑکن بن گئی۔اخوان کی اس تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اسکی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا گیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امام حسن البناؒکے لیے تدریس و تنظیم میں مطابقت پیداکرنا مشکل ہوگیا۔آپ نے راہ عزیمت کا انتخاب کیا اور 1946ء میں سرکاری ملازمت جیسی نعمت سے استعفی دے کر تواخوان المسلمون کے لیے اپنے آپ کو تاحیات وقف کردیا۔آپ نے مصر کی بستی بستی اور قریہ قریہ میں اخوان کی شاخیں کھولیں انکے ذمہ داروں کا تقررکیا اور لٹریچر کی ترسیل وسیع پیمانے پر جاری و ساری کی۔یہ ساراکام بڑی خاموشی سے مسجدوں اور گھروں کی بیٹھکوں میں وعظ و تزکیر اور چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے ذریعے تکمیل پزیر ہوتا رہا۔گویا گھاس کے اندر ہی اندر پورا دریا بڑی خاموشی سے بہتاچلاجاہاتھا۔
اخوان کے مقاصد باالکل وہی تھے جو انبیاء علیھم السلام کی تحریکات کے مقاصد ہوا کرتے تھے۔1938ء میں ایک بار ”اخوان المسلمون“کی غرض و غایت اور مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے امام حسن البناؒنے طویل تقریر کی آپ نے فرمایا”ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات و احکام واضع وجامع ہیں،جولوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات صرف عبادات و روحانیات پرہی مشتمل ہیں وہ غلط فہمی کاشکار ہیں۔اس لیے کہ اسلام نظریہ حیات عقائدوعبادات،وطنیت و شہریت اور کتاب و تلوار سمیت زندگی کے تمام پہلؤں کاحاطہ کرتا ہے۔اب اگر امت چاہتی ہے کہ وہ اسلام کے لحاظ سے صحیح مسلمان بنے تو اس پر واجب ہے کہ اسلامی تعلیمات کو زندگی کے تمام امور پر نافذ کرے،اللہ تعالی کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگ لے اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری کرے“۔اسلام کے اس جامع تصور کی وضاحت کے بعد امام حسن البنا شہیدؒ نے اخوان المسلمون کی غرض و غایت بیان کی”اخوان المسلمون کا مقصد صحیح اسلامی تعلیمات پر ایمان رکھنے والی ایسی نئی نسل کی تشکیل ہے جوامت کی زندگی کے تمام پہلؤں کو مکمل طور پر اسلامی رنگ میں رنگ دے۔جس اسلام پر اخوان المسلمون کایقین وایمان ہے اس کے ارکان میں ایک اہم رکن حکومت بھی ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی وطن ہر غیرملکی اقتدارسے آزادہو اور پھر اس آزاد وطن میں خودمختار اسلامی حکومت قائم ہو جواسلامی احکام کے تحت کام کرے اوراس کے معاشرتی نظام کو نافذ کرے ۔اس منزل کو پختہ یقین،باریک بینی سے تشکیل و تدوین اور مسلسل جدوجہد سے ہم حاصل کر سکتے ہیں“۔
امام حسن البنا شہیدؒ نے اخوان المسلمون کو ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ فراہم کیا۔اخوان کے دستورکے مطابق انکا مرکزی سربراہ”مرشدعام“کہلاتاہے جسے اخوان المسلمون کی مشاورتی اسمبلی کثرت رائے سے منتخب کرتی ہے۔مرشدعام کی معاونت کے لیے بنیادی کمیٹی ہوتی ہے جو پورے ملک سے اخوان کے متحرک لوگوں کے انتخاب سے وجود میں آتی ہے۔مرشدعام اگرچہ اخوان المسلمون کاسربراہ ہوتا ہے لیکن بنیادی کمیٹی کے اختیارات مرشدعام سے زیادہ ہوتے ہیں۔اخوان کا ایک سیکرٹری جنرل بھی ہوتاہے جس کاانتخاب مرشدعام کے مشورے سے بنیادی کمیٹی کرتی ہے۔مرکزی دفاتر کامجموعہ جنرل ہیڈ کوارٹر کہلاتاہے جس میں متعدد شعبے پورے ملک کے کام کا جائزہ لیتے ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔امام حسن البنا شہیدؒ نے ملک کے ہر طبقے کے لوگوں کواخوان المسلمون میں شامل کیا1933ء میں اخوان کی خواتین ونگ کا قاہرہ میں افتتاح کیاگیا جو کے بعد سے آج تک خواتین میں تیزی سے متحرک ہے۔امام حسن البنا شہیدؒ تجدیدواصلاح کے داعی تھے اوراسلامی شریعت کو معاشرے میں جاری و ساری ہوتا دیکھناچاہتے تھے۔یہ خواہش اگرچہ ہر مسلمان کے سینے میں ہوتی ہے لیکن امام حسن البنا شہیدؒ نے جس انداز سے عربوں میں اپنی فکرکوتحریک کی شکل دی اس سے سامراج گھبراگیا اور انگریزوں نے اخوان المسلمون کے بڑھتے ہوئے اثرات پر پابندی لگانے کافیصلہ کیا۔پہلے اخوان کے رسالہ کو بند کیاگیا پھر انکی قیادت کو امام حسن البنا شہیدؒ سمیت شہر بدر کیاجس پر مصر کی پارلیمنٹ نے بھرپور احتجاج کیا اورحکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔1946میں اخوان المسلمون نے اپنا روزنامہ نکالنا شروع کیا جس کی اشاعت میں روزبروزاضافہ اور بے حد مقبولیت نے سامراج کی نیندیں اڑا دیں۔انگریزوں نے جب اخوان المسلمون پر حالات تنگ کیے تو اخوان کے لوگوں کا انگریزوں سے براہ راست تصادم بھی ہوا۔ابھی یہ کشمکش جاری تھی فلسطین میں اسرائیل کے قیام کااعلان ہو گیا۔1946 ء میں ہی جب لندن جاتے ہوئے قائداعظم ؒ نے قاہرہ میں مختصر قیام کیاتو اخوان کے سرکردہ راہنماؤں نے انکا پرجوش استقبال کیا،ان کی میزبانی کی اور پھر اگلی فلائٹ پر انہیں رخصت کیا۔1948ء میں جب اسرائیل کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا تو اخوان المسلمون نے اپنے رضاکار جوک درجوک بھیجے۔اخوان المسلمون کے سرفروشوں نے باربار جنگ کے پانسے پلٹے اور دادشجاعت دیتے ہوئے دور صحابہ کرام کی مثالیں تازہ کر دیں۔اخوان المسلمون کے جانبازوں کی کاروائیاں یہودی پریس میں بھی شائع ہوئیں اور یہودونصاری کو سمجھ نہیں آتی تھی آخر ان لوگوں کاکیا علاج ممکن ہے۔
یہ سب باتیں سامراج کے لیے ناقابل برداشت تھیں۔وائے قسمت کہ دشمن کو ہمیشہ سے امت مسلہ کے اندر غداروں کی ایک کھیپ میسررہتی ہے۔مدینۃ النبیﷺ کا رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنے کردار میں شاید تاقیامت زندہ رہے گا۔مصری وزیراعظم نے بیرونی دباؤمیں آکراور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بالآخر8دسمبر 1948ء کو مارشل لاء آرڈیننس نمبر63کے ذریعے اخوان المسلمون کو خلاف قانون قرار دے دیا۔اسلامی دنیا میں یہ پہلی دفعہ ضرور تھا لیکن آخری دفعہ نہیں تھا۔سامراج نے اس طریقے کو بعد میں پاکستان اور ترکی سمیت کئی اسلامی ممالک میں بھی آزمایا۔صد افسوس کہ اپنے پیش رؤں کاانجام دیکھنے کے باوجود امت کے حکمران آج تک دوست اور دشمن کی پہچان سے نابلد ہیں۔اخوان المسلمون پر پابندی تو محض ایک بہانہ تھاحقیقت میں تو اس تحریک کو ختم کرنا ہی مقصود تھا۔چنانچہ پورے ملک میں پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔اخوان کے لوگ جیلوں میں ٹھونسے گئے اور ان پر تشدد کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات سامراج نے فراہم کیے اور برطانیہ سے انہیں درآمد کیاگیا۔عورتوں بوڑھوں اور بچوں تک کو معاف نہ کیاگیا۔جیلوں میں طرح طرح کے تشدد کے ایسے طریقے اخوان پر روا رکھے گئے کہ انہیں پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن آفرین ہے اخوان المسلمون پر کہ ان کے پائے استقامت میں بال برابر بھی جنبش نہ آئی۔جیلوں میں جانے والوں کے بچوں اور ان کے گھروں کی نگہداشت باہر رہ جانے والوں نے اس تندہی کے ساتھ کی کہ انصار مدینہ کی یاد تازہ ہو گئی۔
امام حسن البنا شہیدؒ کو حکومت براہ راست تو کچھ نہ کہ سکی لیکن انکی مسلسل نگرانی کی جانے لگی اور بالآخر12فروری 1949ء کو خفیہ پولیس اہلکاروں نے اس وقت امام کو گولی کا نشانہ بنایاجب وہ اخوان المسلمون کے شعبہ نوجوانان”شبان المسلمون“کے دفتر سے باہر نکل رہے تھے۔امام حسن البنا شہیدؒ اپنے رب سے جاملے اور ہمیشہ زندہ رہنے کے منصب پر سرفراز ہو گئے۔سلام ہو اس تنظیم پر اور اسکی قیادت پر کہ جس نے اپنے خون سے امت مسلمہ کے شجر سایہ دار کی آبیاری کی۔اللہ تعالی امام حسن البنا شہیدؒ سمیت امت کے کل شہدا کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے،آمین۔