دو ہزار چھے سو انچاس سے دو ہزار ایک سو پچاس قبل از مسیح
Old Kingdom (2649–2150 B.C.E.)
بعد میں آنے والے مصریوں کی طرف سے مصر کے اس دور کو ایک سنہری دور کے طور پر دیکھا گیا ، قدیم بادشاہت کا دور مصر میں ایک عظیم ، با اعتماد ، مستحکم ، منظم اور انتظامی لحاظ سے مکمل کنٹرول کا دور تھا۔ اس دور کے بلند وبالا اہرام اس دور کی شان و شوکت کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ اہرام اس دور کے متوازن اور اطمینان بخش ہونے کی قابل قدر مثال ہیں۔ یہ دور سٹور ہاوسسز کے قیام پر مبنی معیشت کی کامیابی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے استحکام اور مصر کی دولتمندی کو ظاہر کرتا ہے….
کنگ زوسر Netjerikhet ( Djoser ) کے دور میں تعمیر کیا جانے والا سیڑہی دار اہرام Step Pyramid قدیم بادشاہت Old Kingdom کی خاصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سیڑہی دار کمپلیکس ( اہرام ) Step Pyramids قدیم دور کے شاہی مردہ خانوں میں بڑے پیمانے پر پتھر کی یادگاروں کی ابتداء سمجھے جاتے ہیں۔ اس دور میں بادشاہوں کا کردار ” ہورس اور را “ دیوتاؤں سے قریبی اور گہرے تعلق کی صورت میں سامنے آیا جس نے بادشاہوں کو حکم الہی ( مات Ma’at ) کی بحالی کا ذمہ دار بنایا ۔۔
چوتھے خاندان کے پہلے بادشاہ سنیفرو ( Senefru ) کو بڑے اہراموں کی تعمیر میں سب سے زیادہ اور اولین اہمیت حاصل رہی ہے ، اسکے تعیمر کیے جانے والے تین بڑے اہرام جو کہ ہر اطراف سے ایک مکمل اور بالکل ہموار سطح کے حامل تھے، یہ اہرام اس دور کی تعمیر و ترقی کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ اہرام اس دور کے حیران کن اور کمال انجئینرنگ کے تعمیراتی شاہکار تھے جو آج کے دور میں بھی ان قدیم کاریگروں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔۔
خوفو Khufu سنیفرو کا جانشین تھا جس نے عظیم اہرام آف غزہ The Great Pyramid of Giza کی تعمیر کے سلسلے میں اپنے پیشرو کی روایت کو جاری رکھا۔ غزہ کے دوسرے دو بڑے اہرام خوفو کے جانشین خفرے Khafre اور مینکورے Menkaure کے تعمیر کردہ ہیں۔
یادگاری اہراموں ( کمپلیکسز ) کے اس دور میں مقامی خانقاہوں کی طرف بادشاہوں کی توجہ کم ہو چکی تھی اور انکی شاہی حمایات میں بھی کسی قدر کمی واقع ہوئی۔ اس دوران اس پورے عرصہ میں میمفس Memphis کو انتظامی طور پر مضبوط حیثیت حاصل رہی ۔ پانچویں سلطنت کے بادشاہوں نے بڑے اہراموں کی جگہ چھوٹے اہراموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا اور ان میں سے کچھ کے مدفن چیمبرز کو قدیم ترین مذہبی تحریروں سے آراستہ کیا گیا، یہ مذہبی تحریریں جو اہراموں میں لکھی گئیں یہ قدیم مصر کے فنی مجموعوں کے حصے تھے۔ کئی بادشاہوں نے سورج دیوتا ” را Ra “ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شاندار مندر تعمیر کیے ان مندروں کو ” را “ سے منسوب کیا گیا قدیم مصر میں یہی فرقہ ” جو سورج دیوتا را کی عبادت کرنے والے تھے “ اپنے عروج پر تھا۔
اس دور میں رفتہ رفتہ یہ تبدیلی روونما ہونا شروع ہوئی کہ بادشاہوں کے خدمتگار اشرافیہ کو شاہی یادگاروں کے آس پاس قبرستانوں میں خوبصورتی سے آراستہ مقبروں سے نوازا گیا ، نعشوں کو حنوط کر کے لکڑی کے مستعطیل تابوتوں میں دفن کیا جاتا تھا۔
چھٹے خاندان کی بادشاہت کے اختتام کے قریب قریب اہرام میں لکھی جانے والی عبارتیں جو کہ قبل ازیں صرف شاہی خاندان کے لوگوں کے لیے مخصوص تھیں اب رفتہ رفتہ غیر شاہی افراد مگر اہم شخصیات کے مقبروں میں انکا ظہور ہونے لگا جو کہ مرکز کے کنٹرول میں کمی کی نشاندہی تھی یہ سلسلہ مصر کی قدیم سلطنت کے اختتام پزیر ہونے تک رہا۔۔۔۔
قدیم مصری تہذیب میں اس پیدا شدہ خرابی کی کئی ایک وجوہات تھیں جن میں ممکنہ حد تک قحط اور دوسرے معاشرتی عوامل کارفرما تھے ۔ اس سلسلے میں ایک بڑا عنصر چھٹے خاندان میں پیپی دوئم Pepy II کی حکومت کا غیر معمولی طور پر طویل تر ہونا بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ پیپی pepy اپنی بچپن میں مصر کے تاج و تخت کا وارث ہوا اور ایک طویل عرصہ غالباََ 90 سال حکومت کی اور اس دوران اس نے اپنے کئی ممکنہ وارثوں کو حکومتی امور سے دور رکھا ممکنہ طور پر اسکی موت کے بعد قدیم مصر میں جانشینی کے مسائل پیدا ہوۓ تھے اسی دوران علاقائی گورنروں کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا ان گورنروں کے اثرو رسوخ کو نومارک Nomarch کہا جاتا ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ ان اشرافیہ کی پوزیشنز نے موروثیت کی شکل اختیار کر لی اور رفتہ رفتہ یہ مقامی آبادیوں پر نسلی اثرورسوخ میں شامل ہو گئے۔ اب جیسے جیسے ان نومارک کا اثرو رسوخ طاقت و اہمیت بڑھتی گئی یہ بادشاہ سے زیادہ آذاد ہو گئے اب اسکا نقصان یہ ہوا کہ ایک ہی وقت میں متعدد نومارک نے عروج حاصل کر لیا اور اسکے نتیجے میں صوبوں کے مابین تنازعہ پیدا ہوا اور پرانی بادشاہت کے اختتام تک اس نے مرکز کے کنٹرول کو کمزور تر کیا جس سے مرکز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔۔۔۔۔!
تصویر # 1 = سیڑہی دار اہرام ( Step Pyramid ) ، قدیم مصر کی تیسری سلطنت ، سقارہ
تصویر # 2 = شاہ زوسر کے میڈیم اہرام کے بعد دوسرا اہرام ، تیسری سلطنت میں سنیفرو کے لیے تعمیر کیا گیا۔
تصویر # 3 = غزہ کے اہرام
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...