اپنے دیس کی کہانی ایک جملے میں بیان کرنا پڑے تو میرا جملہ یہ ہوگا
’’ ایک ایسا خطہ جہاں مظلوم کو انصاف ملتا ہے نہ ظالم کو سزا‘‘۔ ہم نے بھی کیا خوب مثالی سماج تشکیل دیا ہے کہ اقوام عالم میں جسے ’’ حیر ت کدہ ‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔
ایک ایسا معاشرہ جہاں مظلوم کو انصاف کی جگہ دھکے ملیں اور ظالم کو سرے سے سزا ہی نہ ملے اور اگر ملے بھی تو ملک کا وزیرِ اعظم تک اپنی شہادت کی انگلی درمیانی انگلی سے دور لے جا کر وکٹری کا نشان بنا کر یوں ’’ سمائل پاس ‘‘ کرے جیسے اسے نوبل انعام مل گیا ہو یا آسکر ایوارڈ ۔
سزائے موت کے اعلان پر کوئی’’ جنونی‘‘ سڑک پرکچھ یوں محو رقص ہو کہ ذہن کی اسکرین سے یہ منظر محو نہ ہونے پائے؛ جہاں کا چیف جسٹس انصاف کی تلاش میں سیاست دانوں کی طرح سڑکوں پر جلوس نکالے اور پھر انصاف ملنے پر عدالتوں میں وہ سیاسی کھیل کھیلے کہ عدل کا جلاس نکال دے ؛ وکلا ء گلی محلوں میں دوسروں کو قانون کا درس دیتے اور سبق سکھاتے پھریں ؛ محکمہ صحت کا عملہ انصاف کی خاطر، اکثر و بیشتر سڑکوں پر یہ بھجن گاتا دکھائی دے ’’ جینا ہوگا مرنا ہوگا ……….دھرنا ہو گا دھرنا ہوگا ‘‘ ؛ اپوزیشن اور حکومت تو رہی ایک طرف، جس بھی پاکستانی کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو وہ روڈ بلاک کرکے، دوسروں کی املاک کو نقصان پہنچا کر،ٹائر جلاتے ہوئے چھاتی پیٹتا دکھائی دے ،یوں جیسے ہر فیصلہ آن کی آن ’’ آن دا سپاٹ ‘‘ ہو نہ ہو،اور تو اور حوا کی کسی بیٹی کو اپنے خون کے چراغ جلا کر اندھیروں کے خلاف جہاد کرنا پڑے اور کیسا اندھیر ہے اجالے پھر بھی نمودار نہ ہوں ۔۔۔۔۔خدا لگتی کہئے گا کہ یہ سب اور اس جیسی اور بہت سی باتیں کیا اس مملکتِ خداداد کو’’ طلسم ہوشربا ‘‘ ثابت نہیں کرتیں ؟؟؟
آج آپ سے اپنی ذات کے حوالے سی دو حیرتوں کا ذکر ضروری خیال کرتا ہوں۔
ایک کا تعلق اپنے شیخ جی سے ہے اور دوسری کا جرنیل صاحب سے ۔۔کوئی سال بھر پہلے کی بات ہے کہ شیخ جی کا شو انقلاب کے میلے میں خاصہ رش لے رہا تھا۔
سارے شو ہاؤس فل جا رہے تھے ۔ہر طرف انہی کے چرچے تھے اور آنجناب بھی اپنی زندگی کی سب سے بہترین باری آفریدی اسٹائل میں کھیل رہے تھے۔ انکے چھکے چوکے ایک زمانے کو چونکائے دیتے تھے۔شاید ہی کوئی کالم نگار ایسا ہو جس نے ان پر قلم نہ اٹھا ہو۔لوگوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کئی ایک کالم لکھ مارے ۔لیکن ہوا یہ کہ ہر پل رنگ بدلتی صورت حال میں میرے لئے کالم پوسٹ کرنا مشکل ہو گیا ۔پھر بھی جی کڑا کر کے ایک کالم بنام ’’ آفریدی اور قادری‘‘پوسٹ کر ہی ڈالا۔ لیکن افسوس اسے چھپنے کا شرف حاصل نہ ہوا۔دوسری حیرت یہ ہے کہ جرنیل صاحب کی پاکستان آمد پر ایک بھرپورکالم ’’مشرف بہ پاکستان ‘‘ لکھنے کا ارادہ کیا اسے لکھ بھی لیا لیکن بھیجنے کی توفیق سے اب تک محروم ہوں ۔اتفاق دیکھیں کہ یہ دونوں حضرات اندر سے بھی ایک ہی ہیں اور ان کے حوالے سے میرا حال بھی ایک سا ۔ آج تک جان نہیں پایا کہ اپنی اس ناکامی کو ہر دو حضرات کی کرامت سمجھوں یا استدراج۔۔۔
لگتا ہے میں یہ فیصلہ کبھی بھی نہ کر پاؤں گا ۔حیران ہوں کہ ہر دو میں سے ( سر کو پیٹوں یا جگر کو تھاموں ….) پہلا کام کون سا انجام دوں کہ میرا انجام بخیر ہو ۔
جرنیل کے بارے میں تازہ اطلاع سے زیادہ پر لطف خبرڈیڑھ ارب ڈالر کی ہے ،جو اب خیر سے تحفہ کہی جارہی ہے ۔رقم سچ میں پاک سرکار کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔اب تک غیر واضح ہے کہ یہ احسان ہماری سرکار پر کیا کیوں گیا ہے ؟مختلف چہ مگوئیاں دال کو کالا ثابت کرتی ہیں ۔چھوٹے بھائی اسے تحفہ کہتے ہیں تو بڑے بھائی’’ پل ‘‘کے کردار کا شوشہ چھوڑتے ہیں ۔واقفانِ حال جانتے ہیں کہ پاکستان کبھی بھی ایسا پل نہیں رہا جس پر اٍتنی لاگت آتی ہو۔جبھی تو ایک بڑا حلقہ اب بھی اس امداد کو فوجی آمر کے ’’محفوظ انخلا‘‘سے جوڑتا ہے ۔اور قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہ سعودی امداد نہیں ’’سودی امداد‘‘ہے جو قسطوں میں سود سمیت وصول کی جائے گی۔آمر کے حوالے سے تازہ ترین پیش ترین یہ ہوئی ہے کہ فردِ واحد پر فردِ جوم عائد ہوچکی ہے ۔لیکن ہمارا دانش مند طبقہ حسبِ دستوراس حوالے سے بھی واضح طور پر منتشر دکھائی دیتا ہے۔کچھ کے بقول آمر کومحفوظ استہ دینے سے پاکستان کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے تو کوئی ہر حال میں تختہ دار کی سمت جاتا دیکھنا چاہتے ہیں۔اور کچھ ایسے بھولے بادشاہ ایسے بھی ہیں جو اس کے تمام’’ بغل بچوں‘‘کو کڑی سے کڑی سزا دلانے کے خواب جاگتی آنکھوں سے دن رات دیکھتے دکھائی دیتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ ایک آمر کی سزا کودانش وروں کی خواہشات سے کیا نسبت؟ تو یہی تو وہ امر کہ جس پر دنیا ہمیں حیرت کدہ سے تعبیر کرتی ہے۔آپ ہی بتائیں کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں عدالتی کاروائی لمحہ بہ لمحہ رپورٹ ہوتی ہو؟،کہاں ججوں کے بیانات اور ان کے مختلف تقریبات میں کہے گئے فرموادات شہ سرخیوں کا موضوع بنتے ہیں ؟کہاں یہ سب ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے وکلاء عدالتوں سے باہر آکر ساری عدالتی کاروائی کی ساری کتھااور اپنے تمام دلائل حرف بہ حرف میڈیا کے نمائندوں کے روبروبیان فرماتے ہیں؟،دنیا کے کس ملک یہ ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں کیس جاری ہو اور بڑبولے میزبان آئینی ماہرین کے جھرمٹ میں بال کی کھال اتارتے رہیں؟،کہاں کا رواج ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ سامنے آئے اوردوسرے ہی لمحے فیصلے کے حق اور مخالفت میں سیاسی رہنماؤں کے بیانات آن ائیر آنے لگیں؟،کس براعظم میں سپریم کورٹ کا نوٹس ملنے پرکوئی ’’نوٹس ملیا ککھ نہ ہلیا‘‘ کی پھبتی کستا ہے؟…………..کیا کسی مہذب معاشرے میں یہ تمام مناظردکھائی دیتے ہیں ؟؟؟
ہم بھی عجیب قوم ہیں کہ یہاں معمولی آبیانے کے لئے چھاپے مار کر ’’مجرمین‘‘اٹھوا لئے جاتے ہیں لیکن ملک کو نیلام ،بدنام اور رسوا کرنے والوں کے لئے محفوظ راستے کی باتیں ہوتی ہیں۔ہم نے اسلامی تعلیمات صرف معلومات یا خطبات تک ہی محدود کر رکھی ہیں ۔کیا ہمارے آقا و مولا کایہ فرمان کسی کو یاد نہیں کہ سابقہ امتیں محض اسی لئے عزاب سے ہمکنار ہوئیں کہ وہ کمزور کو کڑی سے کڑی سزادیتے اور طاقتور کو معاف کر دیا کرتے تھے۔کیا میں نے غلط لکھا ہے کہ ’’ ایک ایسا خطہ جہاں مظلوم کو انصاف ملتا ہے نہ ظالم کو سزا‘‘۔کیسا المیہ ہے حکومت ،فوج اورعدلیہ تینوں کے لئے ایک سابقہ جرنیل بڑی آزمائش بن چکا ہے۔میری ان سب سے ایک ہی استدعا ہے کہ اگر آپ ایک آمر کو سزانہیں دے سکتے تو اسے کم ازکم ہیرو تو مت بنائیں۔مثالی معاشرے بڑے مجرموں کو مثالی سزائیں دیا کرتے ہیں تاکہ کسی فرد کو آئندہ قانون شکنی کی جرات نہ ہو۔آپ مثالی سزا نہیں دے سکتے تو کم ازکم علامتی سزا ہی دے ڈالیں۔اگر اسے ملک سے باہر بھیجنا ہی ہے توقومی مجرم قرار دے کرملک بدر کر دیجئے۔کیا آپ اتنی سی بھی جرات نہیں رکھتے؟