جاپان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں جی ڈی پی کے اعتبار سے امریکہ اور چین کے بعد تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ قومی ترقی، انسانی فلاح و بہبود ، صحت، تعلیم، شفافیت ان سب میں جاپان دیگر ممالک کی نسبت سب سے آگے ہیں۔ دنیا میں جن ممالک میں سب سے کم کرپشن ہوتی ہے جاپان ان میں 180 ممالک میں سے 18ویں نمبر پر ہے۔ جاپان کے لوگ دیانتدار ہیں، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، فراڈ اور دیگر جرائم سے دور رہتے ہیں۔ انفرادی سوچ سے بڑھکر معاشرے کا سوچتے ہیں۔ اسکی تازہ مثال فیفا ورلڈ کپ میں جاپان اور جرمنی کے درمیان میچ کے بعد جاپان کے شائقین کی جانب سے سٹیڈیم کی صفائی ہے۔ جرائم کے اعتبار سے دیکھا جائے تو 2020 کے اعداد و شمار کے لحاظ سے جاپان میں ہر ایک لاکھ میں سے محض 486 جرائم کے کیس سامنے آئے ان میں سے زیادہ تر چوری کے تھے مگر قتل اور دیگر سنگین جرائم کی تعداد بے حد کم تھی۔ یہ تعداد سال با سال کم ہوتی جا رہی ہے۔ جاپان میں صحت کی حالت دیکھی جائے تو یہاں دنیا کے سب سے معمر ترین افراد پائے جاتے ہیں۔ 2020 میں جاپان میں اوسط عمر تقریباً 85 سال تھی اور یوں جاپان اس دوڑ میں بھی سب سے آگے ہیں۔
غرض جاپان کا معاشرہ انسانی ترقی، عدل و انصاف اور دیگر معمولات ِ زندگی میں صفِ اول کا معاشرہ ہے۔مگر اس ملک کی ایک بدقسمتی ہے وہ یہ کہ یہاں زلزلے بہت آتے ہیں۔ وجہ اس ملک کا جغرافیہ ہے۔ اگر آپ جاپان جائیں تو آپکو معلوم ہو گا کہ جاپان کا 73 فیصد رقبہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ جن میں کئی آتش فشاں پہاڑ ہیں۔ جبکہ اس ملک کے کئی چھوٹے بڑے جزیرے ہیں جنکی کل تعداد 6852 ہے۔ یوں جاپان کی ساحلی پٹی کی لمبائی دنیا میں چھٹے نمبر پر سب سے لمبی ہے۔ گویا جاپان پہاڑوں اور سمندروں میں گِھرا ملک ہے۔ شومئی قسمت کہ جاپان جس جگہ ہے وہاں کیی ٹیکٹانک پلیٹس آپس میں ملتی ہیں۔ یہ ٹیکٹانک پلیٹس اس قدر حرکت میں رہتی ہیں کہ جاپان میں دنیا کے سب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ کتنے؟ ہر سال تقریبا 1500 زلزلے آتے ہیں جن میں سے تقریباً 160 زلزلے ایسے ہوتے ہیں جو ریکٹر سکیل پر 5 یا 5 کی شدت سے زیادہ ہوتے ہیں۔
ان زلزلوں کا مرکز جاپان یا جاپان کے قریب سمندر میں ہوتا ہے۔ اگر یہ مرکز سمندر میں ہو تو یہاں سونامی آتے ہیں۔
2011 میں جاپان میں ریکارڈ شدہ تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ آیا جسکی شدت 9.1 تھی۔ یہ اتنی شدت کا زلزلہ تھا کہ اس سے جاپان کے کئی جزیرے ڈوب گئے اور تقریباً 20 ہزار کے قریب لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے۔ اسکے علاوہ 25 سو کے قریب لوگ لاپتہ ہوگئے۔ یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی تھی اگر جاپان میں زلزلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے استعمال سے زلزلوں سے محفوظ گھر نہ بنائے جاتے یا بروقت ایمرجنسی کی حالت میں امداد مہیا نہ کی جاتی۔ اسکے مقابلے میں 1923 میں جاپان میں 8.5 کی شدت کا زلزلہ آیا جس سے مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک تھی۔ سو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جاپان میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے زلزلوں سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان میں بتدریج کمی آ رہی ہے۔
جاپان میں زلزلے مستقبل میں بھی آتے رہیں گے کیونکہ یہاں کا جغرافیہ ہی ایسا ہے، جاپان کوشش کر کے بھی ان زلزلوں سے چھٹکارا نہیں پا سکتا مگر اسکے باوجود جاپان کے لوگ معمولات زندگی، صحت، تعلیم ، انصاف، معیشت، اخلاقیات ان سب میں سب سے آگے بڑھتے رہیں گے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...