مثل برگ آوارہ کا نواں در
گذشتہ برس جب طغرل پاکستان گیا تو اس دوران یکم مئی کا دن بھی آنا تھا۔ وہ کراچی میں تھا۔ اس کو شدید خواہش ہوئی کہ وہ اپنی بیٹی ماہین کی سالگرہ اپنوں میں منائے۔ کراچی میں طغرل کا چھوٹا بھائی عتیق، بھتیجا عاصم، عاصم کا چھوٹا بھائی قاسم، عاصم کی بہنیں یعنی طغرل کی بھتیجیاں اپنے اپنے کنبوں کے ساتھ رہتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ بچوں کوکراچی کیسے بلایا جائے۔ طغرل کو یاد آیا کہ اظفر بھی پاکستان آیا ہوا تھا۔ اس نے طغرل کو لاہور کا ایک رابطہ نمبر دیا تھا۔ اس نمبرپر فون کیا تو وہ مل گیا۔ مسئلہ بتایا تو اس نے کہا یہ کوئی مسئللہ نہیں ہے۔ میں وہاں چلا جاتا ہوں جہاں آپ کی سابقہ اہلیہ مقیم ہے، بچوں کوگاڑی پرلاہورلے آؤں گا اورطیارے میں سوارکرا دوں گا۔ آپ انہیں ایرپورٹ سے لے لیجیے گا۔ تیسرے روز طغرل کا بیٹا تحسین اوربیٹی ماہین پہنچ گئے تھے۔ تب ماہین دس سال کی تھی اور تحسین تیرہ برس کا۔ بچہ ذہین تھا، طغرل نے اسے قائل کر لیا کہ وہ میٹرک کرنے کے بعد ماسکو آ جائے، جہاں اسے یونیورسٹی میں داخل کرا دیا جائے گا۔ بچہ مان گیا تھا، تب وہ نویں جماعت میں تھا اورغالبا" سرگودھا شہرکے کسی سکول میں پڑھتا تھا۔ ماہین کی سالگرہ بہت اچھے طریقے سے ایک چائنیز ریستوران میں منائی گئی جس میں سبھی لوگوں نے شرکت کی تھی۔ ایک لمحے پر دیکھا کہ ماہین جس کی سالگرہ تھی، وہ کچھ بھی نہیں کھا رہی تھی۔ اس کو نہ چائنیزفوڈ پسند تھی اور نہ ہی سی فوڈ۔ بچی کے چچا عتیق کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ اٹھ کرکسی اورریستوران سے باربی کیو بنوا کرماہین کے لیے لے آیا تھا۔ چاردن کے بعد بچوں کو رخصت کر دیا گیا۔ لاہور ایرپورٹ سے اظفر انہیں گاڑی پر ان کے ہاں سرگودھا چھوڑ آیا تھا۔
میٹرک کرنے کے بعد تحسین ماسکو پہنچ گیا۔ تب اس کی عمرساڑھے چودہ برس تھی۔ اسے میرٹ کی بنیاد پر انٹری ٹیسٹ دے کر ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی کے پرپیریٹری کورس میں داخلہ مل گیا تھا۔ طغرل نے تحسین پر واضح کر دیا تھا کہ اسے ہوسٹل میں رہنا ہوگا۔ مگر ہوسٹل میں چھوڑ آنے کے ایک روز بعد وہ گھر لوٹ آیا تھا اور ہنگامہ کر دیا تھا کہ اسے اپنے سے دوررکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ طغرل نے اسے کہا تھا ٹھیک ہے تم گھر پررہو البتہ یونیورسٹی آنے جانے میں تکلیف ہوگی۔ اس نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں۔
طغرل نے اپنے سے بڑے بھائی کے بڑے بیٹے شہرزاد کو بھی تعلیم پانے کی خاطرماسکومدعو کر لیا تھا۔ ایک مہینے کے بعد وہ بھی اظفر کے ساتھ کسی وسطی ایشیائی ریاست پہنچ کر ٹرین کے ذریعے ماسکو پہنچ گیا تھا۔ اسے ماسکو کی ٹیکسٹائل یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا۔ وہ چونکہ عمر میں خاصا بڑا تھا کوئی بیس سال عمرتھی تب اس کی وہ بڑے آرام سے ہوسٹل میں منتقل ہو گیا تھا۔
طغرل کی خواہش تھی کہ نینا کو اپنا ملک دکھا لائے پر وہ یہ بھی چاہتا تھا کہ اس کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے کہ وہ اپنے خرچ پر نہیں جا رہی۔ طغرل نے ایک طریقہ اختیار کیا تھا۔ شہر نژنی نووگورد کے ملبوساتی کارخانے سے کپڑے کی ایک بڑی مقدارکی ڈیمانڈ تھی۔ یہ سودا کمیشن ایجنٹ الیکساندر کے توسط سے ہو رہا تھا مگر طغرل نے نینا سے کہا تھا کہ اسے معاہدہ لکھنے کی خاطر وہاں جانا ہے، بہتر ہے کہ وہ اس کے ساتھ چلی چلے، معاونت کرے یوں سودے کی رقم کا ایک فیصد اسے بطور کمیشن ملے گا۔ وہ تیار ہو گئی تھی۔ وہ دونوں اس شہر پہنچے تھے۔ معاہدہ لکھا گیا تھا۔ کارخانے کی انتظامیہ نے انہیں اس شہر کا کریملن دکھانے کا اہتمام بھی کیا تھا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کریملن ماسکو میں ہے، جی یاں ماسکو میں بھی ہے۔ دراصل کریملن کو روسی زبان میں کریمل کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے فصیل بند قلعہ۔ ہر بڑے شہرکے انتظامی مرکزیا سیکریٹیریٹ کو کریمل کہا جاتا تھا۔ اسے دیکھنے کے علاوہ طغرل اور نینا نے شہر کے بیچ بہنے والے دریائے وولگا کے کنارے چہل قدمی بھی کی تھی۔ ماسکو کے لیے گاڑی رات کوروانہ ہونی تھی۔ طغرل نے ایس وے یعنی سپیشل کمپارٹمنٹ کے ٹکٹ خریدے تھے تاکہ رات اچھی کٹے۔ ایسا کمپارٹمنٹ صرف دولوگوں کا اختصاصی سلیپرکیبن ہوتا ہے بمع غسل خانے کے۔ باقی وقت انہوں نے الیکساندراوراس کی بیوی کےساتھ بتایا تھا۔ جب ٹرین میں سوار ہونے کے لیے پہنچے تو طغرل پہلے سے سرورمیں تھا۔ کیبن میں مزید پی لی تو اس کا مغزخراب ہو گیا تھا۔ وہ بضد تھا کہ ریل کے کاریڈورمیں لانگ انڈرویر میں جائے گا جبکہ نینا اس طرح سرعام جانے کومعیوب خیال کرتے ہوئے اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھی ۔ اسی بحث تمحیص میں ایس وے کمپارٹمنٹ میں سفر کرنے کا سارا مزہ کرکرا ہو کررہ گیا تھا۔ خاصی کل کل کے بعد طغرل بالآخر سونے کے لیے ڈھے گیا تھا۔ رات کو چڑھا نشہ صبح اتر گیا تھا چنانچہ اس نے نینا کی منت سماجت کرکے اس کی ناراحتی رفع کر دی تھی۔ دو ایک ہفتوں کے بعد جب کپڑا ترسیل کر دیا گیا تو طغرل نے نینا کو آٹھ سو ڈالر بطورکمیشن دیے تھے، ساتھ ہی باورکرایا تھا کہ اسے یہ رقم اس کے ہمراہ پاکستان جانے پر خرچ کرنی ہے۔ نینا جانتی تھی کہ اصولی طور پر اس کا کمیشن نہیں بنتا تھا، طغرل نے اس کی عزت نفس کو برقرار رکھنے کی خاطر ایسا کیا تھا چنانچہ وہ بخوشی ایسا کرنے پر تیار ہو گئی تھی۔
ان دنوں روسی قومی فضائی کمپنی ایروفلوٹ کے مانچسٹر ماسکو کراچی کے ٹکٹ ایک برطانوی فرم بیچتی تھی جو برطانیہ سے منگواتی تھی۔ ماسکو سے خریدا جانے والا براہ راست پرواز کا کراچی تک کا ریٹرن ٹکٹ اگر ساڑھے چھ سو ڈالر کا ہوتا تھا تو ایسا ٹکٹ چار سو ڈالر میں مل جاتا تھا۔ طغرل نے نینا سے چارسو ڈالرلیے تھے اور پاکستان کا ٹکٹ منگوا لیا تھا۔ نینا کے پاس باقی چارسوڈالر پاکستان میں خرچ کرنے کو بچ رہے تھے۔ ظاہر ہے پاکستان میں بھی اسے کچھ خرچ نہیں کرنا تھا، یہ بھی ایک طرح کی ڈھارس تھی کہ وہ وہاں اپنا خرچ خود کرے گی۔
جن دنوں عاصم کی دونوں بیویاں باری باری ماسکو آئی تھیں تونینانے ان کی تعظیم اورتواضع میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی تھی۔ عاصم ویسے بھی روشن خیال تھا، اس کی ایک بیوی تو اس کی سابق سیکرٹری رہی تھی جس کے ساتھ افیئرکے بعد اس نے خفیہ نکاح کیا تھا چنانچہ طغرل کو یقین تھا کہ نینا اوراسے عاصم اپنی دوسری بیگم کے ہاں ٹھہرائے گا۔ اس کی پہلی بیوی کا ایک توگھرکوئی زیادہ بڑا نہیں تھا دوسرے عاصم کا بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اوران دو بھائیوں کی ماں یعنی طغرل کی بھابھی بھی اسی گھر میں رہتے تھے، تیسرے ان کا ایک روایتی گھر تھا جہاں کسی غیرعورت کے ہمراہ قیام کا طغرل سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
عاصم نینا کی عزت کرتا تھا اس لیے وہ خود ان کو لینے ہوائی اڈے پہنچا تھا۔ راستے میں اس نے طغرل سے کہا تھا،" یارچاچا، گھرمیں تومہمان آئے ہوئے ہیں" عقلمند کو اشارہ کافی تھا چنانچہ طغرل نے کہا تھا کہ انہیں کسی ہوٹل میں اتاردے۔ عاصم نے کہا "دیکھتے ہیں" اور پھر یہ کہتے ہوئے کہ عتیق سے تو مل لو، گاڑی موڑ لی تھی۔ عتیق طغرل کا چھوٹا بھائی خاصا مذہبی تھا، جیسے طغرل کے باقی بھائی بہنیں۔ عاصم نے اس کے گھر کے باہرگاڑی روک کر ہارن بجایا توعتیق باہرنکل آیا تھا۔ طغرل اورنینا گاڑی میں بیٹھے تھے۔ عتیق نے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے فرض نبھاتے ہوئے کہا تھا ،"بھائی جان اتریں، آئیں گھر میں"۔ نینا اور طغرل دونوں اترکراندر چلے گئے تھے لیکن جانے سے پہلے طغرل کے کان میں پڑا تھا کہ عتیق نے کار کی شیشے میں جھک کر عاصم سے کہا تھا، "تم بڑے ذلیل ہو"۔
تاہم عتیق نے احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ ان کے آنے سے کبیدہ خاطر ہے۔ ایک پاکستانی مسلمان روایتی گھرانے میں غیرشادی شدہ مرد اورعورت کا ایک کمرے میں رہنا ناقابل قیاس ہے، چنانچہ طغرل دل ہی دل میں شرمسارہورہا تھا اور عاصم کو کوس رہا تھا کہ اس نے اسے کس مخمصے میں ڈال دیا ہے۔
تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد عتیق انہیں اپنی گاڑی میں روایتی کھانے کھلانے لے گیا تھا۔ اس نے انہیں بلکہ خاص طورپرنینا کو مختلف طرح کے پراٹھے جیسے ادرک کے پراٹھے، قیمے کے پراٹھے اوراسی طرح کئی اورچیزوں سے بھرے پراٹھے کھلائے تھے۔ اس کے بعد وہی پاکستانی مہمان نوازی کہ آئس کریم کھا لیں، یہ کھا لیں وہ کھا لیں۔ نینا بہت خوش تھی کیونکہ اس کواس معاملے کا علم نہیں تھا جوان دونوں بھائیوں کے اذہان میں جا گزیں تھا۔ کراچی میں چند روزبہت اچھے گذرے تھے۔ عتیق اورعاصم دونوں نے بہت خدمت کی تھی۔ عاصم کی دونوں بیویوں کے ہاں دعوتیں ہوئی تھیں بلکہ اس کی چھوٹی بیگم کے ہاں تو نینا، طغرل اور عاصم نے وسکی بھی نوش جان کی تھی۔ ظاہر ہے کہ طغرل نے نینا کو سارا کراچی دکھایا تھا۔
طغرل نے پروگرام بنایا تھا کہ وہ نینا کو ایرکنڈیشنڈ ریل گاڑی میں جوصبح کے وقت چلتی تھی، ملتان لے جائے گا جہاں سے وہ اپنے آبائی قصبے جائیں گے پھرلاہوراوراسلام آباد۔ صبح کو گاڑی پر سوار کرانے کے لیے عتیق ہی انہیں اپنی کار میں لے کر گیا تھا۔ ریل گاڑی میں بٹھا کر واپس جانے سے پہلے عتیق نے طغرل کو ایک بند لفافہ پکڑایا تھا اور یہ کہہ کر کہ اس میں بند خط پڑھ لیجیے گا، گاڑی سے نکل گیا تھا۔ گاڑی چل پڑی تھی۔ طغرل نے لفافہ چاک کیا تھا۔ اس میں وہی کچھ تھا جس کی اس کو توقع تھی۔ وہ ساری ناصحانہ باتیں ایک روایتی چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی کو براہ راست نہیں کہہ سکتا تھا۔ خط کو پڑھتے ہوئے طغرل کے چہرے کے عضلات کے اتار چڑھاّؤ کو دیکھتے ہوئے نینا نے پوچھا تھا کہ اس میں تمہارے چھوٹے بھائی نے کیا لکھا ہے۔ طغرل نے حسب معمول غلطی کرتے ہوئے نینا کواس خط میں مندرج سب کچھ بتا دیا تھا۔ نینا کی آنکھوں میں آنسوآ گئے تھے اوراس نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا " تو کیا انہوں نے مجھے آوارہ عورت خیال کیا ہے"۔ طغرل نے اسے سمجھایا تھا کہ اس خط میں عتیق نے تمہارے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھا البتہ اس نے اپنے بھائی کی آوارگی پر اپنی آزردگی ضرورظاہر کی ہے مگر لگتا تھا کہ نینا کی تسلی نہیں ہوسکی تھی۔ اوپر سے جب ٹکٹ چیکرآیا تواس نے طغرل سے پوچھا یہ آپ کی بیوی ہیں۔ طغرل نے بتایا تھا کہ نہیں یہ اس کی دوست ہیں۔ اس پر ٹکٹ چیکر نے کہا تھا ،"یہ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتیں"۔ اس پرطغرل نے بھائی کے لکھے خط کی پوری رنجش چیکر سے بحث کرنے میں اتار دی تھی کہ معلوم نہیں پاکستان میں لوگوں کو کسی کے ذاتی معاملات میں مخل ہونے کا اتنا شوق کیوں ہے، چیکر اپنا سا منہ لے کر آگے بڑھ گیا تھا۔
ملتان سٹیشن پراتر کر وہ دونوں رکشا میں سوارہوکرطغرل کے بہت نزدیکی ہم نوالہ وہم پیالہ دوست کے ہاں پہنچے تھے، جسے ان کے آنے کی اطلاع تھی۔ وہ گھرپرنہیں تھا۔ ان کی بیگم نے بیٹھک کھلوا کر انہیں بٹھا دیا تھا اور بتایا تھا کہ "شاہ جی بس کچھ دیرمیں آ جائیں گے"۔ کوئی گھنٹے بعد شاہ جی بھی پہنچ گئے تھے۔ بڑے تپاک سے ملے تھے۔ نینا کو جنٹلمین کی طرح ہیلو کہا تھا، پوچھا تھا کہ تمہاری بھابی نے چائے وغیرہ پلائی یا نہیں؟ پھر گویا ہوئے تھے کہ یار، چھوٹے بھائی کے سسرال والے آئے ہوئے ہیں، اس لیے میں نے تم لوگوں کی رہائش کا بندوبست ایک گیسٹ ہاؤس میں کیا ہے۔ وہاں تمہاری دوست خاتون زیادہ سہولت سے رہے گی۔ طغرل نے اپنی مسکراہٹ دبا لی تھی۔
پھر وہ گیسٹ ہاؤس چلے گئے تھے۔ شاہ جی یہ کہہ کرکہ تم لوگ ذرا استراحت کرلو میں شام کوآتا ہوں، چلے گئے تھے۔ شام کو شاہ جی پہنچ گئے تھے۔ طغرل اپنے دوست شاہ جی کے لیے "ڈمپل" ڈیلکس وہسکی کی بوتل لایا تھا جو اس نے انہیں تحفہ کی تھی۔ شاہ جی نے کہا تھا یارکھولتے ہیں تمہارا تحفہ اور پیتے ہیں۔ بیرے کو بلایا تھا جو برف اور دیگر لوازمات لے آیا تھا۔ تیسرا پیگ پینے سے پہلے شاہ جی نے اپنی شرارتی مسکراہٹ کو اپنی فرنچ کٹ داڑھی میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک کاغذ کا پرزہ نکالا تھا اور کہا تھا، "یار یہ تمہاری بھابی نے صیغہ کی دعا لکھ کر دی ہے، اس کا ورد کر لینا" اس پر طغرل نے شاہ جی کو کہا تھا، " ایتا تی بروٹس" یعنی "بروٹس تم بھی" ۔ ۔ ۔ وہ نہیں نہیں کہتا رہا تھا لیکن سچ تو سچ تھا۔ شراب نوشی گناہ نہیں لیکن بسترپرایک ساتھ جانے سے پہلے صیغہ کی دعا پڑھ لینی چاہیے۔ طغرل نے یہ بات نینا کے گوش گذار نہیں کی تھی۔ اگلے روز اس نے اپنے ایک اور دوست اوراس کی بیگم کے ہمراہ نینا کو ملتان کے قابل دید مقامات دکھائے تھے اورمزید ایک روز بسرکرنے کے بعد ٹیکسی کار پرسوارہو کراپنے قصبے کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔
آبائی گھر میں ایک نامحرم عورت کو ساتھ لے کر جانا طغرل کے لیے بہت بڑا امتحان تھا کیونکہ وہاں رہنے والے دونوں بڑے بھائی اوردوبہنیں بہت مذہبی تھے لیکن اسے گھبراہٹ ہرگزنہیں تھی کیونکہ وہ سب مہمان نواز لوگ تھے۔ مہمان عورت ہو یا آدمی اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ طغرل نے یہی سمجھا تھا کہ ان کوعلیحدہ علیحدہ کمرے دیے جائیں گے۔ آنے کے کوئی آدھ پونے گھنٹہ بعد طغرل کے منجھلے بھائی نے کہا تھا کہ میاں تم دونوں کے لیے فلاں کمرہ ہے، باتھ روم بھی بالکل ساتھ ہے، طغرل کو ایسے لگا تھا جیسے اس پر منوں پانی پڑ گیا ہومگراسے اپنے بڑے بھائی کی یہ انسان دوستی اور جمہوریت پسندی بہت بھائی تھی جنہوں نے ایک بھی معترضانہ لفظ نہیں کہا تھا۔
اس سے طغرل کوحوصلہ ملا تھا۔ طغرل کے آبائی گھرمیں عورتوں کے پردے کی انتہائی پابندی تھی مگر طغرل نے بھتیجے کی موٹرسائیکل نکالی تھی اور نینا کو پیچھے بٹھا کراپنا چھوٹا سا قصبہ گھمانے نکل کھڑا ہوا تھا۔ بھرے بازار کے بیچ اسے مولانا مشتاق دکھائی دیے تھے۔ مولانا مشتاق طغرل سے چند سال ہی بڑے تھے جن سے بے تکلف بات چیت تھی۔ طغرل نے ان کے پاؤں کے نزدیک پہنچ کر بریک لگائی تھی۔ مولانا اچھل کرمڑے تھے اورطغرل کو دیکھ کر "اوہ آپ طغرل بھائی!" کہہ کر گلے لگ گئے تھے ، پھر فورا" خیال آتے ہی خاتون کو سلام کیا تھا اور کہا تھا،"طغرل بھائی آپ کی اہلیہ ہیں ناں"۔ طغرل نے کہا تھا نہیں مولانا یہ میری دوست ہے۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ " ٹھیک ہے جی ٹھیک ہے، آج رات کا کھانا ہمارے ہاں کھائیں گے آپ"۔ طغرل کو اچنبھا بھی ہوا کہ یہ فوری کھانے کی دعوت کیسے مگر اس نے قبول کر لی تھی۔ اسے مولوی مشتاق سے چھیڑ چھاڑ اچھی لگتی تھی۔
اس شام طغرل نینا کوساتھ لے کرمولوی مشتاق کے ہاں دعوت میں چلا گیا تھا۔ معلوم یہ ہوا کہ مولوی صاحب نے مقامی ایم این اے کو پہلے سے مدعو کیا ہوا تھا، طغرل کو اس نے شاید نینا کی وجہ سے دعوت دی تھی تاکہ ایک تو "انگریز" عورت سے اپنی بیبیوں کو متعارف کروائے، دوسرے ایم این اے کو متاثر کرے کہ ان کے ہاں غیرملکی مہمان بھی آتے ہیں۔ جہاں تک تعلق تھا مولوی مشتاق کی خوشی کا تو کوئی ایسی بات نہیں تھی، طغرل نے سوچا تھا لیکن مولوی نے جب ایک بارپھرمنافقت سے کام لیتے ہوئے ایم این اے کو بتایا تھا کہ نینا طغرل کی اہلیہ ہے تو طغرل سے نہیں رہا گیا تھا اس نے کہا تھا،" مولوی صاحب میں پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں کہ یہ خاتون میری بیوی نہیں بلکہ میری دوست ہے" مولوی کی توسٹی گم ہوگئی تھی، اس نے خجل مسکراہٹ مسکرانے پر اکلتفا کیا تھا۔ دروازے کے پیچھے اس کی "پاکباز" بیبیاں بھی سن رہی تھیں کہ ایک مرد کی "غیرمحرم" دوست عورت ان کے ہاں بیباکی کے ساتھ چلی آئی ہے۔ طغرل دل ہی دل میں ہنس رہا تھا۔
لفظ انگریز بھی خوب رہا۔ جب قصبے میں بچے گوری عورت کو دیکھ کر کہتے تھے "انگریز ہے انگریز" تو نینا نے پوچھا تھا کہ یہ انگریز کیا ہے۔ طغرل نے بتایا تھا کہ ویسے توانگلستان کے رہنے والے کوانگریزکہا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں گوری رنگت والے ہرغیر ملکی کو عموما" انگریز کہہ دیتے ہیں۔ اس پر وہ جز بز ہوئی تھی اور کہا تھا کہ وہ انگریز نہیں روسی ہے۔ کراچی میں جس بھی انجان شخص نے اس خاتون کی شہریت سے متعلق پوچھا تو طغرل نے یہی بتایا تھا کہ یونانی ہے۔، نینا کے نقوش یونانی تھے۔ اس کے والد یونانی النسل تھے۔ طغرل کے ایسا کرنے کی ایک وجہ تھی۔ ان دنوں کراچی میں عام لوگ، روس سے آنے والی ہرعورت کو بلا تخصیص سن وسال بدکارعورت خیال کرتے تھے۔ دلچسپ امریہ تھا کہ ان دنوں کاروبارکی آڑمیں بدکاری کرنے کی خاطرآ کرصدر کراچی کے ہوٹلوں یا کراؤن پلازہ ہوٹل میں قیام کرنے والی بیشترخواتین روس سے نہیں بلکہ روس سے علیحدہ ہونے والی وسط ایشیا کی ریاستوں سے آیا کرتی تھیں چونکہ ان کی اکثریت روسی النسل ہوتی تھی اس لیے لوگ انہیں روسی سمجھتے تھے۔
نینا نے صبح بیدار ہونے کے بعد جو پہلا کام کیا تھا اس نے نہ صرف گھر کے سبھی افراد کو حیران کردیا تھا بلکہ ان کی نظروں میں اس کی توقیر بڑھ گئی تھی۔ اس نے جھاڑواٹھا کرصحن صاف کرنے کی کوشش کی تھا جو ظاہر ہے طغرل کی بہنوں نے کرنے نہیں دیا تھا لیکن اس عمل سے سب اس کے ساتھ گھل مل گئے تھے۔ چونکہ طغرل نینا سے اس کے بیٹے ساشا کے توسط سے مانوس ہوا تھا، اس لیے وہ ساشا کی طرح اسے "ماما" پکارتا تھا۔ ظاہرہے مطلب ساشا کی ماما ہوتا تھا چنانچہ گھر میں سبھی کم عمرافراد نے اسے "ماما" کہہ کر ہی پکارنا شروع کر دیا تھا۔ اب اس لفظ "ماما" کو بھی مشرف بہ پاکستان واسلام کرنے کی خاطر طغرل کی بہنوں کو ہمسائیوں سے کہنا پڑا تھا کہ "ماما" اس خاتون کا نام ہے۔ یقینا" انہوں نے یہ بھی کہا ہوگا کہ روسی خاتون طغرل کی بیوی ہے تبھی تو محلے کے ایک حاجی نے طغرل سے کہا تھا،"بھائی شادی کرنی تھی تو اس کی بیٹی سے کرتے، ہم عمرسے شادی کرنے کی کیا تک تھی" طغرل کواس کی اس بات پرغصہ تو بہت آیا تھا لیکن وہ چپ رہا تھا۔
طغرل کے آبائی گھر میں نینا کا بہت اچھا وقت گذرا تھا۔ طغرل کے اگلے پروگرام میں نینا کو بس کے ذریعے قصبے سے براہ راست لاہور لے جانا شامل تھا۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ لاہورمیں مقیم اپنی دونوں بہنوں میں سے کسی کے ہاں قیام نہیں کرے گا بلکہ نینا کے ساتھ نفیسہ کے ہاں ٹھہرے گا۔ اس نے اس سلسلے میں نفیسہ سے فون پر بات بھی کر لی تھی جو انہیں ٹھہرانے پر بخوشی رضامند ہو گئی تھی۔
بس کا سفررات بھرکا تھا۔ درمیان میں جہاں بس رکی تھی وہاں طغرل نے نینا کو "کڑک چائے" پلائی تھی۔ صبح تڑکے لاہور میں بند روڈ پر واقع اڈے میں بس سے اترے تھے، رکشہ میں سوارہوکرٹاؤن شپ، بڑی بہن کے ہاں پہنچے تھے جہاں انہیں ناشتہ کروایا گیا تھا۔ بڑی بہن نے مسکراتے ہوئے طغرل سے پوچھا تھا، " تم دونوں کو ایک ہی کمرہ دینا ہوگا یا علیحدہ علیحدہ کمروں میں سوووگے؟" طغرل نے بہن کے طنزبھرے استفسار کا جواب انتہائی سنجیدگی سے یہ کہہ کر دیا تھا کہ "ہم آپ کے ہاں قیام نہیں کریں گے بلکہ نفیسہ کے ہاں رہیں گے" بہن یہ جواب سن کرچپ ہوگئی تھی۔
دو گھنٹے بہن کے ہاں گذارنے کے بعد ان دونوں کوطغرل کا بھانجا اپنی کارمیں نفیسہ کے ہاں چھوڑ آیا تھا۔ نفیسہ ان کے پہنچنے پربہت خوش ہوئی تھی۔ طغرل نے نینا کو لاہورکے قابل دید مقامات، گلیاں، لوگوں کا رہن سہن دکھائے تھے۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا ورنہ ہیرا منڈی بھی دکھا دیتا۔ جہانگیر کے مقبرے سے شاہدرہ تک تجربے کی خاطر ایک عام مسافر بس میں سفر کروایا تھا۔ اپنے دوست چوہدری نادرکے قصبے میں لے گیا تھا۔ بڑے زمیندارگھرانے کی زندگی سے لے کرصنعتی مزدوروں کی زندگی تک میں اسے شامل ہونے کا موقع فراہم کیا تھا۔ چوہدری نادرنینا اورطغرل کو اپنے مربعوں پرلے گیا تھا جہاں نینا نے گنا چوسیا تھا۔ زراعت پر جی بھر کے اپنی رائے دی تھی۔ طغرل ترجمہ کرتا رہا تھا۔زراعت سے متعلق اس کی معلومات سے حیران ہو کرچوہدری نادرنے کہا تھا، "بئی لگدا اے، بی بی ارین اے"۔ طغرل ہنس پڑا تھا اور کہا تھا کہ ارائین ہے تو نہیں مگرارائین میزبان کے ہاں ٹھہری ہوئی ہے۔
قصہ کوتاہ لاہورکا ٹرپ ااب تک کسی ایسی "پاکستانی روش" سے پاک تھا جس سے اغیار کو یا اغیارکی سی سوچ رکھنے والے یعنی لبرل افراد کو تکلیف ہوتی۔ اب طغرل کا پروگرام اپنی بیٹی سے ملنے کا تھا جس کے لیے وہ ماسکو سے چاکلیٹ کے ڈبے لے کرآیا تھا۔ چونکہ اس کی ماں اب کسی اور کی بیوی تھی چنانچہ طغرل نے کسی نہ کسی طرح سے کسی اور کے رابطے سے اپنی سابق اہلیہ کے ساتھ طے کیا تھا کہ وہ بیٹی کو لے کرفلاں جگہ اس رابطے کے رشتہ دار کے گھر پہنچ جائے۔
یہ قصہ بعد میں پہلے لاہور کے ٹرپ کا آخری منظرسہہ لیں۔ جانے سے ایک روزپہلے نفیسہ کے ہاں اس کے چند ملنے والے مرد آئے تھے جن میں سے کوئی یونیورسٹی میں پروفیسر تھا توکوئی کسی اعلٰی سرکاری عہدے پر مامور۔ گفتگو کے دوران ان میں سے کسی نے پھر وہی پاکستانی سوال کیا یعنی یہ آپ کی مسز ہیں۔ طغرل کے منہ سے بے اختیار نکل گیا "نہیں جی، یہ میری دوست ہیں"۔ نفیسہ کے چہرے کے عضلات مرتعش ہوئے تھے۔ ان افراد کے جانے کے بعد نفیسہ طغرل سے الجھ پڑی تھی،" تمہیں کیا ضرورت تھی یہ کہنے کی"۔ طغرل نے اس کو شاہ جی کی طرح "ایتا تی بروتس" یعنی "تم بھی بروٹس" تو نہ کہا البتہ یہ ضرور کہا تھا کہ پہلی بات تو یہ کہ وہ پڑھے لکھے لوگ تھے، دوسری بات یہ کہ تمہارے شناسا تھے، میں سمجھا تھا کہ ان کی سوچ تمہاری سوچ جیسی ہوگی چنانچہ میں نے وہی کہا جو سچ تھا"۔ نفیسہ کا موقف تھا کہ نہ تو اس کے سارے شناسا لبرل ہیں اور نہ ہی وہ سب کو سب کچھ سمجھا سکتی ہے۔ لوگوں کے منہ نہیں پکڑے جا سکتے۔ دھت تیرے کی، طغرل نے سوچا تھا۔
نینا اور طغرل اگلے روزکوچ پرسوارہوکرمنڈی بہاؤالدین جا پہنچے تھے ۔ طغرل اس شہر میں پہلی بارآیا تھا۔ جس جگہ جانا تھا اس کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ وہاں صرف تانگے جاتے ہیں۔ تانگے کا یہ سفربہت اچھا تھا۔ چھوٹے سے قصبے بلکہ بڑی بستی تک جاتی سڑک پر ٹریفک اکا دکا تھی۔ کوچوان باتونی تھا۔ بتاتا گیا کہ کتنی بار "گوریوں" نے اس کے تانگے میں سواری کی ہے۔ درست ہی کہتا تھا، اس علاقے کے بہت زیادہ لوگ یورپی ملکوں میں تارکین وطن ہیں۔ اس بستی میں جا کر پوچھتے ہوئے متعلقہ شخص کے ہاں پہنچے تو ان کے دروازے کے ساتھ ایک گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ دروازہ کھٹکھٹایا، جس نوجوان نے دروازہ کھولا اس نے کہا تھا "اندرآ جائیں"۔ گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے بیٹھک تھی جس میں مناہل بیٹھی ہوئی تھی اوراس کے ساتھ کوئی موٹی سی بچی بیٹھی تھی۔ مناہل نے بیٹھے بیٹھے سلام کیا تھا۔ دو چار فقروں کے تبادلے کے بعد طغرل نے پوچھا تھا "ماہین کہاں ہے؟" مناہل نے موٹی سی بچی کی جانب اشارہ کرکے کہا تھا، "اور یہ کون ہے"۔ طغرل کوموٹاپے سے چڑ تھی۔ وہ اپنی بیٹی پربرس پڑا تھا جو اس کی طعن و تشنیع سن کرروہانسی ہو گئی تھی، پھر طغرل نے اسے مزید موٹا ہونے کے لیے چاکلیٹ کے ڈبے دیے تھے جو موٹے بچوں کی طرح اس کے بھی پسندیدہ تھے چنانچہ وہ خوش ہو گئی تھی۔
جب روانہ ہونے کے لیے عارضی میزبان بلکہ مہربان کے گھر سےنکلے تو مناہل نے ماہین کو مخاطب کرکے اورآنکھ سے کچھ دور کھڑی نینا جو پتلون بلاؤز پہنے ہوئی تھی، کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا "ایسے لگتا ہے جیسے بیچاری کے پاس کپڑے نہیں ہیں" طغرل نے اس طنز پرچپ سادھ لی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی تلخی جنم لے۔ اس نے تانگے والے کو واپسی کے لیے روکا ہوا تھا۔ مناہل نے کہا تھا "میں تمہیں منڈی تک چھوڑآتی ہوں، تانگے والے کو فارغ کردو"۔ نینا اورماہین پچھلی نشست پربیٹھ گئی تھیں، طغرل ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو مناہل نے کہا تھا " میں کم ازکم تمہیں کھانا تو کھلادوں"۔ اسے وہاں کے کسی بہترریستوران کا علم تھا جہاں لے جا کراس نے انہیں کھانا کھلایا تھا۔ بعد میں وہیں بیٹھے بیٹھے، ان دونوں کے درمیان کسی بات پر تلخی پیدا ہو ہی گئی تھی۔ مناہل اور طغرل دونوں نے اونچا اونچا بولنا شروع کر دیا تھا۔ نینا ڈری بیٹھی تھی۔ اسے خوف تھا کہ جھگڑا کہیں تشدد کی شکل نہ اختیار کر لے۔ طغرل نے مناہل سے کہا تھا "اٹھو ہمیں اڈے پرچھوڑ آؤ"۔ وہ جسے کہتے ہیں پیرپٹختی ہوئی اٹھی تھی اورسب کار میں سوارہو گئے تھے۔ راستے میں ان دونوں کی توتکار جاری رہی تھی۔ طغرل نے کہا تھا، "دل کرتا ہے کہ تمہارا کھلایا ہوا کھانا قے کرکے نکال دوں" مناہل بولی تھی " تو نکال کیوں نہیں دیتے، گاڑی سائیڈ پر کروں" یہ لاگ سے لگاؤ کی جانب مراجعت تھی۔
اس نے طغرل اورنینا کوایک ویگن میں سوار کرا دیا تھا۔ وہ پنڈی کے لیے روانہ ہو گئے تھے۔ راولپنڈی میں دکھانے کو کیا تھا، کچھ بھی نہیں۔ اسلام آباد دکھایا۔ شکر پڑیاں لے گیا۔ اگلے روزمری جانے کا پروگرام تھا۔ ایک دوست کی گاڑی میں ابھی چھترتک ہی گئے تھے کہ شدید بارش نے آ لیا جو بہت دیر تک رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی چنانچہ وہیں سے لوٹ آئے تھے۔ راولپنڈی میں زیادہ دیر قیام بے سود تھا چنانچہ کراچی جانے کے لیے لاہور پہنچ گئے تھے۔ ایک اوررات نفیسہ کے ہاں بتانے کے بعد، ماسکو جانے کے لیے بذریعہ طیارہ کراچی روانہ ہو گئے تھے۔ اس بار نجانے عاصم کے دل میں کیا آئی کہ اس نے انہیں اپنی بڑی بیگم کے ہاں اپنے کمرے میں ٹھہرایا تھا۔ شاید اسے اپنے چچا یعنی طغرل کے بڑے بھائی سے سبق سیکھ لیا تھا جنہوں نے ان دونوں" بن نکاح" افراد کے قیام کو اعتدال پسندی سے لیا تھا۔
نینا کا پاکستان سے متعلق مجموعی تاثّر یوں تھا، "پاکستان کے لوگ بہت اچھے ہیں لیکن یہاں اصول و ضوابط مبنی بر دیوانگی ہیں"۔ ظاہر ہے وہ پاکستان میں کسی ہندوستانی مسلمان کے ہاں پیدا نہیں ہوئی تھی اس لیے وہ اصول و ضوابط جو پاکستان کے باسیوں کے لیے عموم ہیں اس کے لیے دیوانگی پر محمول تھے۔ اگروہ اتفاق سے طغرل کے باپ کے ہاں پیدا ہوجاتی تو ساری عمر دروازے کی ریخ سے باہرجھانکنے کی بھی اجازت نہ ملتی یوں وہ نمک کی کان میں رہتے ہوئے خود نمک ہو جاتی۔ قدرت نے اسے نمک ہونے سے تو ویسے ہی بچا لیا تھا چنانچہ صبح کے بھٹکے شام کو وہ ماسکو آ گئے تھے۔
پاکستان میں طغرل نے نینا کوچرس بھی پلائی تھی۔ آتے ہوئے اس نے چرس کی ایک ڈلی نینا کی سگریٹ کی ڈبی میں ڈال دی تھی اورشاید جان بوجھ کر بھول گیا تھا۔ چرس کی وہ ڈلی ان کے ساتھ ماسکو پہنچ گئی تھی۔ طغرل کا ملازم مقرب تاجک اورطغرل کا بھتیجا انہیں لینے ایرپورٹ پہنچے تھے۔ نینا نے گاڑی میں بیٹھ کر پہلی بار سگریٹ نکالی تو اس کی چرس پر نظر پڑی تھی۔ وہ طغرل سے خفا ہو گئی تھی کہ کیا تم چاہتے تھے میں پکڑی جاتی۔ گھر پہنچ کر تاجک نے چرس چکھانے کی فرمائش کی تھی۔ اس شغل کے بعد طغرل نے تاجک کو کوئی کام کرنے کو کہا تھا تو اس نے مشکل سے اٹھتے ہوئے کہا تھا،"سر کیا کرتے ہیں، پہلے چرس پلاتے ہیں اورپھر کام کرنے کو کہتے ہیں"۔ اس پر طغرل کو بندرعباس ایران کا ایک واقعہ یاد آ گیا تھا جب وہ اوراس کا ایرانی دوست مہرداد ایک اوردوست کے ہاں سے وائن اور چرس پی کر نکلے تھے۔ راستے میں چلتے ہوئے طغرل نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہر چیزایک ایک کرکے مہرداد کو تھما دی تھی جس کے بعد مہرداد نے کہا تھا "اب کیا آپ کو بھی کندھے پر لاد لوں؟"
جب طغرل اور نینا پاکستان سے لوٹ رہے تھے تو طغرل کوطیارے میں ہی ایک خیال آیا کہ نینا سے تعلق کو تین سال بیتنے کوآئے ہیں۔ اس ساتھ کو طول دینے سے فائدہ ؟ ایسا نہ ہو کہ ساتھ دینا مجبوری لگنے لگے یا دوسرے لفظوں میں ڈیوٹی بن کررہ جائے۔ اس نے بلا کم و کاست اس سوچ کا اظہار نینا سے کردیا تھا اوردونوں نے طے کر لیا تھا کہ چلواس ساتھ کو ہنسی خوشی تمام کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایک دوسرے سے میل جول رکھنا تاحتٰی ٹیلیفون پر بات چیت کرنا تک ترک کر دیا تھا۔
سال نو کی آمد آمد تھی۔ طغرل نے بیلاروسی لینا کوسال نومنانے کے لیے اپنے ہاں مدعو کر لیا تھا جو بخوشی رضامند ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے آنے کی تاریخ بتا دی تھی۔ اس کی ریل گاڑی کوصبح کہیں آٹھ بجے کے قریب پہنچنا تھا مگرطغرل ہمیشہ سے تساہل پسند مضطرب تھا کہ اتنی صبح کیسے اسے سٹیشن پر لینے جائے۔ اظفر نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں میں چلا جاؤں گا، اسے لے کرآپ کے ہاں چھوڑجاؤں گا۔ چنانچہ اظفر گلاب کے پھولوں کا ایک گلدستہ لے کر گیا تھا اورکوئی ساڑھے نو کے قریب لینا کو ساتھ لے کر طغرل کے ہاں پہنچ گیا تھا۔ طغرل لینا کے ساتھ مہذب مگر پرتپاک طریقے سے ملا تھا۔ اس وقت تک تحسین یونیورسٹی جا چکا تھا البتہ حسام موجود تھا جواس رات طغرل کے ہاں ہی ٹھہر گیا تھا۔
لینا بیلاروسی کو چھوڑ کراظفر چند منٹ بعد رخصت ہو گیا تھا۔ لینا بڑے کمرے میں تھی۔ طغرل نے جا کر لینا کو بانہوں میں بھرا ہی تھا کہ اس نے "اوبھی ہوئی سانسیں" لینا شروع کر دی تھیں۔ طغرل کے ذہن میں فورا" ظفراقبال کا یہ شعرآیا تھا:
ہتھ لاویاں دے نال ای سانہہ لینی ایں ابھے نیں
کی پٹواسے چمیاں، کی چھکواسیں ببے نیں
وہ اس خاتون کے اس فوری رویے سے کچھ بوکھلا سا گیا تھا۔ ابھی آیا کہہ کر کچن میں گیا تھا جہاں حسام بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ طغرل نے ہنسی دباتے ہوئے بہت تحیر کے ساتھ اسے بتایا تھا، "یاروہ تو ہاتھ لگاتے ہی ایسی سانسیں لینے لگی جیسے کہیں سے دوڑ کرآئی ہو" حسام نے حسب عادت زور دار قہقہہ لگا کرکہا تھا،" جناب ہاٹوہاٹ آئی ہے، پیل دیں اورکیا"۔ اس اس مقصد کے لیے ہی تو بلایا تھا۔ بڑے کمرے میں دیوار کے ساتھ ایک سنگل پلنگ تھا جس کے سپرنگ بہت اچھلتے اور بہت چرچراتے تھے۔ ان کو فوری طور پراچھالے اورچرچرانے کا اہتمام کیا گیا۔ مگرخاتون تھی کہ نہ اچھلی تھی نہ چرچرائی تھی البتہ سپرنگوں کی اچھل پٹخ اورچرچراہٹ اس کی سانسوں کے زیرو بم کوضرورمعمول پر لے آئے تھے۔ شام کو طغرل لینا کوسیرکرانے کے لیے اسے، تب شہر میں موجود واحد شاپنگ مال "آئرش مارکیٹ" لے گیا تھا جہاں اس نے "یہ بھی لے دو، وہ بھی لے دو" کی تکرار شروع کر دی تھی مختصرا" یہ کہ موصوفہ نے آدھے گھنٹے میں سینکڑوں ڈالرکی خریداری کرڈالی تھی۔ خریداری کے بعد بھی سڑک پر مچل مچل کربچوں کی طرح ہاتھ چھڑا کروہ کچھ اورخریدنے کی خواہش میں جب کسی دوسری دکان کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتی تھی تو طغرل اس کی انگلیوں کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ اپنی انگلیوں میں جکڑتے ہوئے کہتا تھا "یہاں پھرجائیں گے" اور دل میں کہتا تھا " تم نے اپنی خریداری کا کوٹہ کمپلیٹ کر لیا ہے نندنی"۔ اسے رہ رہ کرخیال آ رہا تھا کہ نینا نے تین برس کی شناسائی کے دوران ایک بار بھی کوئی چیز خریدنے کی فرمائش نہیں کی تھی۔ اگر کہیں بازار گئے بھی تب بھی اس نے چیزوں کی طرف دیکھا تک نہیں تھا۔ اورتواور ایک باراسی آئرش شاپ میں اسے کوئی نوے ڈالر کے ایررنگ پسند آ گئے تھے، باوجود اس کے کہ طغرل کہتا رہا کہ خرید لیتے ہیں، وہ "نہیں نہیں ، بہت مہنگے ہیں" کہتے ہوئے طغرل کو کھینچ کر دکان سے باہر لے آئی تھی۔
30 دسمبر 1994 کو طغرل نے سوچا تھا کہ نینا سے کوئی مخاصمت تو نہیں ہے۔ ان دونوں نے رضامندی سے تعلق کو طول نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا اوربس۔ انسانی اوردوستانہ تعلق برقرار ہے تو کیوں نہ اسے نئے سال کی مبارک باد دی جائے۔ قریبی افراد کو مبارک باد زبانی کلامی نہیں دی جاتی بلکہ تحفے تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ طغرل نے نینا کو مبارک دینے کا ذکر لینا سے کیا تھا جس نے کہا تھا کہ تمہیں ضرور مبارک باد دینی چاہیے۔ لینا نے کہا تھا تھا چلو طغرل میں نینا کے لیے شراب کے تحفے لینے میں تمہاری مدد کرتی ہوں۔ اس نے اپنی خریداری کی عادت کے مطابق مہنگی مہنگی شرابیں خرید کرا دی تھیں۔ طغرل شراب کی بھری بوتلوں کا تحفہ لے کر نینا کے گھر پہنچا تھا۔ نینا اور اس کی بیٹی پہلے سے چسکیاں لے رہی تھیں۔ تھوڑی دیربیٹھ کرطغرل نے بہانہ بنا کر اجازت چاہی تھی جس پر نینا نے جو ہلکے سے سرورمیں تھی سنجیدگی سے کہا تھا کہ آج اگر گئے تو پھرکبھی نہ آنا۔ اس کی بیٹی نے کہا تھا کہ میری ماں تواس فقرے کا بے محابا استعمال کرتی رہتی ہے۔ اگر تمہارا جانا ضروری ہے تو جاؤاورطغرل چلا گیا تھا۔ ان دو چاردنوں میں جسمانی مستعدی پیدا کرنے کی خاطر لینا کے مسلسل انکار کے باوجود پاکستان سے نینا کی سگریٹ کی ڈبیہ میں چھپا کرلائی گئی چرس کی بچی کھچی مقدار سے دیے گئے دھویں سے اس کے بدن میں بجلیاں بھری جا چکی تھیں۔ اب طغرل میاں بس چت لیٹا کرتے تھے، لینا اچھلتی رہتی تھی یعنی زبردست وقت گذر رہا تھا۔
جب وہ گھر پہنچا تو کچن میں تحسین، شہرزاد اورلینا اکٹھے بیٹھے تھے۔ طغرل نے بتانا شروع ہی کیا تھا کہ نینا اسے واپس نہیں آنے دے رہی تھی کہ شہرزاد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے بتایا تھا،" چاچا جی، یہاں معاملہ گمبھیرہوگیا ہے۔ نینا کا فون آیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں تحسین کوروکتا اس نے لینا کی موجودگی کے بارے میں اسے بتا دیا ہے"۔ طغرل "اوہو" کہتا ہوا ٹوائلٹ میں گھس گیا تھا۔ ابھی وہ فارغ ہونے کے بعد اپنی زپ بند کر رہا تھا کہ اسے بیل بجتی سنائی دی تھی۔ اس نے چیخ کرکہا تھا "دروازہ مت کھولنا" لیکن تحسین جو دروازے کے سامنے والے کمرے میں کھلے دروازے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، نے تنبیہہ کے باوجود دروازہ کھول دیا تھا۔ جب تک طغرل باتھ روم سے نکلا نینا لینا کے سنہری بالوں کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی۔ تحسین، شہرزاد اور طغرل تینوں نے بڑی مشکل سے اس کی بند مٹھی کی انگلیاں کھول کر آنکھوں پہ بازو رکھے بالوں کی کھچاوٹ کے درد سے سسکتی ہوئی لینا کے بالوں کو چھڑایا تھا۔ نینا کا بیٹا ساشا اورداماد لیونیا جس کی کارمیں سوارہو کروہ سب آئے تھے، دروازے کے سامنے پریشان کھڑے تھے۔ طغرل نینا کا بازو پکڑ کریہ کہتے ہوئے کہ "چلو بات کرتے ہیں" اسے بڑے کمرے تک لے گیا تھا دروازہ بند کرتے ہی نبنا نے اپنا گھٹنا اس کی ٹانگوں کے درمیان مارنے کی کوشش کی تھی، طغرل نے جھکائی دی تھی یوں نینا کا گھٹنا وہاں نہیں لگا تھا جہاں وہ مارنا چاہتی تھی۔ طغرل کو یہ سوچ کر کہ اگر مقام خاص پراسے گھٹنا لگ گیا ہوتا تو اس کا تو کام ہو گیا تھا بہت غصہ آیا تھا اوراس نے نینا کے چہرے پر کھلے ہاتھ سے پورے زورکا تھپڑرسید کیا تھا۔ وہ چکرا کر سپرنگ دار پلنگ پر گری تھی۔ طغرل نے دروازہ کھولتے ہی چیخ کر کہا تھا، "ساشا لے جاؤ اپنی ماں کو یہاں سے ورنہ گڑ بڑ ہو جائے گی" وہ دونوں روسی نوجوان بڑی مشکل سے اسے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ سبھی کی طبیعت کبیدہ ہو چکی تھی۔ شہرزاد نئے سال کی تقریب منانے کے لیے تحسین کواپنے ساتھ لے کرہوسٹل چلا گیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد شراب پینے سے طغرل اور لینا کے اوسان بحال ہوئے تھے۔ انہوں نے نیا سال ایک دوسرے کی بانہوں میں گم ہو کرسوتے ہوئے منایا تھا۔
لینا واپس چلی گئی تھی۔ تحسین نے ایک روزطغرل سے استفسار کیا تھا، " آپ نے ماما نینا سے ناطہ توڑنے کے لیے نئے سال کے موقع کو ہی کیوں چنا تھا؟"۔
"بس یونہی، یہاں کہا جاتا ہے کہ نئے سال کو اکٹھے نہ ہوں تو کم از کم ایک سال اکٹھے نہیں ہو سکتے"۔
"ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ نئے سال کے موقع پر اکٹھے نہ رہ پانے والے عمربھراکٹھے رہیں" اس نے عوامی کہاوت کو بالکل ہی الٹ دیا تھا۔
طغرل نے تحسین کی اس بات کودرخوراعتنا نہیں جانا تھا بلکہ بچگانہ خیال کیا تھا۔ زندگی کے معمولات اسی طرح چل رہے تھے جس طرح پہلے تھے لیکن نینا منہا ہو گئی تھی۔ کبھی کبھاراس کا نہ ہونا طغرل کو بہت چبھتا تھا لیکن وہ اسے باقاعدہ بھلانے کی سعی کرنے لگا تھا۔ خلاء تو بہرحال خلاء ہوتا ہے جسے پرکرنے کی خواہش رہتی ہے۔ رات کو شراب نوشی کے بعد اسے کبھی یولیا کی یاد ستانے لگتی تھی۔ ایسے میں وہ کچھ ایسی حرکتیں کرتا تھا جن پربعد میں اسے کوفت ہوتی تھی۔ جیسے ایک بار اس نے تحسین کو کہا تھا کہ اس نمبرپرفون کرکے کہو کہ تمہاری یعنی یولیا کی وجہ سے میرے پاپا کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ یا پھر پینے کے بعد تحسین کی ماں کی برائیاں کرنے لگ جاتا تھا۔
وہ سمجھتا تھا چونکہ وہ رات کو ہی پیتا ہے اس لیے اس کے دن کے معمولات متاثر نہیں ہوتے لیکن یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ وہ تحسین کی تعلیم سے متعلق بالکل لاعلم رہا تھا۔ اسے یقین تھا چونکہ وہ خود ذہین تھا اوراسے تعلیم میں دلچسپی رہی تھی اس لیے تحسین بھی تعلیم کے سلسلے میں اغماض نہیں برتے گا۔ یہ بالکل بھول گیا تھا کہ تحسین اوراس کے عہد اورحالات یکسر مختلف تھے۔ تحسین روزانہ صبح رک سیک کندھے پرڈال کریونیورسٹی روانہ ہو جاتا تھا اورشام کولوٹتا تھا۔ طغرل نے اس سے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ اس کے اسباق کا ٹائم ٹیبل کیا ہے اوراسے کیا پڑھایا جاتا ہے۔ ایک بار تحسین نے خود ہی کہا تھا کہ اسے فلاں چیز سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ طغرل کو اس کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا، تحسین سے ہی وضاحت چاہی تھی اور سن کرکہا تھا کہ کوئی ٹیوٹرلے لو۔ جس کے بعد پھر بے نیازہوگیا تھا۔ چھ ماہ کے بعد طغرل نے تحسین کی فیس کی قسط جمع کرانے کے لیے مینیجرتاجک کو بھیجا تھا جس نے آ کر بتایا تھا کہ تحسین کی توبہت زیادہ حاضریاں کم ہیں بس ایسے سمجھیں جیسے وہ کلاسوں میں جاتا ہی نہیں۔ طغرل کا دماغ گھوم گیا تھا۔ جب اس نے تحسین سے پوچھا تواس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اسے یہاں نہیں پڑھنا، اسے واپس بھجوا دیا جائے۔ اس سے زیادہ وہ بتانے سے گریزاں تھا۔ اس نے منہ میں گھنگھنیاں ڈال لی تھیں۔ چند روز تو طغرل نے اس کی خاموشی کو برداشت کیا پھر پھٹ پڑا اوروہی کہا جواکثرباپ کہتے ہیں کہ دفع ہو جاؤ۔ نکل جاؤ یہاں سے۔
وہ نکل گیا تھا۔ شام کو طغرل فکرلاحق ہو گئی تھی مگراظفرکا فون آ گیا تھا کہ تحسین اس کے ہاں ہے، پریشان نہ ہوں۔ ظاہر ہے وہ پریشان توتھا ہی مگراس کو تسلی ہوئی تھی کہ وہ محفوظ ہے اگرچہ اس نے کہا یہی تھا، "میری بلا سے ، جہاں چاہے رہے، میرے پاس نہ آئے۔ میں تعلیم سے بھاگنے والے کو معاف نہیں کر سکتا"۔ اظفر نے حسب عادت سمجھانے کی کوشش کی تھی جس پر طغرل نے اسے بھی ڈانٹ پلا دی تھی۔
طغرل نے دل سخت کیا ہوا تھا لیکن اسے دوہرا قلق تھا۔ ایک بیٹے کے تعلیم سے باغی ہونے کا اوردوسرے اس کے بے گھرہوجانے کا مگروہ اپنی انا کا کیا کرتا۔ نجانے کس طرح تحسین نینا کے ہاں پہنچ گیا تھا۔ وہ تین چار روز سے ایک ہی کپڑے پہنے ہوئے تھا اورغالبا" نہایا بھی نہیں تھا۔ نینا آخر کارماں تھی۔ اس نے اسے نہانے کو کہا۔ ساشا کے کپڑے عارضی طورپر پہننے کودیے۔ اس کے اتارے ہوئے کپڑے دھوئے سکھائے استری کرکے دیے۔ اسے کھانا کھلایا اور شام گئے طغرل کو فون کرکے بیٹے کوگھرسے نکالنے پر کھری کھری سنائیں کہ قصور کس کا ہے؟ کیا تم نے کبھی اس کی تعلیم کے بارے میں فکر کیا، تمہیں اپنے پینے سے فرصت ملے تو کسی اور بارے میں سوچووغیرہ وغیرہ۔ طغرل اس کو کیا جواب دیتا۔ بس اتنا کہا کہ تحسین کو گھر بھیج دو۔ دو گھنٹے بعد وہ خود اسے لے کر اس کے ہاں پہنچی تھی۔ رات تو نہیں ٹھہری تھی مگر ان کے درمیان پھر سے سلسلہ جنبانی کا آغاز ہو گیا تھا۔
طغرل نے تحسین سے کہا تھا کہ اگر تم یہاں سے واپس جانے کی وجہ بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہو تو مجھے لکھ کر دے دو۔ آخر مجھے بھی تو پتہ چلے کہ تمہارے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے کہ تم دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک میں تعلیم حاصل کرنے سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو۔ دوروز بعد اس نے لکھ کر دیا تھا:
"میں واپس کیوں جانا چاہتا ہوں؟
میں یہاں آیا۔ پہلے دن سب صحیح تھا مگر دوسرے دن آپ نے وہ کچھ کیا جس کا کم سے کم میں نہیں سوچ سکتا تھا۔ میں نے یہ سب کچھ دیکھا سنا اوربرداشت کیا اور قبول کیا۔ پھر آپ نے میرے ہوسٹل رہنے کی بات کی تو میں نے کہا، ٹھیک ہے، حالانکہ میں سوچ سکتا تھا کہ