"مثل برگ آوارہ" کا آٹھواں در
چند سال پیشترحسام کے چھوٹے بھائی ضرغام کوحصول تعلیم کی خاطربراستہ تاشقند ماسکو پہنچنا تھا۔ طغرل کواس کی آمد بارے علم نہیں تھا۔ ایک روزحسام نے ذکر کیا کہ ضرغام کو دو روز پہلے ماسکو پہنچنا چاہیے تھا مگر اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ آپ چند ایجنٹوں کو جانتے ہیں، ان لوگوں کے ہرجگہ رابطے ہوتے ہیں، مہربانی کریں میرے چھوٹے بھائی کے بارے میں معلوم کریں کہ کہاں ہے اورکس حال میں ہے۔ وہ پہلی بار پاکستان سے نکلا ہے بلکہ وہ تو طیارے میں بھی پہلی بار سوار ہوا تھا۔ حسام خاصا پریشان تھا، طغرل نے اسے تسلی دی تھی اورفوری رئیس کوفون کیا تھا۔ رئیس نے طغرل کو تاشقند کے کسی حمید نام کے شخص کا فون نمبر دیا تھا اوربتایا تھا کہ یہ شخص تاشقند میں آنے والے لوگوں کو ہوائی اڈے سے وصول کرنے اوروہاں سے ماسکو جانے والوں کو ٹرین اور طیاروں میں سوار کرنے کا "کام" کرتا ہے۔ آپ اسے فون کرکے میرا حوالہ دے کر پوچھ سکتے ہیں۔
لوگوں کو ہوائی اڈے سے وصول کرنا تو عموما" رشتے داروں، دوستوں یا ٹیکسی والوں کا کام ہوتا ہے اور طیارے میں سوار کرانا، یہ بھلا کونسا کام ہے، طغرل نے سوچا تھا۔ مگر ان دنوں جب یہ ملک سوویت یونین سے علیحدہ ہوئے تھے تو بہت سے ایسے کام تھے جو دنیا بھر میں نہیں ہوتے تھے مگر یہاں ہوتے تھے مثلا" طغرل کو یاد آیا تھا کہ ایک بار وہ تاشقند کے ہی ہوائی اڈے کے ٹارمک پر اپنا سوٹ کیس بہت دور تک کھینچتے ہوئے لے جا کر ایک طیارے میں سوار ہوا تھا، کوئی بس وغیرہ تھی ہی نہیں۔ اسے یہ بھی یاد آیا تھا کہ کئی بارجب طیارے کا ٹکٹ پیشگی نہیں خریدا ہوتا تھا تو طیارے کے ساتھ لگی سیڑھیوں کے نزدیک پہنچ کر پائلٹ یا سٹیوارڈ سے بات کرکے بھی، انہیں ادائیگی کرنے کے بعد طیارے میں سوار ہوا جا سکتا تھا۔ ایک بارتواس نے باقاعدہ طیارے کے اندر داخل ہوکرٹکٹ خریدا تھا۔ ایک چھوٹے طیارے میں داخل ہوتے ہی ایک نصب کردہ میز کے دونوں طرف نصب کردہ کرسیوں میں سے ایک پرایک شخص ٹکٹو ں کی کاپی لیے بیٹھا تھا جن کے بیچ کاربن پیپرتھا اوروہ پیسے وصول کرکے ٹکٹ دے دیتا تھا اورکہتا تھا جہاں دل چاہے بیٹھ جاؤ۔ اس روز طغرل کے ہاتھ میں ایک جالی دار تھیلے میں بیئر کی چند بوتلیں تھیں، جب اس نے ٹکٹ خرید کرٹکٹ دینے والے شخص سے کہا تھا کہ میری بوتلیں فریج میں رکھ دو تواس نے بے اعتنائی سے جواب دیا تھا کہ اس طیارے میں کوئی فریج وریج نہیں ہے۔
چنانچہ ان ملکوں میں تب کچھ بھی ممکن تھا اورکسی بھی طرح کا نیا کام کیا جا سکتا تھا چنانچہ جب طغرل نے متعلقہ نمبر پر فون کیا تو حمید کی بجائے کسی اظفر نام کے شخص نے فون اٹھایا تھا۔ استفسارپراس نے تسلی دی تھی کہ ضرغام اس کے پاس بیٹھا ہے، پھراس سے بات بھی کرا دی تھی اور کہا تھا کہ آج وہ اسے ماسکو کے لیے ٹرین پر سوار کرا دے گا، بے فکرہو جائیں تین روز بعد آپ کے پاس ہوگا۔ اظفر بہت خلیق انداز میں بولا تھا البتہ اس کی اردو کا ایک خاص لہجہ تھا جس پر طغرل نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ سرائیکی علاقے سے تو نہیں؟ اس نے اثبات میں جواب دیا تھا اور طغرل کے ساتھ سرائیکی زبان میں بات کرکے خوشی کا اظہار کیا تھا۔
طغرل کا دفتر پہلی منزل پر تھا جسے روس میں دوسری منزل کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں گراؤنڈ فلور کو پہلی منزل کہتے ہیں۔ ایک بار وہ نیچے آ کر گلی میں سڑک پرکھڑی اپنی گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا کہ کسی نے کمر تک جھک کر بہت زیادہ مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ مصافحہ کیا تھا اور اپنا تعارف اظفر کہہ کر کرایا تھا۔ طغرل یہ نام بھول چکا تھا چنانچہ تھوڑا سا جزبز ہوا تھا مگر جونہی اظفرنام کے اس جوان شخص نے تاشقند میں اس کے ساتھ گفتگو کا حوالہ دے کر یاد دلایا تھا تو وہ پہچان گیا تھا۔ ساتھ ہی طغرل نے اسے بتایا تھا کہ اسے کسی ضروری کام سے کہیں جانا ہے، اگر انتظار کرسکتے ہیں تو دفتر میں بیٹھیں میں ڈیڑھ گھنٹے بعد لوٹ آوں گا۔ اظفر نے جیسے لجاجت بھرے لہجے میں کہا تھا،"سر آپ اپنے کام پرضرورجائیں لیکن میرا ایک چھوٹا سا کام کرتے جائیں۔ میرا ایک مہمان ایر پورٹ پرامیگریشن والوں نے روکا ہوا ہے۔ آپ اپنی کمپنی کے پیڈ پر لیٹر لکھ کر دے دیں کہ وہ آپ کی کمپنی کا مہمان ہے تو وہ باہر آ جائے گا اور میں آپ کا بے حد ممنون ہوں گا۔" طغرل کو اتارنے چڑھانے والی بات بھول چکی تھی۔ گرمی کا موسم تھا، کھڑکی کھلی ہوئی تھا، طغرل نے نیچے سے ہی مینیجرسرگئی کوآوازدے کرکہا تھا کہ اظفرکومتعلقہ لیٹریار کرکے دے دے، پھر اظفرسے ہاتھ ملا کرکارمیں سوارہوکرجہاں جانا تھا چلا گیا تھا۔
چند روزبعد اظفرنے طغرل کو فون کرکے شکریہ ادا کیا تھا اور یہ بتا کرکہ سر آپ کے ایک پرانے شناسا آئے ہوئے ہیں، آپ کل شام اگر تکلیف نہ ہوتو کھانے پرتشریف لائیں۔ طغرل نے پوچھا تھا کہ بھائی کونسا دوست ہے تو اظفر نے کہا تھا،" سر آپ تشریف تو لائیں، سرپرائز ملنا اچھا ہوتا ہے، کیوں کیا خیال ہے سر؟" طغرل نے خلاف معمول اس کے ساتھ اس کے ہاں پہنچنے کا وعدہ کرلیا تھا اور سوچتا رہا تھا کہ نمعلوم کون دوست ہے جواس نامعلوم شخص کے ہاں ہے۔
اگلے روز وہ نینا کے ہمراہ شہرکی ایک خاصی دور جگہ پہنچا تھا۔ یہاں رواج ہے کہ کھانے کی دعوت کا مطلب پینا پلانا بھی ہوتا ہے اس لیے کسی کے ہاں دعوت پر لوگ اپنی گاڑی میں نہیں جاتے کیونکہ شراب نوشی کے بعد گاڑی چلانا خطرناک بھی ہوتا ہے اورغیر قانونی بھی اس لیے طغرل اور نینا ٹیکسی پر گئے تھے۔ اظفر کے گھرمیں داخل ہوتے ہی معلوم ہوا تھا کہ جس دوست کی وہ بات کر رہا تھا وہ دوست نہیں شناسا تھا اورپاکستان میں جس سیاسی پارٹی سے طغرل کا تعلق تھا وہ بھی اس میں شامل تھا۔ ایک دو میٹنگس میں ملاقات رہی تھی۔ خیردیارغیرمیں کسی شناسا شخص کا اوروہ بھی اگرہم خیال ہوملنا اچھا ہی لگتا ہے۔ اظفر اپنے دوچھوٹے بھائیوں اجگراور اژدراورایک دوست لڑکی کے ساتھ رہ رہا تھا اوراسے ماسکو میں آئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا تھا۔ طغرل کا شناسا زاہد درانی پارٹی کے حوالے سے بہت پہلے بھی ماسکو آ چکا تھا اوراب بقول اس کے وہ مختلف سٹیٹس میں کاروباری میٹنگوں کے لیے یہاں آیا ہوا تھا اورساتھ ہی اسے اپنے چھوٹے بھائی کو کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ دلوانا تھا جو مچھلی کی طرح خاموش بیٹھا تھا لگتا تھا کمگو ہے یا دیہاتی، اس کا نام شاہد درانی تھا۔ خوب گپ شپ رہی تھی، اس طرح طغرل کی اظفر کے ساتھ شناسائی بڑھی تھی۔
وتالی جودمتری کے ساتھ مل کرنئے دفتر کی مرمت اورتزئین وآرائش کا کام کر رہا تھا، گاہے بگاہے اپنی خالہ نینا کو مرمت کے مراحل کی تکمیل سے متعلق آگاہ کرتا رہا تھا۔ اس دوران ایک روز نینا نے طغرل کو "فلورمیٹ" کا ایک ٹکڑا دکھایا تھا کہ لڑکے اس کے ذاتی دفتر میں اس طرح کی وال ٹو وال کارپیٹنگ کرنا چاہتے ہیں۔ طغرل کو سرخ بیک گراؤنڈ اور سیاہ بڑے بڑے پھولوں کے ڈیزائن والا یہ کارپٹ پسند آیا تھا اور اس نے خواستہ رقم نینا کو تھما دی تھی۔ نینا نے بتایا تھا کہ چارروزکے بعد جا کردفترسنبھال لینا کیونکہ تمہارے ذاتی دفترکی کارپیٹنگ مرمت و تزئین کا آخری مرحلہ ہے۔
پورے دفترکے کمروں کی تعداد ونوعیت سے طغرل آگاہ تھا اور مناسب فرنیچر کی تلاش میں تھا۔ تب ماسکو میں فرنیچر اور خاص طور پر آفس فرنیچر کی دکانیں خال خال ہی تھیں۔ ایک روز دفتر سے نینا کی طرف آتے ہوئے اس جگہ کے نزدیک جہاں وہ دمتری کے گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوا تھا، طغرل کو سڑک کے کنارے فرنیچر کی ایک دکان دکھائی دی تھی۔ وہ گاڑی روک کر فرنیچر ہاؤس میں داخل ہو گیا تھا، وہاں اسے اپنے ذاتی دفتر کی کارپٹ سے ہم آہنگ، کچھ کچھ سفیدی ملے ہلکے کالے رنگ کا آفس فرنیچر کا پورا سیٹ پسند آ گیا تھا جس میں ایک بڑی میٹنگ ٹیبل اور اس کے ساتھ رکھی جانے والی آٹھ کرسیاں بھی شامل تھیں۔ پھر یہ کہ اس سارے فرنیچر کی قیمت بھی خاصی مناسب تھی اور یہ فرنیچر پولینڈ میں تیار کردہ تھا۔ اگلے روز وہ نینا کو ہمراہ لے گیا تھا۔ نینا کو بھی یہ فرنیچر پسند آیا تھا۔ طغرل نے فرنیچر خرید لیا تھا۔ عملے کے دفتر کے لیے علیحدہ تین میزیں اور کئی کرسیاں بھی خرید لی تھیں۔ فرنیچر شاپ نے باربرداری کا انتظام کر دیا تھا اوراپنے دو اہلکار ساتھ دے دیے تھے جو فرنیچر کو اسمبل کرسکتے تھے۔ نینا اورطغرل کار میں تھے اورفرنیچروورکران کے پیچھے ایک چھوٹے ٹرک میں تھے۔ دفتر پہنچ کر، ورکرز نے سامان اتار کردوتین گھنٹوں میں اسمبل کر دیا تھا اورمطلوبہ جگہوں پررکھ دیا تھا۔
طغرل کا دفتر ایک وسیع کمرہ تھا جس کی کھڑکیوں سے باہر کا منظر دکھائی دیتا تھا البتہ ان پر سفید رنگ کی اوپر نیچے کی جانے والی جالیاں آویزاں تھیں۔ میز، کرسی اورڈرا ارز، کے علاوہ سیاہ چمڑے کے صوفہ سیٹ تھے اور سامے کے بائیں کونے میں ٹکنے والی نیچی میز بھی تھی۔
بڑے کمرے میں ایک جانب چیف مینیجر کی کرسی میزتھی اورامنے دیوارسے پہلے جونیر مینیجراورچیف اکاؤنٹنٹ کی میزیں کرسیاں تھیں۔ مینیجرسرگئی کا ایک دوست میشا (میہائل) بطور مارکیٹنگ مینیجراورمیشا کی سہیلی تاتیانا کو بطور اکاؤنٹنٹ لے لیا گیا تھا۔
چند روزمیں گودام سے سارا مال منگوا کر دوسرے کمروں میں رکھوا دیا گیا تھا۔ ابھی کچھ کام ہونا باقی تھا۔ لوہے کے ریکس لگوائے جانے تھے، سینیٹری کا کام ہونا تھا۔ چونکہ آوت جاوت لگی رہتی تھی، اس لیے شروع میں طغرل اپنے دفتر کو گندا ہونے سے بچانے کی خاطر بڑے کمرے میں ہی سرگئی کی کرسی پر بیٹھتا کرتا تھا۔ تاتیانا گاہے بگاہے آتی تھی اس لیے سرگئی اس کی کرسی پر بیٹھ جایا کرتا تھا۔
ایک روز دو غنڈہ قسم کے نوجوان آئے جن میں سے ایک سگریٹ پی رہا تھا۔ انہوں نے کسی کو سلام تک نہیں کیا تھا۔ دو کرسیاں کھینچ کر طغرل کی میز کے اس طرف رکھ کر براجمان ہو گئے تھے۔ طغرل کو بہت غصہ آیا تھا مگر خاموش رہا تھا البتہ اس نے سگریٹ نوش سے کہا تھا کہ سگریٹ بجھا دے۔ اس نے بجائے کوئی ایش ٹرے تلاش کرنے کے، جو تھی ہی نہیں، نئی بچھائی گئی لینولیم پر جلتا ہوا سگریٹ پھینک کر اسے جوتے سے مسل کر بجھانا چاہا تھا کہ طغرل نے کہا تھا، "اٹھاؤ اس جلتے ہوئے سگریٹ کواورباہر جا کر بجھاؤ" اس نوجوان نے اٹھا تو لیا تھا مگر بڑی غضبناک نگاہوں کے ساتھ طغرل کی جانب دیکھا تھا۔ سرگئی خاموش بیٹھا تھا، لگتا تھا کہ وہ بھانپ چکا تھا کہ یہ نوجوان کس قبیل کے ہیں۔ ویسے بھی روسی کسی کے کام میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔ ہرایک کو اپنا بوجھ آپ اٹھانا ہوتا ہے۔ بہرحال، ان نوجوانوں میں سے جو نسبتا" سنجیدہ تھا نے کہا تھا کہ ہم آپ کو "کریشا" (چھت فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ فقرہ "مافیا کا تحفظ دیے جانے" کے لیے بولا جاتا تھا۔ طغرل کے کان کھڑے ہوئے تھے مگراس نے ظاہرنہیں کیا تھا تاہم یہ کہہ دیا تھا کہ اپنے کسی بڑے کو بھیجو۔ انہوں نے حامی بھری کہ کل ان کا بڑا ساتھ آئے گا۔
دوسرے روزایک گتھے ہوئے جسم والا خوش شکل اورخوش مزاج شخص ان دونوں کے ہمراہ آیا تھا جس نے تولیگ کے نام سے اپنا تعارف کرایا تھا اوربتایا تھا کہ اس کا تعلق "گروہ سونسوووسکی" کے ساتھ ہے۔ اس زمانے میں ماسکو میں "مافیا" جو دراصل منظم جرائم سے وابستہ غنڈوں کے گروہ تھے، دو ہی مشہور یعنی بدنام تھے ایک چیچن مافیا اور دوسرا سونسووسکی مافیا۔ سونسووا ماسکو کا ایک مضافاتی شہر ہے، اس گروہ کی ابتدا وہاں سے ہوئی تھی۔ تولیگ نام کے غنڈے نے جو خاصا مہذب لگتا تھا کہا تھا کہ ہم آپ کو دوسرے گروہوں سے بچانے کی ذمہ داری لیتے ہیں اور ہم آپ سے پانچ سو ڈالر ماہانہ معاوضہ ( بھتہ) لیا کریں گے۔ طغرل نے ذہن میں فورا" حساب لگایا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ مافیا سے بچاؤ کے لیے پولیس بھی معاوضے پر تحفظ فراہم کرتی تھی اور درخواست دینے پرکسی بھی نجی دفتر میں اپنے ایک یا دو اہلکار متعین کر دیتی تھی۔ عموما" بہت اچھا کاروبار کرنے والی کمپنیاں یہی طریقہ کار اختیار کرتی تھیں۔ جب طغرل کا یہ دفترشروع ہوا تھا تو اس علاقے کا تھانیدار جسے یہاں "اوچاسکووا" یا ایس ایچ اوکہا جاتا ہے آیا تھا، یہ اس کا فرض تھا کہ اپنے علاقے میں ہونے والی ہرسرگرمی پرنگاہ رکھے، پھر یہ توایک رہائشی عمارت تلے کا نیم تہہ خانہ تھا۔ اوچاسکووا اچھے مزاج کا آدمی تھا۔ طغرل نے اس سے اس نوع کے تحفظ سے متعلق استفسار کیا تھا، اس نے اس کا سرکاری معاوضہ آٹھ سو ڈالر کے لگ بھگ بتایا تھا۔ طغرل سمجھتا تھا کہ غنڈے غنڈے ہوتے ہیں اور پولیس پولیس لیکن چونکہ اس کا کام ابھی اتنا نہیں چل رہا تھا، یہ تو شکر ہے کپڑا تھا جو کچھ بک رہا تھا، ورنہ ملبوسات کی فروخت تو نہ ہونے کے برابرتھی چنانچہ اس نے غنڈوں کی سرپرستی قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب اس نے آمادگی ظاہر کی تو تولیگ نے کہا تھا کہ آپ کی جیب میں اگر پچاس یا سو روبل کا نوٹ ہے تو مجھے دیجیے۔ طغرل کو حیرانی ہوئی تھی کہ اتنے بڑے غنڈہ گروہ کا نمائندہ اتنی معمولی رقم کیوں مانگ رہا ہے تاہم اس نے جیب سے ایک سو روبل نکال کراسے تھمائے تھے۔ اس نے وہ نوٹ ہاتھ میں پکڑ کر کہا تھا،" یہ ہماری رسم ہے، آپ نے ہمیں ٹھپی دے دی ہے چنانچہ آج سے آپ ہماری سرپرستی میں ہیں۔آپ کو کوئی اور"کریشا" تنگ کرے تو بتائیے گا، اگر کہیں لین دین کا معاملہ ہوتوہوبھی بتائیے گا، غرض ہم ہرطرح سے آپ کی مدد کریں گے" پھر ہاتھ ملا کر اور چائے پیے بغیر چلے گئے تھے۔ اب ہر ماہ اس گروہ کو پانچ سو ڈالر بھتا دیا جانا ضروری ہو گیا تھا۔
شہرنژنی نووگورد سے الیکساندر نام کے ایک نوجوان نے اطلاع دی تھی کہ اس نے ایک ملبوس ساز کارخانے سے بات طے کر لی ہے وہ بیس ہزار میٹر کپڑا خریدنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو معاہدہ لکھنے کی خاطر یہاں آنا ہوگا۔ چونکہ معاہدہ تحریر کیے جانے یا اس کے مندرجات کی باریکیوں کو سمجھنے کا طغرل سمیت کسی کو تجربہ نہیں تھا۔ طغرل کو چاہیے تو تھا کہ سرگئی کو ساتھ لے جاتا لیکن اس نے معمول کے مطابق حسام سے مشورہ کیا تھا۔ حسام نے کہا تھا کہ آپ کا پہلا بڑا سودا ہے اس لیے میں آپ کے ہمراہ چلوں گا اور وکیل ولیری کو ساتھ لیتے جائیں گے۔
حسام نے چند روزبعد کے ٹرین ٹکٹ لینا اوروکیل کو ساتھ جانے پررضامند کرنا اپنے ذمے لیا تھا۔ اس نے چار افراد والے کوپے کے ٹکٹ لے لیے تھے۔ ایک رات وہ تینوں جا کراس شہرجانے والی ٹرین میں سوارہوگئے تھے۔ اتفاق یہ ہوا کہ کوپے کی چوتھی برتھ کا مسافر کوئی مرد نہیں بلکہ ایک جوان لڑکی تھی۔ برتھیں بالترتیب نچلی دو میں سے ایک لڑکی کی تھی اور اس کے سامنے والی وکیل ولیری کی۔ وکیل ولیری کی برتھ کے اوپر والی برتھ طغرل کی تھی اور لڑکی کے اوپر والی برتھ حسام کی۔ ٹرین چل پڑی تھی ، طغرل نے مناسب جانا تھا کہ برتھ پر لیٹ کر کتاب پڑھے جو وہ ساتھ لیتا گیا تھا۔ ولیری اپنی برتھ پر بیٹھا تھا لڑکی اپنی برتھ پراورحسام لڑکی کی برتھ پر کھڑکی کے ساتھ کونے میں چپکا بیٹھا تھا۔ ولیری طغرل کو دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر لڑکی اورحسام دکھائی دے رہے تھے۔
ولیری لڑکی کو رام کرنے کی خاطر رطب اللسان تھا، لگتا تھا کہ لڑکی بھی اس کی گفتگو سے متاثر ہو رہی تھی۔ ویسے ایک عمومی کہاوت جو دوسری زبانوں کے علاوہ روسی زبان میں بھی ہے جس کا عام معنی یوں بنتا ہے کہ مرد زبان سے کھینچتا ہے اورعورت کان سے بندھی چلی آتی ہے۔ ولیری کی کہہ سننیوں کے برعکس حسام لڑکی سے یکسراغماض برت رہا تھا بلکہ بعض اوقات تو اس کا ٹھٹھہ بھی اڑا دیتا تھا۔ اس کھیل میں طغرل کے شامل نہ ہونے کی بڑی وجہ اس کو روسی زبان کا نہ آنا تھا ورنہ جی تو اس کا بھی للچا رہا تھا۔ تاہم دیکھ رہا تھا کہ لڑکی کا قرعہ فال کس کے نام پڑتا ہے۔ آخر تک یہی لگتا تھا کہ ولیری کی شب کا اندھیرا عنقا ہونے کو ہے۔ بالآخر سب نے اپنے اپنے بستر سیدھے کر لیے تھے۔ حسام اپنی برتھ پر چڑھ آیا تھا۔ ولیری اورلڑکی اپنی اپنی برتھوں پر دراز ہو گئے تھے۔ طغرل تو کب کا کتاب ٹھپ کر دیوار کی جانب منہ کیے پڑا تھا۔ روشنیاں گل کردی گئی تھیں۔ ڈپے میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ کبھی کبھار ساتھ سے گذرتی ٹرین کی روشنیاں ڈبے میں موجود باہرسے آتی ہلکی ہلکی روشنی بلکہ ملگجے پن کو کچھ اجالتی تھیں اوربس۔
شاید طغرل کی آنکھ لگ گئی تھی۔ جب آنکھ کھلی تواس نے دیکھا کہ نیچے والی برتھ پر لڑکی کے پہلو میں کوئی بیٹھا ہے اوراس کے بدن کوسہلا رہا ہے۔ طغرل سمجھا کہ ہونہ ہوولیری ہوگا۔ اندھیرے کی وجہ سے بس ہیولے دکھائی دے رہے تھے وگرنہ ولیری کا گنج اسے پہچاننے کی خاطر کافی تھا۔ طغرل نے یونہی اوپر کی دوسری برتھ کی جانب جو دیکھا تو وہاں خالی بستر تھا اور حسام غائب۔ اوہو تو یہ حسام ہے ، لڑکی کا ٹھٹھہ اڑانے والا اوراس سے اغماض برتنے والا۔ روسی اور دوسری زبانوں کی کہاوت کم ازکم اس بار غلط ثابت ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ طغرل دم سادھے پڑا رہا۔ انجام کار حسام لڑکی پر غالب آ گیا تھا اور صرف انڈر ویر پہنے لڑکی کے کمبل میں گھس گیا تھا۔ ریل کے ارتعاش اورجھٹکوں کے ساتھ وہ دونوں بھی مرتعش ہونے لگے تھے اور جھٹکے کھانے لگے تھے۔ طغرل نے مناسب جانا کہ بجائے آنکھیں پھاڑپھاڑ کر ہلتے ہوئے کمبل کو دیکھنے کے دیوار کی جانب رخ کرکے صبر کرے۔
صبح کو حسام نے طغرل کو جگایا تھا۔ وہ تیارہوچکے تھے۔ طغرل نے بھی کپڑے پہن کربال سنوار لیے تھے۔ گاڑی رکی تھی۔ الیکساندراوراس کی جوان بیوی آنا انہیں لینے کے لیے پہنچے ہوئے تھے جہاں سے وہ سیدھے کارخانے چلے گئے تھے۔ اس کارخانے کی ڈائریکٹر اوردوسری قیادت سبھی خواتین پر مشتمل تھی۔ وکیل کوماسوائے اس معاہدے کو پڑھنے کے اورکچھ نہیں کرنا پڑا تھا۔ ایک عمومی معاہدہ تھا۔ ڈائریکٹراورطغرل نے دستخط کر دیے تھے۔ کارخانے والیاں بہت خلیق تھیں۔ انہوں نے کھانا کھلانے کی پیشکش کی تھی مگرحسام نے چائے پلانے کو کہا تھا۔
کھانا پانچوں نے جا کر کسی ریستوران میں کھایا تھا۔ طغرل نے الیکساندر کو اس کا کمیشن جو شاید ایک ہزارڈالر بنتا تھا، چپکے سے پکڑا دیا تھا۔ وہ خوش ہوا تھا لیکن لگتا تھا کہ اس کی بیوی کو کچھ زیادہ ملنے کی امید تھی۔ اصل میں طغرل کے اس سے پہلے والے آفس میں آ کر الیکساندراس سے ملا تھا اور کمیشن طے کر گیا تھا، طغرل نے اسے اس کے مطابق ہی دیا تھا۔ باقی وقت وہ شہر گھومے تھے۔ دریائے والگا کے کنارے یہ شہر نشیب و فرازمیں بنا ہوا ہے ۔ دریائے والگا کا پاٹ دیکھ کر حیرانی ہوتی تھی کیونکہ طغرل کے ملک میں تو دنیا کے بارھویں بڑے دریا کا پاٹ بھی سکڑ چکا تھا۔ وہ رات کی ٹرین سے ماسکو روانہ ہو گئے تھے۔ اس بارڈبے میں ان کے ساتھ مسافر ایک اورمرد تھا۔ لگتا تھا کہ ولیری کو بھی حسام کی رات کی مہم جوئی کے بارے میں علم تھا، اسی لیے وہ اس سے کچھ کھنچا کھنچا تھا۔ چند روزبعد کارخانے کا ٹرک پہنچ گیا تھا اورمطلوبہ کپڑے کی مطلوبہ مقدار بھجوا دی گئی تھی۔
جن دنوں عاصم ماسکو میں تھا تب ایک شخص کاروبار کے سلسلے میں دفتر آیا تھا۔ اکہرے بدن کے اس چالیس پینتالیس سالہ شخص کا شہرسے باہر"سپارتک فٹ بال کلب" کے سٹیڈیم میں دفتر تھا اور یہ سپورٹس ویرسپلائی کرتا تھا۔ اس نے کچھ سامان لیا تھا اور قیمت ادا کر دی تھی۔ چند دنوں کے بعد وہ پھرآیا تھا اوراس نے دفتر میں موجود سب کو شہر سے باہر اس نواحی بستی میں جہاں اس کا ٹھکانہ تھا، ایک گروزین (جارجین) ریستوران میں دعوت دی تھی۔ دعوت بہت اچھی تھی۔
علاوہ ازیں ایک احمق سا شخص بیلاروس کے ایک شہرسے آیا تھا۔ اس نے بھی سامان خریدا تھا اور ادائیگی کردی تھی۔ دوسری باراس نے سامان کریڈٹ پر مانگا تھا جو اسے دے دیا گیا تھا۔ طغرل جانتا تھا کہ کریڈٹ پرمال نہیں دینا چاہیے لیکن عاصم کا کہنا تھا کہ مال کریڈٹ پرہی زیادہ بکتا ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ درست سوچتے تھے۔ عاصم پاکستان اوربین الاقوامی اصولوں کے مطابق اور طغرل روس کی منڈی کے مخصوص حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔
احمق کی سی شکل والا جو خاموش طبع شخص بیلاروس کے کسی شہر سے آتا تھا اس کا نام ساشا تھا۔ روس میں الیکساندر نام بہت عام ہے اس نام کے مرد کواختصارمیں یا پیار سے ساشا کہا جاتا ہے۔ مزیداربات یہ کہ الیکساندرا نام کی لڑکی کو بھی ساشا ہی کہا جاتا ہے۔ ایک اوربات برسبیل تذکرہ یہ کہ اردوزبان میں خواتین کے لیے فعل تہی استعمال ہوتے ہیں جیسے میں یا وہ روئی، میں یا وہ چلی، اس کے برخلاف روسی زبان میں خواتین کے لیے افعال بالا مستعمل ہیں جیسے "یا الی انا پلاکلا" یعنی میں یا وہ روئی، یا جیسے "یا الی انا اشلا" یعنی میں یا وہ چلی۔
خیر ساشا نام کا یہ ادھیڑعمرشخص جتنا سادہ دکھائی دیتا تھا شاید اس قدر گہرا بھی تھا ۔ کچھ ہی عرصہ بعد وہ بیلاروس سے اپنی کار پر آنے لگا تھا۔ اس کا ڈرائیور میشا نام کا ایک جوان شخص ہوتا تھا یعنی میہائیل۔ پاکستان میں اب لڑکیوں کو بھی میشا نام دیا جانے لگا ہے جبکہ روس میں نہ تو کسی لڑکی کا نام میشا ہوتا ہے اورنہ ہی کوئی لڑکی میہائیل کے وزن پرمیہائیلا ہوتی ہے۔ میشا نام کا ڈرائیور عام سمجھدار، اچھی شکل اور بھورے بالوں والا جوان آدمی تھا۔
طغرل نے شہر کے مرکزمیں دفتر کے طورپراستعمال ہونے والا اپارٹمنٹ ، بڑے دفترمیں منتقل ہونے کے بعد چھوڑ دیا تھا اوراقامت لیننسکی پراسپکٹ والے اپارٹمنٹ میں رکھ لی تھی جو پندھرویں منزل پر واقع تھا اورجس کی کھڑکیوں سے بڑی سڑک دونوں جانب بہت دورتک دکھائی دیتی تھی۔ ایک روز ساشا شام گئے ماسکو پہنچا تھا۔ کیونکہ طغرل کسی کام کے سلسلے میں دفترسے جلدی نکل گیا تھا اس لیے وہ کسی اہلکار سے طغرل کا ایڈریس لے کر اس کے گھرآ گیا تھا۔ طغرل نے اسے وہسکی پیش کی تھی جو اس نے چھوٹے کمرے کے کارپٹ پر ہی دیوار سے کمر لگا کراورپاؤں پسارکرایک دو پیگ پی تھی۔ مال کی ادائیگی کے طور پر کچھ رقم دی تھی اور لجا لجا کر مسکراتے ہوئے خاصی مقدار میں مال کریڈٹ پر دینے کی درخواست کی تھی۔ چونکہ وہ گاہے بگاہے ادائیگی کر دیا کرتا تھا، اس لیے طغرل نے مال دینے کی حامی بھر لی تھی۔ ایک ڈیڑھ ہفتے بعد وہ ٹرک لے کر آ گیا تھا اور آٹھ دس ہزارڈالرمالیت کا سامان بشکل ملبوسات وغیرہ لے گیا تھا۔
وہ شخص جوماسکو کے مضافات سے آتا تھا اور چند بار اسی جارجین ریستوران میں شاندار دعوتیں کر چکا تھا، اس کا نام سرگئی تھا۔ وہ بیلا روس کے ساشا کے برخلاف بہت زیادہ بولتا تھا اوراس کی گفتگومیں اس کی غیر قانونی بیوی کا بہت زیادہ ذکر ہوتا تھا۔ طغرل سرگئی کی جانب سے دی گئی دعوتوں میں اس خاتون سے چند بار مل چکا تھا جو ایک سادہ سی عورت تھی جس میں وہ گن نہیں تھے جن کا سرگئی ذکر کرتا تھا۔ طغرل فٹ بال کلب کے سٹیڈیم کی عمارت میں اس کا دفتر بھی دیکھ چکا تھا جس میں چند خواتین اور ایک دو مرد کام کرتے تھے۔
ساشا طغرل کو بیلاروس کے اس شہر میں جہاں وہ کسی ہوٹل میں مقیم رہ کر کام کرتا تھا، آنے کی کئی بار دعوت دے چکا تھا۔ ایک روز طغرل نے سوچا تھا کہ دیکھ ہی آئے کہ وہ شخص کس کینڈے کا ہے اوراس کے رنگ ڈھنگ کیا ہیں۔ اس نے اسے فون کر کے بتا دیا تھا کہ فلاں روزبیلاروس کے درالحکومت منسک پہنچے گا۔ ساشا کا مسکن منسک سے دور کوئی اورشہر تھا لیکن اس نے وعدہ کیا تھا کہ طغرل آنے سے پہلے ٹرین کے منسک پہنچنے کا وقت بتا دے تو وہ سٹیشن پرآ کر اسے لے جائے گا۔
روانہ ہونے سے پہلے طغرل نے ایسا ہی کیا تھا۔ منسک جانے والی ٹرین کے کوپے میں طغرل کے علاوہ ایک اورمرد اورمیاں بیوی پرمشتمل ایک جوڑا سوار تھے۔ راستے میں طغرل کی جوڑے کے ساتھ اچھی شناسائی ہو گئی تھی۔ جب منسک سٹیشن پر اترے تو ساشا موجود نہیں تھا۔ چونکہ طغرل میاں بیوی کو بتا چکا تھا کہ یہ شہر اس کے لیے بالکل اجنبی ہے اس لیے وہ پلیٹ فارم پراس کے ساتھ ٹھہرے رہے تھے۔ جب پندرہ بیس منٹ تک کوئی نہ پہنچا تو میاں بیوی نے طغرل کو اپنے ساتھ چلنے کی پیشکش کی تھی۔ ساشا نے طغرل کو منسک کا ایک فون نمبر دیا تھا۔ طغرل نے سٹیشن پرٹیلیفون بوتھ سے کئی بارفون کیا تھا مگر ادھر سے جواب نہیں مل رہا تھا۔ شاید یہ دفترکا فون تھا اورابھی صبح کے آٹھ ساڑھے آٹھ بجے تھے۔ طغرل میاں بیوی کے ہمراہ چلا گیا تھا۔ ان کا عام روسی اپارٹمنٹ تھا۔ انہوں نے اسے ناشتہ کھلایا تھا اورحسب معمول پینے کی پیشکش کی تھی۔ ان کے ہاں نستوئیکا شراب تھی ، یہ شراب کی بہت سخت قسم ہوتی ہے جس کے دوچار پیگ پینے کے بعد دماغ گھوم جاتا ہے مگر طغرل نے زیادہ نہیں لی تھی۔ ان کے گھر کے ٹیلیفون سے ساشا کے دیے گئے منسک کے نمبر سے بھی جواب مل گیا تھا اور ماکس نام کا کوئی شخص اسے لینے آیا تھا۔ طغرل میاں بیوی کا شکریہ ادا کرکے ماکس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو گیا تھا۔ ماکس خوبصورت اورنوجوان تھا ۔ اس نے بتایا تھا کہ ابھی ساشا پہنچ نہیں پایا ہے لیکن اس نے راستے سے فون کیا ہے کہ وہ پہنچنے والا ہے۔
جب طغرل ماکس کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچا تو ساشا اور میشا پہنچ چکے تھے۔ اگرچہ طغرل نے نستوئیکا شراب کے دواڑھائی پیگ لیے ہونگے مگراس کا سرچکرا رہا تھا اوراطمینان و تسکین کا وفورتھا۔ ساشا نے اپنے خاص انداز میں ماکس کو ایک جانب لے جا کر کھسر پسر کی تھی پھر مسکراتے ہوئے لوٹ کر پوچھا تھا، "آپ نے ناشتہ کیا کہ نہیں؟" جب طغرل نے اثبات میں جواب دیا تو اس نے کہا کچھ اورکھا پی لیتے ہیں اورایک ریستوران میں جا کر بیٹھ گئے۔ طغرل کو چاہیے تھا کہ چائے پیتا لیکن اس نے آئس کریم کھانا بہتر خیال کیا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے کو ہے وگرنہ وہ احتیاط برتتا۔
خیر دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے ریستوران میں جا کر کھانا کھایا تھا۔ ساشا بل کی پرواہ نہیں کر رہا تھا۔ طغرل کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ساشا کی دعوت کے اخراجات اور سرگئی کی جانب سے ریستورانوں میں دعوت کے بل اس سے حاصل کردہ مال سے ہونے والی آمدنی سے ادا کیے جا رہے تھے اور الٹا اسے زیر احسان کیا جا رہا تھا۔ طغرل سمجھتا رہا کہ اس کے کتنے مشتری اچھے اورمہمان نواز ہیں ۔
روسی لوگ، روسی روح کا بہت تذکرہ کرتے ہیں بلکہ اس پرفخر کرتے ہیں کہ روسی روح یعنی اس کے اندر کا انسان بہت نازک ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ ایثار و قربانی، محبت ومہمان نوازی کی مثال بن جاتا ہے لیکن طغرل کو کسی بھی روسی میں اس طرح کی روح نہیں ملی تھی، اس نے تو ہمیشہ یہی دیکھا کہ روسی اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور چند ایک کو چھوڑ کر سبھی خودغرضی سے کام لیتے ہیں۔ تو یہ روسی، نہیں بھئی غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے بیلا روسی روحیں طغرل کو بعد از سہ پہر" روسکی بانیا" میں لے گئی تھیں۔ روسکی بانیا "ترکش باتھ" کی ہی ایک قسم ہے، جس میں کپڑے اتارکر پہلے ایک انتہائی گرم کمرے میں بیٹھنا ہوتا ہے، جب پسینے سے تربتر ہو جائیں توگرم کمرے سے نکل کر ٹھنڈے پانی کے تالاب میں غوطے مارنے ہوتے ہیں، روسیوں کے مطابق ایسا کرنے سے مسام کھل جاتے ہیں۔ ساتھ ہی تالاب کے نزدیک بچھے بنچوں پر بیٹھ کر بیئر لنڈھائی جاتی ہے اورکھایا پیا جاتا ہے۔ یہ خالصتا" مردوں کی تفریح ہے اگرچہ عورتیں بھی اس سے علیحدہ طور پر یا مردوں کے ہمراہ لطف لیتی ہیں۔ جب گرم کمرے، ٹھنڈے پانی اورنستروئیکا کے نشے پر ٹھنڈی بیئر کا اثردوچند ہو گیا تو ایک حسینہ اٹھلاتی ہوئی بانیا میں داخل ہوئی تھی۔ ساشا تو پہلے ہی کوئی بہانہ کرکے بعد میں پہنچنے کا کہہ کر چلا گیا تھا۔ بانیا میں لوگ کپڑوں سے یکسر بے نیاز ہوتے ہیں، ظاہر ہے ایک لڑکی کو دیکھ کر طغرل جھینپا تھا لیکن ماکس نے کہا تھا،"طغرل صاحب! اسے آپ کے لیے ہی طلب کیا گیا ہے"۔
طغرل بنچ پر بیٹھا میز پردھرا بیئر کا مگ پی رہا تھا ۔ اس نے لڑکی کو دیکھتے ہی مارے شرم کے ٹانک پر ٹانگ چڑھا لی تھی مگربے شرم لڑکی نے اپنی گرفت کے ایک جھٹکے کے ساتھ طغرل کا رخ اپنی جانب موڑ لیا تھا، خود پنجوں کے بل زمین پربیٹھ گئی تھی اورطغرل کی ٹانگ پردھری ٹانگ اتار دی تھی۔ لڑکی کے مصروف ہونے کے بعد طغرل کے پاس اس کے سوا بھلا کیا چارہ تھا کہ لڑکی کی زلفوں سے کھیلنا شروع کر دیتا سو اس نے کیا تھا۔ لڑکی خود کو کپڑوں سے ازاد کرنے کے لیے اٹھی تو طغرل نے تالاب میں چھلانگ لگا دی، لڑکی بھی کپڑے اتار کر پانی میں کود گئی، وہ بہت دیر تک چہلیں کرتے رہے۔ تالاب سے نکل کر تھوڑی دیر کے لیے دونوں گرم کمرے میں گئے اور پھر باہرنکل کرمیک شفٹ چارپائی پراسی عمل میں ملوث ہو گئے جوازل سے جاری ہے اورابد کے بعد بھی اس کے جاری رہنے کی نوید ہے۔
شرابوں کے ساتھ شرابوں کے مل کر بڑھے ہوئے نشے کے سبب عمل انسانی کا دورانیہ اس قدر طویل ہوا کہ حسینہ لگتا تھا اکتا گئی تھی۔ شاید ماکس بھی اکتا گیا تھا۔ وہ تو روسی تھے جو ایسے اعمال کے عادی تھے اوریہ مشرقی طغرل نعمت کی تقسیم سے انکاری تھا۔ بہرحال طغرل نے دیکھا کہ اس کی جگہ ماکس نے لے لی ہے۔ تھوڑی دیرمیں ماکس اورطغرل کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد طغرل نے خود کو انجان شہر میں انجان جگہوں پر چلتے ہوئے پایا تھا۔ شاید وہ دماغ کو ٹھندا کرنے کے لیے نکلا تھا لیکن پھرراستہ بھول گیا تھا۔ شام بلکہ رات ہو چکی تھی۔ بیگ ساشا کی گاڑی میں تھا۔ فون صرف دفاترکے تھے جو اسے یاد نہیں تھے۔ نشہ وشہ ہوا ہو گیا تھا تھا۔ کوئی ہوسٹل تھا، جہاں ایک دو پاکستانی طالبعلم تھے۔ رات اس نے ان کے ہاں بسرکی تھی اورصبح کو لڑکوں کی مدد سے بانیا پہنچ کرماکس کا نمبر لیا تھا جو شکر ہے مل گیا تھا اور درست تھا۔ جب طغرل نے ماکس کے دفتر فون کیا تو ماکس نے فون ساشا کو پکڑا دیا تھا۔ ساشا نے انتہائی تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اسے لینے پہنچ رہا ہے، بانیا میں ہی رہے۔
ساشا پہنچ گیا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ اس نے ماکس سے بہت گلہ کیا تھا اوروہ رات بھر پریشان رہے تھے، شکر ہے آپ مل گئے۔ ناشتہ کرتے ہیں اورشہر گرودنو کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ طغرل نے ان دو لڑکوں کو بھی ناشتے کی دعوت دی تھی لیکن وہ کہیں اورجانا چاہتے تھے، طغرل نے ان کا شکریہ ادا کیا تھا اورساشا کے ساتھ گرودنو کے لیے روانہ ہو گیا تھا۔
گرودنو ایک بڑا قصبہ یا چھوٹا شہرہے جو پولینڈ کی سرحد کے نزدیک واقع ہے، ایک زمانے میں یہ پولینڈ کا ہی حصہ ہوا کرتا تھا تاہم اس شہرکا تاریخ جغرافیہ تو معلومات عامہ کے وسائل سے جانا جا سکتا ہے البتہ طغرل کے مشاہدات و تجربات کا تعلق چونکہ اس شہرکے ساتھ بھی ہے اس لیے اس کا محل وقوع بتا دینا کافی ہے۔ گرودنو یا گرودنا، روسی زبان میں کسی لفظ کے آخر میں آنے والے حرف "او" کو پڑھا "او" ہی جاتا ہے لیکن بولا جاتا ہے "آ"، پہنچتے ہی احمق نما ساشا جسکی آنکھیں دھنسی ہوئیں تھیں اور ایسی آنکھوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مجرمانہ ذہنیت کی عکاس ہوتی ہیں، طغرل کو سیدھا ایک چھوٹی سی کارگاہ میں لے گیا تھا جہاں ملبوس سیے جاتے تھے، اس کارگاہ کو ساشا نے طغرل سے لیا ہوا کپڑا دیا تھا۔ اس کارگاہ کی مالک تیس بتیس برس کی طرار خاتون لینا تھی جو دیکھنے میں لڑکی لگتی تھی۔ اس کے چہرے پر سب سے دلکش اس کی بڑی، گہری آسمانی اور اداس آنکھیں تھیں۔ طغرل کی تو جیسے ان میں ڈبکی لگ گئی تھی مگروہ جلد ہی ان جھیلوں سے باہر آ کرعام دنیا کی باتیں کرنے لگا تھا۔ لینا نے اپنی کاریگری اورانتظامی صلاحیت سے متعلق بتایا تھا اور طغرل نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی اسے کپڑا درکار ہوگا وہ ساشا کے توسط سے بھیج دیا کرے گا۔ لینا سے پھرملنے کا وعدہ کرکے ساشا اپنی گاڑی میں طغرل کو شہر دکھاتا رہا تھا۔ اس شہرمیں ایک میڈیکل انسٹیٹیوٹ بھی تھا۔ طغرل کو بہت بعد میں پتہ چلا تھا کہ اس انسٹیٹیوٹ میں اس کے آبائی قصبے کی دو لڑکیاں بھی طالبات تھیں۔
گھوم گھام کراس ہوٹل میں آ گئے تھے جہاں ساشا رہائش پذیر تھا، ظاہر ہے طغرل کے لیے بھی اس ہوٹل میں کمرہ بک تھا۔ کمرے میں جا کرتھوری ہی دیربعد وہ کھانا کھانے کے لیے ہوٹل کے اندر موجود ریستوران میں جا بیٹھے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد ڈرائیورمیشا کل آنے کا وعدہ کرکے اس شہر میں اپنے گھر چلا گیا تھا۔ ساشا اورطغرل کچھ دیر بیٹھے رہے تھے پھر کمروں میں جانے سے پہلے شام سات بجے نیچے ہال میں ملنے کا طے کر لیا تھا۔
شام سات بجے ہال میں ملے تو ریستوران میں "ایوننگ شو" جاری تھا۔ چکنے بے داغ نیم برہنہ جسموں والی جوان بیلا روسی لڑکیاں سٹیج پر ناچ رہی تھیں۔ ریستوران لوگوں سے بھرا ہوا تھا جو شراب لنڈھا رہے تھے اور زندگی کا لطف لے رہے تھے۔ طغرل اورساشا شو دیکھتے رہے اور کھانا کمرے میں پہنچا دینے کی فرمائش کر دی۔ اس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ دوپہر کا کھانا تاخیر سے کھایا تھا، پھر ویسے بھی کچھ نہ کچھ چرتے رہے تھے چنانچہ بھوک نہیں تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ساشا نے شرماتے ہوئے، اپنی کمینی اورخفیہ نوع کی مسکان مسکراتے ہوئے طغرل کو بتایا تھا کہ ساڑھے آٹھ بجے میں نے ایک لڑکی کو آپ کے کمرے میں آنے کا کہا ہے۔ طغرل نے سوچا تھا کہ اس بی بی کے ساتھ تو پینی پڑے گی چنانچہ کھانا بعد میں ہی کھائیں گے۔ ناچنے والی لڑکیوں کو دیکھ کر طغرل کا تاثربن گیا تھا کہ روسی لڑکیوں کے جسموں پرتل یا مسے ہوتے ہیں لیکن بیلاروس کی لڑکیوں کے جسم بے داغ ہیں۔ اس کی تصدیق تو آنے والی لڑکی کے جسم سے ہی ہونی تھی۔
ساڑھے آٹھ بجنے سے پہلے ہی وہ ریستوران سے نکل آئے تھے۔ ہال میں ایک طناز لڑکی منتظر تھی۔ ساشا نے اس کے ساتھ طغرل کو متعارف کرایا تھا اور کہا تھا کہ آپ اس کے ساتھ اپنے کمرے میں چلیں، میں کچھ نٹس وغیرہ لے کر پہنچتا ہوں۔ لڑکی کا نام اتنا عرصہ گذرنے کے بعد طغرل کو یاد نہیں رہا لیکن یہ یاد ہے کہ لڑکی خوبصورت اور سمارٹ تھی۔ دونوں کمرے میں پہنچ گئے تھے۔ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے تھے۔ لڑکی نے بتایا تھا کہ وہ میڈیکل کی طالبہ ہے۔ اخراجات پورے نہیں ہوتے اس لیے کبھی کبھار۔ ۔ ۔ ۔ طغرل کو اچھا نہیں لگا تھا کہ وہ پیشہ ور لڑکی تھی۔ اتنے میں دروازہ کھٹکا تھا، بیرا چمکدارسفید بالٹی میں رکھے برف کے ٹکڑوں میں دبی شیمپین کی بوتل، جس کے دہانے کے قریب نیپکن لپٹا ہوا تھا، لیے کھڑا تھا۔ ساتھ میں ایک ٹرے میں کچھ پھل وغیرہ بھی تھے یعنی ساشا جانے سے پہلے اکل و شرب کا انتظام کرتا گیا تھا۔ کمرے میں داخل ہو کرچیزیں اپنے ہاتھ سے رکھنے کے بعد بیرے نے اجازت لے کرہلکی سی "ٹک" کی آواز کے ساتھ دہانے سے گیس چھوڑتی ہوئی شیمپین کی بوتل کا ڈاٹ علیحدہ کیا تھا اوربڑی نفاست اورمہارت سے ان دونوں کے لیے فنجانوں میں شیمپین انڈیل کر چلا گیا تھا۔ اتنے میں ساشا بھی خشک میوے کے چند پیکٹ پکڑے پہنچ گیا تھا۔ اس نے کھڑے کھڑے پیکٹ رکھے تھے اور کہا تھا کہ آپ اکٹھے وقت بتائیں۔ جب دل کرے میرے کمرے میں آ جائیں، کھانا وہیں دھرا ہے۔ مل کر کھائیں گے۔
طغرل کی زندگی میں چند بارجو پیشہ ورلڑکیاں آئیں، چاہے وہ جتنی بھی دلکش کیوں نہ تھیں طغرل نے انہیں ہونٹوں پر کبھی نہیں چوما تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ جانتا تھا کہ منہ تو سب کے ایک جیسے ہیں، شاید اسے بچپن سے کسی کا جھوٹا نہ چکھنے کا کمپلکس تھا یا کیا مگر وہ ایسا کر نہیں سکا تھا۔ تاہم اگر کوئی اپنے طور پر اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں کے ساتھ چسپاں کر دے تو وہ انسان کا دل رکھنے کی خاطر تنافر کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ طغرل نے اس ملک میں بارہا دیکھا تھا کہ نوجوان لڑکے لڑکیاں چیونگم چباتے ہوئے ایک دوسرے کے دہنوں سے دہن پیوست کیے ہوتے تھے اور یہ دیکھ کر اسے کراہت ہوتی تھی۔ شیمپین پیتے پیتے میڈیکل کی طالبہ اس پیشہ ورلڑکی نے طغرل کے گلے میں بازوحمائل کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں پراپنے ہونٹ رکھ دیے تھے۔ طغرل کے ہونٹ تھوڑے سے کھلے تھے چنانچہ اسے اپنے منہ میں شیمپین ایک باریک دھار کی صورت گرتی محسوس ہوئی تھی۔ اس نے لڑکی کو پیچھے دھکیل یا تھا اورتیزی سے غسل خانے میں جا کر اپنا دہن دھویا تھا۔ اسے بہت غصہ آیا تھا اوراس کی طبیعت مکدر ہو گئی تھی۔ اس نے بڑی تلخی کے ساتھ اس لڑکی سے کہا تھا کہ یہ تم نے کیا کیا، مجھے ایسا کرنا ہرگز اچھا نہیں لگا۔ لڑکی لغوی معنوں میں طغرل کو ہونٹوں سے مے پلانے کا نخرہ کر رہی تھی لیکن طغرل کو ہائیجین کا خیال زیادہ تھا۔ لڑکی نے اپنی خجالت مٹانے اورطغرل کوراضی کرنے کے لیے پہلے طغرل کی قمیض اوربنیان تارے تھے پھرخود کپڑوں سے باہر ہوئی تھی۔ جسم تو اس کا بے داغ ہی تھا لیکن طغرل نے زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا کہ کسی لڑکی کی ناف کے آس پاس بھی چند بڑے بڑے کالے بال اگے تھے ۔ اوپر سے وہ اتنی سست تھی جیسے پیشہ ورنہ ہو طغرل کی محبوبہ ہو۔ طغرل کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا تھا، اس نے اسے ڈانٹ کر کہا تھا، "اپنا کام ٹھیک طرح سے کرو"۔ لڑکی پیشہ ور ہوتے ہوئے بھی انتہائی غیرپیشہ ور تھی۔ پھر دونوں شرفاء کی طرح ساشا کے کمرے میں کھانا کھانے چلے گئے تھے۔ بعد میں اس نے ساشا سے کہا تھا کہ وہ سونے جا رہا ہے۔ ساشا نے حیران ہو کر پوچھا تھا کہ کیا لڑکی نے آپ کوناراحت کیا ہے؟ مگر طغرل کوئی جواب دیے بغیر ساشا کے کمرے سے نکل گیا تھا اورکمرے میں جا کر خود کو بند کر لیا تھا۔
اگلے روزدس بجے بیدار ہوئے تھے۔ ساشا نے آ کر طغرل کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا، طغرل نے اسے رات والی لڑکی کی غیردلچسپ حرکات سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ ساشا نے ایک بار پھر مصنوعی خفت کا مظاہرہ کیا تھا اورطغرل کی شب رنگین نہ ہونے پرمعذرت کی تھی۔ گیارہ بجے میشا گاڑی لے کر پہنچ گیا تھا۔ وہ نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ساشا نے نتاشا نام کی ایک اورکاروباری عورت کے ساتھ ملایا تھا جو بظاہرسنجیدہ اورشریف خاتون لگتی تھی مگرطغرل کا دل ایک بار پھر لینا سے ملنے کو کر رہا تھا۔ اس سے صبر نہیں ہو سکا تھا اور پوچھ بیٹھا تھا کہ کیا ہمیں لینا کی جانب نہیں جانا، کیونکہ ہم نے کل پھر ملنے کا وعدہ کیا تھا۔
شہرمیں لینا کے علاوہ دوسرے لوگوں سے ملنا طغرل کے لیے موجب اکتاہٹ تھا لیکن لوگوں سے مسکرا کرملنا، ان کی بات سننا اور اپنی بات کہنا بھی ضرورت تھی کیونکہ طغرل ساشا کا مہمان تھا۔ ساشا لوگوں کے ساتھ اپنے کاروباری تعلقات جتانا چاہتا تھا جو وہ کررہا تھا لیکن میزبان کے برعکس مہمان کی سوچ کی تانت کھلے جنگل میں مکڑی کے جالے کی ٹوٹی تارکی مانند لہرا لہرا کرلینا کی جانب اڑی جا رہی تھی۔ بالآخر میشا نے گاڑی لینا کی کارگاہ کے دروازے پر کھڑی کی تھی۔ طغرل کا دل چاہ رہا تھا کہ سب سے پہلے گاڑی سے نکل کر بھاگ کر لینا سے جا ملے پرظاہر ہے اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔
لینا نے اپنی اداس آنکھوں اورمعمول کی مختصرمسکان کے ساتھ ان کو خوش آمدید کہا تھا۔ کچھ کاروبارکی اورکچھ ادھرادھرکی باتیں کی تھیں۔ ساشا نے اسے شام کو ہوٹل میں آنے کی دعوت دی تھی مگراس نے معذرت کر لی تھی۔ طغرل دل مسوس کر رہ گیا تھا۔ اسے لینا سے ایک نگاہ کی محبت نہیں ہوئی تھی۔ البتہ یہ جانتا تھا کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جو پتہ نہیں کیوں اورکیسے اپنی قربت کا احساس دلاتے ہیں جس کے بعد ان کے مزید قریب آنے کی امنگ پیدا ہو جاتی ہے۔ لینا ایسے لوگوں میں سے ایک تھی۔
ساشا نے لینا سے پہلے نتاشا نام کی خاتون کو بھی شام کو ہوٹل آنے کی دعوت دی تھی جو اپنی ایک اورسہیلی کو لے کر پہنچ گئی تھی۔ کھانے پینے کی محفل طغرل کے کمرے میں جمی تھی۔ نتاشا چھتیس سینتیس سال کی خوش شکل عورت تھی۔ شراب کا پہلا جام چڑھاتے ہی وہ طغرل کو اچھی لگنے لگی تھی۔ ساشا نے نتاشا کو اپنی سہیلی یعنی گرل فرینڈ کے طور پر متعارف کرایا تھا اس لیے طغرل نے اس کی جانب پسندیدگی کا اظہار اس معانی میں نہیں کیا تھا کہ وہ اس سے متمتع ہونے کا خواستگار ہے۔ جہاں عورت کی برابری کا زیادہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ عورت جنس نہیں انسان ہے وہیں عورت کچھ زیادہ جنس اورصرف عورت ہوتی ہے خاص طور پر شراب پینے کے بعد ۔ عورت خود بھی ایسی محفلوں میں اپنے عورت ہونے کی منہ بولتی بلکہ