"مثل برگ آوارہ" کا ساتواں در
طغرل کے یہ ڈیڑھ دو مہینے بہت بے کلی میں کٹے تھے۔ اس سارے عرصے میں نینا طغرل کی رفیق رہی تھی۔ وہ اکثر دوراتیں گذارنے کی خاطرآ جایا کرتی تھی اورتیسرے روزصبح جلدی نکل جاتی تھی چونکہ اسے اپنی چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی پر پہنچنا ہوتا تھا۔ اس کے جانے کے بعد طغرل دروازہ بند کرکے بڑے اطمینان سے دیر تک سوتا تھا کیونکہ دفتر وفتر کا سلسلہ باقی نہیں بچا تھا۔ اکثر جیکٹیں فروخت ہو چکی تھیں جن سے حاصل شدہ امدنی وہ عاصم کو ترسیل کر چکا تھا بس اتنی رقم رکھ لی تھی کہ ڈیڑھ دو ماہ گذرسکیں۔ شام کو اکثر حسام اکیلا یا کسی اوردوست کولے کرآ جاتا تھا۔ کبھی کبھار پی لیا کرتے تھے مگر عموما" بئیر کی ایک دو بوتلیں یا چائے پی کر باتیں کرتے رہتے تھے یا کسی شام طغرل نینا کے ہاں چلا جاتا تھا۔ نینا کی اس نصیحت کا اس پر اثر ہوا تھا کہ "پی کراپنی صحت کیوں برباد کررہے ہو؟" مگر پھر بھی کبھی کبھار ضبط کا دامن چھوٹ جاتا تھا اورزیادہ پینے کے بعد گریہ ونالہ جگہ لے لیا کرتے تھے۔
عاصم حسب وعدہ پہنچ گیا تھا۔ طغرل کو تسلی ہوگئی تھی کہ چلواب جا کر بچوں کو تلاش کر سکوں گا۔ عاصم نے کہا تھا کہ وہ ایک کنٹینر"بک" کروا آیا ہے جو دو تین ہفتوں بعد پہنچ جائے گا پھر تم اپنے "مشن" پرنکل جانا۔ کنٹینرسے پہلے اس کی پہلی بیوی بمع اپنے بچوں کے پہنچ گئی تھی۔ عاصم کی یہ بیوی طغرل کے تایا زاد اورعاصم کے ماموں کی بیٹی تھی۔ بچوں میں دوبچیاں تھیں جن میں سے ایک غالبا" آٹھ سال کی اوردوسری سات برس کی تھی اوردوبچے جن میں سے ایک چھ برس کا ہوگا اوردوسرا پانچ برس کا۔ عاصم کی یہ بیوی گھر کی لڑکی تھی سادہ اورسیانی۔
طغرل نے پہلے انہیں ماسکو کے مختلف قابل دید مقامات کی سیرکروائی تھی پھرپروگرام بنا تھا کہ لینن گراد دیکھنے جایا جائے جس کو ابھی پھرسے سینٹ پیٹرزبرگ نام نہیں دیا گیا تھا۔ پاکستان میں جیسے کہتے ہیں "جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا نہیں ہوا" اسی طرح اگر کہا جائے کہ " آپ نے سینٹ پیٹرزبرگ نہیں دیکھا تو آپ سمجھیں کہ آپ نے روس نہیں دیکھا " توغلط نہیں ہوگا۔ یہ نہ صرف روس کا ادبی و ثقافتی مرکزہے بلکہ ایک ایسا شہر ہے جسے روس کے روشن خیال شہنشاہ پیٹر دی گریٹ نے بسایا تھا اوراسے یورپ کی جانب کھلنے والی کھڑکی قرار دیا تھا۔ اس شہر میں بسنے والے لوگوں کا مزاج دھیما ہے یعنی وہ زیادہ مہذب ہیں۔ ممکن ہے یہ خلیج فن لینڈ سے آنے والی سرد ہواؤں کا بھی اثرہو کہ ان کا سبھاؤ نرم ہوگیا ہو، جس کے ساحل پردریائے نیوا کے کنارے یہ شہر آباد ہے۔ یہ دستاییوسکی کا شہر ہے اورروس کے موجودہ صدرولادیمیر پوتن کی جنم بھومی بھی۔ اس شہر میں کئی نہریں ہیں، باغات اورپارک ہیں، پلوں پرایستادہ مجسمے ہیں اورایسے پل بھی ہیں جورات کو بحری جہازوں کے گذرنے کے لیے کھل جاتے ہیں یوں شہرکے دو حصوں کا زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ یہاں نصف جون سے نصف جولائی تک "سفید راتیں" بھی ہوتی ہیں جن کے دوران رات کو کسی مصنوعی روشنی کی مدد کے بغیرباہر بیٹھ کراخباریا کتاب پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہاں بعض اوقات آسمان پر ہوتا قطبی مقناطیسی روشنیوں کا تماشہ بھی دیکھنے کومل جاتا ہے، ہوتا غرض اس شہر کو دیکھے بغیرآپ کو روسیوں کی "روح" سے شناسائی نہیں ہو سکتی۔
تاہم اس بارطغرل عاصم اوراس کے بیوی بچوں کو لینن گراد دکھانے لایا تھا جہاں عام آدمی کے لیے دو اہم ترین مقامات قابل دید ہیں۔ ایک سرمائی محل جہاں دنیا کا ایک بڑا میوزیم "ارمیتاژ" یعنی ہرمیٹیج ہے اور دوسرا خلیج فن لینڈ سے گذر کرایک جزیرہ نما پرقائم گرمائی محل۔
جون کا آغازتھا، ہوٹل سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے، انہییں ایک ہوسٹل میں جگہ ملی تھی جو ایک کنبے کے لیے مناسب تھا۔ پہلے روزسرمائی محل اوراس کے ارد گرد کا علاقہ دیکھنے کا پروگرام تھا اوراگلے روزگرمائی محل جسے "پیترودووریتس" یعنی پیٹر کا محل یا "پیتروگراد" یعنی پیٹر کا شہر کہا جاتا ہے۔ اور اسی روز رات کو بذریعہ ٹرین ماسکو واپسی تھی۔
میوزیم کے ارد گرد کے علاقے میں تو بچے خوش رہے لیکن میوزیم ان کے لیے کسی حد تک دلچسپی رکھتا تھا۔ اوپر سے یہ میوزیم وسیع وعریض ہے التہ لندن نیشنل میوزیم سے کم، اس میں گھومتے گھومتے بڑوں کی ٹانگیں تھک جاتی ہیں، بچوں کا پھر کیا حال ہوگا جب اوپر سے ان کو اکتاہٹ بھی ہو رہی ہو۔ سب سے چھوٹا بچہ تورونے کو تھا۔ عاصم کی بیوی میوزیم دیکھنے کے شوق میں بچوں کو ایک مقام پر لے کر بیٹھنا نہیں چاہتی تھی اوروہ تھی بھی حق پر کیونکہ لینن گراد روز روز تو آنا ہو نہیں سکتا چنانچہ طغرل نے سب سے چھوٹے بچے کو اپنے کندھوں پرسوار کرلیا تھا اورمیوزیم دیکھ کرہی نکلے تھے۔
تھک چکے تھے۔ اس لیے کھانا کھاتے ہی سب سو گئے تھے۔ صبح اٹھے تھے تو بادل چھائے ہوئے تھے اورخوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ ناشتہ کرکے تیار ہو کر نکلے تھے۔ طغرل کے ہمراہ نینا اور نینا کا بیٹا ساشا بھی اس قافلے میں شامل تھے۔ خلیج فن لینڈ میں فیری کا سفر چھوٹوں کے علاوہ بڑوں کے لیے بھی موجب دلچسپی تھا۔ سفر کوئی زیادہ نہیں تھا بس آدھ گھنٹے پرمحیط تھا۔ محل کو اندراورباہرسے دیکھ لیا تھا۔ یہ محل اوراس کے قرب و جوار میں بنے فوارے اورمجسمے جو سب سونے کا پانی چڑھے ہوئے ہیں پھر ان فوراوں سے نکلتے ہوئے پانی سے بننے والی آبشار اورملحقہ چھوٹی چھوٹی نہریں سب دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں بالخصوص جب فوارے چل رہے ہوں اور فوارے چل رہے تھے، اوپر سے سرمئی گھٹا چھائی ہوئی تھی اورزمین پرسرسبزو شاداب درخت پودے اور پھول بہاردے رہے تھے۔ محل سے دورزمین سے اٹھنے والی پانی کی دس بارہ دھاروں کا ایک سلسلہ ہے جن کے سامنے چھوٹے چھوٹے رنگین پتھر بچھے ہیں۔ ان پتھروں پرسے چلتے ہوئے نہ جانے کس پتھر کے نیچے وہ کل دبی ہے جس کے دبنے سے ان دس بارہ فوراوں کی بوچھاڑ آپ پر پھواربن کربرس پڑتی ہے۔ آپ لاکھ اندازہ لگائیں کہ کہاں ایسا ہوا تھا لیکن یہ ہر باردوسرے مقام کے دبنے سے پھوار دیتے ہیں۔ خیرسب نے بلکہ بچوں نے اس کو بہت پسند کیا تھا اور ہلکے ہلکے بھیگ بھی گئے تھے۔ اس سے فارغ ہو کر چلے ہی تھے کہ شدید بارش شروع ہو گئی تھی۔ درختوں کے نیچے چھپنے بلکہ بچوں کو چھپانے کی لاکھ کوشش کے باوجود بھاگتے ہی بن پڑی تھی کیونکہ ہردوصورت میں بھیگنا ہی تھا۔ نزدیکی کیفے تک پہنچتے پہنچتے سب خاصے بھیگ چکے تھے۔ ایک دوبچے تو ٹھنڈ لگنے سے دانت بھی کٹکٹا رہے تھے۔ عاصم نے طغرل کو چپکے سے کہا تھا ،"یاران بچوں کو دو دو چمچ کونیاک کے پلا دو، کہیں بیمار ہی نہ پڑ جائیں"۔ طغرل نے ایسا ہی کیا تھا۔ تھوڑی دیربعد بڑی بچی نے کہا تھا،" امی میرا سرکیوں گھوم رہا ہے؟" طغرل تو صرف مسکرایا تھا مگر عاصم نے بچی کی بات پر قہقہہ لگا دیا تھا۔ بچی نے کہا تھا، "امی ابو کیوں ہنس رہے ہیں" یہ کہہ کر خود ہنسنے لگی تھی اور سب ہنس دیے تھے مگر عاصم کی بیوی نے بہت ناقدانہ نظروں سے طغرل کی جانب دیکھا تھا۔ کہا کچھ نہیں تھا۔
ریڈی میڈ کپڑوں کے کارٹنوں سے بھرا کنٹینر پہنچنے والا تھا۔ ان سب کا عاصم کی وزیٹر فیملی سمیت ایک گھرمیں رہنا غیرآرام دہ تھا چنانچہ شہر کے مرکز میں دو کمروں والا ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا گیا تھا۔ طغرل وہاں منتقل ہو گیا تھا۔ یہ نسبتا" پرسکون جگہ تھی کیونکہ اپارٹمنٹ والی عمارت، مین سرکلر روڈ کی عمارتوں سے ہٹ کر اندرکی جانب تھی۔ مالکان مکان ادھیڑعمر اور پڑھے لکھے تھے۔ ٹرانسپورٹ کی سہولت کی خاطر مزید ایک کار خرید لی گئی تھی۔ یہ بھی سیکنڈ ہینڈ تھی، میرون کلر کی آوڈی۔ اب ولیری اس کار کو چلاتا تھا، پہلے خریدی گئی سفید رنگ کی فورڈ طغرل کے مصرف میں آ گئی تھی۔
چند روز بعد کنٹینر پہنچ گیا تھا۔ ان دنوں مزدوردستیاب نہیں تھے اس لیے ساشا سے کہا گیا تھا کہ اپنے کلاس فیلوز کو لے آئے تاکہ کنٹینر خالی کروانے میں مدد کردیں، انہیں اس کام کا معاوضہ ادا کر دیا جائے گا۔ حسام پہلے ہی ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی کے اوول گراؤنڈ کے نیچے تہہ خانے کا کچھ حصہ بطور گودام کرائے پہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ لڑکوں نے چار پانچ گھنٹے میں کنٹینر سے کارٹن اٹھا کر گودام میں منتقل کر دیے تھے۔ کوئی تیس چالیس کارٹن ایک ٹرک میں رکھوا کر طغرل کی رہائش گاہ پرلائے گئے تھے تاکہ ضرورت کے وقت گودام نہ جانا پڑے۔ یہ کارٹن طغرل، حسام اورعاصم کو ہی فرسٹ فلور پر واقع اپارٹمنٹ کے بڑے کمرے میں منتقل کرکے ایک جانب اوپر تلے دھرنے پڑے تھے۔ کمرے کا باقی حصہ بطور دفتر استعمال کیا جاتا تھا جہاں اب طغرل کے علاوہ گھنگھریالے سنہری بالوں والا فربہی کی جانب مائل بلندقامت اور خاموش طبع سرگئی بطور مینیجر کام کرتا تھا۔ شام پانچ بجے سرگئی چلا جاتا تھا۔ اس کے بعد طغرل اگر چاہتا تو عاصم کی طرف چلا جاتا تھا جہاں سے رات کا کھانا کھا کر لوٹتا تھا یا کبھی کبھار نینا کے ہاں چلا جاتا تھا۔ کبھی وہیں سو رہتا تھا اور کبھی لوٹ آیا کرتا تھا۔
معاملات سنبھل چکے تھے۔ مال تجارت بکنے لگا تھا۔ مینیجر تھا جو انگریزی زبان بول سکتا تھا، حسام تو پہلے سے ہی کام کر رہا تھا۔ ڈرائیور تھا، گاڑی تھی ،بیوی بچے یہیں تھے اس لیے عاصم عارضی طور پر کام سنبھال سکتا تھا۔ طغرل کی سابق بیوی مناہل اور بچے گم ہوئے کوئی ساڑھے چار پانچ ماہ بیت چکے تھے چنانچہ اس نے سب کچھ عاصم اور اس کے عمال کے سپرد کیا تھا اور پاکستان سدھار گیا تھا۔ جس شہر میں اس کا بھرا پرا گھر تھا، اسے اب اس شہر میں جاتے ہوئے خجالت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی انا کسمسا رہی تھی جیسے وہ کچھ قابو میں رکھنے میں ناکام رہی ہو۔ لوگوں کا سامنا کیسے کرے گی، انا کا مسئلہ تھا۔ طغرل کی منطقی سوچ نے انا سے کہاتھا "چپ کرکے بیٹھو، لوگ کیا کہیں گے؟ کیا یہی دنیا کا بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ جائیں بھاڑ میں اس وقت بڑا مسئلہ میرے بچے ہیں"۔
چند روزکراچی میں قیام کے بعد وہ لاہور پہنچا تھا۔ بڑی بہن کے ہاں سے اسے معلوم ہوا تھا کہ مناہل نے طغرل کے بہنوئی کوفون کرکے مطلع کر دیا تھا کہ طغرل نے اسے طلاق دے دی ہے، یعنی طغرل کو بدنام کرنے یا قصوروارثابت کرنے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اس کی جانب سے طلاق کے تقاضے تو زبانی کیے جاتے تھے، جن کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا مگر" میں طغرل ولد صدیق، مناہل بنت عرفان کو اس کے بے حد اصرار پر طلاق دیتا ہوں" تو طغرل کے ہاتھ سے لکھے کاغذ کی شکل میں مناہل کے پاس موجود تھا۔ خیرقصوروارکون تھا کون نہیں، شاید حالات قصوروارتھے کیوں کہ کسی نے کسی سے سوال کیا تھا،"یاریہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کیوں ہوتی ہے؟" "بلی کودتی ہے تھالی گرتی ہے اورطلاق ہو جاتی ہے" جس سے سوال کیا گیا تھا اس نے جواب دیا تھا۔ سوال کرنے والے نے حیرت سے استفسار کیا تھا،" ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟"۔ "بھائی سمجھا کرو، تھالی استعارہ ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسائل کی تھالی پر تھالی چڑھتی رہتی ہے، بس وہ آخری تھالی جو بلی کے کودنے سے یعنی کسی جھگڑے کے پیدا ہونے سے گرتی ہے تو تمام تھالیاں ایک چھناکے سے ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کا کان پھاڑنے ، دماغ بھنا دینے والا شور طلاق کا کارن بن جاتا ہے"۔
طغرل اس قصبے میں پہنچا تھا جہاں آخری بار وہ اپنا کنبہ اور بھرا پرا گھرچھوڑ کرگیا تھا۔ پہلے اس دوست سے ملا تھا جس سے افضال نے طغرل کا ماسکو میں پتہ لیا تھا، اس نے طغرل کے ساتھ اس طرح افسوس کیا تھا جیسے کوئی مر گیا ہو۔ ویسے طلاق موت سے کم نہیں ہوتی مگر طغرل کو یقین تھا کہ کوئی موت نہیں ہوئی، بس کوئی کسی بڑے پتھر تلے آ کر سسک رہا ہوگا۔ افسوس کے علاوہ اس دوست کے پاس اور کوئی معلومات نہیں تھیں۔ پھر وہ نادرچوہدری سے ملنے گیا تھا۔ نادرنے یاد دلایا تھا کہ اس نے بہت پہلے بتا دیا تھا کہ جو طغرل کے لچھن ہیں اس کا نتیجہ یہی نکلے گا-
طغرل اپنا سارا غم بھلا کرنادرکے گلے پڑ گیا تھا کہ یار اس میں میرے لچھنوں کا قصور کہاں سے آ گیا، جس کے لچھن سے یہ سب کچھ ہوا اس کو بھلا بیٹھے ہو جو میرے بچوں کو لے کر نجانے کہاں بھاگ گئی ہے۔ نادرنے اسے یاد دلایا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو لے کر گئی ہے تیرے بچوں کو نہیں، اگر تو اپنے بچے سمجھتا تو چھوڑکردیارغیرمیں زندگی نہ گذاررہا ہوتا اورلچھن تمہارے ہی تھے کہ تم نے مناہل کو شروع سے کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ ہر شخص کو دوست سمجھ بیٹھتے رہے اور بیڈ روم تک میں لے جا بٹھایا تم نے ۔ میں تمہیں شروع سے سمجھاتا رہا تھا کہ یہ کسی بڑے شہر کا پوش علاقہ نہیں ہے جہاں تمہارا لبرل ہونا عام سی بات ہوگی اور نہ ہی یہاں کے لوگ جنہیں تم اپنے "کامریڈ" کہتے ہو اپنی نفسیات میں لبرل ہیں۔ وہ اندر سے دیہاتی ہیں۔
اگرچہ حیدروڑائچ نہ طغرل کا دوست تھا اورنہ "کامریڈ" مگرنادرچوہدری کی بات میں وزن تھا کہ جیسا ماحول دو گے اس میں وہ لوگ بھی لبادہ اوڑھ کرگھس سکتے ہیں جواصل میں اس ماحول کے مخالف ہوتے ہیں اورایسے ماحول سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں بھی۔ طغرل خاموش اوراداس ہو گیا تھا۔ نادرچوہدری کواحساس ہوا تھا کہ اس نے طغرل کی زیادہ ہی کلاس لے لی ہے چنانچہ اس نے ایک بار پھراپنے یار طغرل کو گلے لگایا تھا اورکہا تھا "اللہ سب ٹھیک کر دے گا"۔ ساتھ ہی بتایا تھا کہ ڈسپنسر یونس کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ مناہل سرگودھے کے قریب کہیں گئی ہے جہاں حیدروڑائچ کی نئی پوسٹنگ ہے مگر مشورہ دیا تھا کہ صبر کرے۔ اس کا موقف تھا کہ وہ اسی علاقے کے بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے کے سبب ان علاقوں کے چھوٹے زمیندار گھرانوں سے تعلق رکھنے والے حیدروڑائچ جیسے لوگوں کی کینہ پروراورسازشی ذہنیت سے طغرل کی نسبت کہیں زیادہ شناسا ہے، ایسا نہ ہو کہ تمہیں یا تمہارے بچوں کو کوئی گذند پہنچے۔
طغرل بازار گیا تھا جہاں ڈسپنسر یونس ایک چھوٹی سی دکان میں بیٹھا کرتا تھا۔ ڈسپنسریونس بڑی عمر کا ایک مناسب مزاج اوردیانتدارشخص تھا جو طغرل کا واقف تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ اسے اپنے رشتے دار کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ حیدروڑائچ سرگودھا کے نزدیک کہیں تعینات ہوا ہے۔ طغرل شام کو لاہورلوٹ آیا تھا۔ اگلے ہی روزکوچ میں سوارہوکرسرگودھا پہنچا تھا۔ اس شہر سے وہ بالکل ناواقف تھا۔ ڈسپنسر یونس سے وہ اس کے رشتہ دار کا پتہ لے گیا تھا۔ اڈے سے تانگے پرسوار ہو کروہ متعلقہ شخص کے پاس پہنچا تھا جس کی منیاری کی دکان تھی۔ اس سے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا تھا۔ اس شخص نے پہلے کھانا کھلانے پر اصرار کیا تھا طغرل نے بالآخر چائے پینا قبول کی تھی۔ اس شخص نے بتایا تھا کہ اسے فلاں ڈاکٹر کی زبانی معلوم ہوا تھا میں آپ کو ان کے پاس بھجوا دیتا ہوں، وہ آپ کو بتا سکیں گے کہ حیدروڑائچ صاحب کہاں تعینات ہیں۔ اس نے اپنے ہاں کام کرنے والے لڑکے کو کہا تھا کہ بھائی صاحب کو فلاں ڈاکٹر صاحب کے کلینک پر چھوڑ آؤ۔ لڑکے نے سائیکل اٹھائی تھی اور اس پر سوارہوتے ہوئے کہا تھا،"سر پیچھے بیٹھ جائیں"۔ طغرل بغیر کوئی سوال کیے کیریر پر بیٹھ گیا تھا۔ چند منٹ بعد لڑکے نے اسے اس ڈاکٹر کے کلینک پر چھوڑ دیا تھا۔ طغرل ڈاکٹر صاحب سے ملا تھا اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ حیدروڑائچ ان کی بیوی کے کسی رشتہ دار کا دوست ہے اس لیے وہ جانتے ہیں کہ وہ کہاں تعینات ہے مگر آپ کو ان سے کوئی کام ہے کیا؟ ڈاکٹر نے پوچھا تھا۔ طغرل نے شرمندگی تو محسوس کی تھی مگر صاف صاف بتا دیا تھا۔ ڈاکٹر نے بھی اس سے اہسے ہی افسوس کیا تھا جیسے اس دوست نے کیا تھا جس سے افضال نے طغرل کا ماسکو میں پتہ حاصل کیا تھا۔
شام ہونے کو آئی تھی۔ طغرل نے ڈاکٹر صاحب سے کہا تھا،" آپ کو تکلیف تو ہوگی لیکن میں اس شہر میں چونکہ نیا ہوں، اس لیے میرے لیے ٹیکسی کا بندوبست کر دیں تاکہ میں اس مقام تک جا سکوں جو آپ نے بتایا ہے۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ عموما" اس علاقے کے لیے ٹیکسی دستیاب نہیں ہوتی، میں رینٹ اے کار والوں سے پچھواتا ہوں۔ کوئی ایک گھنٹے بعد کارآئی تھی۔ تب تک ڈاکٹرصاحب اصرار کرکے طغرل کو کھانا کھلا چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب یا تو طغرل سے متاثرہوچکے تھے یا اس سے ہمدردی کررہے تھے یا واقعی ایک اچھے انسان تھے اس لیے اسے کارتک چھوڑنے گئے تھے اور دونوں ہاتھوں سے الوداعی مصافحہ بھی کیا تھا۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد کارایک چھوٹے سے قصبے میں پہنچی تھی۔ دیہاتوں میں ویسے ہی رات جلدی پڑجاتی ہے۔ کار والے نے ایک واحد کھلی ہوئی دکان سے "تھانیدارصاحب" کا گھر معلوم کیا تھا۔ قصبے سے تقریبا" باہر نکل کربڑے سے گیٹ والا گھر تھا۔ طغرل نے ٹیکسی والے کو انتظار کرنے کو کہا تھا اور کار سے اتر کر گھنٹی بجائی تھی۔ تھوڑی دیر گذرنے کے بعد اندردروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی۔ طغرل نے ایڑیاں اٹھا کر دیکھا تھا، ایک پتلا سا بلند قامت لڑکا، راستے میں پڑے ڈھیلوں کو ٹھوکریں مارتا ہوا گیٹ کی جانب آ رہا تھا۔ اس نے آ کر گیٹ کھولا تھا۔ وہ طغرل کا بیٹا تحسین تھا۔ طغرل کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک سال سے کم عرصے میں وہ اتنا بڑا ہو سکتا ہے۔ اس کا قد نکل آیا تھا۔ تحسین اپنے باپ سے سردمہری کے ساتھ ملا تھا۔ تحسین نے پوچھا تھا تمہاری ماں ہے گھر میں۔ تحسین جی کہہ کر لوٹ گیا تھا اور جاتے جاتے کہا تھا،" آپ انتظار کریں میں بیٹھک کھولتا ہوں"۔ طغرل نے کار والے کو ادائیگی کرکے رخصت کر دیا تھا اور گھر میں داخل ہو کر عمارت کے قریب جا کھڑا ہوا تھا۔
تحسین نے ایک دروازہ کھولا تھا اور کہا تھا "آئیے"۔ وہ اندر داخل ہوا تھا۔ تحسین نے کہا تھا، "بیٹھیں ماما آتی ہیں"۔ وہ خود گیٹ بند کرنے نکل گیا تھا۔ اتنے میں طغرل کی بیٹی ماہین بھی آ گئی تھی اور باپ سے بڑے جوش و خروش سے ملی تھی۔ طغرل نے بھی اسے جی بھر کر پیار کیا تھا۔ تحسین بھی آ کرساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔ طغرل کو لگ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ کسی اورکے گھرآیا بیٹھا ہے۔ گھر کی ہر چیز وہی تھی جو اس کے گھر کی تھی۔ تھوڑی دیرمیں وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ مناہل اس کی بیوی نہیں رہی اوراس نے جھنجھلا کر کہا تھا کہ "کہاں ہے تمہاری ماں، آ کیوں نہیں رہی؟" اتنے میں ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ مناہل بیٹھک میں داخل ہوئی تھی اورسلام کیا تھا۔ طغرل نے بھی اٹھ کر زندگی میں پہلی بار "وعلیکم السلام مناہل صدیق" کہا تھا۔ مناہل نے سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر بے تحاشا رونا شروع کردیا تھا۔ دونوں بچے دکھی ہوئے بیٹھے تھے۔ طغرل نے اٹھ کر مناہل کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور کہا تھا، "صبرکرومناہل۔ غلطیاں سب سے ہو جاتی ہیں۔ لوٹ آؤ، مجھے کوئی شکایت نہیں ہوگی"۔ مناہل نے اپنے دوپٹے سے آنکھیں پونچھتے ہوئے بڑے فیصلہ کن لہجے میں کہا تھا، "نہیں، اب وہ میرے سرکا سائیں ہے"۔ طغرل نے بیگ کھول کروسکی کی بوتل نکالتے ہوئے تحسین سے کہا تھا کہ گلاس اور پانی لا کر دے۔ وہ منہ بنا کر گلاس اور پانی لینے چلا گیا تھا۔ مناہل نے کہا تھا، "دیکھنا کہیں پی کرہنگامہ نہ کر دینا"۔ طغرل نے جواب دیا تھا،"تم جانتی ہو میں اپنے گھر میں ہنگامہ کر سکتا ہوں، غیر کے گھر میں نہیں"۔ وہ یہ جانتی تھی، مطمئن ہو کر اٹھی تھی اورخود ایک ٹرے میں گلاس برف، سافٹ ڈرنک اور پانی لے کر آئی تھی۔ طغرل نے دماغ کو پرسکون کرنے کی خاطردوتین پیگ لیے تھے۔ تحسین اٹھ کر اندرچلا گیا تھا مگرماہین بیٹھی اپنے پاپا سے باتیں کرتی رہی تھی۔ مناہل کھانے کا انتظام کرنے لگی تھی۔ طغرل کو بھوک نہیں تھی لیکن اس نے کھانے سے انکار نہیں کیا تھا۔ کھانے کے دوران پوچھا تھا کہ حیدر کہاں ہے؟ مناہل نے بتایا تھا کہ وہ ڈیوٹی کے سلسلے میں دو روز کے لیے کہیں گیا ہوا ہے۔ طغرل نے زیادہ باتیں اس لیے نہیں کی تھیں کہ مناہل کے جواب کے بعد باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، تلخی ہی پیدا ہوتی۔ اس نے مناہل کو بتایا تھا کہ وہ بچوں کولاہورلے جانے کے لیے آیا ہے۔ مناہل نے کہا تھا ضرور لے جاؤ لیکن واپس بھجوا دینا۔ رات کو جس کمرے میں طغرل کو سونے کے لیے بھیجا گیا تھا وہاں اے ایس آئی کی استری کردہ وردی ٹنگی تھی جو طغرل کے داخل ہوتے ہی تحسین نے ہینگرسمیت اٹھا کرکہیں اورمنتقل کردی تھی۔ اگلے روزناشتہ کرنے کے بعد طغرل تحسین اور ماہین کو لے کرلاہورروانہ ہو گیا تھا۔
بارہ برس کا تحسین اورنوبرس سے کچھ زیادہ کی ماہین، لگتا تھا کہ تاثّر سے خالی تھے۔ ان کے چہروں پر نہ وہ خوشی تھی جو کسی دوسری جگہ جاتے ہوئے بچوں کو ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اکتاہٹ یا اضطرارکے اثرات مترشح تھے۔ تحسین راستے بھر کم و بیش خاموش رہا تھا البتہ ماہیں باتیں کرتی رہی تھی۔ یونہی بچوں والی باتیں۔ وہ لاہور پہنچ گئے تھے۔ طغرل انہیں لے کر اپنی بڑی بہن کے ہاں پہنچا تھا جہاں گاؤں سے اس کی منجھلی بہن بھی پہنچی ہوئی تھی۔ یہ منجھلی بہن ایک طرح سے طغرل کی ماں تھی اگرچہ وہ اس سے عمرمیں کوئی دس سال ہی بڑی تھی لیکن طغرل کو اس نے ہی پالا پوسا تھا۔ وہ اس کا بہت پیارا بھائی تھا۔ اسے اپنے پیارے بھائی کے دکھ کا اس سے بھی زیادہ دکھ تھا۔ جب اس نے بچوں کو طغرل کے ہمراہ دیکھا تو اس کی باچھیں کھل اٹھی تھیں۔ وہ اس قدرخوش ہوئی تھی لگتا تھا جیسے اس کے پیرزمین پرنہ ہوں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے اوروہ بھتیجے بھتیجی کو باربار چومے جا رہی تھی۔ بچے بھی کھل اٹھے تھے اور پھوپھی سے کھل کرباتیں کرنے لگے تھے۔
شام کو طغرل اورخوشی سے پھولی بچوں کی پھوپھی بچوں کو لے کر باہر نکلے تھے۔ طغرل نے دیکھا تھا کہ ماہین نے بہت ہی دیہاتی قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اس کے پاس بہترکپڑے بھی ہونگے لیکن چونکہ طغرل اس کی ماں کی پسند سمجھتا تھا جو ایک بے رنگ علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بھڑکداررنگوں والے کپڑے، نمایاں دکھائی دینے والے سونے کے زیور اور خود کو سربرآوردہ کرنے کی خاطر بلند آواز میں اظہار خیال کرنے کو پسند کرتی تھی چنانچہ اس نے چھوٹی سی بچی کو بھی ویسے ہی کپڑے پہنائے ہوئے تھے جیسے اسے خود پسند تھے۔ طغرل بچوں کو مناسب کپڑے خرید کر دینا چاہتا تھا۔ وہ چاروں لبرٹی مارکیٹ پہنچے تھے جہاں اس نے بچوں کو ان کی پسند کے کپڑے خرید کر دیے تھے البتہ کپڑے پسند کرنے میں اس کا مشورہ ضرور شامل تھا۔ پھر وہ وہیں ایک معروف فوٹوگرافر کے سٹوڈیو پہنچے تھے۔ طغرل نے بچوں کو کہا تھا کہ ایک ایک کر کے اندر والے کمرے میں جاؤ اور نئے کپڑے پہن لو، اترے ہوئے کپڑے پیکٹوں میں رکھ دو۔ تحسین تو فورا" ہی شہری بابو بن کر نکل آیا تھا البتہ ماہین ہچکچا رہی تھی۔ شاید اس کی ماں نے اسے اوڑھنی اوڑھے رکھنے کی تلقین کی ہوگی، جو کپڑے اسے اب پہننے تھے وہ یورپی طرز کے تھے، گھٹنوں تک سکرٹ اور بلاؤز۔ پھوپھی اس کے ساتھ اندر گئی تھی اور یوں ماہین بھی ننھی پری بن کر برآمد ہوئی تھی۔ اپنا نیا حلیہ دیکھ کر بچے خوش ہوئے تھے۔ ظاہر ہے طغرل بھی خوش تھا اور بچوں کی پھوپھی تو انتہائی خوش تھی۔ طغرل کو فوٹوگرافر نے کرسی پر بٹھایا تھا اور بچوں کو اس کے ادھر ادھر کھڑا کرکے ایک یادگار تصویر بنا دی تھی۔ بچے دو روز طغرل اوررشتے داروں کے ساتھ رہے تھے۔ طغرل انہیں ان پارکوں اوران ریستورانوں میں لے گیا تھا جہاں وہ انہیں روس جانے سے پہلے ان کی ماں کے ہمراہ لے کرجایا کرتا تھا۔ پھر بچوں کو اپنے بھانجے کے ساتھ روانہ کر دیا تھا تاکہ وہ انہیں ان کی ماں کے پاس چھوڑ آئے۔ بچے جاتے ہوئے اداس بھی تھے اورخوش بھی۔
طغرل کسی حد تک مطمئن ہو گیا تھا۔ اس کو کبھی شبہ نہیں تھا کہ مناہل بچوں کے ساتھ کسی کو چاہے وہ اس کا خاوند ہی کیوں نہ ہو کوئی برا سلوک کرنے دے سکتی ہے۔ تاہم غیرتوغیرہوتا ہے اور وہ بھی پولیس والا اور جاٹ۔ جی ہاں طغرل کو اپنے مخادیم ذاتوں میں سے ہونے پر فخر تھا۔ وہ برلاس تھا اور اس کی دادی منہاس راجپوت البتہ ماں شیخ تھی مگر وہ تاجر برادری والے شیخوں سے نہیں تھیں بلکہ ان کے والد کائستھ سے مسلمان ہو کر شیخ کہلائے تھے یہی وجہ تھی کہ طغرل کی والدہ اپنی ذات شیخ کو شین پرزبرلگا کر ادا کرتی تھیں کیونکہ ان کے گھرانے کو دولت کا نہیں بلکہ علم کا چسکہ تھا۔ انہیں اپنے بچوں کی ذات پر بھی فخر تھا اگرچہ وہ خود بہت عبادت گذار تھیں اور انہیں علم تھا کہ اسلام میں ذات پات نہیں ہوتی مگر ان کا عرب سے نہیں بلکہ برصغیر سے تعلق تھا۔ جب ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک چھوٹے قصبے میں سکونت اختیار کی تھی تو وہاں ان کی ہندوستان میں جائے سکونت سے آئے ہوئے لوہاروں نے بھی خود کو مرزا مغل کہلانا شروع کر دیا تھا۔ طغرل کی ماں کو اس کا بہت قلق تھا اور انہوں نے طغرل اور اسے کے چھوٹے بھائی کو تلقین کی تھی کہ اگر کوئی تمہاری ذات پوچھے تو ان گنواروں کی مانند صرف مغل مت کہنا بلکہ مغل پٹھان کہنا۔
اب مغل پٹھان طغرل برلاس کے بچے ایک جاٹ کی سرپرستی میں تھے۔ وہی جاٹ جنہوں نے ہمایوں کو دہلی سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ جاٹ اور گوجر غنڈوں کے انبوہ تھے جنہوں نے پہلی بار ہندوستان کی نوزائیدہ مغل سلطنت کو مشکل میں ڈالا تھا۔ ہمایوں کو ایران فرار ہونے اور وہاں سے واپسی پر راستے میں اپنی فوج میں لڑاکا جری بہادروں کو بھرتی کرتے ہوئے دہلی کے تخت کو پھر سے اپنے قبضے میں لینے کے دوران بلوچوں نے اس کی بہت مدد کی تھی مگر امتداد زمانہ دیکھیے کہ چند صدیاں گذرنے کے بعد بلوچ اور جاٹ نے مغل اقلیم پر قبضہ کر لیا تھا، جی ہاں مناہل بلوچ تھی جو بقول کسے جو کرنا ہوتا ہے پہلے کر لیتے ہیں اور پھر چاہے پشیمان ہوتے پھریں۔
دس پندرہ روز کے بعد طغرل بدیس لوٹ گیا تھا۔ ہوائی اڈے پر ڈرائیور ولیری اسے لینے کی خاطر کھڑا تھا۔ وہ اسے دفترلے گیا تھا جہاں عاصم موجود تھا۔ وہ گلے ملے تھے، عاصم نے طغرل کے چہرے پر اطمینان محسوس کرکے کہا تھا،" طغرل چچا لگتا ہے دورہ کامیاب رہا"۔ طغرل نے اسے مختصرا" بتایا تھا۔ اتنے میں ایک لڑکی کوئی "کاروباری تجویز" لیے پہنچی تھی۔ یہ چاروں یعنی وہ لڑکی ، حسام، عاصم اور طغرل ایک میز کے گرد بیٹھ گئے تھے تاکہ لڑکی کی "کاروباری تجویز" سنیں۔ ویسے تو حسام کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ لڑکی خود انگریزی بول لیتی تھی۔
پہلے یہ جان لیجیے کہ "کاروباری تجویز" اس ملک میں سب سے زیادہ مستعمل اصلاحات میں سے ایک اصطلاح تھی۔ کوئی بھی کاروبار کرنے سے پہلے "کاروباری تجویز" دیا جانا ضروری تھا جسے ہماری زبان میں "کاروباری پیشکش " کہا جا سکتا ہے کہ جس کا لین دین کرنا ہو، یا تواس شے کا نمونہ دکھایا جائے یا اس کے بارے میں بتایا جائے۔ وہ لڑکی کسی یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ خوش شکل اور سنجیدہ البتہ وہ جو "کاروباری تجویز" لے کر آئی تھی، کوئی اتنی دلکش تجویز نہیں تھی۔ وہ روس کے کسی گھڑی ساز کارخانے کی نمائندگی کررہی تھی اورکچھ گھڑیوں کے سامپل لے کر آئی تھی۔ حسام اور طغرل کی توجہ گھڑیوں سے زیادہ لڑکی پر تھی۔ حسام نے اس کا فون نمبر لے لیا تھا اور وہ چلی گئی تھی۔ حسام اور عاصم کے ادھر ادھر ہوتے ہی طغرل نے حسام کی نوٹ بک سے اس کا نمبر نقل کر لیا تھا مبادا ۔ ۔ ۔ اس لڑکی کا نام یولیا تھا اور ذات زوبکووا۔
عاصم کا کنبہ پاکستان سے طغرل کی واپسی سے ایک روز پہلے لوٹ گیا تھا۔ اب اس گھر میں عاصم اکیلا تھا چنانچہ اس نے طغرل کوکہا تھا کہ بجائے علیحدہ علیحدہ رہ کر بور ہونے کے چلو وہیں اکٹھے رہتے ہیں۔ شام کو وہ اکٹھے چلے گئے تھے اور پھرجی بھر کے باتیں کی تھیں۔ عاصم کاروباری شخص تھا، جس سودے میں منافع نہ ہو بلکہ الٹا نقصان کا خدشہ موجود ہو اس پروہ لکیرکھینچ دیا کرتا تھا چنانچہ سب سننے کے بعد اس نے طغرل سے کہا تھا، "چچا، لکیرڈال دو۔ بچے بڑے ہونگے، چاہیں گے توخود تمہارے پاس آ جائیں گے۔ مناہل نے جانا تھا چلی گئی بس بھول جاؤ"۔ مگر طغرل انسانی تعلقات کو کاروبارکی تزازومیں رکھ کرتولنے کا عادی نہیں تھا اورپھرانسانی رویے کوئی روپے پیسے تو ہوتے نہیں کہ جن کا لین دین کرنے کے بعد ان کی نوعیت و ہئیت بھلا دی جائے، اس لیے خاموش رہا تھا۔ عاصم نے اس کی خاموشی سے جان لیا تھا کہ وہ اس معاملے پر لکیر کھینچنے سے عاری رہے گا۔
عاصم منافع خوری کی جانب راغب تھا۔ اس نے مختلف اشیاء کی قیمتیں مناسب سے زیادہ رکھی تھیں۔ طغرل کو خدشہ تھا کہ بات نہیں بنے گی۔ مال کے معیار اوراس کی قیمت میں تناسب نہیں تھا۔ طغرل روس کے لوگوں کو عاصم کی نسبت زیادہ جاننے لگا تھا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی لڑکی کسی کے ساتھ اس کے ہاں آ جاتی تھی اور پینے پلانے کے بعد وہ شخص لڑکی کے ساتھ دست درازی کرتے ہوئے اسے بے لباس کرنے کی سعی کرتا تھا تو لڑکی دونوں ہاتھ کھڑے کرکے کہہ دیا کرتی تھی " یا سمّا" اس کا مطلب تھا کہ میں خود اتارتی ہوں۔ معاملہ اخلاقیات کا نہیں بلکہ اقتصادیات کا ہوتا تھا۔ اس وقت لوگوں کی آمدنیاں محدود بلکہ نہ ہونے کے برابرتھیں جبکہ ان کا خاص طوریہاں کی خواتین کا ذوق اورملبوس کے معیار منتخب کرنے کا پیمانہ تب بھی خاصا بلند تھا۔ یہاں کی لڑکیوں کے مطابق عصمت شکن آلود نہیں ہوتی تھی بلکہ دست درازیوں سے ملبوس شکن آلود ہوتا تھا اورممکن ہے کھرونچ بھی پڑجاتی۔ یہاں کی خواتین ان دنوں ملبوسات کم خریدتی تھیں لیکن ان کی ایک ایک سیون دیکھ کر، کپڑے کا معیار جانچ کراورڈیزائن کی نوک پلک پرغورکرنے کے بعد ۔ اچھے معیارکے ملبوس کے لیے وہ زیادہ ادائیگی کرسکتی تھیں لیکن کم ادائیگی کرکے برا مال نہیں خرید سکتی تھیں بلکہ ایک لڑکی نے تو خریداری کا گریہ بتایا تھا کہ اگر تین چیزیں ہیں، مہنگی، سستی اور مناسب قیمت والی تو مناسب قیمت والی خریدو کیونکہ اس کا معیار اگر مہنگی سے بہتر نہیں ہوگا تو سستی شے سے کہیں بہتر ہوگا۔ تاہم جب طغرل نے منہ کھول کرعاصم کو کہا تھا کہ وہ قیمتیں مناسب طے کرے تو اس نے اسے کہا تھا،"چچا، تم نے کبھی کاروبار کیا ہے جو تمہیں کاروبار کے بارے میں علم ہو" طغرل اپنا سا منہ لے کر رہ گیا تھا۔ اسی طرح طغرل نے جب عاصم کو تجویز دی تھی کہ کوریا یا ویت نام سے سینیٹری پیڈز، پیمپرز اور ٹوائلٹ پیپر رول روس میں درآمد کر لو تب بھی عاصم نے اس کا ٹھٹھہ اڑایا تھا جبکہ طغرل بنیادی طور پر سیاسیات، معاشیات و سماجیات کا ادنٰی سا طالب علم تھا۔ اسے معلوم تھا کہ جس ملک میں معیارزندگی بہتر کرنے کا انفراسٹرکچر موجود ہو وہاں معیار زندگی بہتر ہونے اور بنیادی ضرورت کی اشیائے صرف کی طلب میں اضافہ ہوتے کچھ زیادہ دیرنہیں لگا کرتی۔ جن تین اشیاء کو برآمد کرنے کی تجویزاس نے دی تھی وہ متمدن معاشرے کے بڑھتے ہوئے معیارات میں استعمال ہونے والی بنیادی اشیاء ہیں۔ چند برس ہی گذرے تھے جب باقی اشیائے صرف کے ساتھ ساتھ ان تین چیزوں کی طلب اتنی بڑھی تھی کہ دنیا بھر کی کمپنیاں یہ مال لے کر پہنچ گئی تھیں بلکہ ٹی وی پراشتہاروں سے تو یہی لگنے لگا تھا کہ ساری قوم پیمپرزاورسینیٹری پیڈز کی طلبگارہوچکی ہے۔ ایسی ہی ایک مثال تب کی تھی جب روس جانے سے پہلے طغرل نے کراچی میں عاصم کے دفتر میں بیٹھے ہوئے این جی او بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، عاصم نے پوچھا تھا کہ چچا یہ کیا چیز ہوتی ہے؟ جب اس نے وضاحت کی تھی تو عاصم نے قہقہہ لگایا تھا اور کہا تھا "چاچا تو تجربے کرنے کی سوچتا رہے گا اور دنیا آگے نکل جائے گی"، تب پاکستان میں چند گنی چنی این جی اوز تھیں۔
پھرعاصم نے جومال روس برآمد کیا تھا وہ لگتا تھا کہ اس نے "لاٹ" سے اٹھایا تھا۔ لاٹ اس بچے ہوئے مال کے ڈھیر کو کہا جاتا ہے جو بکنے سے بچ رہا ہواوربکنے سے وہی چیز بچ رہتی ہی جو یا تو غیرمعیاری ہو یا اس میں نقص ہو یا وہ آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہو یا جس میں جدت اور تنوع نہ ہو۔ وجہ یہ تھی کہ ملبوسات کی بہت زیادہ اقسام تھیں اوران کے سائز مشرقی ابدان کی مناسبت سے تھے یعنی بڑے کا جو ٹریک سوٹ تھا وہ یہاں کے پندرہ سولہ سال کے لڑکے کے لیے تھا یا کسی دھان پان لڑکی کے لیے۔ آمدہ مال کے ساتھ اسی طرح کے دوسرے معاملات بھی تھے۔ وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں اورپاکستانیوں میں بھیڑ چال چلنے کا بہت رواج ہے۔ اگر کسی کا سبزیاں پھل درآمد کرنے کا کام چل نکلا ہے تو سب اس کی جانب راغب ہو جائیں گے۔ اگر کسی کے کریانے کی دکان چل نکلی ہے تو سبھی " سیون الیون" خریدنے لگ جائیں گے۔ اگر کسی نے کوئی بات کہہ دی ہے چاہے غلط ہی سہی تو وہ بات ساری کاروباری برادری میں پھیل جائے گی۔ ان دنوں روس کے بارے میں دو باتیں عام تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہاں ریت بھی بھیج دو تو بک جائے گی، یہ بات یکسر غلط تھی۔ دوسری یہ کہ وہاں کی لڑکیاں مردوں کے آگے بچھی چلی جاتی ہے یہ بات پہلی بات سے بھی زیادہ غیردرست تھی۔
چونکہ معیشت اور معاشرت دونوں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ لوگوں کے پاس قوت خرید نہیں تھی۔ اس لیے ایسی کم معیار کی سستی اشیاء جو لوگوں کی استطاعت پر پوری اترتی تھیں انہیں چھوٹے شہروں یا دیہاتوں میں بیچا جا سکتا تھا مگر اس کے لیے یا تو انفراسٹرکچر لمبا چوڑا ہوتا یا لوگوں پر اعتبار زیادہ ہوتا مگر وہاں جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے وہاں بد دیانتی بھی زیادہ ہوتی ہے کہ مصداق یہ دونوں باتیں ممکنات میں سے نہیں تھیں۔ البتہ منڈی کا ایک نیا مظہر تب روس بشمول ماسکو میں پنپنے لگا تھا۔ اسے "رینک" یعنی منڈی کہا جاتا تھا ، یہ اصل میں کھلے آسمان تلے "فلی مارکیٹس" تھیں جن کا طغرل کو تب بالکل علم نہیں تھا بلکہ طغرل کو تورجسٹریشن کے بارے میں بھی پہلی بارتب علم ہوا تھا جب کوئی چھ برس بعد کاروبار ناکام ہو جانے کے بعد اس نے اپنی کار بیچ دی تھی اورپہلی بار پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کیا تھا۔ سڑک پر چلنے کے دوران پڑتال کرنے کی خاطر ایک پولیس والے نے اسے سلیوٹ کرکے "ڈاکومینٹ" طلب کیا تھا۔ اس کے پاس ویزا تھا لیکن رجسٹریشن نہیں تھی۔ اسے پہلی بار پتہ چلا تھا کہ اس شہر میں رہنے کی خاطر کسی مکان میں سرکاری رجسٹریشن بھی کروانی پڑتی ہے۔ اس سے پہلے وہ کار میں بیٹھ کر آتا جاتا تھا۔ پہلے تو ڈرائیور تھا، ڈرائیور نہ ہونے کی صورت میں اگر ٹریفک پولیس نے کبھی روکا تھا تو گاڑی کے ہی کاغذات چیک کیے تھے۔ اورتو اور طغرل کو ذاتی طور پر پہلی بار رشوت بھی گاڑی چلاتے ہوئے ہی یہیں دینی پڑی تھی۔ وہ رشوت دینے کو برا سمجھتا تھا بہر حال دینی پڑ گئی تھی جو پاکستان میں ہوتے ہوئے اس نے کبھی نہیں دی تھی چاہے نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑ جاتا۔
ہم بات کر رہے تھے عاصم کے لائے ہوئے مال کی تو جناب عاصم نے بھی لوگوں کی باتوں پر اعتبار کرکے ہرطرح کا کاٹھ کباڑ برآمد کردیا تھا مگراللہ بھلا کرے ایک کاروباری میمن کا کہ اس نے اسے عاصم کوجیکارڈ کپڑا برآمد کرنے کا مشورہ دیا تھا چنانچہ طغرل کی غیرموجودگی میں ایک کنٹینر پرنٹڈ جیکارڈ کپڑا بھی پہنچ گیا تھا۔
دس پندرہ روز بعد عاصم کی دوسری بیوی بھی بچوں کے بغیر ماسکو دیکھنے آ گئی تھی، طغرل کو ایک بارپھرشہرکے مرکزوالے اس اپارٹمنٹ میں منتقل ہونا پڑا تھا جسے بطوردفتراستعمال کیا جاتا تھا۔ جب طغرل بچوں کو ڈھونڈنے کی خاطر پاکستان گیا ہوا تھا تب اس دفتر میں ایک واقعہ بھی رونما ہو چکا تھا۔ ہوا یوں جیسے کہ بعد میں طغرل کو بتایا گیا تھا کہ جب جیکارڈ کپڑے کا کنٹینر آیا تو ڈرائی پورٹ سے مال لانے کی خاطر ٹرک والے کو ادائیگی کرنے کے لیے عاصم نے جیب سے یا بریف کیس سے پیسے نکالے تھے۔ عاصم کی جیسے پاکستان میں عادت تھی کہ سارے پیسے سب کے سامنے نکال لیتا تھا ظاہرہے احتیاط نہیں کی تھی۔ مال پہنچ جانے کے اگلے روزچار نقاب پوش کلاشنیکوو بردار ڈاکو اس دفتر میں پہنچ گئے تھے اورانہوں نے سب کوزمین پرلیٹنے کا حکم دیا تھا عاصم چونکہ "نا پول" جسے تیزی سے "ناپل" بولتے ہیں یعنی "زمین پر" کا مطلب نہیں سمجھا تھا البتہ سب کی دیکھا دیکھی وہ اپنے زمین پردھرے اس بریف کیس پربیٹھ گیا تھا جس میں ہزاروں ڈالر تھے۔ ڈاکو کوئی چند سو ڈالر اورچند ہزار روبل لوٹ کر لے جا سکے تھے۔
چلتے چلتے یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ بات کیسے غلط تھی کہ روس کی لڑکیاں مردوں کے آگے بچھی چلی جاتی تھیں۔ بات یہ تھی کہ کم عمرلڑکیاں، خاص طورپر وہ جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھیں، آپ کہیں گے کہ سوشلسٹ یا کمیونسٹ معاشرے میں میں نچلا طبقہ چہ معنی، تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ نچلے طبقے سے مراد کم سماجی شعور کا حامل طبقہ ہے ، ان میں بھی بالخصوص وہ بچیاں جو حرفتی سکولوں میں پڑھتی تھیں جہاں نویں جماعت پاس کرنے کے بعد چار سال پڑھنا ہوتا تھا، تو یہ کم عمر اورکم علم لڑکیاں دراصل سرمایہ داری کے جال کے نیچے چگنے کی خواہش لیے چڑیاں تھیں۔ اس کے برعکس زیادہ سمجھداراورذہین طالبعلم گیارہویں پاس کرنے کے بعد یا توبراہ راست یونیورسٹی کے کسی شعبے میں داخلہ لیتے تھے یا کسی پیشہ ور انسٹیٹیوٹ میں ڈاکٹر یا انجنیر بننے کے لیے داخل ہوتے تھے۔ ۔ تب کیا تھا جس کی جانب راغب ہوا جا سکتا تھا، پیپسی، میکڈونلڈ جو پورے ماسکو میں ایک تھا، چیوانگ گم اورنائٹ کلب۔ پاکستان سے آگے جانے کے لیے یہاں آنے والے نوجوانوں میں جس نے گلے یا کلائی میں سونے کی ہلکی سی زنجیرپہنی ہوتی وہ اس زنجیر کوسہلاتے ہوئے "بزنس بزنس" کہتا تھا اوریہ کم عمرلاعلم لڑکیاں سمجھتی تھیں کہ یہ کاروباری شخص ہے جو میکڈونلڈ کھلائے گا اورنائٹ کلب لے جائے گا چنانچہ وہ ایک دو کوششوں کے بعد ساتھ چلی جاتی تھیں آگے ان کے بھاگ لچھیے۔ وہ تعداد میں اتنی زیادہ نہیں تھیں مگر جب ایجنٹ پاکستان جاتے تھے تو اپنے نوجوانوں کے بارے میں یوں بتاتے تھے، "منڈا آلو لین گیا تے کڑی لے آیا"۔ طغرل نے ایک بار ایسے ہی کسی ایجنٹ سے اس بارے میں بحث کر لی تھی اور اس سے پوچھا تھا کہ تمہارے خیال میں ماسکو میں کل کتنے نائٹ کلب ہیں، اس نے کہا تھا کہ اسے کیا معلوم۔ طغرل نے بتایا تھا کہ کوئی ساٹھ ہونگے لیکن ہم انہیں سو خیال کر لیتے ہیں۔ پھر پوچھا تھا کہ اس کے خیال میں ایک کلب میں کتنی لڑکیاں سماتی ہونگی۔ اس نے کہا تھا کہ پچاس۔ اس پر بھی طغرل نے کہا تھا ہم انہیں بھی ایک سو شمار کر لیتے ہیں اوریقین کر لیتے ہیں کہ یہ ساری "بدکردار" یعنی بچھنے والی ہیں تو یہ دس ہزار کی دس ہزار لڑکیاں ایسی ہی سمجھ لو مگر ماسکو کی آبادی نوے لاکھ ہے جس میں پینتالیس لاکھ خواتین ہیں اور ان میں کم ازکم بیس لاکھ لڑکیاں ہونگی تو کیا سب بچھتی پھرتی ہیں؟ یہ سوال کرکے طغرل نے معاملہ کھلی آنکھیں رکھنے والوں پر چھوڑ دیا تھا۔
طغرل کی غیرموجودگی میں عاصم کی حسام کے توسط سے یا کاروبار کے حوالے سے اور لوگوں سے بھی راہ و رسم ہوئی تھی جن میں ایک عامرنام کا نوجوان تھا۔ دنیا کے باقی معاملات میں تقریبا" گھامڑ لیکن باتیں بنانے میں ہوشیار، تیز تیز گفتگو کرنے والا یہ لالو کھیتیا عاصم کے خاصا قریب آ گیا تھا۔ اس حلقے کے باقی لوگ اسے لاڈلا کہنے لگے تھے یعنی عاصم کا لاڈلا۔ عاصم خود اس بات کو تسلیم کرتا تھا، گول چہرے، متناسب نقش و نگار اورفلمی ہیرو کے سے بالوں والا عامربھی اس لقب پر لجا کر مسکرا دیا کرتا تھا۔ ویسے عامر طغرل کے ہی ہم نظریہ ساتھی کا بیٹا تھا مگریہ اسے بعد میں پتہ چلا تھا۔
عامر چلتا پرزہ تھا۔ اپنے دھیمے سبھاؤ، مسکراتے چہرے اور بے ضرر باتوں کے طفیل لڑکیوں میں مقبول یہ نوجوان اپنے بوڑھے باپ کے بوجھ کو کم کرنے کی خاطر کمانے کا ہر جتن کرتا تھا۔ پاکستان سے واپسی کے چند روز بعد عاصم نے طغرل کو بتایا تھا کہ عامر کے روابط کی وجہ سے دفتر کے لیے ایک خاصی بڑی جگہ مل گئی ہے جسے گیارہ سال کے پٹے پرلینے کے سمجھوتے پر وہ دستخط کر چکا ہے۔
جیسا مال عاصم نے بھیجا تھا اورجس طرح مال کے مناسب رفتار ک