"مثل برگ آوارہ" کا پانچواں در
طغرل کو اس دن کی تاریخ اچھی طرح یاد ہے جس روز یولیا اس سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئی تھی۔ اگرچہ یولیا اس سے پہلے بھی دو ایک بار اپنی پشیمانی کا اظہار کر چکی تھی مگر تب طغرل کو معلوم نہیں تھا کہ پشیمانی کے اظہار کے پس پشت اس کی کوئی امید یا کسی کی دی گئی شہہ شامل تھی۔ پشیمانی کا اظہار اس نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ مجھے خود پہ غصہ آتا ہے کہ میں نے پہلی بار اپنا بدن اپنے سے بیس برس بڑے مرد کے سپرد کیوں کیا؟ وہ یہی سمجھا تھا کہ اس نے یہ بات اس کے وقتا" فوقتا" یکسربدل جانے والے رویوں یا اس کی شراب نوشی سے اکتا کر جھنجھلاہٹ میں کہی ہوگی۔ دراصل حامد کا سعد نام کا ایک عراقی کرد معاون تھا ۔ اس نے ایک بار طغرل سے کہا تھا کہ آپ کا تو اس لڑکی سے عارضی تعلق ہوگا لیکن اگر آپ اسے میری خاطر فارغ کر دیں تو میں اسے بیوی بنا کر رکھوں گا۔ طغرل نے ہنس کر کہا تھا لے لو۔
پھر ایک شام جب وہ دونوں حامد کے ہاں تھے کہ کھانے کے دوران یولیا کے قریب ہونے کے سبب طغرل کے ہاتھ سے شوربے کا کوئی قطرہ یولیا کی پوشاک پر جا گرا تھا۔ یولیا نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ اچھا لباس اورگہنا پاتا تو سبھی خواتین کو پیارا ہوتا ہے لیکن ان دنوں یہاں کی لڑکیوں کے لیے ملبوسات عدم دستیابی اورناقابل دسترس ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ اہم ہو گئے تھے۔ اگر ان کے لباس سے کوئی چھیڑ چھاڑ کرتا تو وہ اس خوف سے کہ کہیں کپڑا مسک نہ جائے یا لباس شکن آلود نہ ہو جائے "یا سما" یعنی میں خود، کہہ کر آرام سے لباس اتار کراسے سلیقے سے تہہ کرکے کہیں رکھ دیا کرتی تھیں ، بدن پر کونسی شکنیں پڑنی ہوتی ہیں۔
طغرل کو اس کی ہنگامہ آرائی اچھی نہیں لگی تھی۔ سعد اس کے پیراہن کے داغ دھلوانے میں مدد دینے کی خاطر کچھ زیادہ ہی مستعد ہو گیا تھا۔ طغرل نے یہ سب سرد مہری سے دیکھا تھا اوراس واقعے کو عام معمولی واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔ کھانا کھا کر جب وہ اس کمرے میں آیا تھا جسے حامد نے ایک طرح کے ڈرائنگ روم کی شکل دی ہوئی تھی تواسے وہاں یولیا دکھائی نہیں دی تھی۔ اس نے سمجھا تھا شاید واش روم گئی ہو۔ مگر خاصی دیرگذرنے کے بعد بھی جب وہ برآمد نہ ہوئی تو اس نے پوچھا تھا کہ یولیا کہاں ہے؟ سعد نے گردن جھکا کر کہا تھا کہ وہ چلی گئی ہے۔ طغرل نے پوچھا تھا کہ جب وہ جا رہی تھی تو اس نے اسے کیوں نہیں بتایا تھا؟ جس پراس کا جواب تھا کہ یولیا نے اسے بتانے سے منع کر دیا تھا۔ طغرل نے سوچا تھا شاید وہ کسی کے ہاں جا کربیٹھ گئی ہو کیونکہ وہ بلڈنگ نزدیک تھی جس میں طغرل کا "رابطہ آفس" اور اس کی پہلی رہائش یعنی دمتری کا کوارتیرا تھا، وہ دونوں کے مالکان سے شناسا تھی۔ اس نے دونوں جگہوں پرجا کردیکھا تھا پروہ نہیں مل سکی تھی۔ جب اس کے گھر ٹیلیفون کیا تواس کی ماں نے کہا تھا کہ وہ ابھی نہیں پہنچی۔ بعد میں فون نہیں اٹھایا تھا اوراگلے روزکہہ دیا تھا کہ وہ اپنی سہیلی سنیزیانا کے ہاں گئی ہوئی ہے۔ غرض اس نے ہمیشہ کے لیے رابطہ توڑ لیا تھا۔ کہیں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کچھ دیر جا کر دمتری کی ماں کے کوارتیرے میں بیٹھی رہی تھی اورانہیں بتایا تھا کہ طغرل پیے ہوئے ہے اوراسے پیٹنا چاہتا ہے، اس پر دمتری کی ماں نے دمتری کو منع کر دیا تھا کہ مت بتانا یولیا کہاں ہے۔ دو تین سال بعد معلوم ہوا تھا کہ اس نے سعد سے شادی کر لی تھی۔ اگلے روز طغرل بہت بور رہا تھا اور یونہی مرکز میں سڑکیں ناپتا پھرا تھا۔
حامد نے اپنے کچھ "لیلوں" کو دمتری کا کمرہ کرائے پر دلوا دیا تھا اور دمتری اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ "لیلے" ان نوجوانوں کو کہا جاتا تھا جنہیں ایجنٹ حضرات آگے بھجواتے تھے۔ طغرل کبھی کبھاران نوجوانوں سے بھی ملنے چلا جاتا تھا کیونکہ ایک تو وہ نسبتا" پڑھے لکھے لڑکے تھے دوسرے ان کا تعلق دمتری کے ساتھ تھا اس طرح وہ ان کے اور دمتری کے درمیان رابطہ بھی تھا اگرچہ زبان تو اس کو بھی واجبی سی آتی تھی لیکن یہ لڑکے تو یکسر نابلد تھے۔ دو روز پہلے یولیا اس کوارتیرا کے سامنے والے کوارتیرا میں چھپ کر بیٹھی ہوئی تھی مگراسے معلوم نہیں تھا ورنہ کوئی بعید نہیں تھا کہ نشے میں چڑھے غصے کے سبب اسے واقعی جسمانی گذند پہنچا دیتا۔ مگر آج وہ نشے میں نہیں تھا، دن کا وقت تھا کوئی دو تین بجے وہ ان لڑکوں کے ہاں پہنچا تھا۔ گپ شپ کے دوران کسی کا فون آ گیا تھا۔ ان میں سے ایک نے فون سنا تھا اور "دا" دا" یعنی ہاں ہاں کہنے پر ہی اکتفا کیا تھا کیونکہ اسے اتنی ہی زبان آتی تھی پھر وہ طغرل سے مخاطب ہو کر بولا تھا "سر شاشا دعوت پر بلا رہا ہے، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ ہمیں زبان نہیں آتی"۔ "کون ساشا؟" طغرل نے پوچھا تھا۔ "وہ جی جب آپ پچھلی بار ہمیں باہر ملے تھے تو ایک لڑکے نے آپ کو سلام نہیں کیا تھا۔ بڑا اچھا لڑکا ہے جی۔ اپنی ہم جماعت لڑکیوں کو لے آتا ہے، ہمارا وقت گذر جاتا ہے"۔ طغرل کو یاد آ گیا تھا کہ ایک نوعمر لڑکا عموما" باہر کھڑا ہوتا ہے، بڑے ادب سے اسے سلام کرتا ہے بلکہ ہاتھ میں پکڑا جلتا ہوا سگریٹ ہاتھ پیٹھ کی جانب لے جا چھپا لیتا ہے۔ طغرل کو لگتا تھا کہ وہ اچھے والدین کا بچہ ہے مگر نام اس لڑکے سے معلوم ہوا تھا جو ساشا کو شاشا کہہ رہا تھا۔
چار بجے کے قریب وہ لفٹ کے ذریعے تیرہویں منزل سے آٹھویں منزل پر اترے تھے جہاں ساشا نے آنے کو کہا تھا۔ لفٹ کا دروازہ کھلتے ہی دو زینوں کے درمیان والی بڑی جگہ پر کچھ لوگ کھڑے تھے جن میں ساشا بھی تھا۔ اس نے سلام کیا تھا اورایک خوش شکل مسکراتی خاتون سے تعارف کراتے ہوئے بولا تھا یہ میری ماں ہے نینا۔ ایک پاؤں اٹھا کر دیوار پر ٹکائے، ہاتھ میں سگریٹ پکڑے یہ خاتون لگتا تھا کہ لفٹ کا دروازہ کھلتے ہی طغرل کے قلب و ذہن میں اتر گئی تھی۔ اسے دیکھ کر اس کے من میں جو ہیجان پیدا ہوا تھا وہ اسے ہیجان کی بجائے سکون لگا تھا۔ وہ بہت ہنس مکھ اورمہذب خاتون تھی۔ ایک دو منٹ کے بعد وہ ان چاروں یعنی طغرل اور تین نوجوانوں کو اپنے کوارتیرے کے باورچی خانے میں لے گئی تھی اور سب کو "پین کیک" کھلائے تھے۔ اس نے بتایا تھا اس ملک میں اس پکوان کو "بلینی" کہا جاتا ہے۔ طعام سے فارغ ہو کر اس نے انہیں نزدیکی پارک کی سیر پر چلنے کی دعوت دی تھی۔
غالبا" اتوار کا دن تھا جب روایت کے مطابق اس پارک میں علاقے بھر کے بوڑھے جنہیں یہاں " پینسیونیر" یعنی پنشن یافتہ کہا جاتا ہے، پارک کے ایک چوک میں موسیقی لگا کر ایک طرح سے "ڈسکو تھیک" بنا لیتے ہیں اوررقص کرتے ہیں۔ طغرل کو ان معمر لوگوں کا زندگی سے پیار کرنے کا یہ طریقہ اچھا لگا تھا جس میں وہ خود کو جوان پیش کرنے کی سعی کر رہے تھے۔ اس ایک ڈیڑھ گھنٹے کی "واک" میں نوجوان ساشا کے ہمراہ رہے تھے اور طغرل نینا کے ۔
وہ گھر لوٹ آیا تھا۔ یہ نہیں کہ نینا اس کے ذہن پر سوار ہو گئی تھی مگر وہ اسے باقی لوگوں سے مختلف لگی تھی۔ اس کو پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ کسی کے ساتھ جسمانی تعلق کی آرزو میں روحانی تعلق وابستہ ہونے کی امید بھی پنہاں ہو سکتی ہے۔ وہ چند روز بعد ویسے ہی اسے ملنے گیا تھا مگر "کمیونالنایا کوارتیرا" میں مقیم اس کی ساتھی عورت نے جو بہت اچھی انگریزی بولتی تھی بتایا تھا کہ نینا گھر پر موجود نہیں۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا تھا کہ نہ تو کوارتیرا "کمیونالنایا" تھا بلکہ نینا کے دوسرے خاوند کا کوارتیرا تھا جوفوت ہو چکا تھا اورنہ دوسری خاتون جو نینا کی تقریبا" ہم عمر لگتی تھی اس کی ساتھی تھی بلکہ اس کے آنجہانی خاوند کی پہلی بیوی سے بیٹی تھی۔ ایک کمرے میں نینا اور اس کا بیٹا ساشا رہتے تھے اور دوسرے کمرے میں اس کے آنجہانی خاوند کی بیٹی سویتا اپنے تاتارخاوند رستم اورایک بیٹے کے ساتھ مقیم تھی۔
طغرل کو یوں لگنے لگا تھا جیسے عاصم اسے اس ملک میں بھیج کر بھول چکا ہے۔ کوئی رابظہ نہیں تھا۔ اس کے ٹکٹ کی مدت ایک بارپھرتمام ہو گئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ٹکٹ خریدے تو گھرکا کرایہ کیسے دے گا؟ جانے سے پہلے گھر کا کم ازکم دوماہ کا کرایہ تو دینا ہی چاہیے تھا تاکہ مالکہ اس کی غیر موجودگی میں گھرکسی اورکو نہ دے دے۔
حامد کے پاس آنے والے "ایجنٹوں" میں اسے ایک تو گجرات کا ایجنٹ سیانا لگتا تھا۔ جسے طغرل "چھکا بھائی" کہنے لگا تھا کیونکہ وہ شاطرشخص جو تقریبا" ان پڑھ تھا اورجس کی بیوی رومانیہ نژاد وکیل تھی، اکثر خاموش رہتا تھا پر جب کچھ کہتا تھا تو ایسے جیسے گفتگو میں چھکا دے مارا ہو۔ اس نے شاید اپنے نیم غیر قانونی کام کو قانونی تحفظ دینے کی خاطررومانیائی وکیل خاتون سے رشتہ بنایا تھا۔ اس کے بارے میں ایک قصہ معروف تھا جو اگرچہ لگتا غیر درست تھا مگر تھا علامتی نوعیت کا۔
قصہ یوں ہے کہ "چھکا بھائی" دیہاتوں سے یورپ پہنچائے جانے کی خاطر لائے اپنے چند " لیلوں" کے ساتھ مشرقی یورپ کے کسی ملک کے کسی شہر کے ایک اپارٹمنٹ میں بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی تھی۔ اس نے ان میں سے کسی "لیلے" سے کہا تھا، " پانی کا گلاس بھر لاؤ"۔ اس لڑکے نے گلاس میں پانی لا کر دے دیا تھا، وہ باتیں کرتا کرتا پانی پی گیا تھا۔ اسے لگا تھا کہ پانی بہت تھوڑا تھا۔ اس نے پوچھا تھا،" اوئے، طیفے آ، ایناں گھٹ پانی کیوں لیاندا ای؟" طیفے نے جواب تھا، "اوہ جی کھوئی اچ پانی ای اینا سی"۔ چھکے بھائی کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ اس نے دوسرے لڑکے سے کہا تھا جا کردیکھو یہ "کھوئی" کس چیزکوکہہ رہا ہے۔ دراصل وہ لڑکا اتنا دیہاتی تھا کہ اس بیچارے نے ٹونٹیاں کبھی استعمال نہیں کی تھیں چنانچہ وہ کموڈ کی تہہ میں کھڑے پانی سے آدھا پونا گلاس بھر لایا تھا۔
اسی طرح ایک بارجب طغرل، حامد، چھکا بھائی اورچند دوسرے لوگوں کے ساتھ میکڈونلڈ کی جانب جا رہا تھا، یہ لوگ آپس میں اپنے پیشے سے متعلق باتیں کر
رہے تھے۔ وہ بار بار لفظ "ڈنکی" استعمال کر رہے تھے۔ چھکا بھائی نے طغرل سے پوچھا، "آپ کو پتہ ہے کہ ڈنکی کیا ہے؟" طغرل نے جواب دیا تھا کہ ہاں۔ اس نے پوچھا تھا کہ آپ کے خیال میں یہ کیا ہوتا ہے؟ طغرل کو سوال عجیب سا لگا تھا پھر بھی اس نے کہا تھا کہ یا تو ایک طرح کے واٹر پمپ کو "ڈنکی پمپ" کہا جاتا ہے یا انگریزی زبان میں گدھے کو۔ چھکا بھائی مسکرا دیا تھا اوربولا تھا، "اسی لیے تو میں نے آپ سے پوچھا تھا کیونکہ یہ ان دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے"۔ پھر اس نے بتایا تھا کہ غیرقانونی طورپرسرحد عبورکرنے کو"ڈنکی مارنا" کہا جاتا ہے اوراس کام میں رہنمائی کرنے والے کو "ڈنکر" کہتے ہیں۔ اس نے اس عمل کی جو تفصیل طغرل کو بتائی تھی وہ دلچسپی سے خالی نہیں تھی۔
دوسرا ایجنٹ جس سے طغرل کی دوستی ہو گئی تھی وہ اردو بولنے والا، تھوڑا سا فربہ، سیاہی مائل نرم گفتار شخص رئیس تھا۔ رئیس اس کام میں ملوث ہونے سے پہلے کوئی سرکاری ملازم رہا تھا۔ وہ طغرل کے ساتھ اکثراس کے گھرآ جایا کرتا تھا۔ طغرل نے سوچا تھا کہ اس پر اپنا تذبذب واضح کر دے۔ چناچہ طغرل نے جب اس سے گھر کے ہاتھ سے جانے نہ دینے سے متعلق بات کی تو رئیس نے کہا تھا کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کرایہ وہ ادا کرتا رہے گا اور طغرل کی واپسی تک خود اس گھر میں رہے گا۔ طغرل کے ذہن سے بوجھ ہٹ گیا تھا۔
اس اثنا میں یکے بعد دیگرے دو واقعات ہو چکے تھے۔ ایک تو یہ کہ طغرل نے مناہل سے بات کرنے کی خاطرفون بک کروایا ہوا تھا۔ فون آپریٹرفون کسی بھی وقت ملا سکتے تھے۔ اس رات وہ زیادہ ہی پی گیا تھا۔ پینے میں اس کا ساتھی حسام تھا جواس رات مذاق میں ایک فحش گالی بار بار دہراتا رہا تھا اور قہقہے لگاتا رہا تھا۔ پھر وہ علیحدہ علیحدہ کمروں میں جا کر سو رہے تھے۔ فون طغرل کے کمرے میں تھا۔ فون کی گھنٹی بجنے پراس نے ریسیور اٹھایا تھا۔ حسام کی مذاق میں دی گئی گالی اس کے دماغ میں کہیں اٹک کر رہ گئی تھی۔ دوسری طرف مناہل تھی جو کچھ کہنے کی کوشش کررہی تھی مگر طغرل مسلسل وہی گالی دہرائے جا رہا تھا۔ ادھر مناہل کا پارہ چڑھتا تھا، ادھر اس کی گالی کی آواز زیادہ اونچی ہو جاتی تھی، پھر مناہل کی بجائے کوئی مرد بار بار طغرل صاحب، طغرل صاحب کہہ رہا تھا لیکن موصوف گالی دینے کے علاوہ کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔ پھر کسی نے اس کے ہاتھ سے ریسیورلے لیا تھا اوروہ سوگیا تھا۔
صبح جب طغرل جاگا تو حسام نے اسے بتایا تھا ، "لگتا ہے آج بھابی مناہل نے آپ کو طلاق دے دی ہوگی"۔ اس کو کچھ یاد نہیں رہا تھا۔ اس نے حسام سے پوچھا کہ کیا تمہیں اس بارے میں کوئی خواب آیا ہے۔ حسام نے رات کی حقیقت سے اسے آگاہ کیا تھا اوربتایا تھا کہ اس کے ہاتھ سے ریسیوراس نے آ کرپکڑا تھا پھرمناہل سے اس نے خود بات کی تھی جس نے کہا تھا کہ اپنے دوست کو بتا دینا کہ وہ صبح اسے طلاق دے دے گی۔
طغرل تھوڑا بہت جزبز ہوا تھا پھر حسام سے کہا تھا "چھوڑو یار، یہ عورتیں دھمکیاں دیتی رہتی ہیں۔ چلو چل کر بیئر پیتے ہیں تاکہ رات کا چڑھا نشہ تو اترے۔ وہ باہرنکل گئے تھے اورسڑک پرجا کر بیئرکی بوتلیں خرید کر پینے لگے تھے۔
اگلے روزطغرل نے پھرمناہل سے بات کرنے کے لیے فون ملایا تھا جو بروقت مل گیا تھا۔ اس نے بقائمی ہوش وحواس مناہل سے باتیں کی تھیں۔ مناہل نے کہا تھا کہ اس نے طغرل کے اس روز کے رویے پر رنجیدہ ہو کرطغرل کو تقریبا" طلاق دے ڈالی تھی مگر "میں نے تمہارے دودوستوں کے کہنے پر تمہیں معاف کر دیا" مناہل نے کہا تھا ۔ مناہل نے جن دو افراد کے نام لیے تھے، ان میں ایک تو واقعی طغرل کا دوست تھا مگر دوسرا جس کا وہ نام تک نہیں جانتا تھا یعنی حیدروڑائچ وہ بھلا اس کا دوست کیسے ہو سکتا تھا۔ جب اس نے مناہل سے پوچھا تھا کہ تم میرے سارے دوستوں کو جانتی ہو پھر یہ کون ذات شریف ہے جسے تم میرا دوست بتا رہی ہو؟ اس نے کہا کہ اسے نہیں معلوم مگرحیدر وڑائچ کا دعوٰی ہے کہ وہ تم سے ملتا رہا ہے۔ پھربتایا تھا کہ وہ بہت اچھا آدمی ہے۔ طغرل سے اس پر زیادہ بحث نہیں کی تھی۔
طلاق تو عموما" مرد دیتے ہیں۔ مناہل بھلا کیونکر کہہ رہی تھی کہ وہ طغرل کو تقریبا" طلاق دے چکی تھی۔ اس کے پس پشت یہ حقیقت رہی تھی کہ جب طغرل پہلی بار باہرسے لوٹا تھا اور مناہل کے اندر کے ڈر کو اس کا وہم سمجھتے ہوئے نظر انداز کرکے کراچی چلا گیا تھا تو وہاں اس نے عاصم سے کہا تھا کہ میں بڑے مخمصے میں پھنسا ہوا ہوں، مجھے کسی وکیل سے ملواؤ تاکہ اہلیہ کی جانب سے روزانہ طلاق کے مطالبوں کا کچھ مداوا ہوسکے۔ عاصم نے اسے ایک بزرگ بیرسٹرکے پاس بھیج دیا تھا۔ جنہوں نے بتایا تھا کہ نکاح نامے میں ایک شق ہوتی ہے جس کے تحت عورت کو حق طلاق تفویض کیا جا سکتا ہے، چنانچہ آپ اسے ایک خط لکھیں اوراسے حق طلاق تفویض کر دیں۔ جب حق طلاق اس کے پاس ہوگا تو وہ مطالبہ نہیں کرے گی۔ طغرل نے کہنہ مشق بیرسٹر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مناہل کو حق طلاق تفویض کر دیا تھا۔
طغرل نے ماسکو سے تاشقند کے راستے اسلام آباد کے لیے ٹکٹ خرید لیا تھا۔ جانے سے دو چار روز پہلے اس نے جب مناہل کواپنی آمد سے متعلق آگاہ کرنے کی خاطراسے فون کیا تھا تو وہ بہت زیادہ رو رہی تھی۔ کہہ رہی تھی، وہ برباد ہو گئی ہے۔ گھر سے اس کے سونے کے زیورات چرا لیے گئے تھے، جن کا وزن کوئی آدھ کلوگرام ہوگا۔ طغرل کو مناہل کی سونے کے زیوارت کی خریداری اور ان کا بے جا استعمال بالکل نہیں بھاتا تھا۔ وہ اس سے کہا کرتا تھا کہ میرا دل کرتا ہے میں تمہیں سونے کی قبر میں دفنا دوں۔ بعض اوقات اسے ڈر بھی لگتا تھا کہ اس نے دونوں کلائیوں پراوپرنیچے سونے کے کڑوں کے درمیان کوئی بارہ بارہ سونے کی چوڑیاں چڑھائی ہوتی تھیں۔ طغرل نے اسے ایک بار باقاعدہ سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا کہ کوئی تمہارا بازو کاٹ کر نہ لے جائے۔
طغرل اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے راولپنڈی میں رہائش پذیر ایک دوست کے ہاں پہنچا تھا۔ دو تین گھنٹے آرام کرنے کے بعد کوچ میں سوار ہو کرروانہ ہوا تھا۔ اس کی اہلیہ اور بچے جی ٹی روڈ پر واقع ایک قصبے میں مقیم تھے۔ رات تقریبا" آٹھ بجے وہ گھر کے سامنے اترا تھا۔ گھنٹی بجانے پر ملازم نے آ کر دروازہ کھولا تھا۔ طغرل زنجیر سے بندھے، دیوار پر بیٹھے ایک بندراورپورچ کے ستون کے ساتھ زنجیر سے باندھے گئے السیشن کتے کو دیکھ کر لمحے بھر کو حیران ہوا تھا مگر یہ سوچ کر کہ لوگ اکثر نقصان ہو جانے کے بعد ہی جب حفاظت کرنے کو کچھ باقی نہیں رہتا حفاظتی اقدامات بہت تیزی سے کرتے ہیں چنانچہ اب ان "محافظ جانوروں " کی موجودگی ان کومحتاط کرنے کے لیے تھی جو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
ڈرائنگ روم کی کھڑکی کے شیشوں میں سے طغرل کو مناہل، کچھ مرد مہمانوں کے ساتھ محو گفتگو دکھائی دی تھی۔ ڈرائنگ روم گھر کا دروازہ کھلتے ہی دائیں جانب تھا۔ جب طغرل گھر میں داخل ہوا تو مناہل اسے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ دونوں مہمان مرد بھی اپنی نشستوں سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔ مناہل نے مہمانوں کا تعارف کرایا تھا جن میں ایک تو مقامی ڈاکٹرتھے جوپرائیویٹ کلینک چلاتتے تھے، جن کے نام سے طغرل واقف تھا۔ دوسرا شخص وہی حیدر وڑائچ نام کا تھا جس کو مناہل نے طغرل کا دوست بتایا تھا۔ اسے اس کی شکل کچھ جانی پہچانی لگی تھی مگر اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ اس سے کہاں اور کیوں ملا تھا۔ دونوں مہمانوں نے مسکراتے ہوئے طغرل کے ساتھ مصافحہ کیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب تو دوچار منٹ بعد اجازت لے کر رخصت ہو گئے تھے مگر حیدروڑائچ بیٹھا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے مناہل سے پوچھا تھا کہ میں چلوں مگر مناہل نے اس سے کہا تھا کہ ایسی کیا جلدی ہے۔ یہ آ گئے ہیں، گپ شپ لگائیں، میں کھانے کا انتظام کرتی ہوں، کھانا کھا کر جانا۔ طغرل کو کھٹکا ہوا تھا کہ مناہل اس کو عام مہمان کے طور پر نہیں لے رہی۔
دوران گفتگو اس نے بتایا تھا کہ وہ ایک بار طغرل کے دفتر میں کسی کام کے سلسلے میں آیا تھا اور اس کے ساتھ دس پندرہ منٹ بات چیت کی تھی۔ طغرل کو پھر اچنبھا ہوا کہ دس پندرہ منٹ کی رسمی گفتگو کے بعد اس نے خود کو مناہل کے سامنے طغرل کا دوست کیوں ظاہر کیا؟ تاہم اخلاق کا تقاضا تھا کہ وہ مناہل سے زیادہ آشنا ہے اس لیے کوئی استفسار نہ کیا جائے البتہ طغرل کو کچھ یاد آیا تھا تو اس نے اس سے پوچھ لیا تھا کہ آپ تو جب ملنے آئے تھے تو وردی میں تھے، غالبا" پولیس کی وردی میں تو آپ کا تعلق کیا پولیس کے ساتھ ہے؟ حیدروڑائچ نے ایک معنی خیزمسکراہٹ کوخجالت کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا،" طغرل صاحب، روزی روٹی تو کمانی ہے۔ جی ہاں اسی بدنام ادارے سے وابستہ ہوں۔ میں چند ماہ پیشتر آپ کے گھر کے ساتھ جو تھانہ ہے وہاں ایس ایچ او تعینات ہوا ہوں"۔
طغرل اس سے معذرت کرکے گھر کے اندر گیا تھا۔ بچے ٹی وی پر کوئی گیم کھیلنے میں مصروف تھے۔ شاید ان کی ماں نے انہیں بتایا بھی نہیں تھا کہ ان کے پاپا آ گئے ہیں۔ وہ اسے دیکھ کر بہت حیران اور خوش ہوئے تھے لیکن جلد ہی پھر سے اپنی گیم کی جانب راغب ہو گئے تھے۔ طغرل نے منہ ہاتھ دھویا تھا۔ مناہل نے اس کی شلوار قمیص پہلے ہی الماری سے نکلوا کر رکھوا دی تھی۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے تھے اور اپنے سامان سے شیمپین کی دو بوتلیں نکالی تھیں۔ مناہل کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔ بوتلیں دیکھ کر کہا تھا، "کھانے سے پہلے اگر پینی ہے تو حیدر کو بھی مدعو کر لو، وہ بھی پینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا"۔
مئی کا مہینہ تھا۔ ڈرائنگ روم میں ایر کنڈیشنر نہیں تھا۔ ایر کنڈیشنر صرف بیڈ روم میں تھا۔ طغرل نے حیدرسے کہا تھا کہ آئیے اندر چلتے ہیں، یہاں قدرے گرمی ہے۔ حیدر بلا حیل وحجت اس کے ساتھ ان کے بیڈ روم میں چلا گیا تھا۔ مناہل پہلے ہی زمین پر پلاسٹک کی چادر بچھا چکی تھی جس پر بوتلیں اور گلاس رکھے ہوئے تھے۔ طغرل نے ہنس کر کہا تھا،"چلو بھائی میرے لوٹنے کی خوشی منا لیتے ہیں" دونوں قالین پر بیٹھ گئے تھے۔ طغرل نے شیمپین کھولی تھی اور دونوں پینے لگے تھے۔
حیدروڑائچ نے زیورات کی چوری کا قصہ چھیڑ دیا تھا۔ اس اثنا میں مناہل بھی آ کر ذرا ایک طرف ہٹ کران کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔ جب پولیس والا چوری کی تفصیلات بتا رہا تھا تو مناہل نے رونا شروع کر دیا تھا۔ طغرل کو زیورات چوری کی کہانی میں کئی جھول محسوس ہوئے تھے۔ حیدر نے نگاہیں اٹھائے بغیر مناہل سے مخاطب ہو کرکہا تھا،"آپ پریشان نہ ہوں، ہم چور ڈھونڈ نکالیں گے اورآپ کا زیور برآمد کرکے چھوڑیں گے"۔ طغرل کو اس کی کہی یہ بات بالکل کھوکھلی لگی تھی۔ پھر انہوں نے کھانا کھایا تھا اور وہ اجازت لے کر رخصت ہو گیا تھا۔
مناہل کو زیورات کی چوری کے غم اور طغرل کو اس نووارد شخص بارے شک نے ایک دوسرے کے اس طرح قریب نہیں آنے دیا تھا جس طرح انہیں کافی مہینوں سے بچھڑے ہوئے میاں بیوی کی طرح قریب ہونا چاہیے تھا۔ طغرل نے اسے باورکرانے کی کوشش کی تھی کہ کہیں اس چوری میں اس پولیس والے کا ہاتھ تو نہیں ہے۔ مناہل سیخ پا ہو گئی تھی کہ تم اس شخص کو جانتے تک نہیں ہواور اس پر شک کررہے ہو۔ طغرل کو یہ بات بھی عجیب لگی تھی کہ کہاں تو مناہل حیدروڑائچ کو اس کا دوست بتا رہی تھی اور کہاں یہ کہہ رہی ہے۔ پھر مناہل نے اپنے اس نئے شناسا شخص کے گن گانے شروع کیے تھے۔ طغرل کچھ نہیں بولا تھا اور وہ دونوں اپنے اپنے بیڈ پر سو گئے تھے۔
اگلے روز جب اس کے ملازم کو جو طغرل کی بہت تعظیم کرتا تھا طغرل کے ساتھ علیحدگی میں بات کرنے کا موقع ملا تو اس نے کہا تھا،"سر معاملہ سنبھال لیں۔ یہ صاحب سارا سارا دن آ کر بیٹھے رہتے ہیں۔ لوگ باتیں بنانے لگے ہیں۔ ابھی تو صرف زیورچوری ہوئے ہیں کہیں بڑا نقصان نہ ہو جائے"۔ طغرل نے اس کی باتوں کا برا نہیں منایا تھا مگر ظاہر نہیں کیا تھا کہ اس کی باتیں درست ہیں بلکہ اس کو کسی کام کا کہہ کر معاملہ ادھرادھرکردیا تھا۔
طغرل دن میں کسی بہانے سے مناہل کو ساتھ لے کراس قصبے کے بازار میں ہراس دکاندارکے پاس گیا تھا جو واقف تھے۔ طغرل کے ذہن میں ایک ہی مقصد تھا کہ لوگ جان لیں میاں بیوی میں کوئی اختلاف نہیں۔ طغرل کو لگا تھا کہ یہ دورہ کامیاب رہا ہے۔ گھر پہنچے تو حیدروڑائچ پہلے سے موجود تھا مگر بغیروردی کے۔ اس کو دیکھتے ہی مناہل نے چہک کر کہا تھا،"اچھا ہوا تم نے آ کر یا دلا دیا کہ ہمیں کام سے کہیں جانا ہے"۔ وہ دونوں حیدرکو ڈرائنگ روم میں بیٹھا چھوڑ کر گھرمیں داخل ہو گئے تھے اور مناہل جانے کی تیاری کرنے لگی تھی۔ اس نے طغرل کو درخوراعتنا ہی نہیں جانا تھا کہ اسے بتائے کہاں جا رہی ہے۔ بالآخر طغرل نے ہی پوچھا تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے؟ اس نے بتایا تھا کہ ساتھ کے بڑے شہر میں کوئی عامل ہے جس کے پاس سنا ہے جن آتے ہیں اور اسے معلومات دیتے ہیں۔ طغرل بھنّا کر رہ گیا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی دوست بیوی اتنی توہم پرست ہو سکتی ہے۔ تاہم اس نے سوچا تھا کہ بیچاری کا بہت نقصان ہوا ہے۔ ایسے میں انسان ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق ہو جاتا ہے، چلو کوئی بات نہیں۔
جب وہ جانے لگے تو طغرل نے کہا تھا میں بھی ساتھ جاؤں گا، مجھے بھی جن دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ مناہل جیسے پھٹ پڑی تھی۔ سب کے سامنے بلند آواز میں کہا تھا،" تم کیوں جاؤ گے۔ تمہیں میرے نقصان سے کیا لینا دینا؟ تم سیریں کرتے پھرواورعیش کرو"۔ اس سے پہلے کہ طغرل اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیتا اور بات بڑھ جاتی، حیدروڑائچ نے مناہل کو مخاطب کرکے کہا تھا،"کیا حرج ہے، یہ بھی ساتھ چلیں"۔ مناہل نے کہا تھا کہ گاڑی میں جگہ ہی نہیں۔ حیدر نے کہا تھا،" ملازم کے جانے کی تو کوئی ضرورت نہیں۔ وہ نہ جائے یہ ساتھ چلے چلیں" مناہل نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
مناہل کا منہ پھولا ہوا تھا۔ حیدروڑائچ گاڑی چلا رہا تھا، جو ظاہر ہے طغرل کی تھی۔ مناہل کو "موشن سنڈروم" تھا جس میں متحرک سواری میں بیٹھنے والوں کو متلی ہوتی ہے چنانچہ وہ اس سبب ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھی تھی۔ پچھلی نشست پر طغرل کے ہمراہ دو انجان افراد تھے جو اس عامل کو جانتے تھے۔
اس شہر میں پہنچے تو انہیں ایک بیٹھک نما کمرے میں لے جا کر اس دری پر بٹھا دیا گیا تھا جس پر پہلے سے آٹھ دس مزید افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔ کمرے میں اندھیرا چھا گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں چمکنے والی چھوٹی سی ڈلی جیسی کوئی شے ہوا میں متحرک ہوئی تھی۔ باریش ادھیڑ عمر عامل نے سرگوشی میں کہا تھا، "وہ آ گئے ہیں، سب کھڑے ہو جائیں" طغرل کو یہ شعبدے بازی بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی مگر وہ بھی سب کے ساتھ کھڑا ہو گیا تھا۔ ایک لمحے کو اس کا دل کیا تھا کہ ان فریبیوں کے ہاتھوں میں حرکت کرتے اس فاسفورس کے ٹکڑے کو ہاتھ مار کرگرا دے مگراس نے ایسا اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ ناپسندیدہ شریک عمل تھا۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا تھا۔ عامل نے سرگوشی ہی میں کہا تھا کہ انہوں نے بتایا ہے چور گھر میں سے کوئی ہے۔
واپس آتے ہوئے سب اسے ڈھکوسلہ کہہ رہے تھے۔ لے جانے والے لوگ چپ بیٹھے رہے تھے۔ گھر پہنچنے کے بعد بھی خاتون کا مزاج درست نہیں ہوا تھا۔ طغرل نے اس شعبدے پرزیادہ تبصرہ آرائی نہیں کی تھی۔ لوٹنے کے بعد مناہل اور حیدر ڈرائنگ روم میں پہلے سے بیٹھے ایک مقامی صحافی کے پاس بیٹھ گئے تھے اورطغرل گھر کے اندرچلا گیا تھا۔ کوئی ایک گھنٹے بعد جب وہ یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ان کی باتیں تمام ہوئیں یا جاری ہیں، ڈرائنگ روم میں آیا تھا تو مناہل نے بڑی سرد مہری سے طغرل سے کہا تھا،" آپ جائیں، میں ان لوگوں سے بات کر رہی ہوں"۔ ایک لمحے کو طغرل کا دماغ گھوم گیا تھا۔ وہ یہ بھی کر سکتا تھا کہ دونوں مردوں کو چلتا کرتا بلکہ ان کو چلتا کرنے سے پہلے مناہل کو بالوں سے پکڑ لیتا مگر اس نے نہ ایسا کرنا تھا نہ ہی کیا بلکہ وہی طریقہ اختیار کیا تھا جو کوئی مہذب آدمی اختیار کرتا ہے۔ وہ خاموشی سے لوٹ گیا تھا۔
شام ہو چکی تھی۔ حیدراورمقامی صحافی جا چکے تھے۔ مناہل بھی بیڈ روم میں آرام کرنے کی خاطر لیٹ گئی تھی۔ طغرل اپنے پلنگ پر بیٹھا سامنے رکھے ٹی وی پرکوئی پروگرام دیکھ رہا تھا۔ مناہل نے خود بات چھیڑی تھی اور پوچھا تھا کہ تمہیں کیا لگتا ہے کہ کہیں ہمارے ملازم نے تو چوری نہیں کیے زیور؟ طغرل نے اسے سمجھایا تھا کہ ملازم پندرہ سال کی عمرسے ان کے ہاں ہے جو بائیس تیئیس برس کا ہو چکا ہے۔ وہ ہمارے بچوں کی طرح ہے۔ وہ ہماری خدمت ملازموں کی نسبت بیٹوں کی طرح زیادہ کرتا ہے، اس کو کیا ضرورت پڑی کہ ایسا جرم کرے؟ "کیا پتا، دماغ تو کسی کا بھی خراب ہو سکتا ہے" مناہل بولی تھی۔ "کچھ لوگوں کا دماغ کبھی خراب نہیں ہوتا" طغرل نے کہا تھا اور ساتھ ہی سمجھانا شروع کر دیا تھا کہ پولیس والوں کی نفسیات کسقدر مجرمانہ ہوتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ پولیس کی معاونت کے بغیرکم ہی جرم ہیں جو ہو سکتے ہوں۔ وہ دیوانی توتھی نہیں سمجھ گئی تھی کہ طغرل حیدروڑائچ پر شک کر رہا ہے۔ "حیدر کا نام نہ آئے اس معاملے میں ورنہ اچھا نہیں ہوگا" مناہل نے اچھی خاصی اونچی آواز میں کہا تھا۔ طغرل نے ایک بار پھرمناسب جانا تھا کہ خاموش رہنا بہترہے۔
رات کٹ گئی تھی۔ ملازم نے آ کر کہا تھا کہ آپ دونوں کو نادرچوہدری صاحب کے بڑے بھائی نے بلایا ہے کہ تین بجے سہ پہر ان سے آ کرملیں۔ مناہل گھر کے کاموں میں مصروف رہی تھی اور طغرل بچوں کےساتھ کھیلتا اور گپ شپ لگاتا رہا تھا۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیراستراحت کی تھی پھر طغرل نے کہا تھا چلیں چوہدری ابراہیم کی طرف۔ مناہل نے کہا تھا، تم چلے جاؤ تمہیں اپنے دوست نادر سے بھی گپ شپ کرنی ہوگی میں بعد میں آ جاؤنگی چنانچہ وہ چلا گیا تھا۔ وہ ان کے ہاں جا کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا تھا۔ ملازم نادرچوہدری کو اطلاع کرنے چلا گیا تھا۔ تھوڑی دیرمیں نادرڈرائنگ روم میں داخل ہوا تھا۔ وہ آپس میں گلے ملے تھے اور بیٹھ گئے تھے۔ نادر نے اس سے کہا تھا کہ اب تم کہیں مت جانا، معاملات اتنے درست نہیں جتنے ہونے چاہییں۔ نادرکے ساتھ طغرل کا یارانہ تھا۔ وہ اس سے ہروہ بات کرسکتا تھا جو کسی سے کرنے کے قابل نہیں ہوتی تھی۔ اگرچہ ان دونوں کے مزاج اور خیالات میں بہت فرق تھا مگر وہ ایک دوسرے کو سمجھتے تھے۔ نادر چوہدری باوجود بڑے زمیندارسیاسی خاندان کا فرد ہونے کے مذہب کی جانب میلان رکھتا تھا، اس نے زندگی میں سگریٹ تک نہیں چھوئی تھی، شراب کی بات تو دور کی رہی جب کہ طغرل رند کا رند تھا اورایک عرصے سے ہاتھ سے جنت بھی جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ مگر کل جب مناہل نے اسے غیروں بلکہ غیر پر تکیہ کرتے ہوئے اسے ان کی گفتگو میں مخل نہ ہونے کو کہا تھا، تب سے اسے لگا تھا کہ جنت کو ہاتھ میں رکھے رہنے کی کوشش کرنا بے سود ہے۔ اس نے یہی بات نادرسے کہی تھی۔ نادرنے کہا تھا کہ تم کچھ زیادہ ہی حساس ہو، ممکن ہے چوری سے متعلق کوئی ایسی بات ہو جس سے تم متفق نہ ہوتے اس لیے اس نے تم سے کہا ہوگا کہ انہیں تنہا چھوڑ دو۔ ابھی اس کا فقرہ تمام ہوا تھا کہ اس کے بڑے بھائی جو سیاسی رہنما تھے اورزمانہ چشیدہ بھی، ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تھے۔ انہوں نے طغرل کو چھوٹے بھائیوں کی طرح پیار سے گلے لگایا تھا پھر بیٹھ کر اسے سمجھانے لگے تھے کہ ابھی کچھ نہیں بگڑا، کہیں مت جاؤ، گھر سنبھال لو۔ وہ ان کی بات عموما" خاموش رہ کر سنا کرتا تھا جیسے بڑے بھائیوں کی بات سننے کی ریت ہے۔
تھوڑی دیر میں مناہل حیدروڑائچ کے ہمراہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔ وہ دونوں ایک صوفے پر معمولی سا فاصلہ رکھ کر بیٹھ گئے تھے۔ حیدروڑائچ نے اس طرف کا بازو جس جانب مناہل بیٹھی تھی لمبا کرکے مناہل کے پیچھے صوفے کی پشت پر سیدھا کر لیا تھا۔ طغرل نے نادرکو دیکھا تھا، نادر نے طغرل کو۔ جہاں دیدہ چوہدری ابراہیم کے چہرے پر بھی ناگواری کی ایک شکن پیدا ہوئی تھی۔ ان کے ہاں عورتوں کا بالکل علیحدہ صوفے پر بیٹھنے کا رواج تھا چہ جائیکہ خاوند کی موجودگی میں محض شناسا شخص کے ساتھ بیٹھا جائے۔ مگر وہ سیانے شخص تھے۔ طغرل سے مخالطب ہو کر کہنے لگے، "طغرل زیور چلا گیا، اللہ اور دے گا۔ اس معاملے کو آگے بڑھانے سے سرمیں خاک ہی پڑے گی"۔ وہ چوری کی آڑ میں بہت گہری بات کہہ گئے تھے۔ طغرل نے کہا تھا،" بھائی جان گرد تو اڑنی چاہیے چاہے وہ میرے سرمیں ہی کیوں نہ پڑے"۔ بہرحال اس گفتگو کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ مناہل نے نکلنے سے پہلے البتہ طغرل سے پوچھا تھا، "تم چلو گے؟" اس نے جواب میں کہا تھا،" نہیں میں بعد میں آؤں گا"۔ سب کے جانے کے بعد نادراورطغرل رہ گئے تھے۔ طغرل نے کہا تھا،" یارنادر دو طریقے ہیں یا تو میں روایتی شوہر بن جاؤں اور خاک اڑا دوں یا پھرشرافت کے ساتھ اس کی زندگی سے نکل جاؤں۔ تم نے دیکھ تو لیا ہے کہ بات کہاں تک جا چکی ہے"۔ نادر نے بس اتنا کہا تھا،"ہاں تم ٹھیک کہتے ہو"۔ پھر اس نے یاد دلایا تھا کہ جو تمہارے لچھن تھے میں نے کیا کہا تھا تمہیں:
نہ خدا ہی ملا ، نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے رہے
واقعی کئی سال پہلے، نادرنے حسب معمول طغرل کو سمجھانے کے بعد یہ شعر ایک پرزے پر لکھ کر کہا تھا، " اس کو محفوظ کر لو کسی خاص وقت کے لیے " طغرل نے ہنستے ہوئے وہ پرزہ کسی کتاب میں رکھ دیا تھا۔
رات کو مناہل نے اسے وہ کاغذ دکھایا تھا جس کے تحت اس نے عدالت میں جا کر حق طلاق استعمال کرتے ہوئے خلع لے لیا تھا جس پرطغرل کے دستخط ہونے باقی تھے اور کہا تھا کہ میں نہیں کہتی کہ تم اس پر دستخط کرو۔ طغرل نے اسے پڑھ کر کہا تھا، اس سے کیا فرق پڑتا ہے، اگر کوئی رہنا چاہتا ہے تو ایسے دس کاغذ بھی کچھ نہیں کر سکتے اور اگر کوئی رہنا نہیں چاہتا تو ایسے کاغذ کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ پھر ہنستے ہوئے کہا تھا لو میں اس پر دستخط کیے دیتا ہوں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
چوری کے معاملے پر طغرل کو یقین کی حد تک شک تھا کہ اس میں حیدروڑائچ کا ہاتھ ہے۔ اس شک کے اظہار پر ان کی ایک دوبارٹھنی بھی تھی۔ تاہم طغرل پروگرام کے مطابق دو ہفتوں کے قیام کے بعد کراچی چلا گیا تھا۔
طغرل کاروبارکی دنیا سے ناآگاہ تھا۔ وہ جن اعمال کو گناہ خیال کرتا تھا، جھوٹ بولنا ان میں سب سے پہلے شمار ہوتا تھا۔ اس کو جھوٹ بولنا کسی کو دھوکہ دینے کے مترادف لگتا تھا یعنی دوہرا گناہ۔ اسے عاصم کے دفتر میں بیٹھ کر معلوم ہوا کہ کاروبارمیں جب معاملہ لین دین کا ہو تو جھوٹ بولنا ایک عام سی بات تھی۔ اسے شاید زندگی کا پہلا جھوٹ ویں بولنا پڑا تھا۔ عاصم کے دفتر میں کسی کا فون آیا تھا۔ عاصم نے کہا تھا،"چچا ریسیوراٹھاو، اگراکبر کا فون ہے تو کہہ دینا کہ میں دفتر میں موجود نہیں ہوں۔ اس کو ایسا کرنا پڑا تھا، ظاہر ہے جھوٹ بول دیا تھا۔ وہ کوفت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ عاصم نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے پوچھا تھا، "کیا ہوا موڈ کیوں آف ہو گیا ہے؟" طغرل نے گلہ کیا تھا،" تم نے مجھ سے جھوٹ جو بلوا دیا"۔ عاصم کی بھنویں تن گئی تھیں،"چچا، کمال کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ میں اس شخص سے ملنا نہیں چاہتا، اس لیے تم سے کہلا دیا کہ میں موجود نہیں ہوں"۔ پھر اس نے تاویل دینا شروع کر دی تھی کہ ایسا جھوٹ بولنا گناہ ہوتا ہے جس سے کسی کو نقصان پہنچتا ہو وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال وہ طغرل کو اس ضمن میں قائل نہیں کر سکا تھا۔ طغرل کے نزدیک جھوٹ بس جھوٹ تھا۔
طغرل نے ضد کر لی تھی کہ جب تک عاصم ساتھ روس نہیں جائے گا وہ اکیلا وہاں واپس نہیں جائے گا۔ عاصم نے ساتھ جائے کا وعدہ کر لیا تھا کہ وہ جائے گا اور کمپنی رجسٹر کروا کر سب انتظامات کرکے آئے گا، لیکن اس کے کام تھے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ طغرل، عاصم کی چھوٹی بیگم کے گھر رہتا تھا۔ عاصم نے ایک گاڑی کی چابی اس کے حوالے کردی تھی۔ عموما" عاصم طغرل کو اپنے ساتھ دفتر لے جاتا تھا لیکن اگر کبھی دفتر کے بعد اسے سگریٹ خریدنے، وڈیو فلم کرائے پر انے یا کولڈ کافی پینے کی خواہش ہوتی تو وہ اس گاڑی کو استعمال کر لیا کرتا تھا۔
اسے کم و بیش تین ماہ کراچی میں رہنا پڑ گیا تھا۔ عاصم کے ساتھ دفتر جانے کے علاوہ جہاں وہ کاروبار کے اسرار و رموز سیکھنے کی کوشش کرتا تھا، طغرل عموما" کراچی پریس کلب میں چلا جایا کرتا تھا، جہاں اس کے کئی صحافی دوست تھے۔ اس طرح وہ اپنی نفسیاتی تسکین بھی کر لیا کرتا تھا، جیسے کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ طغرل کاروبار کی دنیا میں نووارد تھا، مگر اسے شعر و ادب اور علم و آگہی سے بہت پہلے سے علاقہ تھ
وہ جب چاہتا گھر یا دفترسے مناہل سے فون پر بات کر لیتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کی خیریت دریافت کرتا یا اگرمناہل کو پیسے درکارہوتے تو وہ اسے کہہ دیتی تھی جس کا عاصم انتظام کر دیا کرتا تھا لیکن ایسی ضرورت دو ایک بار ہی پڑی تھی کیونکہ وہ مناہل اور بچوں کے لیے کچھ اندوختہ چھوڑ آیا تھا۔ طغرل کو صاف لگ رہا تھا کہ اب ان دنوں کے ازدواجی تعلق کا جواز باقی نہیں رہا ہے۔ بچے مشترکہ بھی ہوں تو بھی وہ بیچارے نازک دھاگے، ٹوٹتے ہوئے بندھنوں کو بھلا کیسے آپس میں جوڑے رکھ سکتے ہیں۔
خدا خدا کرکے کہیں اکتوبر کے اوائل میں طغرل اور عاصم اکٹھے ماسکو پہنچے تھے۔ رات کے پچھلے پہرجب وہ گھر پہنچے اورطغرل نے چابی لگا کر دروازے کا قفل کھولا تواندر سے زنجیر لگی ہوئی تھی۔ کسی مرد نے پوچھا تھا ،"کون ہے؟" طغرل نے اپنا نام بتایا تھا اوراندرسے پوچھنے والے نے دروازہ کھول دیا تھا۔ عاصم تو پہلی بارآیا تھا لیکن طغرل گھرکو دیکھ کرحیران کم اور پریشان زیادہ ہوا تھا۔ تینوں کمروں میں اور کچن تک میں رئیس کے " لیلے" سوئے ہوئے تھے۔ اتنی رات گئے ان بیچاروں کو وہ کہاں کھدیڑ سکتا تھا۔ اس نے ان سے کہا تھا کہ وہ ان کو اس وقت تو نہیں نکالے گا کیونکہ ان کا کوئی قصور نہیں۔ اس نے یہ گھر عارضی طور پر رئیس کو ذاتی طور پررہنے کے لیے دیا تھا نہ کہ گھر کو سرائے میں تبدیل کرنے کی خاطر اس لیے وہ سب، جو تعداد میں آٹھ نو تھے بڑے کمرے میں سوجائیں اورصبح ہوتے ہی اپنے سامان سمیت جہاں جانا ہے چلے جائیں۔ ظاہر ہے کہ رئیس نے ان کو ہدایات دی ہوئی تھیں چنانچہ وہ کچھ نہیں بولے تھے، ویسے بھی "لیلے" بھلا کیسے بول سکتے ہیں۔ انہیں جیسا کہا گیا تھا، انہوں نے ویسا ہی کیا تھا۔ صبح طغرل کے جاگنے سے پہلے وہ گھر خالی کر گئے تھے۔ باہر کا دروازہ تو ویسے بھی جب اندر سے کوئی نکل کر اسے بند کرتا تھا، مقفل ہو جاتا تھا۔
کوئی دس بجے کے قریب رئیس کا فون آیا تھا۔ اس نے اس سارے سلسلے میں معذرت کی تھی اور بتایا تھا کہ اس کے "کلائنٹ" چند روز پہلے پہنچے تھے۔ کیونکہ آپ کے آنے اطلاع کی نہیں تھی ، اس لیے میں نے انہیں آپ کے گھر میں ٹھہرا دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اگلے روزآ کر گھر کے واجبات ادا کر دے گا جو شاید اس نے پہلے ہی مالکہ مکان سے طے کیا ہوا تھا۔
حسام کو ان کے آنے کی پہلے سے اطلاع تھی۔ وہ بھی پہنچ گیا تھا۔ پہلا دن آرام کرتے گذرا تھا۔ رات کو سفر کے دوان ڈیوٹی فری شاپ سے خرید کر لائی گئی وسکی کا دور چلا تھا۔ عاصم جس کے کراچی کے دونوں گھروں میں باورچی تھے، خود بھی ایک اچھا کھانا بنانے والا ثابت ہوا تھا۔ اس نے گلاس میں تھوڑی سی وسکی ڈال کر اسے پورا پانی سے بھر لیا تھا پھر وہسکی ملا پانی گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے کھانا بنانے میں مصوف ہو گیا تھا۔ کھانا بنانے کے لیے اس کی دو ہی شرطیں تھیں، ایک تو وہ آلو کبھی نہیں چھیلے گا، اسے اس کام سے بہت کوفت ہوتی تھی، دوسرا یہ کہ کھانا کھانے کے بعد ہر شخص اپنے استعمال کیے ہوئے برتن خود دھوئے گا۔ مطلب یہ کہ عاصم نے پہلے روزسے منظم منتظم ہونے کا کام سنبھال لیا تھا۔ کسی نے بھی زیادہ نہیں پی تھی۔ ابھی کل کے سفر کی تکان باقی تھی اس لیے سبھی جلد دراز ہو گئے تھے۔ حسام بھی واپس نہیں گیا تھا وہیں سو رہا تھا کیونکہ وہ پہلے سے ہی کسی وکیل سے بات کر چکا تھا جسے کمپنی رجسٹر کرانے میں ان کی مدد کرنا تھی۔
اگلے روز جب جانے کے لیے تیار ہونے لگے تو عاصم نے ایک ہلکی سی جیکٹ پہن لی تھی جس کے بٹن بھی بند نہیں کیے تھے۔ ویسے بھی اس کا قد چھوٹا تھا اور توند نکلی ہوئی تھی۔ طغرل نے اسے متنبہ کیا تھا کہ باہر سردی ہوگی اس لیے جیکٹ کے نیچے کوئی جرسی یا کم از کم سویٹر ضرور پہن لے۔ اس نے اس کی بات کو اہمیت نہیں دی تھی۔ طغرل نے بھی زور نہیں دیا تھا کہ جب سردی لگے گی خود ہی سمجھ جائے گا کہ یہاں موسم سے کھلواڑ نہیں چلے گا۔
باہر نکل کر ٹیکسی تلاش کر رہے تھے کہ سرد ہوا کا جھکڑ چلا تھا۔ عاصم نے "ہوہوہوہو" کہتے ہوئے جھرجھری لی تھی اور جیکٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے بولا تھا، "چاچا واقعی بہت سردی ہے"۔ طغرل ہنس دیا تھا کیونکہ اکتوبرتوخزاں کا آغاز تھا، ابھی سردی تھی ہی کہاں مگر کراچی کے رہنے والے کو تو لاہوراورملتان میں سردی لگتی ہے، اکتوبر کا ماسکو تو اس کے لیے دسمبر کا مری تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“