مثل برگ آوارہ
چوتھا در
طغرل نے اس رات عالم خمار میں "مرچ چبانے والی" یولیا کو یاد کیا تھا۔ نتاشا اسے یاد کرتے دیکھ کرمسکرا رہی تھی۔ صبح اس سے پہلے کہ وہ بیدار ہوتے نتاشا کہیں نکل گئی تھی۔ پھر حسام بھی یونیورسٹی چلا گیا تھا۔ جب لوٹا تو وہ اور طغرل اکٹھے کھانا کھانے گئے تھے اور بعد میں کہیں مٹر گشتی کرتے رہے تھے۔ کہیں شام کو لوٹے تھے۔ نتاشا کمرے میں ہی تھی۔ طغرل ان کو "تنہائی" فراہم کرنے کی غرض سے مشرا کے کمرے میں چلا گیا تھا۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد جب وہ حسام کے کمرے میں لوٹا تھا تو حسام نے بتایا تھا کہ آج نتاشا آپ کی یولیا کو ڈھونڈنے گئی تھی۔ اس نے اسے تلاش کر لیا ہے۔ وہ کل آپ سے ملنے آ رہی ہے۔ نتاشا کی دوستی اورسراغرسانی دونوں کی داد طغرل نے "تھینک یو" کہہ کر دی تھی ۔ نتاشا نے اٹھلاتے ہوئے "ڈو نٹ مینشن اٹ" کہہ کر احساس دلایا تھا کہ تھینک یو کہنا تو محض شلغموں سے مٹی اتارے جانے کے مترادف ہے، کوئی پارٹی وارٹی ہونی چاہیے تھی۔ طغرل مسافر تھا ایسے چونچلوں کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے چپ رہا تھا۔
اگلے روز شام کو ہری مرچ خور "یولیا" واقعی ملنے کے لیے پہنچ گئی تھی۔ طغرل اس کے لیے شلوار قمیص، چمڑے کی جیکٹ، لیڈیزپرس وغیرہ بطورتحفہ جات لیتا آیا تھا۔ اس نے حسام اور نتاشا کی موجودگی میں یہ تحفے اسے دیے تھے۔ اس نے شکریے کے طور پر اپنا گال آگے کر دیا تھا جسے طغرل نے چوم لیا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد حسام اور نتاشا نے آپس میں کھسر پسر کی تھی پھر حسام نے کہا تھا،"طغرل صاحب، ہم کچھ دیر کے نکل رہے ہیں تاکہ آپ کو تنہائی میسرآ سکے" یہ کہہ کر وہ ہنسا تھا۔ نتاشا نے اپنی زبان میں یولیا سے کچھ کہا تھا اورساتھ ہی کھلکھلا کر ہنس دی تھی جبکہ یولیا گلنارہوگئی تھی۔ پھر میاں بیوی دونوں کمرے سے نکل گئے تھے۔ دروازہ بند کر دیا تھا جو خود بخود اندر سے مقفل ہو جاتا تھا۔
بوس و کنارمیں یولیا نے طغرل کا ساتھ دیا تھا لیکن اس سے آگے جانے میں اس نے تعرض برتتے ہوئے "نو، نو" کہتے ہوئے مزاحمتی انداز اختیار کر لیا تھا۔ طغرل ہیجان سے آگ ہوا جا رہا تھا۔ یولیا کے بدن سے بھی حرارت نکل رہی تھی۔ بالآخراس نے اپنے دہن کی سرگرمی سے طغرل کی حدت کم کی تھی۔ پرطغرل اپنے آپ میں بے حد خجالت محسوس کر رہا تھا کہ اس نے کہیں تحفے دے کرتو اس کو دہن دری پر مجبور نہیں کیا تھا؟ اگرچہ وہ قطعی مجبورنہیں تھی بلکہ اس نے جو بھی کیا تھا، رضاکارانہ طور پر رضامندی کے ساتھ کیا تھا۔
پھر حسام اور نتاشا لوٹ آئے تھے۔ حسام اور طغرل نے وادکا پی تھی اور دونوں لڑکیوں نے وائن۔ کھانا کھایا تھا جس کے بعد طغرل یولیا کے ہمراہ نکل گیا تھا۔ تھوڑی سی چہل قدمی کے بعد طغرل نے اسے ٹیکسی میں بٹھا کر ڈرائیور کو پیشگی کرایہ تھما دیا تھا۔ ان دنوں لڑکیوں کے لیے ٹیکسی سے سفر کرنا تعیش ہوا کرتا تھا چنانچہ کرایہ بالعموم لڑکیوں کے دوست ہی ادا کیا کرتے تھے۔
دن گذر رہے تھے۔ طغرل اور حسام دن چڑھے اس کمرے میں جا کر بیٹھ رہتے تھے جو حسام نے رابطہ دفتر کے طور پر اجارہ کیا تھا۔ یہ ایک پینتیس چھتیس سال کی تنہا، بہت زیادہ بولنے والی عورت لوبوو یا لیوبا (محبت) نام کی عورت کے مختصرکوارتیرے کا مختصرترین کمرہ تھا جس میں ایک جھلنگا سا پلنگ اور دو کرسیاں رکھی تھیں۔ گھروالا فون سیٹ "دفتری" اوقات میں لیوبا ان کے "دفتر" میں منتقل کر دیا کرتی تھی۔ طغرل کو تو یہاں کی زبان کے ٹوکویں فقرے اور کچھ الفاظ ہی یاد ہو سکے تھے چنانچہ وہ فون پر کسی سے بات کرتا بھی تو کیا کرتا البتہ حسام دن میں دو ایک فون کرکے یہ تاثّر دینے کی کوشش ضرور کرتا تھا کہ وہ کام کو آگے بڑھانے کی سعی کررہا ہے۔
مالکہ مکان اگر طغرل کو بری نہیں لگتی تھی تو اچھی بھی نہیں لگتی تھی۔ وہ یا تو بولتی ہی نہیں تھی یا بولتی تھی تو بے تکان بولے چلے جاتی تھی۔ اس سے کمرہ کرائے پر لیتے ہوئے چونکہ حسام نے طے کیا تھا کہ اگر کبھی کبھار اس کمرے کو شب خوابی کے لیے بھی استعمال کرنا پڑے تو وہ معترض نہیں ہوگی۔ چند روز بعد ہی حسام کے دودوست کسی اور شہرسے اس کے ہاں مہمان ہوئے تھے۔ بس ایک رات کی تو بات تھی۔ حسام نے طغرل کو ہدایت کی تھی کہ سونے کی غرض سے اس خاتون کے ہاں جاتے ہوئے بیئر کی کم از کم چار بوتلیں ضرور ساتھ لیتا جائے کیونکہ اسے اچھا لگے گا۔ راستہ تو طغرل کو آتا ہی تھا۔ حسام نے ہوسٹل کے فون سے فون کرکے اسے طغرل کی آمد کے بارے میں بتا دیا تھا۔ طغرل نے راستے سے اس زمانے کی سب سے اچھی بیئر کی چار بوتلیں پکڑ لی تھیں۔ تب تک صرف روس کی بنی بیئر ہی دستیاب تھی جو سرسوں کے تیل کی طرح گاڑھی ہوا کرتی تھی البتہ جو بیئر طغرل نے خریدی تھی وہ نسبتا" مہنگی تھی اور کسی حد تک بیئرسے ملتی جلتی بھی۔
لیوبا نے مسکراتے ہوئے دروازہ کھولا تھا۔ طغرل نے بوتلیں اسے تھما دی تھیں۔ وہ اسے اپنے زیر تصرف کمرے میں لے گئی تھی جہاں ایک بیڈ کے علاوہ، کھڑکی کے ساتھ رکھی ایک تپائی کے ادھر ادھردو کرسیاں رکھی تھیں۔ لیوبا نے تپائی پر بیئرکی بوتلوں کے ساتھ دو گلاس رکھ دیے تھے اوردو موم بتیاں روشن کرکے بجلی بجھا دی تھی۔ دونوں مل کر بیئر پیتے رہے تھے۔ وہ بولتی رہی تھی۔ طغرل بنا سمجھے کبھی مسکرا دیتا تھا کبھی ہوں ہاں کردیتا تھا یا پھر کبھی ٹوٹے پھوٹے فقرے بول دیتا تھا لیکن اس نے ایسا کوئی اشارہ کنایہ نہیں کیا تھا، نہ ہی ایسا کوئی لفظ یا فقرہ بولا تھا جس سے اس عورت میں طغرل کی دلچسپی کا اظہار ہوتا کیونکہ اس میں اسے دلچسپی تھی ہی نہیں۔ دوسرے یہ کہ بولتے ہوئے اس عورت کے دہن سے کف اڑتا تھا جس کے چھینٹے طغرل کے چہرے پر پڑتے تھے۔ کیونکہ وہ سیدھی ہو کر بیٹھی ہوئی تھی اسی لیے وہ آرام کرسی کے آخری سرے تک کمر ٹکائے بیٹھا تھا۔
بیئر ختم ہوگئی تھی اوراس عورت کی باتیں بھی۔ اس نے اٹھ کربستر پرصاف چادربچھائی تھی، تکیوں کے غلاف تبدیل کیے تھے اوررضائی پربھی دھلا ہوا غلاف چڑھایا تھا۔ طغرل کو بیئر پینے کے بعد نیند سی آ رہی تھی۔ لیوبا نے اسے ہاتھ کے اشارے سے کچھ کہتے ہوئے یہ سمجھایا تھا کہ وہ بستر پر آ جائے۔ وہ بیڈ کے کنارے پر ٹک کر بیٹھ گیا تھا۔ لیوبا اس کے ساتھ جڑکربیٹھ رہی تھی۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑا تھا، اشاروں اورلفظوں میں شاید طغرل سے یہ کہنا چاہا تھا کہ وہ نہا لے۔ طغرل بھلا کیوں نہاتا؟ اسے تو صبح نہانے کی عادت تھی۔ روسی البتہ سونے سے پہلے نہاتے ہیں۔ پھر لیوبا نے اپنی طرف اشارہ کرکے یقینا" یہی کہا تھا کہ وہ خود نہانے جا رہی ہے اورغسل خانے میں چلی گئی تھی۔ طغرل کے پاؤں زمین پر ہی ٹکے ہوئے تھے مگر اس نے اپنی کمر بستر پر سیدھی کر لی تھی۔ غسل خانے سے شاور سے گرتے پانی کی آوازاوربیئر کے خمار سے اسے اونگھ آ گئی تھی۔ لیوبا نے اسے ہلا کرجگایا تھا۔ اس نے خود شب خوابی کا مختصر سا پیرہن پہنا ہوا تھا۔ اس نے ایک بار پھر ہاتھ کے اشاروں اور الفاظ سے طغرل کو کپڑے اتار کر اسی بستر میں آنے کو کہا تھا جس میں وہ خود گھس چکی تھی اور جو اس کا ہی بستر تھا۔ لگتا تھا شاید اس کے گھر پر دوسرے بستر کے لوازمات تھے ہی نہیں۔ طغرل نے اس کے کہے پر عمل کیا تھا۔ چاہے وہ اتنی اچھی نہیں بھی لگتی تھی اور اس کے دہن سے کف اڑتا تھا مگر تھی تو وہ عورت ہی۔ طغرل کے بدن کے ساتھ لگا اس کا بدن، اوپر سے بیئر کا خمار۔ طغرل نے اسے سربسجود کر دیا تھا تاکہ کف اس کے چہرے سے دور رہے اورپھر دیوارکی جانب منہ کر کے سو رہا تھا۔ صبح جب وہ بیدار ہوا تو لیوبا گاؤن پہنے سگریٹ پھونکتی پھر رہی تھی۔ طغرل نے جب تھوڑی سی دست درازی کی تو اس نے کہا تھا،" نو ۔۔۔ نو ۔۔۔ ففتی دولار"۔ طغرل کی ہنسی چھوٹ گئی تھی کیونکہ اسے نوجوانوں کو مفت منشیات فراہم کرکے نشے پرلگانے والے لوگ یاد آ گئے تھے۔ ففتی تو کیا وہ اسے کچھ بھی دینے کو تیار نہیں تھا۔ اس لیے پھر کبھی شب خوابی کی خاطر اس نے لیوبا کے گھر میں قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا۔
دن میں چند گھنٹوں کے لیے یولیا بھی آ کر"رابطہ آفس" میں طغرل کا ساتھ دے دیا کرتی تھی۔ بات بوس و کنارسے آگے نہیں بڑھتی تھی اور طغرل خود بھی پیش قدمی کو بیشتر کرنے سے گریز کرتا تھا۔ محبت کے عمل میں باہمی رضامندی کے بغیر ہر قدم تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ بلکہ ایک بار تو جب طغرل اور یولیا اس کمرے میں بند ہو گئے تھے تو چاپی کھو گئی تھی، پھر بھی کچھ نہیں ہوا تھا۔ دراصل کمرے کا درزورسے بند کیے جانے پر خود بخود مقفل ہو گیا تھا. لیوبا گھرپرنہیں تھی۔ وہ دونوں کھڑکی سے جھانک کرمدد کے متلاشی رہے تھے۔ فون کے توسط سے حسام تک اطلاع پہنچانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ یولیا زیادہ بوکھلائی ہوئی تھی کہ کہیں بند کمرے میں زبردستی کچھ نہ ہو جائے۔ بالآخر لیوبا لوٹ آئی تھی اوراس نے ان دونوں کو کمرے کی قید سے آزاد کر دیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ یولیا نے خود کو آزاد محسوس کیا تھا۔
فروری کے آخری ایام تھے۔ حسام کسی بات پر آزردہ خاطر ہو کرطغرل کو یہ کہہ کر چلا گیا تھا کہ وہ مزید اس کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتا۔ طغرل کا سامان حسام کے کمرے میں تھا۔ غلطی سراسر حسام کی تھی پھر یہ کہ طغرل اس کے ہاں مہمان بھی تھا۔ طغرل کی انا نے مناسب نہیں جانا تھا کہ اس کے اس ناروا رویے کے بعد بھی اس کے ہاں جائے۔ اس شہر میں سردیوں کی رات ویسے ہی شام کے چار ساڑھے چار بجے پڑ جاتی ہے۔ طغرل سوچتا رہا تھا کہ کیا کرے۔ چاہتا تو "ففتی" کی بجائے دس ڈالر دے کر ہی لیوبا کے بستر اور بدن پر تصرف جما سکتا تھا لیکن ایک بارنہ توسو بارنہ۔ کہیں پانچ بجے کا وقت تھا، طغرل پہلی منزل پرجو یہاں گراؤنڈ فلورکوکہا جاتا ہے، عمارت کی راہداری میں کھڑا سگریٹ نوشی کرتے ہوئے سوچ رہا تھا آیا کسی ہوٹل کے بارے میں کسی سے پوچھا جائے یا میرشہباز کے ہوسٹل جایا جائے۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا، سیاہ بالوں والا اول جلول سا نوجوان باہر سے اندر آیا تھا۔ پہلے وہ لفٹ تک گیا تھا پھر پلٹ کر واپس آیا تھا اورٹوٹی پھوٹی انگریزی میں طغرل سے پوچھا تھا کہ وہ یہاں کیوں کھڑا ہے۔ طغرل اسے سمجھانے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ اسے "رین بسیرا" درکار ہے۔ وہ اسے اپنے ہمراہ تیرھویں منزل پرلے گیا تھا۔ برآمدے کے ایک طرف دوکمرے والے کوارتیرے میں اس کی ماں اور نانی کی رہائش تھی اور دوسری جانب ایک بڑے سے کمرے والا کوارتیرا اس کا اپنا تھا۔ اس کی ماں چھوٹے قد کی شفیق آرمینیائی خاتون تھیں جو بہت بہتر انگریزی بولنا جانتی تھیں۔ میں نے انہیں ساری بات بتائی تھی۔ اس خاتون نے پہلے طغرل کو کھانے کے لیے کچھ دیا تھا اورپھرچائے سے تواضع کی تھی۔ شب بسری کے دوران ہی طغرل نے اپنے میزبان، جس کا نام دمتری اورمختصرا" دیما تھا، شاید پچاس ڈالر ماہوارکے عوض طے کر لیا تھا کہ وہ اس کمرے میں اس کے ساتھ رہے گا۔ حسام اگلے روز ہی خجل سا ہوا لوٹ آیا تھا اور آ کر معذرت چاہی تھی لیکن طغرل نے اسے اسی روز تیار کردہ ایک " آفیشل جواب طلبانہ لیٹر" تھما دیا تھا، جو اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا کیونکہ دفتر نام کی کوئی شے تھی نہیں نہ ہی ٹائپ رائٹر تھا۔ کمپیوٹر تب روس میں نہ ہونے کے برابر تھے اور جو تھے وہ بھدے، روسی ساخت کے اور بلیک اینڈ وہائٹ۔ حسام نے اس خط کو درخور اعتنا نہیں جانا تھا۔ طغرل نے البتہ اس کو باور کرا دیا تھا کہ اس نے اپنی رہائش کا بندوبست کر لیا ہے اور بس۔ ساتھ ہی لیوبا کا کمرہ بھی چھوڑ دیا تھا۔
ہری مرچ چبا کر دل میں جگہ بنا لینے والی یولیا اپنے فارغ اوقات میں کبھی کبھار اس سے ملنے آ جایا کرتی تھی۔ کمرے میں تنہائی کی خاطردمتری کو بچوں کی طرح پیسے دے کر فلم دیکھنے بھیجنا پڑتا تھا۔ دمتری خود کو "بیگ مین" کہتا تھا جو دراصل انگریزی لفظ "بیگر" یعنی بھکاری کے لیے اس کا اپنا وضع کردہ لفظ تھا۔ دمتری کا باپ روسی النسل تھا جو ایک عرصہ پہلے اس کی والدہ کو چھوڑ کر کسی اور نزدیکی شہر میں جا بسا تھا۔ دمتری کی شائستہ اور شریف ماں اپنی نوے برس کی ماں اور اس نابکار بیٹے کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔ ایک زمانے میں وہ "بلڈنگ انچارج" تھی اور اس نے اپنے اثر و رسوخ اور تعلقات کی بنیاد پر ایک اضافی کوارتیرا لے لیا تھا جس کا مالک اب دمتری تھا۔ دمتری انتہائی موڈی، سست اور ہڈ حرام جوان تھا جو کام سے حتی الوسع جی چراتا تھا۔
یولیا کے آنے سے جی بہل جایا کرتا تھا۔ گھر سے دوری، ازدواجی تعلقات کے تسلسل بارے کسی حد تک بے یقینی، اوپر سے عمر کا وہ حصہ شروع ہو چکا تھا جسے عمر کا عاقلانہ دور کہا جاتا ہے یعنی چالیس برس پورے ہونا جبکہ یورپ والوں کا کہنا ہے کہ اگر انسان کو تمام مصائب، جسمانی تکالیف، غذائی اورماحولیاتی آلودگی سے پاک سمجھ کر آنکا جائے تو دراصل آدمی چالیس سال کے بعد ہی جوان ہوتا ہے۔ یقینا" اس آنکڑے کا اثرتوکم ہی ہوگا پر یولیا کی جوانی، رنگت، قد، چہرے کی ملاحت اور سادگی اس کی کشش میں اضافہ کرتے ہوئے طغرل میں جوانی کا جوش ضرور پیدا کیا کرتے تھے مگر اہالیان ہند اپنی سرشت میں محبت اور مے کی سرمستیوں میں رنج و الم کی غمناکیوں کو ملا کر استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ ایک تھوڑے سے عرصے میں اپنی قربت کے سزاوارہونے والے کو محرم رازجان کراپنے اندوہ اس کے قلب میں اتار دینے کے جتن کرنے سے باز نہیں آ سکتے۔ یہی کچھ طغرل بھی یولیا کے ساتھ کیا کرتا تھا۔ اپنی وفا اورمناہل کی جفا، جس کے بارے میں طغرل کو خود بھی درست اور صحیح گیان نہیں تھا، کے قصے سنا کر اسے دکھی کرتا رہتا تھا۔ بوس و کنار، بغل گیری اور دوست داری (قدیم فارسی زبان میں جسم سہلانے کو کہا جاتا ہے) کی حد تک تو یولیا شریک جسم و جاں ہوتی تھی لیکن دست درازی اور عصیاں نوازی سے گریز تھا کہ پگھل کر نہیں دیتا تھا۔
پھر ایک سہ پہر جب دمتری کو طغرل سے پیسے لے کر ان دونوں کو خلوت بخشے کچھ وقت گذرا تھا کہ طغرل پر یاسیت کا نزول ہو گیا تھا اوراس نے جام بھرنے میں عافیت جانی تھی۔ یولیا حیران تھی کہ ایسے وقت جسے طغرل "دفتر کے وقت" کے طور پر لیتا تھا، یہ شراب ناب بھلا کیوں کھل گئی۔ یولیا عموما" نہیں پیتی تھی، پھر طغرل نے دکھ کے قصے الاپنے شروع کر دیے تھے اور خاصا گلوگیر ہو گیا تھا۔ یولیا کو اس پررحم آ گیا تھا۔ اس نے اس سے کہا تھا لیٹ جاؤ، تم مضطرب ہو، میں بھی تمہارے پہلو میں سیدھی ہوتی ہوں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، نہیں یہ محاورہ اس موقع پر بالکل بھی درست نہیں تھا، طغرل کو فی الواقعی تشقی درکار تھی۔ یاسیت پر نشے کا ملمع نہیں ہو سکا تھا اور وہ بگڑ کرگمبھیرتا میں ڈھل گئی تھی۔
گرمیاں تھیں، ظاہر ہے بستر پر ملبوس حالت میں دراز نہیں ہوا جا سکتا تھا اس لیے اس کے تن پر محض زیرجامہ باقی رہا تھا اور گمان ہے کہ وہ یولیا کے پہلو میں لیٹ جانے کے لالچ میں ہی دیوان پر دراز کشیدہ ہوا تھا۔ اب وہ بھی تو اپنے بلاؤز اور سکرٹ کو شکن آلود نہیں کرنا چاہتی تھی چناچہ وہ بھی لنگرلنگوٹ کسے طغرل کی دوست داری کی خاطر ڈیڑھ فٹ بلند اکھاڑے میں کود گئی تھی۔ جب پہلو میں اکیس سالہ دراز قامت مرمریں بدن ہو اور اس بدن سے پیوستہ مخروطی انگلیوں، گدگدی ہتھیلیوں کا لمس، ستواں رانیں رانوں سے لپٹی ہوئی اور گدرائی ہوئی چھاتیوں کا اتار چڑھاؤ جسم میں الاؤ بھڑکا رہا ہو تو مرد کا صبر کرنے پر کس قدر بس چل سکتا ہے۔ طغرل میں صبر کا یارا باقی نہیں رہا تھا بس اتنا کہا تھا "اب مت روکنا"۔ کس زبان میں ظاہر ہے اتنی روسی اسے آتی نہیں تھی، اس کی زبان سے وہ نابلد تھی، فارسی کا تو بھلا تذکرہ ہی کیا؟ لے دے کر بین الاقوامی زبان فرنگ میں ہی کہا ہوگا جو شاید اس کے پلے نہ پڑی ہو لیکن طغرل نے جانا تھا کہ درخواست، حکم یا انتباہ کا توفریضہ بہرحال پورا ہوچکا اس لیے شدو مد کے ساتھ جہد محبت کی تکمیل کے لیے برسرپیکار ہو گیا تھا۔ پہلے ہی وارسے اس کے تاتاری چہرے کے عضلات مدور سے مستطیل ہوگئے تھے اورلمحوں بعد ہی مثلثین میں ڈھلنے لگے تھے اورساتھ ہی اس نے "بولنا ۔۔۔ بولنا" کی تکرارشروع کردی تھی۔ بولنا کے معنی تو طغرل کو معلوم تھے یعنی درد لیکن اس کی علامت یعنی گلگونی کا نشاں تک نہیں تھا مگرجب اتفاق سے طغرل کی نگاہ یولیا کی رانوں پر پڑی تھیں تو اس نے دیکھا کہ وہ بہت زیادہ مرتعش تھیں۔ اس ہیبتناک ارتعاش کو دیکھ کر وہ گھبرا گیا تھا اورعمل سے پہلوکشی اختیار کرکے اس کی رانیں دابنے لگا تھا۔ جب بالآخر اس نے اپنی رنج آمیزسی مسکراہٹ کے ستھ اپنے پرسکون ہو جانے کا اظہار کیا تھا تب طغرل نے عمل تمام کرنے کا اعادہ کیا تھا۔ ایک مرحلے پر یولیا نے لفظ "خواچت" جپنا شروع کر دیا تھا اور اپنے ہاتھوں کے ساتھ طغرل کو آہستہ آہسہ پرے دھکیلنے لگی تھی۔ طغرل کو اس لفظ سے ملتا جلتا لفظ "خواچو یا خاچو" معلوم تھا جس کے معانی چاہنے، ضرورت ہونے، خواہش کرنے یا درکار ہونا کے ہیں۔ یہی جان کر وہ ورزش بدنی میں شدت اختیار کرتا تو وہ خواچت کہنا بند کر دیتی پھر طغرل سست پڑ جاتا۔ بہر کیف دوتین بار اسی جہد و ناجہد کے بعد وہ دونوں پھر سے عام انسان بن گئے تھے یعنی ملبوس و سنجیدہ البتہ لفظ "خواچت" کا عقدہ تین چارروزبعد تب کھلا تھا جب طغرل یولیا کے لیے اس کے گلاس میں کوئی مشروب انڈیل رہا تھا۔ دوسری بار انڈیلنا چاہا تواس نے گلاس کے دہانے پر ہتھیلی تان کرکہا تھا "خواچت" یعنی بس کرو۔ پھر کیا تھا، طغرل نے جو ہنسنا شروع کیا، لوٹ پوٹ تو نہ ہوا البتہ پیٹ ضرور پکڑنا پڑ گیا تھا۔ وہ پوچھتی تھی کیوں ہنس رہے ہو؟ طغرل بھلا کیا جواب دیتا۔ ہنسی کا دورہ ختم ہوا تو بھی اس نے اپنا استفسار جاری رکھا تھا چنانچہ طغرل کو خواستند و بستند کے مابین تذبذب کی توضیح کرنی پڑی تھی اور اس کا چہرہ انگارہ ہو گیا تھا، غصے سے نہیں بلکہ مارے شرم کے۔ شرم انہیں بھی آتی ہے البتہ ان اعمال و افعال پر نہیں جن پر ہمارے ہاں شرمسار ہونا معمول ہے بلکہ ایسے معمولات پرجہاں ان کی ہیٹی ہو رہی ہو جس طرح یولیا اپنا "خواچت" واضح نہ کر پائی تھی اور اب اسے شرمساری کا شکار ہونا پڑ رہا تھا۔
یولیا کا فیملی نیم "بارانووا" تھا جس کے لفظی معنی " بھیڑوں والی" بنتے ہیں۔ برصغیرسے باہر تو برہمن ، کھشتری، ویش ، شودرکا چکر نہیں ہے پھر جہاں منگول آ کرمغل ہو گئے، عرب سے آنے والے سید، افغانستان کے دروں سے گزر کر وارد ہونے والے پٹھان اور اسلام قبول کرنے والے شیخ، وہاں کنبہ جاتی نام کوئی ذات نہیں بلکہ شناخت ہے۔ شناخت کے لیے تب آج کی طرح ہندسوں والا سلسلہ نہیں چلا تھا اس لیے دوسرے ملکوں میں عموما" اختیار کردہ پیشے کو ذاتی شناخت کے طور پر درج کر لیا جاتا تھا جو بعد میں رواج پا جاتا تھا جیسے ایران میں جو پتھروں کو تراشتا تھا وہ "سنگتراش" کہلایا اورجو پتھر توڑتا تھا وہ "تیشہ یار"۔
طغرل کو یولیا کے ہمراہ اپنی کاروباری اشیاء کی چھوٹی سی نمائش میں جانا تھا۔ نمائش کا انعقاد ایک ایسے مقام پر تھا جہاں داخلے کے لیے شناخت بتانا لازمی تھا۔ یولیا کسی اورکام میں مصروف ہو گئی تھی اس نے دیر سے آنے کا کہا تھا۔ شناخت کے لیے مامورخاتون نے پوچھا تھا،" آپ کی معاون یولیا کا فیملی نیم کیا ہے؟" طغرل کے منہ سے نکلا تھا "بارانینا" اور وہاں موجود تمام لوگ قہقہہ بار ہو گئے تھے کیونکہ اس لفظ کا مطلب تھا "بھیڑ بکری کا گوشت ۔"
اس نمائش کا اہتمام کروانے والے ایک اعلٰی سرکاری افسرزاہد کادیروو(قادر) تھے جو "سووفراخت" یعنی سوویت یونین کے مال بردار بحری جہازوں کی واحد کمپنی کے کسی شعبے کے انچارج تھے۔ طغرل سے عمرمیں بڑے تھے، تب وہ پچاس پچپن کے پیٹے میں ہوں گے۔ بہت ہی وجیہہ اور سنجیدہ مزاج شخص تھے۔ بنیادی طور پر تاشقند کے رہنے والے تھے۔ طغرل کی ان کے ساتھ کچھ ایسی بنی تھی کہ ایک عرصہ تعلق رہا۔ ان کے ساتھ طغرل کی ملاقاتیں بارہا رہی تھیں۔ اس زمانے میں اس ملک کے سرکاری افسروں کے پاس ذاتی طور پر روسی ساخت کی "لادا" کار ہی ہوا کرتی تھیں۔ زاہد کادیروو طغرل کو اپنے ساتھ کبھی کبھار ایسی ہی اپنی کار میں گھما لایا کرتے تھے۔ اس طرح کی ہی ایک مٹر گشت کے دوران جب ماہ مئی میں آسمان سے برف کے گالے زمین پر گر رہے تھے تو انہوں نے کہا تھا " اس پاگل ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہونا ممکن ہے"۔ یوں دمتری اور یولیا کے ہمراہ طغرل کی "بازرگانی" کی سعی کا ایک اچھا انعام اسے زاہد کادیروو کی شکل میں میسّر آ گیا تھا۔
زاہد کادیروو کے ہاں جانے کے لیے چونکہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنا پڑتی تھی، ان کی رہائش طغرل کی رہائش سے خاصی دور تھی اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ان کے ہاں جاتا تھا پھر وہ خود بھی مصروف شخص تھے۔ اس کے برعکس اس کی رہائش سے کچھ ہی دور رہائش پذیر حامد اپنے "ایجنٹانہ" لاؤ لشکر کے ساتھ، کم از کم شام کے پانچ بجے کے بعد اکثرہی دستیاب ہوتا تھا چنانچہ طغرل اپنی تنہائی اور اول جلول "بیگ مین" دمتری کی رفاقت سے جان چھڑانے کی خاطر ہردوسرے تیسرے روز اس کے ہاں چلا جایا کرتا تھا۔ اس کے ہاں ناؤ نوش کے علاوہ طغرل کی دوسری سرگرمی یہ ہوتی تھی کہ اس کے ہمراہ جوئے خانے (کسینو) چلا جاتا تھا۔ ایک جوا گھر "کسینو ماسکوا" نام کا ہوا کرتا تھا جہاں پاکستان کے انسانی سمگلر، مغربی ملکوں میں مزدوری کی خاطر کسی بھی طرح داخل ہونے کے خواہاں نوجوانوں کے والدین سے بٹورے ہوئے پیسے لٹایا کرتے تھے۔ پیسہ ایک ایسی غلاظت ہے جس میں ہاتھ لتھیڑنے والوں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ جن لوگوں سے وہ پیسہ کماتے یا لوٹتے ہیں، ان بیچاروں نے وہ پیسہ کس طرح حاصل کیا ہوتا ہے۔
حامد کے ہاں طغرل کی ملاقات اس کے بھائی شاہد سے ہوئی تھی وہ بھی انسانی سمگلنگ کے مذموم کام میں ملوث تھا۔ البتہ اس کے خصائص اپنے بھائی سے مختلف تھے۔ ایک تو وہ اس کی طرح کمینہ نہیں تھا۔ دوسرے وہ پاکستانی ایجنٹوں اورسب ایجنٹوں کے ساتھ کام کرنے کی بجائے ہندوستانی گرگوں کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا۔ پھر یہ کہ شاہد مسلسل شراب پیتا تھا لیکن ایسے پیتا تھا جیسے پانی، اسے نشہ نہیں ہوتا تھا وہ وادکا پیتا تھا اور بالکل نارمل رہتا تھا، اس لیے اکثر یہی لگتا تھا کہ وہ پانی پی رہا ہے۔ وجہ یہ تھی کہ وہ آدھ پونے گھنٹے کے بعد پورا بھرا ہوا گلاس بغیر منہ بنائے پیا کرتا تھا۔ طغرل نے آج تک نہیں دیکھا تھا کہ اتنی کڑوی اوربودارشے، کوئی منہ بنائے بغیر اور وہ بھی "نیٹ" پی لے، یہ تو بہت دیر بعد معلوم ہوا تھا کہ شاہد گلاس میں پانی نہیں پیتا تھا بلکہ وادکا پانی کی مانند پیتا تھا۔ وہ پھر ایک عرب ملک میں شراب نوشی سے ہلاک ہو گیا تھا۔ بہر حال ایک روز طغرل نے سوچا تھا کہ چلو حامد کی بجائے شاہد کے پاس جایا جائے۔ اس کی اپنے ہندوستانی انسانی سمگلر ساتھیوں کے ساتھ رہائش بھی طغرل کی رہائش سے کچھ زیادہ دور نہیں تھی۔ اس نے دمتری کو ساتھ لیا تھا اور ان کے ہاں چلا گیا تھا۔ وہ بیٹھے پی رہے تھے، طغرل بھی شریک ہو گیا تھا۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایک سکھ نے طغرل کو للکارا تھا اور جونہی وہ کھڑا ہوا اس نے اس کی آنکھ پر مکہ دے مارا تھا۔ طغرل کا ہم وطن ایک ہی تھا شاہد اور وہ کئی تھے، دمتری تو فورا" دروازہ کھول کر نکل گیا تھا۔ طغرل اپنا دفاع کرتا ہوا باہر نکلا تھا مگر انہوں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ ان میں سے تین آدمیوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے جو کبھی کبھار یہ کہتے ہوئے کہ تم کہتے ہو کہ سرداروں سے نہیں ڈرتے، طغرل کو جڑ دیتے تھے مگر طغرل تھا کہ ڈٹا ہوا تھا۔ شاہد چیخ چیخ کرکہہ رہا تھا کہ "جاؤ ، تم جاؤ یار"۔ آخر کار شاہد کسی طرح اپنے ساتھیوں کو گھیر گھارکراندرلے گیا تھا اور طغرل اپنی رہائش گاہ لوٹ آیا تھا۔ دمتری پہلے ہی پہنچ چکا تھا۔
اگلے روز اس کی آنکھ سوج گئی تھی اوراس کے گرد سیاہ حلقہ بن گیا تھا۔ دوپہر کے قریب وہ سارے سکھ شاہد کے ہمراہ طغرل کے پاس پہنچے تھے۔ دمتری نے دروازہ کھولا تھا اور انہیں دیکھ کر ڈر گیا تھا مگر وہ سب طغرل سے معافی مانگنے آئے تھے کہ وہ رات نشے میں تھے، انہیں غلط فہمی ہو گئی تھی، وہ دل سے معافی مانگنے آئے ہیں۔ وہ ساتھ میں پھل اور تحفے بھی لائے تھے۔ گھر آئے لوگوں کو معاف کیے بنا چارہ نہیں تھا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے ہمیشہ ہی طغرل کی تعظیم کی تھی۔
یولیا دو چار روز سے نہیں آئی تھی۔ طغرل کی آنکھ کی سوجن تو کم ہو چکی تھی مگر سیاہ حلقہ باقی تھا اور آنکھ کی سفیدی میں خاصی سرخی تھی۔ طغرل یولیا کو ڈھونڈنے اس کے انسٹیٹیوٹ چلا گیا تھا۔ اسے اس نے اس کے کلاس روم میں تلاش کر لیا تھا۔ وہ ملی تو تھی لیکن اس نے شدید گلہ کیا تھا کہ ایسی حالت میں کیوں آئے ہو۔ وجہ یہ تھی کہ لوگ عموما" نشے کی حالت میں لڑتے ہیں اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے ہم جماعت یہ سمجھیں کہ اس کی کسی شرابی کے ساتھ دوستی تھی۔
دمتری چونکہ نارمل انسان نہیں تھا۔ اس لیے کبھی کبھار ہتھے سے چھوٹ جایا کرتا تھا۔ ایک بار وہ غسل خانے میں تھا۔ طغرل بستر پر لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا۔ اس نے غسل خانے سے کچھ کہا تھا جو طغرل سمجھ نہیں سکا تھا۔ وہ غسل خانے سے دیوانہ وار نکلا تھا اور طغرل پر سوار ہو کر اس کا گلہ دبانے لگا تھا۔ وہ تو شکر ہوا کہ طغرل نے یک لخت کروٹ لے کر اسے زمین پر گرا دیا تھا اور اس کا ہاتھ اس کی گردن سے ہٹ گیا تھا۔ جب طغرل نے اسے بری طرح ڈانٹا تھا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا تھا۔
اس اثناء میں طغرل کے حسام کے ساتھ تعلقات معمول پرآ چکے تھے۔ جب وہ تینوں استراحت گھر گئے تھے وہاں کچھ نوجوان حسام اورطغرل کے دوست بن گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے حسام کو کوئی گھر دکھایا تھا جوکرائے کے لیے خالی تھا۔ جب طغرل نے دمتری کے جنونی رویے کا ذکر حسام سے کیا تواسے یاد آیا تھا۔ اس نے اس نوجوان کو فون کیا تھا۔ دو روز بعد تین کمروں پر مشتمل یہ گھر دیکھ لیا تھا جو شاید ایک سو بیس ڈالر ماہوار پر لے لیا تھا۔ دمتری دوست ہی رہا تھا مگر طغرل نے اس کا کمرہ چھوڑ دیا تھا اور نئی رہائش گاہ میں منتقل ہو گیا تھا جو دمتری کی عمارت سے کوئی دوکلومیٹر دور تھی۔
یہ عجیب زمانہ تھا ۔ لوگ اخراجات پورے کرنے کی خاطر مختلف طریقے اختیار کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ اپنا گھر کرائے پر دے کر کسی دور کے یا سستے علاقے میں اپنے لیے کوئی کم کرائے والا گھر لے لیں۔ دونوں کرایوں کے درمیان فرق سے جو تھوڑی بہت رقم بچے اس سے اپنا "نمک روٹی" پورا کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں دال روٹی والا محاورہ نہیں تھا، اہم ترین مہمان کا استقبال نمک روٹی پیش کر کے کیا جاتا ہے۔ جو گھر طغرل کو ملا تھا، اس کے مالکان نے بھی اسی طریقے سے استفادہ کرنے کی روش اختیار کی تھی۔ جو خاتون مالکہ بن کر سامنے ائی تھی وہ بھی لیوبا نام کی ایک فربہ عورت تھی جس کے خاوند کا نام وکتور تھا۔ وکتور شراب پینے والا خوش اخلاق ادھیڑ عمر شخص تھا، ادھیڑ عمرتو لیوبا بھی تھی مگر اس کا فربہ پن اس کی جھریاں چھپائے ہوئے تھا البتہ اس کی کنپٹیوں کے نزدیک سفید ہوتے ہوئے بال اس کی عمر کا پتہ دے دیتے تھے۔ ایک اور بوڑھی عورت بھی بعض اوقات ان کے ہمراہ آ جایا کرتی تھی، شاید اس ایک گھر کی یہ دونوں عورتیں مالک تھیں مگر کسی قانونی وجہ سے طغرل سے یہ بات چھپاتی تھیں۔ جی ہاں اس ملک میں کچھ گھروں میں کمروں کی تعداد کے مطابق کئی کئی کنبے بھی بستے تھے۔ ایسے گھروں کو "کمیونالنایا کوارتیرا" کہا جاتا تھا۔ اکثر اوقات ایسے گھروں میں کچھ کنبوں کی زندگیاں بیت جاتی تھیں۔
گھر یہاں تمام لوازمات کے ساتھ ملا کرتے تھے یعنی فرنیچر، برتن، فریج، ٹی وی، بستر ، چادریں، تکیوں کے غلاف، تولیے تک۔ گھروں کی مالکائیں عموما" کچھ معاوضے کے عوض کپڑے دھو کر استری کر کے لا دیا کرتی تھیں۔ مالک مکان لیوبا بھی ایسا کرتی تھی۔ اس خاتون میں ایک بڑی برائی یہ تھی کہ وہ دروازے میں چاپی گھمانے سے پہلے بیل نہیں بجاتی تھی، بس دراتی چلی آتی تھی۔ شاید اس کو بھول جاتا تھا کہ وہ اب اس گھر کی مکین نہیں رہی تھی۔ طغرل نے اسے کئی بار انتباہ بھی کیا تھا لیکن اس کی یہ عادت تھی کہ بدل کے نہیں دے رہی تھی۔ اب وہ دروازے کی زنجیر چڑھا کے رکھتا تھا تاکہ وہ گھستی نہ چلی آئے۔ انسان کی آخر کوئی پرائیویسی ہوتی ہے۔ کوئی اکیلے گھر میں نہانے کے بعد کپڑے پہنے بغیر بھی تو غسل خانے سے نکل سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یولیا آیا کرتی تھی اور ان دونوں کے نجی لمحات ہوتے تھے۔
ایک روز یولیا نے طغرل کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ وہ پہلے ہی بتا چکی تھی کہ اس کے والد کا ایک بازو کسی حادثے کی وجہ سے کندھے کے پاس سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔ یہاں لڑکیاں کسی مرد کو تب ہی اپنے والدین سے ملاتی ہیں جب وہ اس مرد کے ساتھ تعلقات میں سنجیدہ ہونے لگیں۔ تعلقات میں خواتین کی سنجیدگی تو آپ سمجھتے ہی ہیں، دنیا کی ننانوے فیصد خواتین کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے، گھر بسانا۔ تاہم وہ جانتی تھی کہ طغرل شادی شدہ ہے، اس کے دو بچے ہیں مگر اس کے ازدواجی تعلقت بہت کشیدہ ہیں۔ امید رکھنے میں بھلا کیا برائی ہو سکتی ہے اور پھر امید تو ویسے بھی آخر میں مرا کرتی ہے۔
یولیا نے بتایا تھا کہ فلاں زیرزمین سٹیشن سے نکل کر کونسے نمبر کی بس پر بیٹھ کر کونسے سٹاپ پر اترنا ہے اور ایڈریس کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت سے اس وقت کے درمیان اس بس سٹاپ پر اس کی منتظر رہے گی۔ طغرل غلطی سے کوئی دو بس سٹاپ آگے جا کر اترا تھا۔ وہ اس کے بتائے ہوئے سٹاپ تک جانے کے لیے ایک طرف سے آ رہا تھا کہ یولیا نے اسے دور سے دیکھ لیا تھا۔ یولیا لمبے قد اور چھریرے بدن کے باعث اپنے انسٹیٹیوٹ کی باسکٹ بال ٹیم میں شامل تھی۔ وہ شاید طغرل کی آمد میں تاخیر سے بد دل ہو چکی تھی ، اس نے جب اسے آتے دیکھا تو فٹ پاتھ پر اس کی جانب دوڑ لگا دی تھی۔ جب کچھ فاصلے سے طغرل نے اسے اپنی جانب بھاگتے دیکھا تھا تو وہ بھی اس کی دوڑ کا فاصلہ کم کرنے کے لیے اس کی جانب بھاگ پڑا تھا۔ ایک مقام اتصال پر"ٹھاہ" کرکے وہ ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ گئے تھے۔ یولیا بہت خوش تھی کہ وہ وعدے کے مطابق پہنچ گیا تھا۔ طغرل کو علیحدہ ہو کرایسا لگا جیسے یہ منظر بالکل فلم "دل میرا دھڑکن تیری" کے ایک منظر جیسا تھا مگر یولیا نے تو اس نام کی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی وہ تو بس خوش ہو کر بھاگی تھی۔
وہ ایک دوسرے کے بازووں میں بازو ڈالے، ہنستے، باتیں کرتے اس کے گھر پہنچ گئے تھے۔ وہی سبھی لوگوں کے کوارتیروں جیسا دو کمروں کا کوارتیرا تھا۔ یاد رہے جب دو کمرے کہا جاتا ہے تو وہ بس دو کمرے ہوتے ہیں، ڈرائنگ روم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ اس کے ماں باپ سادہ اور خاموش طبع افراد تھے۔ دعوت کا خوب اہتمام کیا ہوا تھا۔ طغرل یولیا اور اس کی ماں کے لیے پھول اور تقریب کے لیے شیمپین لانا نہیں بھولا تھا۔
طغرل یہاں کے کھانوں کا عادی نہیں ہوا تھا اور نہ ہی سالہا سال رہنے کے بعد ہو پایا ۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ جیسا کیسا پکا سکتا ہے خود پکا کر کھائے یا کبھی حامد کے گھر جا کر کھا لیتا تھا، زیادہ تر وہ یہ کرتا تھا کہ کھانے کے لیے میکڈونلڈ چلا جاتا تھا۔ بہرحال دعوت میں آیا تھا اس لیے اسے کچھ تو کھانا تھا۔ سلاد کھا لیا تھا۔ اس کے جی میں آیا تھا کہ ریڈ فش والا بوتربرود ( یہ جرمن لفظ بوٹیر بروڈ یعنی مکھن روٹی کا روسی اظہار ہے۔ ہر سینڈوچ کو جو سینڈوچ نہیں ہوتا اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ روٹی کے ٹکڑے پرمکھن لگا کر اس پر کوئی چیز جیسے مچھلی کے گوشت کا ٹکڑا یا مچھلی کے انڈے وغیرہ رکھ دیے جاتے ہیں۔ اسے سینڈوچ کی طرح ڈھانپنے کی خاطر روٹی کا دوسرا ٹکڑا نہیں لگایا جاتا) بھی چکھ لے۔ طغرل نے وہ منہ میں ڈالتے ہی یوں لگا تھا جیسے اس کے منہ زندہ مچھلی، اپنی تمام مچھیند کے ساتھ گھس گئی ہو۔ نگل تو وہ سکتا نہیں تھا، اگلنا معیوب تھا چونکہ مہمان تھا، ایسا کرکے وہ اپنے میزبانوں بالخصوص اپنی سہیلی کی اپنے والدین کی نظرمیں وقعت کم کردیتا۔ اچھا ہوا کہ اس کی کرسی عین اس دروازے کے ساتھ تھی جو بالکونی میں کھلتا تھا۔ یولیا اور اس کی ماں باورچی خانے سے گرم کھانا لینے چلی گئی تھیں، صرف اس کا باپ طغرل کے ساتھ بیٹھا تھا۔ طغرل اٹھا اور بالکونی کی ریلنگ کے ساتھ لگ کر ایسے کھڑا ہو گیا جیسے تازہ ہوا لے رہا ہو پھر اس نے گردن نیچے کیے بغیر بدبودار نوالہ سڑک پر تھوک دیا تھا۔ شاید اس کے باپ کو اس کا چہرہ بنتے دیکھ کر اندازہ ہو گیا تھا لیکن اس نے ظاہر نہیں کیا تھا۔
کھانا کھانے اور چائے پینے کے بعد یولیا اسے اپنے گھر کے نزدیک معروف پارک دکھانے لے گئی تھی اور وہ جانے سے پہلے اس کے والدین کو خدا حافظ کہہ نکلا تھا۔ پارک تو کیا دیکھنا تھا، پارکوں جیسا پارک تھا البتہ دوردرختوں کے جھنڈ میں ایک پیڑ کی زمین سے لگی ڈال پر بیٹھ کر دونوں نے ایک دوسرے کے ابدان کے ساتھ وہی سلوک کیا تھا جو تنہائی میں دو پیار کرنے والے کسی اور کے کسی بھی وقت آنے کا ذہن میں رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ آج یولیا اس کے ہمراہ نہیں گئی تھی۔ یولیا نے کبھی کوئی رات اس کے گھر نہیں بتائی تھی وہ اچھی بچیوں کی طرح سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے اپنے گھر چلی جاتی تھی۔
طغرل سے کوئی راہ سیدھی نہیں ہو پا رہی تھی۔ نہ کاروبارکی اورنہ ہی یہ طے کرنے کی کہ وہ ازدواجی سردمہری کے کسی منطقی انجام سے ہمکنار ہو یا نہ۔ اس بیخ و بن میں بعض اوقات اس کا یولیا کے ساتھ رویہ نامناسب ہو جایا کرتا تھا۔ اس پر کیا بیتا کرتی تھی وہ زبان فرنگ پر گرفت نہ ہونے باعث بتانے سے قاصر تھی۔ طغرل ایسے رویے کے بعد اس سے کبھی معذرت کر لیا کرتا تھا اور کبھی اسے چوم چاٹ کر منا لیتا تھا۔ ایک روز یولیا نے اس سے اپنے گھر کے نزدیک زیر زمین ریلوے سٹیشن سے باہر ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ وہاں پہنچ گیا تھا لیکن یولیا کو پہنچنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ اس اثناء میں وہ بیئر کی دو بوتلیں معدے میں اتار چکا تھا اور دو بوتلیں خرید کرہاتھ میں پکڑے سٹیشن سے باہرنکلنے والے کاریڈور کی دیوارکے ساتھ لگا کھڑا تھا جہاں بہت سے لوگ کھڑے ہوئے سستی چیزیں بیچ رہے تھے۔ اتنے میں یولیا پہنچ گئی تھی اس نے اسے ایسے بوتلیں پکڑے کھڑے دیکھا تو اسے بہت برا لگا تھا، شاید اسے لگا تھا کہ وہ بھی فروشندوں کے ساتھ بوتلیں بیچنے کو کھڑا تھا۔ وہ برس پڑی تھی۔ طغرل کو ایک اس کے دیرسے آنے اور دوسرے بلاجواز بگڑ جانے پر غصہ آ گیا تھا مگر اس نے کچھ ظاہر نہ کیا تھا بس اس کے ساتھ باہر جا کر ٹیکسی پکڑی تھی اور اپنے گھر لے آیا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے یولیا کو دھکا دے کر بستر پر چت کر دیا تھا اور اسے بے لباس کرنے کو تھا کہ اس نے "میں خود" کہہ کر خود کو کپڑوں سے آزاد کر لیا تھا۔ طغرل نے اسے چھوا تک نہیں تھا اور چہرے پر حقارت کے تاثرات پیدا کرتے ہوئے کہا تھا، "اگر چاہو تو کپڑے پہن لو" اور خود بوتل کھول کر اس کی طرف پیٹھ کرکے ایک کرسی پر بیٹھ کر پینے لگا تھا۔
یولیا عام گھریلو لباس میں اسے ملنے آئی تھی۔ وہ شاید اسے سٹیشن سے ساتھ لے کر اپنے گھر کے نزدیک پارک میں گھومنے کی خاطر لے جانا چاہتی تھی، اس کے پاس پرس نہیں تھا ورنہ ایسے سلوک کے بعد وہ شاید فورا" اس کے گھر سے نکل جاتی اور کبھی نہ ملتی۔ طغرل کو یک لخت اس حقیقت کا احساس ہوا تھا۔ اسے اپنے رویے پر خجالت محسوس ہوئی تھی بلکہ خود پر غصہ آیا تھا۔ اس نے یولیا کو بانہوں میں بھرلیا تھا اور پیار کرنے لگا تھا۔ وہ بے بسی اور ندامت سے رونے لگی تھی، شاید اسے بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اور جان گئی تھی کہ طغرل نے جو کیا وہ اس کی بلا جواز ناراضی کا ردعمل تھا۔ وہ دونوں شیر و شکر ہو گئے تھے مگر شاید عارضی طور پر۔ طغرل نے اسے ٹیکسی میں بٹھا کر، ڈرائیور کو کرایہ دے کر رخصت کر دیا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“