مثل برگ آوارہ
تیسرا در
اس زمانے میں جب یہاں دنیا سے مختلف سیاسی و معاشی نظام تھا تب اس ملک کے سکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء وطالبات کو گرمیوں کی تعطیلات کے دوران استراحت کی خاطر بہت ہی معمولی رقم کے عوض ساحل سمندرپربھیجا جاتا تھا۔ ویسے بھی اس زمانے میں طالب علموں کے لیے ہوائی سفر کے کرائے بہت کم ہوا کرتے تھے مثلا" دارالحکومت سے اس ملک کے مشرق بعید کے آخری بڑے شہر تک کا ہوائی سفربارہ گھنٹے کا ہے اس کے مقابلے میں طیارہ ساڑھے دس گھنٹوں میں نیویارک پہنچ جاتا ہے۔ طلباء کو اپنے ملک کے اندراس بارہ گھنٹے کے سفرکے دوطرفہ ٹکٹ، ایک ہفتے کی رہائش، غذا اور تمام تر تفریحی اسفار کے لیے کل تیس روبل دینے ہوتے تھے جبکہ ہرطالب علم کو ہرماہ حکومت ساٹھ روبل وظیفے کی شکل میں دیا کرتی تھی۔ ہوسٹل میں رہائش، ہرہفتے بستر کے لیے دھلی ہوئی چادریں اوردوسری سہولتیں ویسے ہی بلا معاوضہ تھیں۔
بحر اسود کے کنارے اکثر یونیورسٹیوں کے اپنے اپنے تفریح گھر تھے جن میں تین تین ہفتوں کی استراحت کی خاطر آئے ہوئے طلباء و طالبات کو رہائش فراہم کی جاتی تھی۔ حسام کسی نہ کسی طریقے سے طغرل کے لیے بھی بحیرہ اسود کے کنارے واقع اپنی یونیورسٹی کے تفریح گھر جسے "پینسیونات" کہا جاتا ہے، میں رہائش اور ان ایام میں طعام کے کوپن لے آیا تھا مگر طغرل ان کے ہمراہ ہوائی جہاز کا سفر نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ایک تو اس کے ویزے پراس شہرکا نام درج نہیں تھا جہاں اس طیارے کو اترنا تھا دوسرے ان دنوں غیرملکیوں کے لیے نہ صرف طیاروں بلکہ ہوٹلوں اورعجائب گھروں کے ٹکٹ بھی مقامی لوگوں کی نسبت کئی گنا مہنگے ہوا کرتے تھے۔
حسام نے طے کیا تھا کہ وہ اورنتاشا طیارے کے ذریعے جائیں گے پراپنی روانگی سے دوروز پہلےطغرل کو اس مقام تک جانے والی ریل گاڑی میں سوارکرا کے کسی ہمسفر مسافر سے اس کی دیکھ بھال کرنے کی درخواست کر لے گا۔ چونکہ طغرل کا ریل کا سفر ان کے پہنچنے کے بعد ہی تمام ہوگا چناچہ وہ اس شہر کے ریلوے سٹیشن پر آ کر اسے لے لے گا اور اپنے ساتھ تفریح گھر لے جائے گا۔
طغرل کی ریل گاڑی کے ذریعے روانگی سے چند روز پہلے حسام نے زیر زمین ریل گاڑیوں میں اس کی ہمرہی کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس طرح اس نے اسے شہر میں اپنے طور پر گھومنے پھرنے کا عادی کرکے بہت دور کے دوسرے شہر تک اکیلے سفر کرنے کی خاطرتیارکرنے کی ترکیب آزمائی تھی۔ اس ملک میں زیرزمین ریلوے کے نظام کو "میترو" کہا جاتا ہے۔ شاید یہ دنیا میں زیرزمین ریلوے کا سب سے اچھا نظام ہے۔ بعض ریلوے سٹیشن بہت زیادہ گہرائی میں واقع ہیں۔ اترنے اور چڑھنے کی خاطرخودکار زینے ہیں جو صبح ساڑھے پانچ سے رات ایک بجے تک مسلسل گردش میں رہتے ہیں۔ سٹیشن بہت بڑے بڑے، بے حد صاف، پوری طرح ہوا دارا اورانتہائی روشن ہیں۔ دیواریں اور چھتیں موزائیک میورلز، پینٹنگز اورمجسموں سے مزیّن ہیں۔ ریل گاڑیوں کی آمدورفت میں تیس سیکنڈ سے ڈیڑھ منٹ تک کا وقفہ ہوتا ہے جو مسافروں کی تعداد کے زیادہ اورکم ہونے کے ساتھ مربوط ہے۔ اس نظام کا نقشہ اس قدرآسان ہے کہ بچہ بھی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ ایک سرکلر سسٹم ہے یعنی گولائی میں اورایک ریڈیل لائنوں کا سسٹم یعنی افقی۔ گاڑیاں سٹیشن کے ایک جانب سے آتی ہیں توجاتی دوسری جانب سے ہیں۔ ریل گاڑیوں کے دروازے خود کارہیں۔ آج توہرچیزکی طرح یہ نظام بھی بدلا ہوا ہے لیکن تب گاڑیوں کے اندرچسپاں کیے گئے نقشوں میں سٹیشنوں کے نام انگریزی حروف میں درج نہیں کیے جاتے تھے اور ڈبوں میں کسی قسم کا کوئی اشتہار نہیں ہوا کرتا تھا جن کی آج بھرمار ہے۔ انگریزی زبان تب بہت ہی کم لوگوں کو آتی تھی لیکن لوگوں کا کمال یہ ہے کہ وہ آپ کی انتہائی غلط اور ٹوکویں لفطوں میں بولی ہوئی اپنی زبان کا مفہوم سمجھ لیتے ہیں۔ طغرل کو شروع میں حروف تہجی سمجھنے میں دشواری ہوئی تھی کیونکہ خ یا ہ کے لیے انگریزی کے حرف ایکس جیسا حرف تھا، ایک حرف یا بھی ہے جس کے لیے حرف ایسے تھا جیسے انگریزی کا حرف آرالٹا لکھا ہو، این کے لیے انگریزی کا حرف ایچ اورای کے لیے انگریزی کا حرف این جیسے الٹا لکھا ہوا۔ دو ایک حرف تو بالکل ہی مختلف تھے۔ ایک ریڈیئل راستے سے دوسرے ریڈیئل راستے کو اختیار کیے جانے کی خاطر زیر زمین راہداریوں سے گذر کر، جو بعض مقامات پر خاصی طویل ہیں، سرکلر لائن کی گاڑی پر سوار ہو کر مطلوبہ ریڈیئل لائن سے منسلک ریلوے سٹیشن پر اتر کے پھر سے ایک اور راہداری کو عبور کرنے کے دوران طغرل کو ایک دو بار کسی کی مدد مانگنی پڑی تھی مگرچند روز میں ہی بغیر کسی کی مدد لیے کم از کم شہر کے مرکزاوروہاں سے واپس ہوسٹل آنے جانے لگا تھا۔
پھر ایک روز حسام نے طغرل کو کھانے پینے کا سامان خرید کر دیا تھا۔ اس کے لیے بحیرہ اسود کے تفریحی شہر تک کا ٹکٹ حسام پہلے ہی خرید چکا تھا۔ دن کے دس بجے اس نے اورنتاشا نے اسے ایک ریلوے ستیشن سے، جی ہاں اس شہر میں نہ صرف آٹھ ریلوے سٹیشن بلکہ ہوائی اڈے بھی چار بلکہ پانچ ہیں، ریل گاڑی کے "پلس کارت" ڈبے میں سوارکرا دیا تھا۔ اس نے ڈبہ بان خاتون کو بھی اس کا خیال رکھنے کی خاطر کوئی تحفہ دیا تھا اور طغرل کی نشست کے ساتھ والی نشست پر بیٹھی ہوئی ایک شفیق سی طرحدارخوبصورت خاتون کو بھی راستے میں اس کا خیال رکھنے کی درخواست کی تھی۔ یوں اس ملک میں طغرل کا ریل گاڑی کا اپنے طورپرپہلا طویل سفرشروع ہوا تھا۔ گاڑی کو چھتیس گھنٹے کے سفر کے بعد مطلوبہ شہر پہنچنا تھا۔
طغرل کو وہ زبان نہیں آتی تھی جو باقی مسافر بولتے تھے اوران میں سے کسی کو انگریزی نہیں آتی تھی۔ طغرل پھر بھی اس خاتون کے ساتھ ایک انجان زبان میں باتیں کر رہا تھا یعنی اشاروں اور کچھ لفظوں پر مشتمل زبان میں۔ تین گھنٹوں کے سفر کے بعد ظہرانے کا وقت ہو گیا تھا۔ شفیق خاتون نے میز پر اخبار بچھا کراس پرکھانے کی چیزیں چن دی تھیں۔ طغرل نے بھی اپنے کھانے کا سامان کھول کر رکھ دیا تھا اور وہ پیٹ بھرنے لگے تھے۔ اس خاتون نے کھولے ہوئے ایک ٹن سے گوشت کا قتلہ لینے کے لیے طغرل کو اشارہ کیا تھا۔ اس نے ڈبے پر لکھی انجان زبان پڑھنے کی کوشش کی تھی پر کچھ سمجھ نہیں سکا تھا البتہ ڈبے پر بنی بارہ سنگھے کی ایک چھوٹی سی تصویر دیکھ کراس نے سوچا تھا کہ شاید ہرن یا بارہ سنگھے کا گوشت ہو چنانچہ اس نے ایک چھوٹا سا قتلہ اٹھا کر منہ میں ڈال لیا تھا۔ بعد مین دل نہیں مانا تھا اس لیے مزید نہیں کھایا تھا۔ عورت نے دونوں پاتھوں سے سر پر سینگ بنا کراور گائے کی آواز نکال کر بتایا تھا کہ بیف ہے، مگر طغرل نے ہاتھ کھینچے رکھا تھا۔ خاتون نے کہا تھا،" ہاں مسلمان ہو احتیاط کرتے ہو، شاید خنزیر سمجھ رہے ہو اس لیے نہیں کھاتے" طغرل نے اندازہ ہی لگایا تھا کہ اس نے ایسا کہا ہوگا۔ وہ ان دوں خود کولامذہب سمجھتا تھا، اس لیے اس نے اسے سمجھانا چاہا تھا کہ مذہب مسئلہ نہیں ہے بلکہ بات کچھ اور ہے۔ چنانچہ اس نے اشاروں اور ٹوکویں لفظوں میں پوچھا تھا کہ کیا آپ "میاؤں میاؤں" یعنی بلی کا گوشت کھائیں گی؟ اس عورت کا منہ بن گیا تھا جیسے کہہ رہی ہو ،" توبہ توبہ، میں بھلا بلی کا گوشت کیوں کھاؤں"۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا تھا کہ آپ کیوں نہیں کھاتیں؟ عورت کا جواب تھا کہ اس کا کلچر یعنی ثقافت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ طغرل نے آنکھیں پھیلا کراورہاتھ کا اشارہ کرکے بتایا تھا کہ مادام میرا کلچر بھی لحم خنزیر کھانے سے منع کرتا ہے۔
سامنے والی نشست پرلمبی لمبی ٹانگوں والی ایک پیاری سی نوجوان لڑکی بیٹھی تھی جس نے جانگیے کے اوپر بس ایک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ طغرل کو وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اس نے ریل گاڑی کے ریستوران کمپارٹمنٹ میں جا کرکونیاک کے دو جام چڑھائے تھے پھراپنے ڈبے میں لوٹ کر اس لڑکی کو دنیا بھرمیں سب سے زیادہ اورسمجھا جانے والا فقرہ "آئی لو یو" کہا تھا۔ لڑکی سن کرخوش ہوئی تھی چنانچہ ہنسنے لگی تھی مگربعد میں طغرل کے بولے جانے والے انگریزی فقروں کو سمجھنے سے بیچاری نابلد تھی۔ طغرل کو اس کی زبان نہیں آتی تھی, کیا کہتا۔ جب کونیاک کا نشہ اتر گیا تو اس نے جا کر پھردو جام پیے تھے اورآ کر وہی فقرہ دہرا دیا تھا پھر خاموش ہو گیا تھا۔ جب ایک بار پھر کونیاک کا سہارا لے کر اس نے تیسری مرتبہ یہ فقرہ کہا تو لڑکی ڈھونڈ ڈھانڈ کر تھوڑی بہت انگریزی جاننے والے شخص کو لے کر آئی تھی جس نے طغرل سے پوچھا تھا کہ آپ اس سے " آئی لو یو" کہتے ہیں، پھر گھنٹے بھر خاموش رہنے کے بعد کہیں چلے جاتے ہیں اور آ کر یہی فقرہ دہرا دیتے ہیں، آخر اس یک فقرہ کلام اور پھر طویل خاموشی کا سبب کیا ہے؟ طغرل بھلا اسے کیا بتاتا ، اس نے صرف اتنا کہا تھا:
زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
اس بے ڈھنگے مترجم نے طغرل کو یہ بتانے سے شاید احتراز کیا تھا کہ لمس کی بھی بالآخر ایک زبان ہوتی ہے۔ اگر وہ اس حقیقت کا تذکرہ کر بھی دیتا تب بھی طغرل میں اس قدرجرات رندانہ نہیں تھی کہ لمس کا استعمال کرتا۔ وہ بیچارا تو یہ بے ضرر فقرہ کہنے کے لیے بھی کڑوے پانی کا سہارا لے رہا تھا۔ بصورت دیگر سفر کو رنگین کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوتی۔
رات ہو گئی تھی، سب سو گئے تھے۔ طغرل کروٹیں بدلتا رہا تھا، لڑکی سامنے والی برتھ پرمحو خواب تھی۔ چادر تلے سے اس کے جسم کے نشیب و فراز پھدک کر باہر آتے ہوئے لگتے تھے۔ آخر نیند نے طغرل کو بھی آن لیا تھا۔ اگلے روز سہ پہر کے وقت گاڑی کہیں رک گئی تھی اور پھر رکی رہی تھی۔ لوگ ریل گاڑی سے نیچے اتر کر باہر ٹہلنے اور باتیں کرنے لگے تھے۔ ان کے انداز اور لہجے سے لگتا تھا جیسے وہ پریشان ہیں۔ کچھ جھنجھلائے ہوئے بھی لگ رہے تھے۔ طغرل اشاروں کی زبان میں پوچھنے کی کوشش کرتا بھی تو کیسے؟ بہر حال ہاتھ کے اشاروں اور لفظ "شتو" یعنی "کیا؟" سے کام چلانے کی کوشش کی تھی۔ جس سے بھی پوچھا اس نے "نی زنایو" ہی کہا تھا یعنی اسے علم نہیں۔ کوئی چار گھنٹے بیت جانے کے بعد، اس ویران مقام پر بچھی ہوئی پٹریوں میں سے ایک پٹڑی پر کوئی دوسری ریل گاڑی آ کر رکی تھی۔ لوگ اپنا اپنا سامان اٹھا کراس گاڑی میں منتقل ہونے لگے تھے۔ طغرل نے بھی شفیق ساتھی خاتون کے اشارہ کرنے پراپنا بیگ اٹھایا تھا اوراس کے ہمراہ جا کر دوسری گاڑی میں بیٹھ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ سب مسافروں نے اپنی اپنی نشستیں سنبھال لی تھیں ۔ سب پرتشویش تھے۔ پھر کہیں جا کر معلوم ہوا تھا کہ قفقاز کے پہاڑوں میں شدید بارشیں ہونے کی وجہ سے ہوئی تباہی کے باعث ریل کی وہ پٹڑی بہہ گئی تھی جس پر ان کی ریل گاڑی کو جانا تھا۔ اس کی مرمت میں بہت وقت لگے گا اس لیے متبادل راستے سے انہیں منزل مقصود پہنچانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ جب ان کی گاڑی پہاڑی علاقے میں پہنچی تو ان پر تباہی کے نشان واضح ہونے لگے تھے۔ بہہ کر آئے ہوئے درخت، بارشوں کے ریلے سے بننے والے عارضی ندی نالے، جھاڑ جھنکار۔ لگتا تھا کہ بارشیں بہت ہی طوفانی اور تند تھیں۔ اس پریشانی کے باوجود نگاہیں تھیں کہ قدرتی مناظر سے ہٹ کے نہیں دے رہی تھیں۔ پہاڑوں کی ڈھلانوں پردیودار، چیڑ اورسرو کے درخت یوں ساکت کھڑے تھے جیسے عذاب الٰہی سے خوفزدہ ہوگئے ہوں۔ پھر ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ اونچائی پر بنی ہوئی ریل کی پٹڑی پر سفر شروع ہو گیا تھا۔ اب بحر اسود کا لہریں اچھالتا ہوا نیلگوں پانی اور اس کی سطح پر سورج کی کرنوں کے باعث بنتے ہوئے چمکدارا جھلملاتے ان گنت تارے دل کو لبھا رہے تھے۔ چھتیس گھنٹوں کا سفر اڑتالیس گھنٹوں پر محیط ہو چکا تھا۔
تفریحی سیاحتی شہر کے سٹیشن پر اترنے کے بعد بہت دیر تک حسام کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ وہ دکھائی دیتا بھی تو کیسے کیونکہ غیرمتوقع صورت حالات کے سبب ریل گاڑیوں کی آمد کے اوقات اتھل پتھل ہو کر رہ گئے تھے۔ سب مسافر جا چکے تھے۔ آخر طغرل نے بھی بیگ اٹھایا اور سٹیشن سے باہر آ کر ٹیکسی والے سے بات کی تھی کہ وہ اسے "تو آب سے" کے تفریح گھر پہنچا دے۔ شاید ایک سو روبل میں معاملہ طے ہوا تھا، تب یہ بڑی رقم سمجھی جاتی تھی۔
ٹیکسی ڈرائیور مقامی قفقازی شخص تھا۔ تب طغرل کو قفقاز میں رہنے والی مختلف قومیتوں کے لوگوں کے درمیان امتیاز کرنا نہیں آتا تھا، بس یہ کہ وہ دوسرے سفید فام ملکی لوگوں سے مختلف تھے۔۔ ان کے سر کے بال کالے اورچہروں کے نقوش ترکوں کے نقوش سے مشابہ تھے۔ ڈرائیور نے اپنی پرانے ماڈل کی روسی گاڑی کے ٹیپ ریکارڈر میں کوئی گیت لگا دیا تھا۔ آذری تھا، آرمینیائی تھا یا کسی اور زبان کا معلوم نہیں ہو سکا تھا مگر گیت کے آہنگ میں غنائیت بہت تھی۔ قفقاز کا حسن اور ہوا کی تازگی روح کو تروتازہ کر رہی تھی اس پر طرح یہ گیت۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ طغرل اور ڈرائیور راستے بھر آپس میں باتیں کرتے رہے تھے۔ کیسے کرتے رہے تھے، طغرل کو آج بھی یاد نہیں کہ کیسے۔ راستے کی مسافت بھی ایک ڈیڑھ گھنٹے سے کم نہیں تھی لیکن ماحول کے طفیل سفر کی کسالت دور ہو گئی تھی۔ مزاج میں ترنگ بھر گیا تھا۔ بڑی شاہراہ سے ایک ذیلی سڑک پرمڑ کرجس کے دورویہ خوبصورت جنگل تھا، ایک چیک پوائنٹ سے اندر جا کر بنی ہوئی عمارت کے پاس جا کر ٹیکسی ڈرائیور نے ٹیکسی روکی تھی اور ہاتھ سے اشارہ کرکے کہا تھا "ایدمنستراتسیا توآب سے پینسیونات" یعنی یہ تو آب سے تفریح گھر کی انتظامیہ کا دفتر ہے۔ طغرل نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے ادائیگی کی تھی اوردفترمیں داخل ہو گیا تھا۔
حسام نے اسے کوپن دے کر سمجھا دیا تھا کہ یہ کوپن انتظامیہ کے حوالے کرنے کی خاطر سنبھال کر رکھے۔ اس نے وہ کوپن انتظامیہ کی اہلکارہ کے حوالے کر دیا تھا جس نے جانچ پڑتال اور اندراج کے بعد اسے کمرے کا نمبر کاغذ کے پرزے پر لکھ کر دے دیا تھا اور اشاروں سے سمجھا دیا تھا کہ سامنے کی درمیانی سڑک پر اسے مختص کیا گیا کمرہ کہاں پر واقع ہے۔ طغرل نے کمرہ جلد ڈھونڈ لیا تھا۔ کمرہ کھلا تھا۔ ایک بستر پر ایک نوجوان روسی لڑکا لیٹا ہوا کچھ پڑھ رہا تھا۔ طغرل نے اس سے ہیلو ہائی کرنے کے بعد اسے چٹ دکھائی تھی جس نے زیادہ توجہ مبذول کیے بغیر ایک چارپائی پر بچھے ہوئے بستر کی جانب اشارہ کر دیا تھا۔ اس نے چارپائی کے نیچے اپنا بیگ رکھا تھا اور حسام و نتاشا کو تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا تھا۔
اسے معلوم تھا کہ سمندر کو وہاں کی زبان میں موریا کہتے ہیں اور اس کا خیال تھا کہ انہیں سمندر کے کنارے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ وہ "موریا، موریا" پوچھتا ہوا کوئی ایک سو کے قریب پتھروں سے بنی سیڑھیاں اترکرایک کچے راستے پر پہنچا تھا، جہاں سے نیچے دورسمندردکھائی دے رہا تھا۔
اس نے ایک افریقی نژاد لڑکے سے پوچھا تھا کہ وہ کہاں کا طالبعلم تھا۔ وہ اسی ہونیورسٹی کا طالبعلم نکلا جس میں حسام پڑھتا تھا۔ وہ حسام کے نزدیک کے کسی ہوسٹل کا رہائشی تھا۔ طغرل نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا وہ حسام نام کے کسی طالبعلم سے شناسا ہے، اس نے انکار کر دیا تھا۔ پھر اس سے پوچھا تھا کہ ساحل سمندر تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ اس نے دور اشارہ کرکے کہا تھا کہ جہاں وہ کیبن دکھائی دے رہا ہے وہاں سے زینہ نیچے جاتا ہے جس سے اتر کر ساحل سمندر پر جایا جا سکتا ہے۔ پھر اس نے طغرل پر معترضانہ سی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا تھا لیکن تم نے تو کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔
طغرل یہ سمجھا تھا کہ شاید ساحل سمندر پر لوگ مادرزاد برہنہ ہوں گے کیونکہ جس نئے ہوسٹل میں وہ منتقل ہوئے تھے اس کے غسل خانے تہہ خانے میں واقع تھے جہاں بغیر دروازوں کے غسل خانوں میں داخل ہونے سے پہلے سبھی نہانے والے ایک ملحق کمرے میں اپنے سارے کپڑے اتار کر رکھنے کے بعد اندرجاتے تھے بلکہ ایک بار تو طغرل نے مردوں کے غسل خانے میں ایک نوجوان لاطینی امریکی لڑکی کو بھی نہاتے دیکھا تھا جس کو باقی لوگوں کی نگاہوں سے ڈھانپنے کے لیے تین چار افریقی مرد نما نوجوان اپنے طویل مردانہ اعضا لہراتے ہوئے اس کے ادھر ادھر ہو رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے۔
نیم روشن غسل خانوں میں تو طغرل نے کسی نہ کسی طرح سب کی موجودگی میں کپڑوں سے آزاد ہونے کی جرات کر لی تھی لیکن روز روشن میں سرعام ایسا کرنا اسے بہت مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ پھر بھی اس نے کیبن تک پہنچتے پہنچتے پتلون میں سے قمیص باہر نکال کر قمیص کے بٹن کھول لیے تھے اور سوچا تھا کہ اوکھلی میں سر دیتے ہوئے موسلوں کے ڈر سے بے نیاز ہو جانا چاہیے۔
نیچے اترنے والے زینے تک پہنچ کر ساحل سمندرپرموجود لوگ دکھائی دینے لگے تھے جو یکسر ننگے نہیں تھے بلکہ پیراکی کے لباس میں تھے یعنی مردوں نے جانگیے اورعورتوں نے جانگیوں کے ساتھ ساتھ انگیائیں پہنی ہوئی تھیں۔ زینوں کے پاس موجود کیبن درحقیقت ایک وسیع اور کھلا لکڑی کی چھت والا ہال تھا جس میں پیراکی نہ کرنے والے پھٹے بچھا کر بے سدھ لیٹے ہوئے تھے۔ لکڑی سے بنا یہ کھلا ہال لکڑی کے بالوں پراستوارتھا جوساحل سے دورکی زمین میں گڑے ہوئے تھے۔
طغرل ابھی وہاں کھڑا، سمندر سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کھاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اس جم غفیر میں اپنے دوستوں کو کیونکرتلاش کرسکے گا کہ اسے نیچے اترنے والے زینے پر چڑھتا ہوا ایک لاطینی امریکی لڑکا دکھائی دیا تھا جو ہوسٹل میں نتاشا سے گپ شپ لڑایا کرتا تھا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو ہائی کہا تھا۔ جب طغرل نے اس سے نتاشا کے بارے میں پوچھا تھا تو اس نے ہاتھ سے اشارہ کرکے دکھا دیا تھا کہ نتاشا کہاں ہے۔ طغرل مطمئن اورخوش ہو گیا تھا۔ اس نے نیچے اتر کر نتاشا کو جا پکڑا تھا اور وہ بھی طغرل کے بخیریت پہنچ جانے پر شاداں دکھائی دینے لگی تھی۔ جب اس نے اس سے حسام کے بارے میں پوچھا تھا تو اس نے بتایا تھا کہ وہ اسے خوش آمدید کہنے کے لیے شہر کے ریلوے سٹیشن گیا ہوا ہے اور کہا تھا کہ دو دنوں میں یہ اس کا تیسرا چکر تھا۔ پھر نتاشا اسے لے کر اوپر چڑھی تھی اور تفریح گھر کے علاقے میں واقع ایک دکان میں لے گئی تھی جہاں سے اس نے طغرل کو ایک شارٹس خریدوائی تھی اور ایک واٹربال بھی خریدی تھی۔ وہ ایک بار پھر ساحل سمندر پر جا پہنچے تھے۔ طغرل کو تیرنا نہیں آتا تھا بس ساحل کے ساتھ ساتھ اتھلے پانی میں کھڑا ہو کر بیٹھتے ہوئے ڈبکی لگا کر خود کو گیلا کر لیتا تھا۔ طغرل اور نتاشا واٹربال سے کھیلتے رہے تھے۔ کوئی چھ بجے کے قریب جب سورج سمندر کی سطح کے نزدیک پہنچنے کو تھا تب حسام بھی پہنچ گیا تھا۔ اس نے طغرل کو وہاں موجود پا کر اطمینان کی سانس لی تھی اور ساتھ ہی طغرل کو اپنے طور پر تفریح گھر پہنچ کر نتاشا کو تلاش کر لینے پر داد بھی دی تھی۔
وہ تینوں لوٹ کر اپنے اپنے کمروں میں گئے تھے۔ طغرل نے اس ملک میں پہلی بار درختوں تلے، لوہے کی چادروں کی اوٹ میں کھلے آسمان تلے بنے غسل خانے میں نہا کر کپڑے تبدیل کے تھے۔ پھر وہ تینوں اکٹھے ہوئے تھے اور کھانا کھانے میس چلے گئے تھے۔ میس میں کھانا کھانے والوں کے لیے نشستیں مخصوص تھیں۔ کھانا خالصتا" روسی نوعیت کا تھا یعنی پہلے سوپ دیا گیا، پھر گوشت کے تلے ہوئے قتلے اور آلو کا پھیکا ملیدہ، ساتھ میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے اور پینے کی خاطر ، پھلوں کو پانی میں ابال کر بنایا گیا ہلکا گرم شربت جسے "کمپوت" کہا جاتا ہے۔ کھانا تقریبا" بے ذائقہ تھا جس پر پسی ہوئی سیاہ مرچیں چھڑک کر ذائقے کا بس گمان کیا جا سکتا تھا، البتہ کھانا غذائیت سے بھرپور ضرور ہوگا کیونکہ بقول اس ملک کے لوگوں کے ایسے کھانے میں "ویتامین" یعنی حیاتین محفوظ رہتی ہیں۔ نتاشا متنبہ کرچکی تھی کہ شام کا کھانا سات بجے تک ہی مل سکتا ہے، نزدیک کھانے پینے کی کسی چیزکا دستیاب ہونا ممکن نہیں تھا اس لیے رات کو بھوک مٹانے کی خاطر میس کی میز سے خشک غذا جو بھی اورجتنی بھی مل سکے، اٹھا کر کمرے میں اپنے ساتھ لے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں.
مگر طغرل ایسا کرنے سے قاصر رہا تھا کیونکہ اسے ایسا کرنا چوری کرنا لگتا تھا، لگتا کیا تھا تھی ہی چوری۔
جب اندھیرا چھا گیا تو کہیں سے موسیقی کی آوازآنے لگی تھی۔ رہائش گاہوں کے بیچوں بیچ، سیمنٹ کا ایک گول چبوترہ تھا، جس کے گردا گرد ایک نیچی جالی دار دیوار تھی، اس میں اندر داخل ہونے کی خاطر چار جگہ سے کھلا رکھا گیا تھا۔ یہ رقص گاہ یعنی دسکو تیکا (Discotheque ) تھی جہاں رات کے گیارہ بجے تک، کھلے آسمان تلے، درحتوں کے جلو میں، آنکھیں خیرہ کر دینے والی روشنی کے نیچے مقبول عام روسی اور مغربی دھنوں پر رقص کی محفل جمتی تھی۔
طغرل دو تین روز تو اس محفل میں شریک ہونے سے ہچکچاتا رہا تھا مگر پھر رقص کناں لوگوں میں شامل ہو کر ہاتھ پاؤں ہلانے شروع کردیے تھے۔ اجتماعی رقص میں تو موسیقی کے آہنگ پر تھرکنا کچھ اس قدر دشوار نہیں تھا لیکن جب دو تین ہیجان خیزگیتوں کے بعد مدھم موسیقی پر جوڑوں کا رقص شروع ہوتا تھا تو طغرل کسی دوشیزہ کو دعوت رقص دینے سے جھینپتے ہوئے حلقہ رقص سے نکل کر دیوار کے ساتھ کھڑا ہو جایا کرتا تھا۔
ایک روز ایک بھرے بھرے جسم اور سنہری بالوں والی لڑکی نے ہاتھ بڑھا کراسے رقص کی دعوت دی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ اس کے بولے ہوئے الفاظ سمجھنے سے قاصر تھا مگر ماحول کی ضرورت اور اپنی جانب بڑھائے گئے ہاتھ سے اسے لڑکی کا مدعا معلوم ہو گیا تھا اور اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ ایک نوجوان لڑکی کا سرعام ہلکورے لیتے ہوئے، طغرل کے ساتھ چمٹ جانے کا یہ تجربہ اس کا پہلا ایسا تجربہ تھا۔ اس کے جسم میں پتہ نہیں کونسی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ مدغم رقص کے دوران قدموں کا اٹھانا اور گرانا کوئی اتنا مشکل نہیں لگا تھا۔ موسیقی ختم ہوتے ہی وہ اس کا شکریہ ادا کر کے حلقہ رقص سے نکل آیا تھا مگر اس تجربے سے اس میں لڑکیوں کو رقص کی خاطر دعوت دینے کی ہمت ضرور پیدا ہو گئی تھی۔
چند روز بعد طغرل اور حسام آڑو خریدنے گئے تھے۔ آڑو بیچنے والی مقامی بڑھیا کے پاس ہری مرچیں بھی تھیں۔ تفریح گاہ کے مطعم میں کھانا چونکہ عام طور پر روکھا پھیکا ہوتا تھا اس لیے طغرل نے کھانے کو "مرچیلا" کرنے کی غرض اس سے پانچ چھ ہری مرچیں پکڑ لی تھیں۔ جب وہ دونوں اوپرکوچڑھتی سڑک پرچل رہے تھے تو انہیں پیراکی کے لباس میں ملبوس دو لڑکیاں سامنے سے آتی دکھائی دی تھیں۔ طغرل نے انہیں "ہائی" کہا تھا تو وہ بھی "ہائی” کہتے ہوئے، کھلکھلا کر ہنس پڑی تھیں۔ طغرل نے بات بڑھانے کی خاطر ہاتھ بڑھاتے ہوئے ان دونوں کو ایک ایک ہری مرچ پیش کی تھی۔ طغرل کا تحفہ دونوں نے ہی مسکراتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔ بھرپور جسم اورگول چہرے والی لڑکی نے مرچ کی نوک کو دانت سے کترا تھا اور زور زور سے سی سی سی کرنے لگی تھی جبکہ اکہرے بدن والی سروقد لڑکی نے جس کے لمبے گہرے بھورے بال تھے، جس کے "کتا دانت" نوکیلے تھے اورجس کے چہرے کے نقوش کچھ کچھ تاتاروں کے نقوش سے ملتے تھے، پوری مرچ کرچ کرچ کرکے کھا لی تھی پھربھی اپنی مسکراہٹ قائم رکھی تھی۔ طغرل نے جوش و خروش کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا تھا کیونکہ اس کی یہ "مشرقی ہمت" اسے بھا گئی تھی۔
رات کو وہ ایک بار پھر حلقہ رقص میں نظر آئی تھی۔ طغرل نے اسے دعوت رقص دی تھی۔ ہلکورے لینے کے دوران اس سے اگلے روز پانچ بجے شام تفریح گاہ کے مرکز میں ملنے کا وعدہ لے لیا تھا۔ اگلے روز وہ اپنی سہیلی، جس کا نام ماریا تھا وہی
جس سے ہری مرچ کی تلخی برداشت نہ ہو سکی تھی، کو ساتھ لے کرمقام مقررہ پر پہنچ گئی تھی، اس بہادر لڑکی کا نام یولیا تھا۔ دونوں ہی بن ٹھن کر آئی تھیں۔ طغرل انہیں لے کرسمندرکی جانب چل پڑا تھا۔
سمندر سے آخری پیراکوں کی واپسی ہو رہی تھی۔ ساحل سے دور، جہاں سے ساحل پر جانے کے لیے اترائی شروع ہوتی تھی، بیٹھی ہوئی گاؤں کی بوڑھی عورتیں، نیلگوں سفید شیشے کے بھدے چھوٹے مرتبانوں میں بھری خوں رنگ شراب بیچ رہی تھیں۔ سمندرآتے جاتے طغرل کبھی کبھار، گھر میں تیار کی گئی یہ انگور کی شراب ان بوڑھیوں سے خرید کر نوش جان کر لیا کرتا تھا۔ پیتے ہوئے اس میں سے تمباکو کی ہمک آتی تھی لیکن اس کا سرور بہت مدھم اور کیف آور ہوتا تھا۔ بعید نہیں کہ انگور کے رس کو "تاؤ" دینے کی خاطراس میں تمباکو کے چند پتے ڈال دیے جاتے ہوں۔
ماریا اور یولیا سمندر کے کنارے ہوا خوری کرنے کی خاطر طغرل کے ہمراہ تھیں۔ اس ملک میں مروج قاعدوں کے خلاف تھا کہ لڑکیوں کی خاطر مدارت نہ کی جائے چنانچہ اس نے شراب ناب سے بھرے ایسے دو مرتبان خرید لیے تھے۔ ساحل سمندر پر وہ اس جانب چلے گئے تھے جہاں لوگ تھے ہی نہیں، بس بڑے بڑے پتھر تھے جن کے ساتھ سمندر کی لہریں ٹکرا کر واپس ہوتے ہی نزدیکی گہرائی میں ڈوب جاتی تھیں البتہ اپنے پیچھے نمکین پانی کی پھوار اورمرتی ہوئی جھاگ چھوڑ جاتی تھیں۔ وہ تینوں ایک پتھر پر بیٹھ کر مرتبان کو باری باری منہ لگا کر جرعہ ہائے شراب حلق سے نیچے اتارنے لگے تھے۔ سیر کا ذوق، ماحول کا سحراورطبیعت کا وفور ویسے ہی کم نہیں تھے، اوپر سے انگور کی بیٹی نے ان تینوں کے احساسات سے چہلیں شروع کر دی تھیں۔ طغرل نے دونوں پر شباب لڑکیوں کی کمروں میں دھیرے سے بازو ڈال کرکے انہیں اپنی جانب کھینچ لیا تھا پھر باری باری دونوں کے ہونٹوں کے ساتھ اپنے ہونٹ چپکا دیے تھے۔ ایک ایک بوسے کے جادو سے وہ دونوں اس کے دائیں بائیں زانووں پراپنی نشستیں ٹکا کے بیٹھ گئی تھیں۔ دو جوان بدنوں کا گداز اورحدت اس قدر قریب اور اس قدر ہوش ربا، اس پر طرح یہ کہ وہ دونوں باری باری اس کا منہ اپنی جانب موڑ کر اسے اپنے ہونٹوں سے آب حیات پلا رہی تھیں جس میں انگور کی شراب کی چہل شامل تھی۔ وقت طویل ہو گیا تھا۔ دخت رزکی چہل ماند پڑ چکی تھی۔ وہ تینوں خوشی خوشی تفریح گاہ کے مرکز واپس آ کر ایک دوسرے سے کل ملنے کے وعدے کرکے جدا ہو گئے تھے۔
استراحت کی خاطرسفرسے پہلے حسام نے طغرل کو بتایا تھا کہ سمندر پر، لطف انگیزی اور عیش کوشی کے لیے بہت سی ماہ جبینیں دستیاب ہوں گی مگر یہاں اپسرائیں تھیں تو بہت لیکن دسترس ممکن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ جب طغرل نے شکوہ کیا تو حسام نے کہا تھا، "جناب اب تو آپ کو اپنا شکار خود ہی کرنا ہوگا" یہ کہہ کر وہ ہنس دیا تھا دوسرے لفظوں میں اس نے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔
اگلے روز کوئی دو بجے دوپہر، جب حسام پیراکی کرکے اورطغرل ساحل کے قریب سمندرکے پانی میں بیٹھ کرغوطے لگانے سے تھک گئے توآ کرسیڑھیوں کے نزدیک بنی استراحت گاہ کے پھٹوں پر لیٹ گئے تھے۔ سمندر کی جانب سے مسحورکن ہوا چل رہی تھی۔ طغرل کو سگریٹ پینے کی طلب ہو رہی تھی۔ اس ملک میں اشیاء کی عدم دستیابی کے حالات کے سبب سگریٹ اورماچس کا کال تھا۔ یہ دونوں اشیاء بسا اوقات دوسروں سے مانگنی پڑجاتی تھیں اوراس گداگری سے کسی کو خجالت نہیں ہوتی تھی کیونکہ یہ حالات کی مجبوری کا دستور بن چکا تھا۔ طغرل نے ادھرادھرنگاہ دوڑائی تو ان سے کچھ ہی دور ایک نوجوان خاتون پیٹ کے بل لیٹی سگریٹ کا دھواں اڑا رہی تھی۔ اس کی کمر پر انگیا کی پٹی اور اس کے سرینوں پر مڑھا جانگیہ انتہائی چمکدار نارنجی رنگ کے تھے۔ اس کے انڈے کی مانند سفید بدن پر یہ رنگ کچھ جچ نہیں رہا تھا مگر طغرل کو تو ماچس درکار تھی۔ اس نے پاس جا کر لفظ "سپیچکی" یعنی ماچس بول کردست طلب دراز کردیا تھا، خاتون نے ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ماچس کی ڈبیہ اس کی جانب بڑھا دی تھی۔ طغرل نے اپنا نام بتایا تھا، اس نے بھی اپنا نام بتا کر کہا تھا "بیلاروس"۔ مختصر لفظوں میں شام کو ڈسکو میں ملنے کا طے ہو گیا تھا۔ جب اس نے سمندر سے لوٹ کر حسام اور نتاشا کو بتایا کہ اس نے تن تنہا لڑکی سے شناسائی کرنے کا معرکہ سر کر لیا ہے تو نتاشا نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا تھا، لاؤ دو اتنے روبل جن سے میں وادکا کی بوتل خریدوں گی، رقص گاہ بند ہونے کے بعد تم اسے مے نوشی کی خاطر مدعو کر لینا۔ طغرل نے اس کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے مطلوبہ رقم اس کے ہاتھ پردھردی تھی۔
رات کو نتاشا کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے طغرل نے گومل شہر کی اس بیلا روسی دوشیزہ کو شراب نوشی کی دعوت دے ڈالی تھی۔ طغرل کی رہائش گاہ کے سامنے کے نیم روشن پارک میں ایک کمبل بچھا کر انہوں نے محفل سجائی تھی جس میں طغرل اور بیلاروس یعنی سفید روس کی سفید لڑکی کے علاوہ حسام اورنتاشا شریک تھے۔ شغل مے نوشی کے دوران نتاشا نے طغرل کو انگریزی زبان میں اگلی ہدایت دی تھی اور ہدایت دیتے ہوئے کھلکھلا کر ہنسی بھی تھی۔ ہدایت یہ تھی کہ بوتل ختم ہوتے ہی اپنی "عارضی محبوبہ" کو ساحل سمندر پر ساتھ چلنے کی دعوت دے دینا۔ طغرل نے ایسا ہی کیا تھا اور وہ بخوشی رضامند ہو گئی تھی۔ جب وہ دونوں مٹر گشتی کی خاطرروانہ ہونے لگے تھے تو نتاشا نے چابکدستی سے کام لیتے ہوئے، کمبل کو تہہ لگا کر عقب سے طغرل کی بغل میں اڑس دیا تھا۔ طغرل اس کم بخت انتہائی چٹی چمڑی کے ساتھ چپکا ہوا، اس کی نازک کمر کو اپنے بازو کے حلقے میں تھامے اوراس کے نرم وگرم لبوں کے بوسے لیتے ہوئے، آئندہ کارروائی کا ذوق دل میں لیے، خراماں خراماں ساحل سمندر کی طرف اترنے والی پتھر کی سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ وہ طغرل کی لب جوئی اور دست درازی کو بہ خندہ اور مسرور ہو کر قبول کر رہی تھی۔ اتنے میں وہ دونوں سمندر کے کنارے آ لگے تھے۔ آسمان پر پورا ماہتاب جگمگا رہا تھا جس کی روشنی میں سمندر کی جھاگ دار موجیں رقص کرتے ہوئے آ کر ساحل سے ٹکرا رہی تھیں۔
سمندر کے ساحل پر زمین کے کٹاؤ سے بننے والی ایک اوٹ میں ستے پتھروں پر طغرل نے کمبل بچھا دیا تھا اور دونوں اس پربغل دربغل لیٹ گئے تھے۔ طغرل نے دست درازیوں کو وسیع ترکردیا تھا۔ لڑکی اس کی گرمجوشی سے جیسے گھلے جا رہی تھی مگر وہ سرعام بوس و کنار کرنے اورفحاشی کا مرتکب ہونے سے گھبرا رہا تھا لیکن دور دور سے اسی طرح کے کٹاؤں سے آتی مدھم صداؤں نے اسے بالآخر بے خوف کردیا تھا۔ اس وقت ساحل سمندر داد عیش دینے والے جوڑوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ چاند کی چاندنی میں انتہائی سپید عریاں بدن، کرنوں کی اٹھکیھیلیوں سے چمکتی ہوئی اس کی سنہری زلفیں، ہیجان میں سنسناتی ہوئی سانسیں، ابدان کے مساموں سے پھوٹتے پسینے کی بوندوں کو خنک کرتی ہوئی سمندر سے اٹھتی ہوا اور حسینہ کے حلق سے برآمد ہوتی ہوئی کو کو کی سی کیف آگیں صداؤں نے داد عییش کی لذت کو دوچند کر دیا تھا۔ پھر اس نے پیراہن سے بے نیاز اٹھ کر، اپنی کمر تک بکھرے سنہری بالوں کے جلو میں سمندر کی لہروں کے ساحل سے ٹکراؤ سے آگے تک کا سفر کیا تھا اور اکڑوں بیٹھ کر سمندر کے پانی سے خود کو دھویا تھا۔ اس کا پیٹھ کر کے جانا، سمندر کی آتی لہر میں بیٹھنا اور لہر گذر جانے کے بعد اٹھنا اور مڑ کر آنا ایسا منظر تھا جو آج بھی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح متحرک دکھائی دے جاتا ہے۔ وہ ایک بار پھر اک دوجے کے ساتھ لگے، میلے سے واپس آنے والوں کی سی تکان کے ساتھ ہولے ہولے چلتے ہوئے رہائش گاہوں کے نزدیک پہنچ کر ایک طویل الوداعی بوسے کے بعد اپنی اپنی راہ پر چل دیے تھے البتہ اگلے روز دوپہر کے کھانے کے وقت ملنے کا وعدہ کرنا نہیں بھولے تھے۔
اگلے دن کھانے کے بعد طغرل اسے اپنے کمرے میں لے گیا تھا کیونکہ اس وقت کمرے کے دوسرے تمام ساتھی باہر تھے البتہ کمرے کے باہر ہال میں ساتھ کے کمرے میں مقیم تین چار لڑکیاں طغرل کے کمرے کی دیوار کے ساتھ چپکے میز کے گرد کرسیاں بچھا کر تاش کھیلنے میں مصروف تھیں۔ طغرل نے کمرے کی چٹخنی چڑھا دی تھی اور دونوں ایک بار پھرمحبت کے کھیل کے اصولوں کو کھوجنا شروع ہو گئے تھے۔ پلنگ کی چولیں ڈھیلی تھیں جو جسموں کی ہلچل سے بے طرح چرچرا رہا تھا۔ طغرل کو لگتا تھا جیسے تاش کھیلنے والیوں کے کان بس اس چرچراہٹ کی جانب لگے ہوئے ہیں۔ تاش کھیلتے ہوئے ان کے قہقہوں کی آوازیں سن کر اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ اس کے کھیل کی ہنسی اڑا رہی ہوں۔ طغرل مشرقی تھا اس لیے اس کی سوچ بھی ایسی تھی جبکہ وہ ایسے ماحول کی پروردہ تھی جہاں سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ دوسروں کے کاموں کی جانب نہ تو کسی کو توجہ دینے کا شوق ہوتا ہے اور نہ ہی وقت ہوتا ہے چنانچہ طغرل کی شریک عمل کو بس اپنی کیف آگینی سے سروکار تھا۔
ویسے بھی دن کی روشنی میں اس کے جسم کی بے حد سفید رنگت اسے اوبھ رہی تھی۔ اس سفیدی کے سبب اس کے اندام سرخی کے ساتھ زردی کا پرتو لیے ہوئے تھے۔ طغرل کو ایک قاز کی یاد آ رہی تھی جس کے سفید پروں کے بیچ سے نکل کر کلبلاتا ہوا عضو اس نے اپنے بچپن میں پہلی اور آخری بار دیکھا تھا تو اسے قے آتے آتے رہ گئی تھی۔ جب وہ دونوں "شرفاء" کا روپ دھار کرکمرے سے باہر نکلے تھے تو ہال میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں نے انہیں کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے اپنے قہقہوں کو دبا کر مسکراہٹ میں تبدیل کر لیا تھا۔ طغرل کٹ کر رہ گیا تھا لیکن "سفید قاز" نے ان سب کی جانب ایک فخریہ مسکراہٹ اچھال دی تھی جیسے کوئی بہت بڑا کام سرانجام دے کر جا رہی ہو۔
اس ہی رات طغرل نے اسے حلقہ رقص میں کسی اور کے شانے سے لگے ہلکورے لیتے دیکھا تھا۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ طغرل نے اس کے عریاں سفید بدن سے اوبھ کراورلڑکیوں کے دبے ہوئے قہقہوں کے مسکراہٹ میں بدل جانے سے خجل ہو کر اس سے رات کو ملنے کا وعدہ نہیں لیا تھا یا پھر یہ کہ وہ اپنے "تفریحی رومان" کی کہانی محض ایک شخص تک محدود نہیں رکھنا چاہ رہی تھی۔ بعد میں وہ ایک دوبار طغرل کو دکھائی تو ضرور دی تھی لیکن آمنا سامنا کبھی نہیں ہوا تھا۔
باقی ایّام میں ہری مرچ کھاتے ہوئے مسکرانے والی یولیا اور اس کی سہیلی مارینا سے راہ و رسم رہی تھی، جو ساحل سمندر تک جانے، وہاں اٹھکھیلیاں کرنے یا ساحل سے واپسی تک محدود تھی۔ اس راہ و رسم میں یولیا کے ساتھ رومان پروری کا عنصر ضرور تھا مگر اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ دونوں لڑکیاں "بنات البحر" کی مانند پیراکی میں مشّاق تھیں اور انہوں نے بہت کوشش کی تھی کہ طغرل کو پیراکی سکھائیں لیکن وہ نہ سیکھنے پر اس لیے اڑا رہا تھا کہ اگر ان دونوں نے اسے عین قعردریا میں بے سہارا چھوڑ دیا توغرق ہو جانے سے تو اس کی رومان پروری کا خواب بھی اس کے ساتھ غرق ہو جائے گا۔ وہ اس کی بزدلی کا جی بھر کے مذاق اڑاتی تھیں لیکن طغرل بے شرمی سے سب کچھ سہہ جاتا تھا۔ پھر جب وہ سمندر سے نکل کر ساحل پر بکھرے پتھروں کے فرش پر دراز ہو جاتیں تو وہ "ماساژ، ماساژ" کہہ کر ان کے خشک ہوتے ابدان پر ہاتھ پھیرا کرتا تھا۔ اس عمل کا مزہ وہ بھی لیتی تھیں اور ہنستی رہتی تھیں۔
ایک بار طغرل نے صرف شارٹس پہنی ہوئی تھیں اور وہ یولیا کے ہمراہ، جو صرف پیراکی کے لباس میں تھی اوراس کے ہاتھ میں ایک پلاسٹک بیگ تھا جس میں شاید ایک چھوٹا تولیہ اوراس کا ایک خشک جانگیہ ہی یوگا، سمندر کی جانب گامزن تھا کہ یولیا نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس سے ایک عجیب سا سوال کر دیا تھا،" کیا تم مرد نہیں ہو؟" طغرل سوال سن کر بدکا تھا مگر سوال کرنے کی وجہ پوچھنے کو زیادہ بہتر جانا تھا۔ یولیا نے کہا تھا اس لیے کہ اس نے مردوں کی طرح اس کے ہاتھ سے پیکٹ نہیں لیا تھا۔ طغرل نے اس کے ہاتھ سے پیکٹ اچک لیا تھا اور دوچار قدم چلنے کے بعد پیکٹ پھراسے تھماتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا تھا،" بس اب تو میں مرد ہوں ناں"۔ یولیا کو شاید یہ مذاق اچھا نہیں لگا تھا۔
جس بھرے بھرے جسم اور سنہری بالوں والی لڑکی نے حلقہ رقص میں طغرل کو پہلی بار گھسیٹا تھا وہ بعد میں ایک پستہ قد، سینڈو نما روسی نوجوان کے ہمراہ مسلسل نظر آئی تھی۔ وہ طغرل کو اکثر دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا کرتی تھی۔ وہ سمجھتا تھا کہ شاید ایسا کرنا اس کی عادت ہو۔ پھر یہ ہوا کہ ایک دن حسام نے تشویش کے ساتھ طغرل کو بتایا تھا کہ دارالحکومت میں کمیونسٹوں نے ایک چال چلی ہے۔ زیادہ معلومات نہیں مل پا رہیں چونکہ آپ اس جگہ بغیر ویزے کے موجود ہیں اس لیے آپ کو آج ہی دارالحکومت جانے والی ٹرین پرسوا کرا دوں گا۔ بہتر ہے کہ آپ چلے جائیں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے ہونے سے بچا جا سکے۔ اسی روز جب حسام طغرل کو سوار کرانے کی خاطر مقامی سٹیشن پر لے گیا تھا تو ایک عورت ہانپتی ہوئی بھاگتی آئی تھی اور اس نے طغرل کو کاغذ کی ایک پرچی پکڑائی تھی جس پر ایک ٹیلیفون نمبر اور شکستہ انگریزی حروف میں "آکسانا" نام لکھا ہوا تھا۔ عورت نے طغرل کو تاکید کی تھی کہ اس لڑکی کو ضرور فون کرے۔ یہ وہی لڑکی تھی مگر طغرل زبان نہ آنے کے سبب اسے کبھی فون نہیں کر پایا تھا۔
ریل گاڑی میں اس کے ساتھ دوسرے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی سوار ہوئے تھے جن میں ایک دو سے وہ اس لیے شناسا ہو چکا تھا کہ انہیں انگریزی زبان آتی تھی۔ راستے بھر وہ ملک میں ہونے والے واقعے کے نتائج و عواقب بارے بحث کرتے رہے تھے۔ ان میں سے کسی نے یہ بھی بتایا تھا کہ گورباچوو کے خلاف سازش کرنے والے کمیونسٹوں کے گروہ نے مخالفین کو گرفتار کرنے کی خاطر دو لاکھ جوڑے ہتھکڑیوں کے تیار کروائے ہیں۔ غرض اس طرح کے بے سروپا اور خوفزدہ کرنے والے قصے اس ریل گاڑی میں عام تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ ٹرین جونہی دارالحکومت کے نواح میں داخل ہوئی تو انگریزی جاننے والے طغرل کی ہر بات کا جواب روسی زبان کے مختصر ترین فقرے " نی زنایو" یعنی نہیں جانتا/ جانتی کہہ کر دینے لگے تھے جیسے ان کے دماغ سے انگریزی یکسرعنقا ہو چکی ہو اوران کی زبان انگریزی زبان کے لفظوں سے شناسا ہی نہ ہو البتہ دارالحکومت کے ایک بڑے سٹیشن پر اترتے ہی جب انہیں معلوم ہوا کہ کمیونسٹ رہنماؤں کی مہم جوئی ناکام ہو گئی تو انہوں نے طغرل کے ساتھ پھر سے انگریزی زبان میں گفتگو شروع کر دی تھی۔ اس عجیب و غریب رویے کی وجہ پوچھنے پر انہوں نے مسکرانے پر اکتفا کیا تھا اگرچہ صاف ظاہر تھا کہ وہ کسی غیر ملکی کے ساتھ "سیاسی گفتگو" کرکے خود کو "مشکوک" بناے سے گھبرا رہے تھے۔
خوف اور جرم کا احساس انسانوں کو کسی کے آگے بچھ جانے سے لے کر کسی کے سامنے جارحانہ انداز اختیار کرنے تک لے جا سکتا ہے۔ خوف کی فضا افسانے اور حقیقت دونوں سے ہی پیدا ہو سکتی ہے اور سب سے بڑا خوف کچھ چھن جانے کا ہوتا ہے۔ آزادی چھن جانے سے لے کر مل جانے والی، حاصل کی جانے والییا ودیعت کی جانے والی کسی بھی چیز کے چھن جانے کا خوف۔
روس میں تعمیر نو کا عمل شروع ہوئےصرف پانچ برس ہوئے تھے۔ جی ہاں طغرل روس میں تھا۔یہ کوئی نئی سوچی گئی اصلاحاتی تحریک نہیں تھی بلکہ جلد بازی میں 7نومبر 1917 کے "اکتوبر انقلاب" کے منفی اثرات کو درست کیے جانے کی غرض سے اس تحریک پر عمل درآمد کی خواہش کا آغاز انقلاب کے پیشوا ولادیمیر ایلییچ لینن نے 1921 میں اپنے "نئی معاشی پالیسی" نام کے ایک منصوبے سے کیا تھا۔ خرابی صحت کے باعث وہ اسے آگے نہ بڑھا سکے تھے اور کچھ ہی عرصے بعد سٹالن نے اس منصوبے کو اپنی دوسری ترجیحات سے کمتر جان کر یکسر روک دیا تھا۔ پھر پوری دنیا ہی سوویت یونین کے خلاف ہو گئی تھی۔ جنگ عظیم اور بعد کی سرد جنگ کے بعد کے جی بی کے ایک سربراہ یوری آندروپوو اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کئے بہت زیادہ آرزومند تھے مگر ملک کے اعلٰی ترین عہدے پر پہنچنے کے بعد عمر نے زیادہ دیر تک ان سے وفا نہیں کی تھی یوں اس کا سہرا سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا نسبتا" کم عمری میں عہدہ سنبھالنے والےمیہائیل گورباچوو کے سر رہا تھا۔
افغانستان میں طویل جنگ کے منفی اثرات اور عالمی سطح پر زور پکڑتے ہوئے سائنسی تکنیکی انقلاب کے پس منظر میں گورباچوو نے تعمیر نو ( جسے روسی زبان میں پیری ستروئیکا کہا جاتا ہے) کے ساتھ دیموکراتیزاتسیا یعنی جمہوریانے اور گولوس نست یعنی آزادی اظہار کی پخیں بھی لگا دی تھیں۔ ان تینوں اعمال میں سے دو یعنی تعمیر نو اورجمہوریائے