"مثل برگ آوارہ" کا بیسواں در
وقت کو روکنے کی خواہش جتنی بھی شدید ہو، وقت کسی کے روکے نہیں رکا۔ وقت ایک دائرہ ہے یا اپنے عقب میں معدوم ہوتا ہوا خط مستقیم یا کچھ کے مطابق ٹیڑھا میڑھا مگر ہے دریا کی مانند کہ پانی جو گذرگیا سوگذرگیا۔ چنانچہ وقت تو بہہ رہا تھا، کبھی آہستہ روی سے توکبھی لگتا تھا جیسے اس کے بہنے کی رفتار کئی گنا بڑھ گئی ہو۔ طغرل عمرکے جس حصے میں تھا اس میں بالوں کی سفیدی اورجسمانی کسلمندی کے علاوہ وقت گذرنے کا پتہ نہیں چلتا۔ چالیس سال کی عمرکے بعد زندگی کا سفر ڈھلوان کا سفر ہوتا ہے جس پرجتنا بھی سنبھل سنبھل کرچلورفتاراتنی سست نہیں رہتی جتنی چڑھائی کے سفر میں ہوتی ہے۔ چڑھائی کے سفرمیں جہاں پھننگ کو پارکرنے کی آرزو ہوتی ہے وہاں زندگی کے اس لایعنی سفرسے بچنے کی خاطرخود کوخود معدوم کر دینے کے مخفی خیالات بھی پوشیدہ ہوتے ہیں، کسی میں بہت کم، کسی میں کچھ زیادہ اورطغرل جیسے تخئییل پسند عینیت پرستوں میں کہیں زیادہ لیکن پھننگ عبور کرنے کے بعد جس وقت یہ طے ہو چکا ہوتا ہے کہ کس کی زندگی کیسے گذرے گی خوشحال، متوسط یا بدحال، انسان میں جینے کی تمنا بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ ڈھلوان بالآخر انجام تک پہنچائے گی۔ ڈھلوان کے سفر میں انسان کا تھوڑا سا پاؤں رپٹا نہیں کہ وہ لڑھکنیاں کھاتا قبرکنارے پہنچ جاتا ہے اورپھرقبرمیں۔
ایرینا اورساشا کی ایک کمرے کے گھرمیں موجودگی نے اگرچہ زندگی اتھل پتھل کی ہوئی تھی مگر جینے کے معمولات بہرطورجاری تھے۔ ان کے گھرمیں گھس کررہنے سے پہلے ایک دن جب بیروزگار طغرل گھر میں تنہا بیٹھا لکھنے پڑھنے میں مصروف تھا، فون کی گھنٹی بجی تھی۔ دوسری جانب ملک عقیل تھا جس کے ساتھ اس کی شناسائی اظفر کے توسط سے ہوئی تھی۔ اس نے غالبا" پہلی بار فون کیا تھا۔ اس نے طغرل سے درخواست کی تھی کہ کوئی ضروری بات ہے جوکرنی ہے اگر مناسب جانیں تو فلاں مقام پرپہنچ جائیں۔ استفسارپرملک عقیل نے بتایا تھا کہ معاملہ پاکستانی برادری کی تنظیم کی عہدیداری کا ہے جس کے لیے براہ راست بات کرنی چاہیے۔ طغرل معینہ مقام پر پہنچ گیا تھا جہاں ملک عقیل کے علاوہ دوتین اورلوگ بھی تھے جواظفر کے توسط سے ہی شناسا ہوئے تھے لیکن طغرل کے زیادہ نزدیک ہو گئے تھے۔ اظفر نے اپنی طبع سے مجبورہوکر طغرل سے خود ہی دوری اختیارکرلی ہوئی تھی۔
ملک عقیل نے مختصر بات کی تھی کہ پاکستانی برادری کی تنظیم کے عہدوں کے لیے انتخابات کروائے جا رہے ہیں اگررضامند ہوں تو آپ کوعہدہ صدارت کے امیدوار کے طورپرآگے کیا جائے۔ طغرل اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا مگرموجود لوگوں کے اصرارپراس نے مشروط حامی بھر لی تھی کہ اگر کام دیانتداری کے ساتھ اورمشاورت سے کیے جانے بارے آپ راضی ہیں تو ٹھیک وگرنہ میرا انکار ہے۔ ملک عقیل نے کہا تھا، ہمیں آپ پرمکمل اعتماد ہے تبھی توہم سب کی نگاہ آپ پرپڑی ہے۔
روس میں کسی برادری بندی کے یہ پہلے انتخابات تھے بلکہ شاید روس کی تاریخ میں پہلا واقعہ تھا۔ ملک عقیل اوردوسروں نے زبردست مہم چلائی تھی۔ خاص طورپرملک عقیل نے خوب پیسہ خرچ کیا تھا اورطغرل بھاری اکثریت سے روس میں پاکستانی برادری کا پہلا صدرمنتخب ہو گیا تھا۔ بعد کی باتیں جانے دیتے ہیں کیونکہ تنظیم بنا لینا اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا تنظیم کھڑی کرنا۔ تاہم اس عمل میں طغرل اورملک عقیل ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔ ملک عقیل کاروباری شخص تھا۔ ہرپیسہ کمانے والے شخص کی طرح اس کے اپنے اوصاف تھے، کچھ اچھے اورکچھ ایسے جو دوسروں کو چبھتے تھے جیسے اسے جو چیز پسند آ جاتی، اس کے مقابلے میں اس جیسی باقی تمام چیزیں اس کے لیے ہیچ ہو جاتی تھیں۔ وہ مشاورت کے نام پرہرایک سے بات کر لیتا تھا۔ شاید ہی کسی سے اختلاف کرتا ہوبلکہ عموما" کہہ دینا تھا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں مگرکرتا وہی تھا جوچاہتا تھا۔ اس طرح کچھ لوگ الزام دیتے تھے کہ وہ خود کوعقل کل سمجھتا ہے اورکچھ لوگ اسے اقتدار کو بھوکا خیال کرتے تھے۔ طغرل کی نظرمیں یہ دونوں خصائص ہرشخص میں ہوتے ہیں کسی میں کم کسی میں زیادہ اور کسی میں بدرجہ اتم۔ آخری درجے والے قابل تنقید قرارپاتے ہیں۔ تاہم وہ طغرل کی تعظیم کرتا تھا، چنانچہ لامحالہ طغرل بھی اس کی تعظیم کرتا تھا اور اسے اس کے نام کی بجائے ملک صاحب یا آپ کہہ کرمخاطب کیا کرتا تھا۔ ملک کام کے سلسلے میں مختلف تجربے کرتا رہتا تھا۔ اس کو پاکستان ساختہ دوایک ادویہ پسند آ گئی تھیں جس کے لیے وہ روس میں فروخت کے کلی اختیار کے حصول کا خواہاں تھا۔ چونکہ طغرل زیادہ پڑھا لکھا تھا، گفتگو کر سکتا تھا چنانچہ وہ اسے ساتھ لے کر کراچی گیا تھا۔ ادویہ سازکمپنی نے جوسوال کیے تھے ان کا جواب ملک عقیل کے پاس نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ مخصوص انفراسٹرکچرنہ ہونے کی وجہ سے بات نہ بن سکی تھی۔ ملک عقیل ایک یورپی ملک میں جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد مقیم تھی، خوردنی مصالحہ جات کی فروخت سے متاثر تھا اس لیے اس نے طغرل کوہدایت کی تھی کہ اس جہت میں کام کیا جائے۔ مصالحے فروخت کرنے والی ایک بڑی پاکستانی کمپنی کے ماہرین کے مشورے کے برعکس کہ پہلے محدود مقدارمیں مصالحے لے جائیں اگر فروخت بہترہوتو زیادہ منگوا لیں، ملک پورا کنٹینرمنگوانے پر بضد رہا۔ کمپنی نے مشورہ دے دیا تھا مگر انہیں کنٹینر بھجوانے میں کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔
کنٹینرکی آمد سے پہلے طغرل سے طے کیا گیا تھا کہ وہ دفتری کام سنبھالے گا اورمنافع میں برابر کا شریک ہوگا۔ دفتر لے لیا گیا تھا جہاں دو تین ہفتے طغرل تنہا ہی بیٹھا کیا۔ بوریت کو دورکرنے کی غرض سے اس نے ایک سال کے بعد پھرسے ڈائری لکھنے کا سوچا تھا۔ ڈائری کے چند ورق یوں تھے:
منگل 12 جون 2007:
زندگی کو جب سے بے رنگ کیا ہے تب سے زندگی ساکت سی ہوکررہ گئی ہے۔ اسے بے سکونی تو ہرگزنہیں کہا جا سکتا لیکن سکون کا نام دیا جانا بھی مشکل ہے۔ کیا میں مذہب کو بنیاد پرستانہ نکتہ نظر سے لیتا ہوں؟ کیا مذہب واقعی بنیادوں پراستوار نہیں ہوتا؟ اگر مذہب میں وقت اور ضرورت کے مطابق ترامیم اوراضافے کر لیے جائیں تو کیا مذہب کی ماہیت نہیں بدل جاتی؟ اگرماہیت بدل جائے تو کیا مذہب تبدیل نہیں ہو جاتا؟ اگراسوہ حسنہ کے مطابق عمل کیا جائے تو آج کے دور میں زندگی گذارنا بہت ہی مشکل ہے۔ خواہشات پرقابو پانے کی خاطر کیا دنیا کو تیاگنا نہیں پڑتا لیکن رہبانیت کی ہمارے مذہب میں مناہی ہے اوررہبانیت اختیارکر لینا بھی کلی طور پرممکن نہیں۔ انسان کے دماغ میں بٹن نہیں ہیں جنہیں آن آف کیا جا سکے۔
جب سے تجارت کے بکھیڑے میں پڑا ہوں جسمانی اور روحانی دونوں طرح کے سکون عنقا ہو گئے ہیں۔ شاید توازن پیدا ہونے کی صورت میں قدرے ٹھہراؤ آ جائے۔ فی الحال تواتھل پتھل ہوں۔ اخراجات میں اضافہ ہی تجارت کے منافع کو کم کرنے کا باعث ہوا کرتا ہے۔ ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ افتاد آن پڑی ہے۔ چھٹیوں پرچھٹیاں، مال آنے میں تاخیر پہ تاخیراورپھرریڈیو کی ملازمت چھوڑنے نہ چھوڑنے کا مسئلہ۔ بعض اوقات ملک عقیل کے چبھتے ہوئے فقرے بھی اذیت کا موجب بنتے ہیں۔
نوجوان جوڑے کی عدم موجودگی کے طفیل دو ڈھائی دن سکون کے کاٹے۔ آج سے پھر وہی پرندوں کا کابک۔
ڈیڑھ سال پیشترملک عقیل اورطغرل ایک پروازمیں پاکستان جا رہے تھے۔ طغرل تب شراب پیتا تھا اوروہسکی کا رسیا تھا۔ اس نے ایر ہوسٹس کو وہسکی کا پیگ لانے کو کہا تھا۔ وہ فرمائش سن کے آگے بڑھی تو ملک نے کہا تھا،" طغرل صاحب، کل سے رمضان شریف شروع ہے۔ چھوڑیں نہ پئیں۔ طغرل ملک سے بحث کرنے لگا تھا کہ خاتون پیگ لے کر آ گئی تھی۔ طغرل نے اسے سونگھ کر کہا تھا،" میں نے آپ کو ڈیلکس لانے کو کہا تھا آپ سمپل لے آئی ہیں"۔ وہ سوری کہہ کر پیگ بدلنے چلی گئی۔ طغرل نے ملک سے آخری فقرہ یہ کہا تھا کہ کل سے ہوگا نا رمضان شریف شروع، آج تو نہیں۔ مگر خود ہی سوچ میں پڑ گیا تھا کہ اگرمجھے روزے رکھنے ہیں تومیں وہ شے کیوں استعمال کرتا ہوں جس کے بارے میں قرآن نے اجتناب برتنے کو کہا ہے۔ اتنے میں ایرہوسٹس ڈیلکس وہسکی کا پیگ لے آئی تھی۔ طغرل نے پیگ واپس لے جانے کو کہہ دیا تھا۔ وہ حیران ہو کر پیگ واپس لے گئی تھی۔ اس کے بعد طغرل نے شراب خانہ خراب کو کبھی منہ نہیں لگایا تھا۔
بدھ 13 جون 2007:
تعلیم یافتہ، کم تعلیم یافتہ یا غیرتعلیم یافتہ ہونے کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ اہل پاکستان کا مسئلہ ہے کہ وہ وقت کے بارے میں قطعی لاپرواہ ہیں۔ کسی خاص وقت پرپہنچنے یا ملاقات کرنے سے اغماض برتنا لامحالہ جس شخص کے ساتھ وقت اورملاقات طے کی گئی ہو، کوغیر اہم سمجھنے یا اس کی تعظیم نہ کرنے کے مترادف ہے۔ میرے ہم وطن تعظیم کرنے کے منکر نہیں البتہ وقت کی پرواہ کرنے سے یکسر قاصر ہیں۔ ملک کہتا ہے، ابھی پہنچتا ہوں آپ دفتر پہنچیں اورپھرکہیں زیادہ "اہم" کام کرنے لگ جاتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے ساتھ کیسے نمٹوں، سمجھنے سے قاصر ہوں۔
کنٹینر کلیر کروانے کا مسئلہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ بعض اوقات تو یوں لگنے لگتا ہےکہ میرے ستاروں کی ازلی گردش اس معاملے پراثرانداز ہو رہی ہے۔ میں تو فی الواقعی تھک گیا ہوں۔ میترو سے دفتر، دفتر سے میترواورپھر یہی چکر۔ دفتر میں کرنے کو فی الوقت نہ تو کوئی کام ہے اورنہ ہی کوئی اہلکار۔ اللہ کرے یہ مسئلہ حل ہو جائے۔
آج بھی متعلقہ سرٹیفیکیٹ نہیں بن پایا۔ مال کو پہنچے ایک ماہ اور تیرہ روزہو چکے ہیں۔ جرمانہ ہونے لگا ہے۔ لگتا ہے شروع میں منافع کم ہوگا شاید نہ ہی ہو۔
ویسے بھی بستی بستے بستے بستی ہے۔
اتوار 17 جون 2007:
آج معلوم ہوا کہ رشید ایک ٹریفک حادثے میں جان بحق ہو گیا۔ بے حد تکلیف ہوئی بلکہ میں صدمے کی حالت میں رہا۔ انسان دنیا پانے کے لیے کیا کچھ کرتا ہے اورپھرنامدار شخص کی بجائے لاش بن کررہ جاتا ہے۔ رشید مسجد کے امام کا بیٹا تھا۔ کسی کارخانے میں ملازم تھا۔ سندھو اسے ماسکو لے آیا تھا اورایک ہوٹل کے کمرے میں بند کرکے رکھ دیا تھا۔ پھر چوہدری اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ رشید نے بہت محنت کی لیکن اس کا کہنا تھا کہ صلہ اس کے مطابق نہیں دیا گیا۔ چوہدری اپنی ماں کی رحلت پر پاکستان گیا تو ویسے ہی مجھے کہہ گیا تھا کہ رشید سے کاروبار سے متعلق پوچھتے رہنا۔ رشید اب اپنے طور پر کام کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھا کیونکہ گاہک سارے اس کے ہاتھ میں تھے۔ میں نے اسے ایک دوبار تلقین کی تھی کہ چوہدری کے آنے کا انتظار کرلے لیکن وہ نہ مانا تھا۔ چوہدری کی واپسی پر میں نے رشیدکے ہی حق میں بات کی تھی۔ چوہدری کو اس بات سے رنج بھی ہوا تھا۔ بعد میں رشید لوگوں سے نہیں ملتا تھا۔ جب ایک بارمجھے ملا تو اس نے کہا تھا کہ جب تک میں ایک ملین ڈالر نہ بنالوں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ پھر وہ امیرہوتا گیا اوراب چالیس سال کی عمرکو پہنچنے سے پہلے ہی مرگیا۔ اس کی موت کی اطلاع دینے کے لیے چوہدری کو امریکہ فون کیا تواس نے بتایا تھا کہ اس نے امریکہ میں دکان لے لی ہے۔ نینا نے مجھ سے پوچھا، کیسے لے لی۔ میں نے کہا وہ تیز شخص ہے۔ بس اس نے بولنا شروع کر دیا کہ ایک تم ہی تیز نہیں ہو جب میں تم سے ماہوار ملنے والے پیسوں کا کسی سے ذکر کرتی ہوں تو کوئی یقین نہیں کرتا۔ میں بولا میں تو بس لکھنا جانتا ہوں۔ وہ بولی تم بس موتنا جانتے ہو، ہر شخص پر، ہر بات پر۔ بے حد دکھ ہوا اس کی اس طرح کی زبان سے۔
سوموار 18 جون 2007:
آج میں گدھے کی طرح تھک گیا۔ گھرسے میترو۔۔ میترو سے دفتر ۔۔۔۔دفتر سے میترو ۔۔۔ میترو سے ریڈیو سٹیشن ۔۔۔۔ریڈیو سٹیشن سے میترو اورمیترو سے دفتر تک چل چل کر۔ بروکر نے کوئی چار بجے فون کیا کہ رسید میں غلطی ہو گئی ہے۔ دفتر سے میترو ۔۔۔۔ میترو سے گھر ۔۔۔۔۔۔ گھر سے میترو ۔۔۔۔۔ میترو سے بینک ۔۔۔۔۔ بینک سے میترو ۔۔۔ پھر چلنا پڑا۔ بینک میں چخ چخ رہی، جو بھی ہونا ہوگا کل ہوگا۔ سمجھ نہیں آتا کاروبارکو شروع ہونے سے پہلے کسی کی نظر لگ گئی ہے یا اس ملک میں قانونی کام کرنا گناہ ہے۔ میں ذہنی اورجسمانی طورپر اس قدر تھک گیا ہوں کہ دل کرتا ہے سب کچھ ملک کے حوالے کرکے آرام کروں لیکن آخرتک لڑوں گا۔ پیدل چلنے کی یہ عمر بھی نہیں ہے اوپرسے میرے اخراجات ڈیڑھ گنا ہو چکے ہیں اورساتھ ہی تنخواہ کم ہوتی جا رہی ہے۔
آج دن بھر بیوی کی کل کہی بات سے دل دکھتا رہا۔ آگے کنواں ہے پیچھے کھائی ہے، بات یہ ہی سمجھ میں آئی ہے۔ میں خود نوشت جیسی کیسی لکھے چلا جا رہا ہوں۔
جب بہت تھک گیا تو ٹی وی لگا لیا جس پر "ناقابل یقین تصور" نام کا پروگرام چل رہا تھا۔ اس میں مقناطیسی جھکڑوں کو انسان کے خیالات، عادات، پیدائش اور موت سے جوڑا گیا تھا۔ کچھ درست لگا کچھ یونہی۔
19 جون 2007:
آج ایک بجے جنازہ اٹھنا تھا۔ بینک سے کاغذ لیتے ہی میں مقام مقررہ کے نزدیک میترو سے نکل کرخاصی دور تک پیدل چل کر وہاں پہنچا تھا جہاں جنازے لائے جانے تھے۔ جنازہ سے متعلق دو طرح کی اطلاعات کے باعث ریڈیو سٹیشن بھی نہ جا سکا تھا۔
بالآخر لاشیں مردہ خانے سے لے آئی گئی تھیں۔ ہم نے مرنے والوں کے چہرے دیکھے تھے۔ دونوں کے چہرے نیلاہٹ مائل زرد تھے۔ پیلاہٹ توخیرموت کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ چہرے نیلے پڑنے کی وجہ اندرونی خونریزی تھی۔ ان دونوں کی شکلیں اب تک آنکھوں کے آگے گھوم رہی ہیں اوردنیا کی بے ثباتی کا احساس دلا رہی ہیں۔
آج صبح لغاری سے بات ہوئی۔ وہ اس بات پر نالاں تھا کہ میں نے متعلقہ جریدے کے ایڈیٹر کو اتنا سخت ای میل کیا تھا۔ میں خیال نہیں کرتا تھا کہ لوگ اتنے کم ظرف ہونگے مگر میرے قول یا فعل سے کسی کو تکلیف پہنچے یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اس لیے میں نے تحریری معافی مانگ لی ہے۔ ماسکو سے متعلق اپنے مضامین آئندہ نہ چھپنے کا مجھے کوئی قلق نہیں۔
آج نینا سے میں نے اس کی کل کہی بات کا گلہ کیا لیکن وہ تو آجکل ویسے ہی لڑائی کرنے کو تیار ہوتی ہے۔ میں اس کے مسائل کو سمجھتا ہوں۔ کوشش بھی کررہا ہوں کہ ان سے عہدہ برآء ہونے کا کوئی راستہ نکل آئے لیکن عورتیں ۔۔۔۔۔۔۔ شاید وہ ہی درست کہتی ہوں۔
طغرل نے ملک عقیل کے ساتھ کاروباری شرکت کے باوجود ریڈیو کی ملازمت کوخیرباد نہیں کہا تھا۔ آٹھ دس ماہ کے بعد جب کاروبار ناکام ہو گیا تواس نے شکرادا کیا تھا کہ چلو آمدنی کی کوئی سبیل تو باقی ہے۔ البتہ اتنا ضرور کیا تھا کہ جزوقتی کی بجائے بڑی مشکل اورانتظار کے بعد جو ملازمت کل وقتی ہوئی تھی، اس کو پھرسے جز وقتی کر دیا تھا۔ ہفتے میں تین روز انے کی تنخواہ بھی آدھی اورچونکہ ترجمہ بھی آدھا ہوتا تھا اس لیے اس کا معاوضہ بھی آدھا۔ کاروبار تو گلے پڑ گیا تھا۔
خدا خدا کرکے کنٹینر پہنچا تھا۔ کنٹینر پہنچانے کے لیے شہرسے کئی کلو میٹردورایک جانب کے گودام کا پتہ دیا گیا تھا۔ ایک اورکاروباری شریک طغرل کو اپنے داچے (کنٹری ہاؤس) میں چھوڑ گیا تھا، جہاں پہلے سے کچھ لوگ رہ رہے تھے۔ طے یہ تھا کہ طغرل مال اتروا کران لوگوں کی مدد سے گودام میں لگوا لے گا توکوئی اسے آ کر واپس شہر لے جائے گا۔ ایک تو کنٹری ہاؤس میں کمبل وغیرہ اتنے میلے تھے کہ طغرل کا اسے گھٹنوں سے اوپر لینے کودل نہیں کیا تھا۔ دوسرے سامنے کے کھمبے سے دوسری منزل کے کمرے میں بلب کی روشنی آ رہی تھی۔ نیند کیا خاک آتی۔ کنٹینر رات کے پچھلے پہر آنا متوقع تھا مگر وہ صبح چھ بجے پہنچا تھا۔ کام سے فارغ ہو کر جب دونوں شراکت کاروں کو فون کیا تو دونوں نے ہی مصروف ہونے کا عذر پیش کر دیا تھا۔ طغرل کئی ویگنیں بدل کر گھر پہنچ تھا اور نہادھو کرسو گیا تھا۔
مارکیٹنگ اوردفتر کے لیے اہلکاردرکار تھے مگرکوئی بندوبست نہیں تھا۔ شہرمیں بسنے والے روسی نوجوان لڑکے لڑکیاں زیادہ تنخواہوں کا تقاضہ کرتے ہیں اس لیے ملک عقیل نے کچھ لوگوں کو کہا ہوا تھا کہ کم معاوضے پرکام کرنے والے تارکین وطن میں سے کوئی میسر ہو تو مطلع کریں۔
7 اگست 2007:
ریڈیو سے واپسی پرجب میترو سے باہر نکلا تو بارش ہو رہی تھی۔ خاصی دیر رک کر انتظار کرنا پڑا تھا۔ بارش ہلکی ہوئی تومیں نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں موسلا دھار بارش نے آ لیا تھا۔ درخت کے نیچے پناہ لی پھرمناسب جانا کہ بھیگتا تو درخت کے نیچے بھی ہوں چنانچہ چلنا چاہیے البتہ بارش کی شدت کے باعث ایک بار پھر کسی بند دروازے کے آگے ٹھہرنا پڑا تھا۔
ہاتھ میں اپنے تھیلے سمیت روٹیوں کے دو پیکٹ تھامے اوربارش کے پانی میں نچڑا ہوا جب میں دفتر کا فقل کھول رہا تھا تو چھوٹے قد کی ایک عورت نما لڑکی نے ماتھے تک ہاتھ اٹھا کرسلام کیا تھا اورمسکراہٹ بکھیری تھی۔ عام سے خالص تاجکی پسند کے کپڑے پہنے ہوئے یہ وہ تھی جس نے ایک روز پہلے فون کرکے کہا تھا،" طغرل جی، میں نرگس ہوں"۔ اردوجاننے والی اس تاجک لڑکی کو ملازمت دینے کے لیے بہت پہلے سے ایک شناسا نے کہا ہوا تھا لیکن ملک عقیل کام کرنے کے لیے لڑکیاں ایک چھوٹے شہر سے لانا چاہتا تھا اس لیے اس نے مجھے اس بارے میں روک دیا تھا۔ کل فون پراس کی آواز بھی مجھے نہیں بھائی تھی پروہ آج صبح سے میرے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ڈری ڈری، صرف مسکراتے ہوئے قبول صورت دکھائی دینے والی اس لڑکی کوکمپیوٹربھی اچھی طرح نہیں آتا تھا لیکن میں نے سوچا کہ چلو فی الحال کوئی تو میسرآیا۔ کیا برائی ہے، رکھ لیتے ہیں، پھردیکھ لیں گے۔
شام کو ہی اس نے ایس ایم ایس کردیا تھا کہ کیا میں کل آ سکتی ہوں؟ میں نے جواب میں کہا تھا، گیارہ بجے صبح فلاں جگہ ملو، اکٹھے بینک چلیں گے۔ وہ ملی تھی۔ ہم دونوں بینک گئے تھے۔ اس میں پیش قدمی اورجرات کا فقدان ہے۔ شام کو میں نے ملک سے بات کی تھی اورنرگس کو آتے رہنے کے لیے کہا تھا۔
10 اگست 2007:
آج میں نمازجمعہ پڑھنے کے بعد دفتر پہنچا تھا۔ اس نے کہا تھا،"اف کس قدر بوریت تھی تنہائی میں"۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ میں تو روز ہی تنہا بیٹھا رہتا ہوں۔ کل اس نے مجھ سے کشمیر سے متعلق پوچھا تھا۔
آج باتوں باتوں میں میں اسے کہا تھا کہ اگر ایسے ہی ہم دونوں اس کمرے میں بیکاربیٹھے رہے تو ہمیں عشق ہو جائے گا۔ میں نے یہ بات مذاق میں کہی تھی اوراس نے حیرت سے میری طرف دیکھا تھا۔ پھراس نے پاکستان کے کسی ڈاکٹر کے بارے میں بتایا تھا جو انٹرنیٹ اورموبائل کے توسط سے اس پرعاشق ہے۔ میں نے اسے متنبہ کیا تھا کہ یہ عشق وشق بس یونہی ہے۔ اسے بھی اس سے کوئی لگاؤ نہیں تھا بس وقت گذاری کر رہی تھی۔
14 اگست 2007:
میں نے سگریٹ نکالنے کے لیے ڈبیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے ڈبیہ اچک لی اورکہا کہ آپ سگریٹ نہیں پییں گے۔ اپنی صحت کو روگ لگا رہے ہیں۔ میں کھسیانا سا اورحیران ہو کر دفترسے باہر نکل گیا تھا۔ ساتھ میں دوست کے دفتر جا کراس سے سگریٹ لے کرپی تھی اوریہ واقعہ بھی بتایا تھا۔"آپ نے اس کو تنگ ونگ کیا ہوگا " کہہ کر وہ معنی خیزمسکراہٹ مسکرایا تھا ۔ میں نے کہا تھا ناں بھئی وہ تو خاصی مذہبی ہے اورشکل سے بہن لگتی ہے۔
جب میں دفتر لوٹا تو میں نے اس سے اپنی سگریٹ کی ڈبیا مانگی تھی جو میری میزپرنہیں تھی۔ اس نے کہاتھا کہ ڈبیا اس نے فلش کردی ہے۔ اس معاملے میں نے اسے بہت ضیق کیا تھا اوراس نے مجھے بھی۔ میں دروازہ لاک کرکے بولا تھا اگر تم سگریٹ نہیں دیتی تومیں تمہیں ہونٹوں پرچومنے لگا ہوں حالانکہ اس کے لپ سٹک زدہ چھوٹے چھوٹے ہونٹ چومنے کی مجھے کوئی خواہش نہیں تھی۔ اس نے گھبرا کرتقریبا" ناراض ہوتے ہوئے سگریٹ کی ڈبیا لوٹاتے ہوئے کہا تھا، "جتنی مرضی پییں، میں آپ کو کچھ نہیں بولوں گی"۔
شام کو جب میں نے اس بارے میں ملک عقیل کو بتایا تھا تو اس نے مسکرا کر کہا تھا،" اس نے سوچا ہوگا کہ سیدھا کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل کو ہی پھانس لے"۔ کاغذوں میں کمپنی کا یہ عہدہ میرے نام تھا۔
ملک عقیل کا ایک مسئلہ تھا۔ اس کو ہرلڑکی بس لڑکی لگتی تھی جو پھنسنے کے لیے بنی ہوتی ہے، خاص طور پراس آزاد معاشرے کی لڑکیاں۔ ایسی سوچ ہراس شخص کی ہوتی ہے جس کا علم سطحی ہو۔ ہوشیار ہونے اورذہین ہونے میں فرق ہوتا ہے۔ ہوشیاراپنے حاصل کردہ علم سے چاہے وہ جس سطح کا ہواورجتنا ہوذاتی منفعت یا مفاد کے حصول کو مقصد خیال کرتا ہے جبکہ ذہین شخص علم کو برائے معلومات حاصل کرتا ہے۔ ایسے شخص کی کاوش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اورگہرے سے گہرا علم حاصل کرے ۔ وہ علم کو ذاتی مفاد کے حصول کی خاطرکم اوراجتماعی مفاد کے لیے استعمال کرنے کوافضل سمجھتا ہے۔ آدمی ذہین بھی ہواور ہوشیاربھی تو ایسا شخص "ٹاپ مینیجر" بن سکتا ہے۔ صنعتکار، تھنک ٹینک کا مالک یا کسی بڑی این جی اوکا سی ای او ہو سکتا ہے۔ محض ذہین شخص پروفیسر، ادیب، ڈاکٹر، انجنیر وغیرہ اورمحض ہوشیار شخص سیاستمداراوردوکاندار۔ سیاستمدار یہ سمجھتا ہے کہ سب لوگوں کو اپنے پیچھے لگایا جانا ممکن ہے اوردوکاندار کا خیال ہوتا ہے کہ سبھی چیزیں بیچے اورخریدے جانے کے لیے ہیں۔
ملک عقیل کو خرید وفروخت کا چسکا تھا۔ وہ ہرایسے کام میں ہاتھ ڈال لیتا تھا جس سے منافع مل سکتا ہو۔ جواری تووہ نہیں تھا مگرایک اچھے جواری کی طرح وہ داؤ ضرور کھیلتا تھا۔ ایسا توہوتا ہے کہ اچھے سے اچھا کھیلنے والا بھی کبھی کبھار ہارجاتا ہے مگروہ اس ہارکوہارنہیں مانتا بلکہ سرمایہ کاری خیال کرتا ہے کیونکہ اگراسے ایک طرف مالی نقصان پہنچا ہے تواس کام سے اس نے کچھ اسباق بھی اخذ کیے ہیں جو کتابیں پڑھنے والے بس سوچتے اور لکھتے رہتے ہیں۔
نرگس سادہ سی لڑکی تھی۔ اس میں کوئی چمک دمک نہیں تھی۔ چونکہ اس کے سرکے بال زیادہ نہیں تھے اس لیے وہ روسری باندھ کرآتی تھی۔ آنکھیں نیچی رکھتی تھی اوراپنے کام سے کام۔ بلاوجہ چہکتی نہیں تھی۔ ویسے بھی جیسے پہلے کہیں بتایا گیا ہے کہ وہ بس مسکراتے ہوئے جوان لڑکی لگتی تھی، سنجیدہ رہنے سے اس کی عمر زیادہ لگتی تھی۔ ملک سمجھتا تھا کہ دفتری کام کرنے والی لڑکیوں کا چوبند، تیز طرار، پھرتیلا ہونا اورلش پش دکھائی دینا کارآمد ہوتا ہے۔ بس اس نے ایک روزدھیرج سے کہہ دیا تھا کہ "طغرل صاحب نرگس کو فارغ کر دیں"۔ چونکہ سرمایہ کار وہی تھا اس لیے طغرل نے اس کی کہی بات پر عمل کیا تھا۔
نرگس کبھی فون کرلیا کرتی تھی۔ موقع ملتا تو کبھی طغرل کوملنے دفترآ جاتی تھی۔ طغرل اوروہ آپس میں کھل کرباتیں کرنے لگے تھے۔ یاد رہے کہ نرگس کا نام نرگس نہیں تھا بلکہ اس نام سے اسے صرف پکارا جاتا تھا۔ اس کا والد فوت ہو چکا تھا۔ دوبھائی اپنے اپنے گھروں کے تھے۔ ایک بہن اپنے شوہراوردوبچوں کے ہمراہ اسی شہرمیں رہتی تھی لیکن نرگس بہن پرکبھی بوجھ نہیں بنی تھی۔ وہ دراصل اپنے شہر دو شنبہ میں ایک ایرانی تجارتی کمپنی کے ساتھ کام کرتی تھی۔ کمپنی کے مالک نے کمپنی ماسکو منتقل کرنے کی ٹھانی تواس نے اسے بھی ماسکو میں کام جاری رکھنے کی پیشکش کی تھی۔ وہ ماسکو آ گئی تھی مگر ایک سال سے کم عرصے میں کمپنی دیوالیہ ہو گئی تھی۔ نرگس نے اسی شہر میں مقدر آزمانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نرگس نمازی تھی اورمذہب اسلام سے اس کی وابستگی ملاؤں کی سی گہری تھی۔ اس شہرمیں چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے اسے اچھے برے کئی لوگوں سے واسطہ پڑا تھا مگراس کاکہنا تھا کہ نمازروزہ کا پابند ہونے کی وجہ سے کوئی اسے گزند نہیں پہنچا پایا تھا۔ اس کا ایک تو اللہ پربہت تکیہ تھا دوسرے اس کا کہنا تھا کہ اس کے باپ کی روح اس کی محافظ تھی۔
وہ تاجک مردوں کو بالکل بھی پسند نہیں کرتی تھی۔ وجہ اس نے بہت دیر کے بعد بتائی تھی کیونکہ تکلیف دہ واقعات کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سوویت زمانے میں ہرتعلیمی ادارے میں فلسفے کا شعبہ ہوا کرتا تھا تاحتٰی میڈیکل انسٹیٹیوٹس میں بھی۔ اس کے والد میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے شعبہ فلسفہ کے سربراہ تھے۔ سید عبداللہ نوری جنہوں نے تاجکستان میں اسلامی تحریک برپا کی تھی، اس کے چچا تھے ۔ نرگس کے والد اپنے بھائی کے برعکس بظاہر وہاں کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے لیکن انہوں نے گھر والوں کو مذہب سے وابستہ رہنے اوراس پر عمل کرنے کی نہ صرف آزادی دی تھی بلکہ اس سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے تھے۔
جب روس کی اعانت سے اسلام پسندوں کی جدوجہد ماند پڑنے لگی تواس تحریک میں شامل کئی لوگوں نے لوٹ مار اور ڈاکہ زنی پیشہ بنا لیا تھا۔ امام علی رحمانوو جنہوں نے بعد میں اموم علی رحمون نام اختیارکیا تھا ملک کے سربراہ بن گئے تھے اورسید عبداللہ نوری کو روس ویسے ہی ماسکو لے گیا تھا جیسے ایک زمانے میں زارروس داغستان کے مذہبی جنگجو کماندارامام شامل کو لے گیا تھا۔ اللہ جانے سید نوری کے پیروکاروں میں سے کچھ لوگ تھے یا محض مجرم پیشہ جنہوں نے نرگس کے والد کے گھر میں مسلح ڈاکہ ڈالا تھا۔ گھر سے کچھ نہ ملا تھا۔ نرگس دروازے کے نزدیک تھی۔ ڈاکو جاتے جاتے اسے اٹھا کر لے گئے تھے۔ بعد میں اس سے والد کوفون کروایا تھا۔ ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا تھا بصورت دیگران کی بیٹی کو مار دینے کی دھمکی دی تھی۔ آقائی سعید اپنی پانچ بیٹیوں میں سے نرگس کو سب سے زیادہ پیار کرتے تھے مگر اتنی جلدی اتنی بڑی رقم کا فوری طور پر بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایک روزبیتا توبڑے ڈاکو نے جسے ساتھی "شاہ" کے نام سے پکارتے تھے، نرگس کے پاؤں کے پنجے سے اوپر ایک کیل ٹھونک کراس کی چیخیں اس کے والد کوسنوائی تھیں۔ وہ بیچارے تڑپ اٹھے تھے۔ انہوں نے شہرکا ایک اپارٹمنٹ اونے پونے بیچ کررقم پہنچا دی لیکن وہ پھر بھی جاتے جاتے نرگس کو تیسری منزل سے دکھا دے گئے تھے۔ بلندی سے گرنے کے سبب اس کی چند پسلیوں سمیت کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ مارے خوف کے اس کے والد بچی کوعلاج کے لیے ازبکستان کے شہرسمرقند لے گئے تھے جہاں وہ کئی ماہ ہسپتال میں رہی تھی،
صحتیاب ہو کر لوٹی توکچھ ہی عرصے بعد اس کے والد کو بیماری نے آ لیا تھا۔ بعد میں معدے کا سرطان تشخیص ہوا تھا۔ علاج پربہت پیسہ خرچ ہوا تھا۔ ان کے دونوں بیٹے ناکارہ تھے۔ یا تو باپ کی پنشن تھی، یا والدہ کی تنخواہ جوایک سکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں یا پھرنرگس سینے پرونے کا کام کرکے کچھ حاصل کر پاتی تھی۔ پڑھائی کے اخراجات کے ساتھ ساتھ باپ کے لیے دوائیاں خریدنے میں مدد کرتی تھی۔ پھر ایک روزان کا دنیا سے دانہ پانی اٹھ گیا تھا۔ بھائی بیگانے رہے۔ لڑکیوں کواپنا ٹھکانہ خود کرنا تھا۔
ڈاکووں نے اسے ذہنی اورجسمانی گذند پہنچایا تھا مگر دست درازی تو ایک جانب رہی اس کی عزت سے متعلق کوئی غلط بات تک منہ سے نہیں نکالی تھی لیکن لوگوں کی زبانیں نہیں پکڑی جا سکتی تھیں۔ وہ اس کے سامنے تو کچھ نہیں کہتے تھے مگر سرگوشیاں تو بہرحال کان میں پڑ جاتی تھیں جیسے " ہائے ہائے اس بیچاری کو بھلا کون اپنائے گا؟"
(قارئین ناول تمام تو نہیں ہوا البتہ مزید لکھا جانا ہے، کب معلوم نہیں)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
"