"مثل برگ آوارہ" کا انیسواں در
طغرل کئی بارسوچتا تھا کہ مختصرڈائری لکھنے سے کچھ بھی توحاصل نہیں ، دوسرے ہی لمحے سوچتا کہ سب کچھ تو کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کے لیے نہیں ہوتا، بہت سی چیزیں یونہی ہوتی ہیں جیسے خالی الذہن ہو جانا۔ بلا وجہ آوارہ گردی کرنا۔ کسی کو یونہی چھیڑ دینا۔ پس ڈائری لکھنا بھی ایسے ہی ہے۔ ممکن ہے کئی سال بعد پڑھنے سے لگے کہ ویسے ہی پریشان تھے ایسی کوئی آفت تو نہیں آئی تھی یا یہ لگے کہ کیسی کیسی مشکلوں سے گذرنا پڑا تھا۔
یہ درست ہے کہ ڈائری میں نہ تو سب کچھ لکھا جا سکتا ہے اورنہ ہی لکھا جاتا ہے خاص طور پر ایسے میں جب شائع کردہ ڈائری نوٹ بک ہوجس کے ایک ہی صفحے پرساری واردات سمیٹنی ہو۔ پھر وہ نجانے کیوں شام کو قلم گھسیٹنے بیٹھ جاتا تھا۔ ہاں البتہ ایسا کرنے کی ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ وہ محبت سے متعلق کتاب لکھ رہا تھا جو کوئی یونہی سی نہیں بلکہ تحقیقی کتاب تھی جس میں یہ بتانا تھا کہ محبت ہے کیا اورمحبت کو تصورکیا کیا جاتا ہے۔ خاصی عرق ریزی کرنی پڑتی تھی اس لیے وہ دماغ کوسکون دینے کی خاطر ڈائری کے ایک صفحے پر عام سی باتیں لکھنے بیٹھ جاتا تھا۔ اس نے لکھا:
27 اپریل 2006:
تحسین کا ای میل آیا ہوا تھا۔ میں نے ماہین کا میل ایڈریس پوچھا تھا، وہ عبدالسلام کا ذکر لیے بیٹھا جس نے چقمہ دے کر اس سے چارسو ڈالر اینٹھ لیے تھے۔ جلا سڑا جواب دیا اورپھررہا نہ جا سکا، فون کردیا۔ سویا ہوا تھا، آئیں بائیں شائیں کررہا تھا۔
ریاض کا فون بڑی مشکل سے مل سکا۔ کہہ رہا تھا لاہورمیں بہت گرمی ہے اورہدایت کر رہا تھا کہ گرمیوں میں کبھی پاکستان نہ آنا۔ ٹائمز لاہورمیں اس کا کوئی شناسا نہیں ہے۔ ویسے بھی اب انگریزی اخباروں میں مشاہیر کے مضامین چھاپنے کا رواج ہے۔ اردوپریس پہ ہی گذارا کرنا چاہیے۔
ریڈیو پربوڑھیوں نے باوجود میرے باربارکہنے کے مجھے دیرکروا دی۔ علی خان پونے دو بجے آیا اورساڑھے تین بجے یہ جا وہ جا۔ خاتون سربراہ سے دل لگی کے خاصے فوائد ہیں۔ بازنہیں آیا، جاتے جاتے مجھے اپنی ایک اورنئی تنظیم کی جنرل باڈی کے اچلاس کا پرچہ پکڑا گیا۔
ساڑھے چار بجے فارغ ہو کر نتالیا ساوینا کی طرف گیا۔ ملتے ہی اس کے گال پر بوسہ دیتے ہوئے بولا،"آخر کوئی لڑکی تو ہے جو میرا بھی انتظار کر رہی ہے"۔ پیدل چلتے ہوئے اس کے دفتر پہنچے۔ امتحان کیا لینا تھا، اندازہ ہی کرنا تھا۔ تین ماہ میں اس نے طلباء کو خاصا پڑھا دیا ہے۔
پھر پیدل چلتے ہوئے وے دے این خے کی جانب گئے۔ بہت کہتی رہی کہ کہیں بیٹھ کرکچھ کھا لیتے ہیں لیکن میں نہ مانا کیونکہ میری جیب میں پیسے تھے ہی نہیں۔
28 اپریل2006:
نماز جمعہ کی ادائیگی سے پہلے اخبار اٹھانے کی غرض سے مئی کووسکایا چلا گیا۔ ایک خروج سے اخبار کے سٹینڈ تک اوروہاں سے تویرسکایا پر دخول تک جلدی جلدی جانا، خاصا سفرلگا۔ ہانپ سا گیا، بہرحال ریل گاڑی میں بیٹھنے کو جگہ مل گئی۔ مسجد سے نکل کر شاہانی کو فون کیا۔ اس نے کہا کہ ریڈیو کی بلڈنگ کے پاس ہی میرا انتظار کرو۔ پروپوسک (داخلے کی پرچی) والی جگہ پربیٹھ کر کتنی دیراخبار پڑھا جا سکتا تھا۔ بالآخر اوپرجانا پڑا۔ نادیہ کام دینے پرتلی لگتی تھی لیکن میں نے کام کرنے کا سوچا ہی نہیں تھا۔
کہیں ساڑھے چار بجے شاہانی صاحب تشریف لائے۔ بیچارے کہیں ٹریفک جام میں پھنس کررہ گئے تھے۔ میرشاہباز کے ہاں جا کر ان دونوں کی آم کے کاروبار میں شراکت سے متعلق مختصر معاہدہ لکھا اورپھرمیرشاہباز کے ہمراہ کسی کو ملنے چلے گئے۔ وہاں دراصل ان لوگوں کا پینے کا پروگرام تھا۔ آج کی محفل میں مجبورا" رات بارہ بجے تک بیٹھنے کے بعد مجھے لگا کہ اگرمیں ایسی جگہوں پر دوچارباراوربیٹھا تومجھے شراب نوشوں سے واقعی نفرت ہوجائے گی کیونکہ اس قسم کی بیٹھک ماسوائے "لہو و لعب" کے اورکچھ نہیں ہوتی۔ پینے کے بعد میرشاہبازکنجوس ہوگیا تھا۔ آخرکاراس سے ٹیکسی کا کرایہ لیا اورکہیں سوا بارہ بجے گھر پہنچا۔ دماغ ان کے کرتوت پر بھنّایا ہوا تھا۔
29 اپریل 2006:
ریڈیو پرڈیوٹی پوری کرکے گھرآ گیا اورنیٹ یا ٹی وی دیکھتا رہا۔ بس بہارکیا آتی ہے کہ یاسیت عود کرآتی ہے۔ آج تو زندگی کی "لایعنیت" کا ایسا احساس تھا کہ جی مائل بہ خودکشی ہو رہا تھا۔ استغفار پڑھی اور ساتھ ہی یہ شعر بھی:
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
بدھ کے دن سے دوست کے دفتر میں مضمون چھوڑا ہوا ہے لیکن اس کے اہلکار نے اسے پوسٹ نہیں کیا۔ رنجش توسرابھارتی ہے مگرمطمئن ہوں کہ چھاپنے والوں کے پاس، پہلے سے ایک آدھ اضافی مضمون پڑا ہوا ہے۔ کام چلا لیں گے۔
آج شام نیٹ پررسالہ آ گیا۔ اس بار انہوں نے اچھا کیا کہ عنوان کے نیچے جلی نسخ میں "ماسکونامہ" لکھ کراس کے آگے میرا نام لکھا ہے۔ سارا رسالہ پڑھا۔ باقی مکتوب نگاروں اورود میں یہ واضح فرق لگا کہ وہ محض رپورٹنگ کرتے ہیں مگرمیں اپنا نکتہ نظربھی بیان کردیتا ہوں۔
اس بار انہوں نے آخری دو پیرے اڑا دیے۔ مضمون کی ماہیت پرکوئی فرق نہیں پڑا البتہ ہاں مجھے یہ یقین ضرورہوگیا کہ بقول نادیہ "معینہ جگہ" کی کمی ہی ان کے آڑے آتی ہے۔ چند ایک مضامین شائع ہو جائیں توجگہ کی بات بھی ہوجائے گی۔
30 اپریل 2006:
دیر سے سویا تھا لیکن جلد آنکھ کھل گئی۔ ایک دوست کا فون آ گیا تھا۔ نیند کے باعث سننے کوجی نہیں چاہ رہا تھا لیکن سنا۔ وہ چونکہ خوش تھا اس لیے مجھے بھی اپنی آوازخوشگوارکرتے بنی۔ اس کے بیوی بچے امریکہ پہنچ گئے ہیں۔ وہ بیئر پی رہا تھا، پیشاب کی حاجت رفع کرنے کے لیے فون منقطع کیا اورپھر سے فون کیا۔ شاید لڑکی نے میری اونچی آوازکی شکایت کی تھی اس لیے ساشا نے کچن میں آ کر بڑبڑانا شروع کردیا، میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے دفع کر دیا۔ کمرے میں پہنچا تو وہ بھنایا ہوا اٹھ کر بکنے لگا، میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ نینا کے جانے سے پہلے ہی میں نے صلح جوئی کی غرض سے اس کے ساتھ معمول کے مطابق بولنا شروع کردیا۔ جنجال نہیں چاہیے۔ اس نے بھی معذرت کر لی۔
کل چوہدری کے والد کا انتقال ہو گیا۔ شاہانی اورمیرشاہبازآئے۔ اگرچہ ہمیں پہلے شاہانی کے کام کے لیے ایرپورٹ جانا تھا لیکن ٹریفک جام کے باعث نہ جا سکے اورپلٹ کر چوہدری کے ہاں تعزیت کرنے چلے گئے۔ راستے بھر یہ دونوں بلوچ پاکستان پرقابض جنرل پرویزمشرف کی افادیت کے جواز پیش کرتے رہے تاہم مجھے بہرطور کسی بھی فوجی جرنیل سے بھلائی کی توقع نہیں۔
بعد میں تیووان گاگ کی فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ شاہانی کو جارح غنڈہ نما کاروباری اشخاص سے "رزبورکا" (معاملات طے کرنے) کرنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ میں نے کہا کہ میں پہلے انگلش سپیکنگ کلب جاؤں گا اورنو بجے فلم دیکھوں گا۔ مگرمیں پھر گھرہی واپس آ گیا۔
یکم مئی 2006:
آج یوم مئی ہے "محنت کشوں کا عالمی دن" مگر روس میں اس کو اب " یوم بہار و محنت" کے تبدیل شدہ نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ 1991 میں میں نے پہلی اورآخری بار روس میں یہ دن سڑک پر منایا تھا۔
آج ماہین کا برتھ ڈے ہے۔ پاگل کہہ رہی تھی،" پاپا مجھے توچوبیس سال بہت زیادہ لگتے ہیں"۔ میں نے کہا کہ میں پچپن سال کا ہوں تو تمہارے خیال کے مطابق تومجھے مرجانا چاہیے۔
آج پہلی بارموسم میں نرمی آئی ہے۔ شگوفے بھی خوب پھوٹ نکلے ہیں۔ جنگ، نوائے وقت، ٹائمز، گزیتا اورجسارت اخبارات پڑھ ڈالے۔ جسارت میں غامدی کے رسالے "نشاۃ ثانیہ" میں چھپے ہم جنسی بارے ایک مضمون کے خلاف مضمون کی آج چوتھی قسط تھی۔ وہ مضمون بہت ڈھونڈا مگرمل نہ سکا۔ میں نے شہزاد سلیم کو خط لکھا مگربالآخرمضمون مل گیا۔ رسالہ بہت اچھا ہے۔ اگرچہ ان کا اپنا نقطہ نظر ہے لیکن دوسروں کے تنقیدی مضامین بھی چھاپتے ہیں۔ مذہب کو سیدھا کرنا خاصا مشکل کام ہے اوروہ ہمت سے کام لے رہے ہیں۔ دس برس سے معیاری مضامین پیش کر رہے ہیں، لوگ تو خلاف ہونگے ہی۔
اب مجھے جماعت اسلامی کی رجعت پسندی ایک بار پھرکھٹکنے لگی ہے۔ منسلک مفادات اور ہٹ دھرمی کسی کو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔
2 مئی 2006:
یہاں ہرچیزریچھ کی طرح لمبی تان کرسو جاتی ہے۔ مہینوں کی نیند کے بعد جاگنے کی انگڑائی اتنی متحیرکن اوراچانک ہوتی ہے کہ بعض اوقات انسان کو اپنی بصارت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ کل جو شجر بے برگ اورٹھنٹھ تھے اگلے روز پھوٹ چکے شگوفوں سے لدے ہوتے ہیں۔ اگرچہ پتیاں جنم کے عمل میں ہوتی ہیں مگران کے سبزے کی لپٹ جگر کے پارہوجاتی ہے۔
آج بھی ہرسال کی طرح ایسا ہی ہوا۔ سات ماہ تک برف سے ڈھکی زمین اپنی زرخیزی کا عنفوان درختوں اورودوں پرالٹ دیتی ہے۔ درخت اور پودے بھی پھٹنے کو بے چین ہی ہوتے ہونگے جویک لخت اپنے آپ کو اگل کے رکھ دیتے ہیں۔ روئیدگی اتنی تیزی سے ابھرتی ہے کہ ہریالی اپھنی پڑتی ہے۔
ریڈیو سٹیشن جانے سے پہلے جلدی جلدی دوصفحے ترجمہ کیے۔ زبان نہ جاننے کے باوجود میں اپنا کام کریتا ہوں۔ ریڈیو کا اکتا دینے والے کام کرکے فارغ ہوا اوربھوک سے پھنکتا ہوا گھرپہنچا۔ جومیسر آیا زہرمارکر لیا۔
آج جب میں بال پوائینٹ خریدنے کے لیے کیوسک پررکنے لگا تومجھ سے آگے ایک بے تحاشہ موٹا دیوانہ سا شخص کھڑکی پرٹک گیا۔ اس کا اٹنگا سا پاجامہ تھا اورہاتھ میں بیگ۔ اس شخص میں سے بے حد گھناؤنی بدبو کے بھبھکے اٹھ رہے تھے۔ میں کیوسک کے اندرموجود لڑکی کو دس کا نوٹ پکڑا کرتین قدم پیچھے ہٹ گیا۔ بعد میں یہ بو دیرتک میرے مشام جاں پرچھائی رہی۔ اللہ سب کو محتاجی سے محفوظ رکھے، بیوی کو تین ہزار دیے تو وہ بولی،"کیا اسی طرح جییں گے؟"
3مئی 2006:
جوڑا رات کہیں سے پی پلا کر دیرسے لوٹا تھا۔ لمبی تان کرسوئے رہے۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی بارہ بجے گھر سے نکل گیا۔ میترو پرجا کر پتہ چلا کہ پاسپورٹ تو گھر بھول آیا ہوں۔ یہاں دستاویز پاس نہ ہو انسان ویسے ہی الجھن میں سہما ہوا لگتا ہے۔ الٹے پاؤں واپس آیا۔
کیوسکایا پرمنی بسوں کا سلسلہ کچھ گڑبڑ تھا۔ بہرحال میرشاہباز کے ہاں پہنچا۔ وہ "بارہ کرسیاں" ہی فلمانے پرتلا ہوا ہے۔ کچھ فلم وہیں دیکھی پھرگھرساتھ لانے کا فیصلہ کیا۔ سوویت یونین کے نظام کو مشرف بہ پاکستان کرنا اورمزاحیہ بنانا، ہے تو ایک امتحان مگر کوشش کرتا ہوں یہ امتحان بھی پاس کرنے کی۔
آج موسم اچانک ہی گرم ہو گیا۔ پیدل نکل لیے۔ بہت دیربہت دورتک پیدل چلے۔ میں نے کئی بار احتجاج کیا مگرشاہباز کوبیئر پینے کے بعد نوجوان لڑکیاں کچھ زیادہ ہی حسین لگ رہی تھیں۔ حسن آخر ایک عرصے کے بعد کپڑوں سے باہر ہوا ہے۔ خدشہ ہے تھک جانے سے نیند نہیں آئے گی۔
جونہی گرمی کا پہلا دن ہوتا ہے، لڑکے لڑکیاں فورا" سکیٹ سوارہوجاتے ہیں۔ لڑکیوں کی نافیں ننگی ہو جاتی ہیں اوران کے سرین سروں میں حرکت کرتے بہت ہی بھلے دکھتے ہیں۔
ویسے بھی بڑھاپا اپنا رنگ جما رہا ہے جب جواں جسموں کے حصول کی خواہش یا تورنگ لاتی ہے یا پھر "لاحول ولا" میں ڈھل جاتی ہے۔
5 مئی 2006:
عمّاد وعدہ کرنے کے باوجود نماز جمعہ پڑھنے نہیں پہنچا تھا۔ فون کیا تواس کی بیگم نے بتایا کہ وہ بین الاقوامی فون لائن پر بات کر رہا ہے۔ آپ آ جائیں۔ دل تو نہ چاہا مگرمیں وعدہ نبھانے کا عادی ہوں۔
پرانے دفاتر کی کس طرح سے تزئین کر دی گئی ہے یہ نظام سرمایہ داری کا کمال ہے۔ نیچے کی منزل پرعمّاد کے کیوسک میں ایک حسینہ فروزاں تھی۔ اس نے مجھے عمارت کا اندرونی نمبر ڈائل کرنے کو کہا۔ عمّاد نے کہا، اسی لڑکی کو ساتھ لے کرآ جائیں۔ ٹرن سٹیلیٹ کو اس نے اپنے کارڈ سے آن کیا اورلفٹ میں میرے استفسار پر بتلایا کہ وہ منگرلکا ہے یعنی منگرل قوم کی دختر۔ عمّاد لفٹ کے باہر کھڑا انتظار کر رہا تھا۔ سوٹ میں ملبوس ، بال بکھرے ہوئے۔
ماشاءاللہ خاصا خوشگواراورمنظم دفترمرتب کر لیا ہے موصوف نے۔ کہتا ہے تین سال جان ماری ہے، اب تھک گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے پاس بنیادی سرمایہ کہاں سے آیا؟ البتہ یہ بات مانتا ہے کہ کاروبار کی اساس بددیانتی ہوتی ہے۔ واپسی میں ٹرام وے پر آنے کا ارادہ تھا۔ سبھی میں ٹرن سٹیلیٹ لگ گئی ہیں، ڈرائیوروں کے پاس ہزارروبل کے نوٹ کا بقایا نہیں تھا۔ دو ٹرام ویگنوں سے اترنا پڑا، بالآخر میتروپہ جاتے بنی۔ گھرآ کرنئی کتاب کو خاصی دیرتک لکھا۔
دروازہ بجا۔ نینا کے ساتھ چھوٹو بوٹو بھی تھی۔ جی خوش ہوگیا۔ جب سے پاکستان سے لوٹا ہوں میں نے اسے ایک بارہی دیکھا تھا البتہ فون پر ایک دوبار بات ضرور ہوئی تھی۔ ویسی کی ویسی ہے چھوٹی سی۔ کہتی ہے،"میں آخر چھ سال کی ہو گئی ہوں ناں"۔
6 مئی 2006:
آئندہ ہونے والی تین چھٹیوں کے سبب آج ہفتے کا روز کام کا دن تھا۔ نینا نے ایرا کوچھوٹو بوٹو کے ساتھ بیٹھنے کوکہا تھا مگررانی پونے گیارہ بجے تک سوتی رہی اوراٹھی بھی توہماری آوازوں کی وجہ سے اوراٹھتے ہی پوچھتی ہے " لینکا، کوشت بودش" ( لینکا، کھانا کھاؤ گی )۔ آٹھ بجے سے اٹھی ہوئی بچی بھلا بھوکی رہ سکتی ہے کیا؟ اسے کہتے ہیں شلغموں پر سے مٹی جھاڑنا۔
میں نے کچھ دیر بچی کو کمپنی دی۔ ماہین کو کال کی۔ وہ نو بجے سوئی تھی۔ کچی نیند جگا دیا۔ ریڈیو پر وہی کل کل۔ جب میں جاتا ہوں تو لگتا ہے نادیہ اور ریتا کو اردو کے سارے لفظ بھول جاتے ہیں۔
آج حسینہ (لینا) سات جون تک چھٹی پر چلی گئی ہے۔
اب نتاشا کو دیکھ کر ہوک تک نہیں اٹھتی۔ میں نے مذہب اوڑھ لیا ہے یا لاجواب ہونے کا شاخسانہ ہے؟۔ ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ عمر کے ساتھ ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ موسم خوب گرم ہو گیا ہے۔ لڑکیوں کے سرینوں پر ہی نظر کیوں ٹھہرتی ہے؟ کیا وہاں ملاؤں کے مطابق شیطان نے بسیرا کیا ہوا ہے یا تقابل کا شاخسانہ ہے۔
گھر آنے پر دونوں لڑکیوں کو "کاراؤکے" میں مصروف پایا۔ لینکا خاصا اچھا گا لیتی ہے۔ دیکھو اس لڑکی نے میری ایک پلیٹ تک نہیں دھوئی۔ میں واقعی بوڑھی عورتوں کی سی جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگ گیا ہوں۔ ذاتی زندگی تو صحیح بات ہے اتھل پتھل ہو گئی ہوئی ہے۔
8 مئی 2006:
گھرسے سب داچے چلے گئے۔ اکیلا گھراورتنہا میں۔ ایک عرصہ ہوگیا، اس قسم کا سکون میسّر نہیں آ سکا تھا۔ میں نے باقاعدہ منصوبہ بنایا کہ پہلے کتاب کا کچھ حصہ لکھوں گا پھرلائیبریری کی رکنیت لینے جاؤں گا۔
پھرلکھنے میں اس قدرمصروف ہوگیا کہ جانے کی خواہش دم توڑنے لگی۔ مسلسل بند کمرے میں بیٹھے رہنا بھی تو عذاب ہے۔ بالآخر لائبریری کو روانہ ہوگیا۔ چلتے چلتے سوچ آ رہی تھی چونکہ آج سرکاری چھٹی ہے کہیں لائیبریری بند ہی نہ ہو۔ میترو تگانسکایا کا وہ دروازہ بند کردیا گیا جہاں سے راستہ سیدھا لائیبریری کو جاتا ہے۔ دوسرا دروازہ کھلا تھا۔ پہلے تو باہرنکل کرجغرافیہ ہی خراب ہو گیا۔ ایک لمبا چکر کاٹ کر لائیبریری پہنچا۔ وہاں رجسٹڑیشن کاؤنٹر پہلے ہی بند ہوچکا تھا، لائبریری کو بھی چھ بجے بند ہو جانا تھا۔
خدشہ تو پہلے سے تھا مگرپھر بھی کوفت ہوئی۔ واپسی کا راستہ چڑھائی والا ہے اور"تھڈے" ( بیکار چکر) کے بعد توویسے ہی واپسی کا پیدل سفر جانکاہ ہوتا ہے۔ لشتم پشتم میترو پہنچا پھرلوٹ کے بدھو گھر کو آئے۔
ایک بار پھر وہی میں، میرا کمپیوٹر، کاپی اور قلم
زندگی کی یکسانیت کاٹنے کو دوڑتی ہے،
لیکن کیا کیا جائے؟
مزے تو پیسے اورطبیعت سے ہوتے ہیں۔
مجھے تو ویسے ہی اکتائے ہوئے ہونے کی عادت ہوچکی ہے بلکہ لت پڑ گئی ہے۔
12 مئی 2006:
جب ایک عام شہری آپ کے پاس کھڑا ہوتوآپ کوکوئی خاص احساس نہیں ہوتا لیکن اگرکوئی پولیس والا کھڑا ہو تو اقتدارواختیارکا ہراس پیدا ہونے لگتا ہے۔ شاید ایسا دوسری رنگت اوردوسرے ملک کا شہری ہونے سے ہوتا ہو، مگر میں تواسی ملک کا شہری ہوں۔ ممکن ہے یہ غیریت کا احساس ہو۔
آج نماز جمعہ کے بعد میترو میں سفرکے دوران مجھے اسی قسم کا احساس ہوا۔ وردی اورہتھیار ویسے ہی ریاست کی رعونت کا اظہار ہوتے ہیں، میں ٹھہرا ریاست سے متنفر۔ ویسے بھی یہاں کے پولیس والے ہمیں کونسی اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
ریڈیو پر چونکہ تین افراد چھٹی پرہیں اس لیے آج بھی جانا پڑا۔ ہمکارخواتین کا بس چلے تووہ نچوڑ کررکھ دیں مگرمیں بھی اڑیل ہوں۔ پھربھی اتنا زیادہ کام تھا اورساتھ ہی شاید ہوا لگنے کی وجہ سے کمر کے پٹھوں کا درد پھر سے شروع ہو گیا۔
جب گھر لوٹا تو تھکاوٹ اور بھوک سے جان نکلی ہوئی تھی۔ بھوک کا بکھیڑا پہلے نمٹانا ہوتا ہے۔ بس پانچ منٹ ہی کمر سیدھی کی اورپھرسے انٹرنیٹ پر۔ کتاب لکھنے کے سلسلے میں جتن کرنے ہی ہونگے۔
پھر گھروالی خریداری کرکے لوٹی۔ جھلّائی ہوئی تھی۔ بیچاری کرے تو کیا کرے۔ کوئی بھی تو اس کی مدد کا دم نہیں بھرتا۔ آلا آ گئی۔ اس سے ہوئی رنجش کوفوری بھلا بیٹھی اورداچے جانے کا ارادہ کر لیا۔ میں نے جھنجھلا کراس کی خرابی طبیعت کا ذکر کیا۔
13 مئی2006:
کام سے لوٹا، پیٹ پوجا کی اورھوڑی دیر کے لیے لیٹا۔ جس مجلہ میں لکھتا ہوں وہ انٹرنیٹ پراپ لوڈ ہوجاتا ہے۔ اس کے ایڈیٹرعجیب ہیں، لفظ "موتنا" انہیں معیوب لگا۔ ایسی جگہ سے پیرا اڑا دیتے ہیں کہ اس کے بعد کا پیرا بے جوڑ لگنے لگتا ہے۔ اس کے برعکس املاء کی غلطیوں پر نگاہ نہیں ڈالتے۔ ضروری نہیں کہ میری ساری املاء درست ہو۔ مجھے اس بارکا اپنا مضمون بنت کے حوالے سے نہیں بھایا البتہ اس کا موضوع درست تھا۔ لکھا بھی توعجلت میں تھا اورخود سے اصلاح بھی نہیں کی تھی۔
مون کا فون آ گیا۔ اس کی رائے تھی کہ لکھتے وقت قارئین کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ مگرمیں لکھتا ہوں ایک تو مشق جاری رکھنے کی خاطراوردوسرے مخصوص قارئین کے لیے لیکن کیا اس مجلے کے ایسے خاص قارئین ہوتے ہونگے۔ لگتا نہیں ہے۔
مون میری بسیار نویسی کا ٹھٹھا اڑا رہا تھا۔ بس موڈ میں تھا۔ میں بھلا کونسا احمد ندیم قاسمی ہوں۔ ہفتے میں ایک مضمون لکھنا کہاں کی بسیارنویسی ٹھہری۔
کتاب آگے بڑھانے کے سلسلے میں کچھ سست ہوا ہوں کیونکہ اگلا باب ذرا دلچسپ ہونا چاہیے۔ شاید تیسرے باب پر بھی نظر ثانی کرنی پڑے۔
14 مئی 2006:
سارا دن لکھتے لکھتے تھک گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ بورہو گیا تو کلب جانے کی ٹھانی۔ آج کم عمر لڑکیوں کے چوتڑچھونے کو بہت دل کر رہا تھا۔ خواہش پربندھن باندھنا انسان کے لیے بہت مشکل کام ہوتا ہے، تبھی اس عمل کونفس کشی کہا جاتا ہے۔ اگر انسان کم عمرلڑکیوں کے حصول کے جھنجھٹ میں پڑ جائے تویہ نشہ جان نہیں لیتا بلکہ جینے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ پھرآدمی ہوس پرستی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ ہوس پرستی کے لیے ایک عمر کے بعد یا توامیر ہونا چاہیے یا بے حیا۔ مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میں نے خود کومذہب کے پٹکے کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔
محبت کے ضمن میں کاتیا نام کی خاتون سے کلب میں بات چیت ہوئی تو اس سے رہا نہیں گیا، کہہ بیٹھی کہ اس کا خاوند بہت حاسد ہے ۔ اس نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ میں نے اسے محبت کے سلسلے میں اچھی خاصی آگاہی دی یا شاید ناآگاہ کیا کیونکہ یہ توایسا جال ہے جس کے رنگ سبھی کے لیے مختلف ہوتے ہیں۔ متنوع بھی، جاذب نظر بھی اورپرکشش بھی۔
خیر آج کلب میں وقت اچھا کٹ گیا۔
ایک بچی کی ماں آرمینیائی لڑکی کے ساتھ جس طرح ایک روسی بوڑھا شخص آ کر چمٹ کر بیٹھا، مشکوک سا لگ رہا تھا۔ ہر ایک کی ذاتی زندگی ہے۔ مجھے کیا لینا دینا۔ یہ وہی حسد یا رشک تو نہیں؟ ہاں وہی ہوگا ورنہ میں کیوں ان کے بارے میں سوچتا۔
15 مئی 2006:
سارا دن گھر پر ہی بتا دیا۔ باہرجاؤں بھی تو کہاں جاؤں اورکہیں جاؤں بھی تو کیوں جاؤں؟ کالم لکھا، ترجمہ کیا، کتاب کے کچھ صفحے گھسیٹے۔ یہ کتاب لکھنا شروع کرکے میں نے اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال لیا ہے۔ مواد سے میں مطمئن نہیں لیکن لکھنے پر بضد ہوں۔ ایک معیاری کتاب لکھنے کے لیے مواد، وقت، ماحول، سہولت، وسائل سب ہی درکار ہوتے ہیں پرایک مقبول کتاب لکھنے میں بھلا کیا حرج ہے، سارے "بیسٹ سیلر" کلاسیک کا درجہ تو نہیں رکھتے۔
آج صبح کا آغاز ہی غلط تھا۔ آنکھیں بند کیے نیم غنودگی میں جا کرٹوائلٹ رم پربیٹھا تو معلوم ہوا کہ ساشا کے پیشاب سے آلودہ تھا۔ اسے اللہ ہی سمجھائے توسمجھائے۔ سخت کوفت ہوئی۔ سات بجے، بہانہ سازی کی خاطر اس نے بستر پرلیٹے لیٹے اپنی گدھے کی سی آوازمیں فون کرنے شروع کردیے۔ خود توفون کرتے ہی فورا" سوجاتا ہے مگرمیری نیند چوپٹ کردیتا ہے۔ جب میرے نہانے کا وقت ہوا تو خود بستر سے بلند ہو گئے۔ ان لوگوں کے ساتھ ایک کمرے میں زندگی گذارنا ایک امتحان ہے مگر ایک تو وہ دن میں گھر نہیں ہوتے، دوسرے مجھے یہاں رہنے کی عادت پڑ گئی ہے، تیسرے کوئی اور ٹھکانہ ہے نہیں۔
آج نینا کی سہیلی لدمیلا کا انتقال ہو گیا۔
16 مئی 2006:
ریڈیو کی تو بات کیا کرنی وہی ٹک ٹک۔ نہ تو مجھے اپنی آوازپسند ہے اورنہ بولتے ہوئے میرا الفاظ کھا لینے کا نقص دور ہو پاتا ہے۔ اگر کوئی بہترراہ ملتی تومیں ریڈیو کب کا چھوڑ چکا ہوتا۔
اپنی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطریرشاہبازکے پاس گیا یا انٹرنیٹ جاری رکھنے کو پیسے لینے کی غرض سے، شاید دونوں وجوہ تھیں۔ میرشاہباز دیرسے گھرآیا۔ سرد ہوا کے تھپیڑوں سے بچنے کے لیے میں پہلے سے عمارت کے اندر جا کھڑا ہوا تھا۔ میرشاہباز مایوسی کا شکار ہے۔ کہتا ہے کہ فلسفی ستاروں کو دیکھتے ہوئے چلتے تھے، جب ٹھوکرکھا کرماتھا زمین پرپڑے پتھرسے ٹکرا کرپھوٹ جاتا تھا تب انہیں پتہ چلتا تھا۔ بہتر ہے ماتھا پھوٹے لیکن میں مسلسل زمین کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔ آج اس نے اپنے " ان فینٹیلزم" کا اعتراف کیا۔ کشتیاں جلانا تووہ بالکل نہیں چاہتا بلکہ ایک اضافی مضبوط کشتی کنارے پر باندھے رکھنا چاہتا ہے۔ کہتا ہے جب آٹھ آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو پاکستان سے حب الوطنی زیر سوال آ جاتی ہے۔
میں اس کے ہاں بھی بورہو گیا۔ بس کے انتظار میں ایک تو وقت بہت صرف ہوا دوسرے اتنے لوگ اکٹھے ہو چکے تھے کہ اگرویگن آتی بھی تو نشست ملنا دشوار تھی۔ چنانچہ میں دوسرے راستے سے پراسپیکت ورناسکوا چلا گیا۔ سفرتو طویل ہویا مگر ٹھنڈ اورانتظارسے بچ گیا۔
نینا تعزیت کرنے سینٹ پیٹرزبرگ جانے کی تیاری کررہی تھی۔ جھنجھلائی ہوئی لگتی تھی ، شاید تاسف نے اس کا برا حال کیا ہوا تھا، شاید دونوں ہی باتیں ٹھیک ہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“