"مثل برگ آوارہ" کا اٹھارہواں در
اڑ گئی رے سون چڑیا، کہاں گئی رے سون چڑیا؟ منیا اب نہیں تھی۔ طغرل رفعت کوکسی ہندوستانی آرٹ فلم کی نقل میں منیا کہا کرتا تھا۔ عمرکے جس حصے میں وہ تھا اس میں معاملات کودل پہ لگانا درد دل بن سکتا ہے۔ ویسے بھی طغرل ہردورمیں چاہے جتنے زیادہ نشے میں رہا یا جتنا بھی نشہ کیا چاہے وہ اصلی تھا یا عشق و مذہب کے ساتھ وابستگی سے متعلق نشہ، ہمیشہ اعتدال برتتا رہا تھا۔ یاد تو یاد ہوتی ہے، ایک وقت آتا ہے جب محوہوجاتی ہے۔ کہیں لاشعور میں جا محفوظ رہتی ہے پھرکسی خاص لمحے پربہت شدت کے ساتھ مگرمختصروقت کے لیے کلپا دینے کی خاطردماغ سے دل پراترتی ہے۔ رفعت کی یاد آہستہ آہستہ محو ہو رہی تھی اورایک کمرے کے گھر میں ساشا کی لائی ہوئی حرافہ ارینا کا وجود زیادہ پریشانی کا موجب بننے لگا تھا۔ طغرل نے خود کا کتھارسس کرنے کی غرض سے ایک طویل عرصے کے بعد ڈائری لکھنا شروع کر دی تھی۔
23 مارچ 2006:
آج پاکستانی سفارت خانے میں 23 مارچ بہت فقرمیں منایا گیا اگرچہ بہانہ 8 اکتوبرکا زلزلہ تھا جس کے لیے دنیا بھراورپاکستان کے تمام شہروں سے پہنچی امداد میں بدعنوانی کے باعث بہت سے لوگ دولت میں کھیلنے لگے ہیں مگرلاکھوں ابھی تک قدرت اورباقدرت دونوں کے ہی لگائے زخم چاٹ رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ اس مقصد کے لیے فنڈز بھی خورد برد ہوگئے۔
سفیرکا میرے بارے میں رویہ مجھے چبھا توسہی لیکن ممکن ہے کسی باشعورفرد اورافسرشاہی کی اگرنہ بنے تورویہ اسی طرح کا ہوتا ہوکہ دوسرے کو کس طرح نیچا دکھایا جائے اوردوسرا وہی ہوتا ہے جواپنے مقام سے دوسرے کے ہاں آتا ہے کیونکہ پاکستان نہ تیرا ہے نہ میرا بلکہ صدر پاکستان کا ہے، جو سفارت خانے میں سفیر ہوتا ہے اورسفارت خانہ، پاکستان۔
شاہانی صاحب بوریت دورکرنے آئے، دل کا حال کہنے یا بھڑکانے۔ اس شخص کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ آدمی اچھا ہے پردنیا داری میں پھنسا ہوا ہے اس لیے کبھی کبھارمیلا ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ زات شریف جوہر رکاری غیرسرکاری تقریب میں سربرآوردہ ہونے کی کوشش کرتی ہے اپنے باطن میں مکروہ ہے۔ چاہے جتنی تاولیں ، صفائیاں اور گلے پیش کرے، جتنا بھی اپنے ظاہر کو لیپنے پوتنے کی کوشش کرے، ناکام رہتا ہے اور اس کا باطن عیاں ہوہی جاتا ہے۔
اس شخص سے اورگھرمیں ساشا کی سہیلی سے منفی لہریں خارج ہوتی ہیں یا ان کے رویے منفی ہیں؟ یہ شخص بعض اوقات شیخی خورا ہوجاتا ہے جبکہ لڑکی تو ہے ہی غیرسماجی عنصر۔
24 مارچ 2006:
آج جمعہ ہے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کی خاطرماسکو کی قدیم مسجد تک پہنچنے کے لیے گھر سے میترو اورپھرنوووکزنتسکایا میترو سے نکل کر مسجد تک پیدل چلنے کے دوران پینتالیس منٹ صرف ہوتے ہیں۔ نہانے کے بعد پاکیزگی برقراررکھنے کی خاطرپراسٹیٹ کا مسئلہ بھی پیش نظررکھنا پڑتا ہے۔ بہرحال عمرکے مسائل سے گریزتوممکن نہیں مگرزندگی کی سہولتوں کے لیے ضروری رقم کمانے کی غرض سے بقول کسے اس عمر میں نہ کمینگی کا کورس کیا جا سکتا ہے اورنہ ہی کوئی بہتر آمدنی والی ملازمت مل سکتی ہے۔
مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی، اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ تاتار لڑکے اورمرد مہذب ہوتے ہیں جبکہ قفقاز کے لوگ بالعموم اورچیچن بالخصوص بیٹھے ہوئے لوگوں کے بیچ میں پاؤں گھسیڑتے، دراتے ہوئے لوگوں میں اپنی جگہ بنانے میں قطعی عارمحسوس نہیں کرتے، ان کے چہروں پرخشونت بھی ایسی ہوتی ہے کہ ان کے منہ لگنے کو دل نہیں چاہتا۔
آج نمازمیں ساتھ کھڑے ہوئے نوجوان کی گردن اورلبوں کی نسوانیت کے باعث عجیب بے کیفی ہوئی۔
نینا چوبیس گھنٹے کی تھکا دینے والی ملازمت کے بعد آلا کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے کی خاطر اس کے ہاں چلی جاتی ہے اورجب اڑتیس گھنٹوں کے بعد گھرپہنچتی ہے تواس کا چہرہ تھکاوٹ اور عمرکا منہ بولتا اشتہار بنا ہوتا ہے۔ اس پرترس بھی آتا ہے اورغصہ بھی۔ اس کے بچوں کواس کا قطعی کوئی خیال نہیں ہے۔ اپنی غرض کے لیے اس کا جی بھرکے استحصال کرتے ہیں۔ بالآخرماں بھی تو ہے وہ۔
25 مارچ 2006:
جاگنے کے بعد دیوان صوفہ مرمت کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اصولی طورپرتو نیا لینا چاہیے کیونکہ یہ بھی چند برس کے استعمال کے بعد لاریسا وکتر نے دان کردیا تھا اورہاں کل وکترکا بیت الخلاء میں انتقال ہو گیا۔ سنا ہے اس کے منہ سے بہت زیادہ خون نکلنے کے سبب اس کی لاش ساری ہی خون آلود تھی۔ ممکن ہے جگر کی خرابی کے باعث اس کے معدے کی وریدیں پھٹ گئی ہوں۔ سب رفتنی ہیں۔
آج دمتری رگوزین کو پارٹی رودنیا سے نکال دیا گیا اورالیکساندرباباکوو نامی یہودی کو اس پارٹی کا رہنما بنایا گیا۔ توجیہہ یہ پیش کی گئی کہ اس طرح ثابت ہوسکے گا کہ ہماری پارٹی "یہود مخالف" نہیں ہے۔ اصل بات سوسائٹی اورسیاست پرپنجہ مضبوط کیے جانے کی کوشش کا ہے۔ 2007 میں الیکشن ہونگے اور2008 میں صدارتی انتخابات۔ پاکستان اورروس کی سیاست میں فرق صرف فوج کا مخل نہ ہونا ہے۔
سینٹ پیٹرزبرگ میں تیرھویں صدی سے 1917 تک کی دستاویزات کومحفوظ بنائے جانے کا کام شروع ہو گیا ہے۔ دستاویزات کی تعداد پینسٹھ لاکھ ہے۔ یاد رہے دستاویز ایک صفحے کی بھی ہے اور سینکڑوں صفحات کی بھی۔ نئے "آرکائیو ہاؤس" میں درجہ حرارت 17 ڈگری سنٹی گریڈ رکھا جائیگا۔ ہمارے ملک کی تاریخ تو صرف ساٹھ برس سے ایک سال کم ہے لیکن وہاں اس دور کی دستاویزات بھی یقینا" مرورزمانہ کی نذرہوگئی ہونگی۔
پوتن نے سپین میں یورپ کو مذموم خاکوں کی اشاعت پرمطعون کیا تھا اب یہاں اخبارات "گزیتا رو" اور"پراودا" کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان خاکوں کو اپنے ریکارڈ سے حذف کردیں۔
26 مارچ 2006:
اتوارکے دن کو اگررنگین بنایا جائے تو دلچسپ دن ہے مگرجس نوع کی خشک ذہنی طاری ہو چکی ہے اس میں مغرب کی رنگینی کا دخل گناہ تعبیرہوگا۔ ہندوستان کی پورنوانڈسٹری سے متعلق ایک فضول سی فلم دیکھنے پر اکتفا کیا جودرحقیقت ماسوائے وقت گزاری کے اورکچھ نہیں تھا کیونکہ آج شام چھ بجے ایک دوست نے شاہانی کی والدہ مرحومہ کے ایصال ثواب کی خاطر قرآن خوانی کا اہتمام کیا ہے۔
میں اور شہانی اس دوست کے ہاں پہنچے تو ہم دونوں سمیت کل پانچ افراد تھے تاحتٰی ختم قرآن تک صرف دس افراد پہنچ پائے۔ عجیب بات ہے لوگ ذاتی مصلحتوں اورمناقشوں کے باعث ثواب کے کاموں میں شریک ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ قرآن خوانی کا زیادہ حصہ خود شاہانی، میرے اور مولوی کریم کے حصے میں آیا۔
ایک طرف شاہانی صاحب نے ماں کو بقول لوگوں کے بغیرغسل دیے دفنا دیا اورپھرقرآن خوانی کے لیے تنگی داماں کا عذر کردیا جب کہ خود دنیا کی سبھی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سامان کرلیتے ہیں ، دوسری طرف دوست نے یہ نیک کام کیا۔ یہ دوست اچھا آدمی ہے۔ اگرچہ تھوڑی سی نمود کا ذرہ بھی لیے ہوئے ہے لیکن دراصل ایک باعقیدہ شخص ہے۔
ویسے اکثر باعقیدہ لوگ گنوں کے پورے ہوتے ہیں۔ قرآن خوانی کے لیے پہنچے لوگوں نے گذشتہ برس کاروبار کے سلسلے میں جس کمینگی بددیانتی اوریارماری کا بازارگرم کیا تھا آج ان میں سے ایک نے اپنے چہرے پربے گناہی کا غلاف اوڑھا ہوا تھا جبکہ شاہانی جواس میں شامل تھا کی تو ویسے ہی ماں مرحومہ ہو چکی تھی۔
27 مارچ2006:
ایک کمرے، ایک کچن اورایک باتھ روم پرمشتمل کوارتیرے (اپارٹمنٹ) میں بعض اوقات تنہائی کا مصرف نکل ہی آتا ہے، پڑھنا ، سننا یا محض ٹی وی دیکھنا لیکن جب مینڈک کے کنویں میں جونکیں جگہ کرلیں تومینڈک بیچارا اچھلے نہ توکیا کرے۔ ساشا کے کندھے پرسوارہو کرگھر میں گھس آنے والی ایرا جہاں غیرسماجی رویے کی حامل ہے وہاں انتہائی بدتمیزبھی ہے۔ دیرتک سونا اورپھر ٹی وی کی پوری آوازکھول کر فلم دیکھنا جبکہ میں ٹی وی سکرین سے دو میٹر کے فاصلے پر بیٹھا لکھنے پڑھنے میں مصروف ہوتا ہوں۔ اگر آوازکم کرنے کو کہوتوجواب ہوتا ہے،" تم بھی تواسی آواز میں سنتے ہو"۔ ایک توصاف جھوٹ اوپر سے اس "تم" کے صیغے سے خاصا تنگ ہوں۔ یہاں تم سے مخاطب کرنا بے تکلفی کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن میں بہرحال یہاں پندرہ سال گذارنے کے باوجود اس کا عادی نہیں ہو پایا ہوں اوراس کے استعمال سے غیریت محسوس کرتا ہوں۔
باہرگھومنے گیا۔ برف کے تین تین فٹ اونچے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، جب پگھلے گی توخوب مٹی آلود پانی بہے گا۔ ہمارے گھرکے نزدیک اشیائے صرف کی رینک (کھلی منڈی) بہت اچھی متمدن مارکیٹ میں بدل گئی ہے، وہاں جانا اچھا لگا۔
شام کو معروف پروگرام "اژدی مینیا" (میرا انتظارکرو ) دیکھا جس میں بچھڑے ہوئے رشتے دار اوردوست ملائے جاتے ہیں۔ ایک تو پروگرام دکھ اورخوشی کا مرکب اوپر سے میں رقیق القلب۔ آج کے پروگرام میں ایک کورین روسی لڑکی اورنیوگنی کے ایک روسی لڑکے کی داستانیں رلا رلا گئیں۔
31 مارچ 2006:
آج بعد ازنمازجمعہ کسی دوست کی طرف جانے کا پروگرام تھا لیکن میں نے نماز کے لیے جانے کے دوران خرابی صحت کی بنا (بہانہ) پرجانے کا پروگرام اس لیے منسوخ کر دیا تھا کہ گھر میں تنہائی تھی اورمیں نانا پاٹیکرکی فلم "یگ پرش" مکمل کرنا چاہتا تھا۔ فلم شاید دستاییوسکی کے ناول "ایڈیٹ" سے ماخوذ نقل تھی۔
اس نوع کے کردارخود سے مماثل لگتے ہیں۔ دل بھر آتا ہے اورآنکھیں برسنے لگتی ہیں۔ کیوں؟ شاید دنیا کے مایا جال کا آدمی نہیں ہوں۔ یا پھریہ بھی توہ سکتا ہے کہ کہیں لاشعورمیں مایا جال کے چکر نہ جاننے کا قلق ہی ہوتا ہو۔ جو بھی ہے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ:
یہ سچ کی بیماری
بس جان نہیں لیتی
سسکاتی رہتی ہے
یکم اپریل 2006:
بے کیف شب و روز کا حساب رکھنا بالکل بیکار لگتا ہے۔ پھرتھکاوٹ اور بے حسی بھی آڑے آتے ہیں البتہ آج منظور احتشام کا ناول "سوکھا برگد" تمام کر لیا۔ ناول ایک خاص نکتہ نظر کے تحت لکھا گیا ہے جس کا فارمیٹ ادبی سے زیادہم سیاسی ہے۔ ناستلجیا کے اثبات اوراس کی عقلی نفی کے علاوہ انسانوں کی زندگیوں میں ان تلاطموں کی تصویرکشی کی گئی ہے جو حساس لوگوں کا المیہ ہوتی ہیں۔ بات یہ نہیں کہ دنیا داراورکھاتے پیتے لوگ حساس نہیں ہوتے یا ہوہی نہیں سکتے بلکہ وہ اپنی حساسیت کو بالعموم روزمرہ عوامل میں دفن کر دیتے ہیں یا بے انصافی، عسرت، منافقت اور دوسرے منفی اوردہلا دینے والے عناصر کے جوازڈھونڈ نکالتے ہیں۔
آج ملحد اعظم، دانشوراورجعلی بزنس مین خان سے فون پربات ہوئی۔ اس کی، کیا کہتے ہیں، بڑی عمرہوگی کیونکہ میں جانمازسمیٹ رہا تھا اورسوچ رہا تھا کہ قادری ہاشمی حاجی خان نے بڑے دنوں سے، بقول اس کے "میری ملائیت" پر کوئی پتھر نہیں پھینکا۔ اس کا تازہ ترین فرمان ذرا ترمیم شدہ ہے کہ طغرل تم کسی سائیکییٹرسٹ سے رجوع کرو۔ خود مسلمان ہونا تو ٹھیک لیکن یہ باقیوں کو اسلام کی جانب رغبت کا درس دینا، خلل ہے دماغ کا۔ اب اسے کیا کہا چاہیے کہ " امر بالمعروف اورنہی عن المنکر" کیا ہوتا ہے؟
2 اپریل 2006:
ذہنی اضمحلال کے باعث دلچسپیوں کا فقدان ہے۔ نیند سے جاگتے ہی گمان نے آ گھیرا۔ انہونی کا خوف اورنہ ہونے کی مایوسی۔ لگتا ہے گمان، خوف اورخوش فہمی کے بطن سے جنم لیتا ہے۔ گھر فون کیا تھا سب ٹھیک تھا۔ ہفتے کے اخبارات پڑھنے شروع کیے تاکہ اگلے مضمون کے لیے مواد اکٹھا کیا جا سکے۔ شاہانی صاحب کا فون آ گیا وہ مجھے کہیں ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ گذشتہ سال آموں کی فروخت کے پیسے پھنسے ہوئے ہیں۔ ہاتھ بھی میرے ساتھ کیا اورساتھ بھی میرا چاہتے ہیں مگرمیں نے جہاں وہ لے جانا چاہتے تھے وہاں جانے سے معذرت کر لی۔ پھر ہم اکٹھے کہیں اورکے لیے روانہ ہو گئے۔ راستے میں شہرپوشکینا پڑتا تھا جہاں بقول ان کے، ان کے اس گھر میں جو انہوں نے 1991 میں محض تین سو ڈالر میں اینٹھا تھا، ان کی محبوبہ رہتی ہے۔ چائے پینے کے بہانے اس خاتون کے ہاں چلے گئی۔ اچھی عورت تھی۔ اپنے کتے کو پکڑا اورپھر انہی ہاتھوں سے ہمیں چائے پیش کر دی۔ میں چپ کرکے پی گیا۔ اس کا شوہر کوئی "گے" قسم کا شخص ہے، گیارہ برس سے لاولد۔ اس نے بس ہاتھ ملایا پھرکمرے میں چلا گیا۔ خاتون کے ساتھ میں نے خوب روسی زبان بولی۔ پتہ نہیں نینا کے ساتھ اچھی روسی زبان کیوں نہیں بول پاتا۔ راستے بھر شاہانی بولتے رہے اورمیں ہوں ہاں کرتا رہا۔
3 اپریل 2006:
صبح سے بے چین۔ فون کارڈ کام نہیں کررہا۔ بالآخراذیت سے نجات پانے کی خاطربراہ راست فون کردیا اورتسلی ہو گئی۔ مجھ میں تلملاہٹ اورجلد بازی کیوں ہے؟ یہ سوال اس عمرمیں پوچھنا بیکار ہے۔ ممکن ہے پچپن کی تربیت کا شاخسانہ ہو یا محض طبیعت کا حصہ یا پھرکوئی جینیاتی پہلو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ لڑکی حرزجان بنی ہوئی ہے۔ ایک بجے تک سوئی رہتی ہے۔ ویسے ہی اس کی آنکھ کھلنے سے ڈرے ڈرے رہو۔ پردے نہ سرکاؤ۔ کمرے میں فون پراونچی بات نہ کرو۔ اگر انسان خود بہترتعلقات رکھے تو یہ معمولی مسائل نہیں چبھتے۔ میں نے فلم آن کی تواس نے جھنجھلا کردروازہ بند کردیا۔ میں نے لکھنے کی خاطر فلم آف کی تو سالی نے آ کر اپنی فلم آن کردی۔ میں لکھنے کی خاطر کچن میں چلا گیا وہاں اس نے واشنگ مشین چلائی ہوئی تھی۔ یہ اذیت ناک سلسلہ نہ تو زیادہ دیربرداشت کیا جا سکتا ہے اورنہ ہی اس سے نجات پائی جا سکتی ہے۔ ابھی ابھی خاتون خانہ نے ان دونوں کوکرائے کا گھر ڈھونڈنے کی ہدایت کی تو ہے۔
4 اپریل 2006::
پاکستان کے دفتری اہلکاروں یعنی افسروں کی نسبت ہندوستان کے سرکاری افسروں کے رویے اوراعمال مختلف اوربھلے ہیں۔ طویل تاریخ اورمستحکم جمہوریت ذہنوں کو واضح اورتعلقات کو شفاف بناتے ہیں۔
جواہرلال نہروکلچرل سنٹرماسکوکے ڈائریکٹرابھے ٹھاکر کو فون کیا تھا پھراس کی غیرموجودگی میں ان کے ثقافتی مرکزپہنچا تھا۔ وہ حسب وعدہ اپنی سیکرٹری الویرا کو ہدایت کرگیا تھا جس نے مجھے مطلوبہ سی ڈی دے دی تھی۔ سنٹرکی لائیبریری میں موسیقی کی تاریخ پردوکتابیں مل گئی تھیں مگرلائیبریرین نے بتایا کہ کتابیں ابھے ٹھاکرکی اجازت سے ہی مستعاردی جا سکیں گی۔
اس کے برعکس پہلی بات تو یہ کہ پاکستانی سفارت خانے میں مرکزثقافت نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں، دوسرے اگران سے اس ضمن میں کوئی استفسار کیا جائے توسوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے اورجواب نہیں ملے گا۔
میرشاہبازکے ہاں جا کرپہلے تو محمود خان کا انٹرویو ٹرانسکرائب کیا پھر پاشا سے خوب گفتگو رہی۔ محمود خان نے باتیں بہت اچھے انداز میں اورمربوط کی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ پاشا (پاویل) ایک تو مذہبی ہے دوسرے اس کا روس کی تاریخ کے بارے میں رویہ ایک کمیونسٹ باپ کے بیٹے والا ہے جس پر ملک میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی اثر پڑا ہے جبکہ میرشاہباز کا روس کی تاریخ سے متعلق ایک بیرونی اورور رومانوی فرد کا ہے۔ ان کی آپس میں خوب ٹھنی۔
آج میں خاصا تھک گیا ہوں۔
7 اپریل 2006:
آج بڑے عرصے کے بعد خاتون خانہ گھرپرتھی لیکن لگتا ہے نوجوان جوڑے نے ہمیں خلوت فراہم کرنے سے یکسر انکارکیا ہوا ہے۔ جب تنہائی میسّرآئی توٹیلیفون آنا شروع ہو گئے ویسے اس عمر میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ جسمانی تعلق، سماجی مسائل کے علاوہ جسمانی تبدیلیوں سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ محبت کا عمل بس احتیاجی اظہار بن کر رہ جاتا ہے جس میں روحانی طورپرملوث ہونا ممکن نہیں رہتا۔ اسلام میں کثرت ازدواج کی ایک وجہ بیویوں کا بوڑھا ہو جانا بھی ہوگی۔ ایک عمر کو پہنچ کرعورتیں نہ صرف اپنا جسمانی تناسب اورحسن کھو بیٹھتی ہیں بلکہ ان کے لیے محبت نبھانے کا عمل محض ایک فریضہ بن جاتا ہے۔ مرد اگرمذہب پرکاربند ہے تو اس کے لیے ایک ہی راستہ بچ رہتا ہے یعنی نسبتا" کم عمردوسری خاتون سے ازدواج کرنا لیکن اس کے لیے مادی وسائل کا ہونا ضروری ہے اورمادی وسائل دنیاوی فروعات میں غرق ہوئے بغیرحاصل کرنا عبث ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی مشغولیات کو متنوع کیا جائے کیونکہ زندگی وسائل اور مشغولیات کے بغیر یکسانیت کا شکار ہو جاتی ہے جس سے روحانی بالیدگی نچلی سطح کی جانب کھسکنے لگتی ہے۔
8 اپریل2006 :
موسم تبدیل ہونے لگا ہے۔ اس کے آثاردوشیزاؤں کے کھلتے ہوئے لباس سے ظاہرہونا شروع ہوتے ہیں۔ اگرچہ تمام مختلف طرح کے سماج اپنی ریت رواج کے حساب سے متنوع ہوتے ہیں لیکن کیا دنیا بھرکے لوگوں کی خواہشات ایک ہی سی نہیں ہیں؟ کیا جسمانی غدودوں سے خارج ہونے والی رطوبتوں کا انسانی ذہنوں اورسوچوں پراثرایک ہی سا نہیں ہوتا؟ مگر سماجی اصول و ضوابط انسانی خواہشات کے ہجوم کو اپنے ہی طریقے سے بندھنوں میں باندھتے ہیں یا پھریوں کہہ لیا جائے کہ نظم و ضبط میں لاتے ہیں۔ ایک نظم و ضبط توقدرتی ہے جو جانوروں میں جنسی ہیجان اورجسمانی ضرورت کو مخصوص اوقات کا پابند کرتا ہے۔ ان اوقات میں مختلف صنفوں میں مباشرت متنوع بھی ہوتی ہے مثال کے طور پر یک ازواجی، کثیرازواجی اوربے ہنگم، بالخصوص بندروں کی مختلف اقسام میں۔ انسانوں میں چونکہ اس عمل کے لیے اوقات کی قدرتی بندش نہیں ہے اس لیے اس کو معاشرے کے مختلف ضوابط مثلا" سماج، مذہب اورقانون وغیرہ نے باندھا ہوا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ضمن میں بندھن لگائے ہی نہیں جا سکتے۔ کہیں نہ کہیں ان میں کسی نہ کسی طوردراڑ آ ہی جاتی ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے کھلے سماج میں کھلا پن ذہنی اور جسمانی دونوں ہی طرح کا ہوتا ہے اوربند سماج میں یبوست ذہنی بھی ہوتی ہے اورجسمانی بھی۔ اگرخوف خدا، سماجی قدغنوں کا خوف اور قوانین کا ڈر نہ ہو تو ضوابط ہوتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں۔
9 اپریل2006:
سارا دن توکتاب پڑھ کراورفلم دیکھ کرکاٹ لیا مگرشام بھاری پڑرہی تھی اس لیے بہت دنوں سے سوچے ہوئے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر بارش میں ہی چھتری بردار ہوکرسوئے کلب چل پڑا۔ تھوڑے سے راستے کے بعد بار بار یہی سوچ آ رہی تھی کہ وہاں کیا کرنے جا رہا ہوں شاید اس سوچ کے پیچھے اتوار کی شام دکھائے جانے والے ہفتہ وار سیاسی پروگرام نہ دیکھ سکنے کا قلق بھی تھا، بہرحال وہاں پہنچ گیا۔
وہی بیکار سی بات چیت، وہی محبت سے متعلق اپنے نظریے کی تکرارجس کے پس پشت شہوت کا ڈھکا چھپا عنصرہوتا ہے۔ کم عمرلڑکیاں پسند آتی ہیں مگرمیں ان کے لیے ایک تجربہ کار شخص کے علاوہ اورکچھ نہیں البتہ جن کی آنکھوں میں کوئی لہک ہوتی ہے، اس عمرسے میرا کوئی سروکار نہیں۔ اس کے علاوہ سترروبل بچانے کا چکرھی تھا چنانچہ اوبھ کر جلد ہی نظربچا کرنکل لیا تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ گھر میں صورت حالات اپنی مناسبت سے باقی نہیں رہی دوسرے معاشی تنگدستی۔ ان دونوں نے مل کر بقول میرشاہباز کے میری زندگی کا فلسفہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ کوئی آس بھی تو نہیں ہے اورجب آس نہ ہو آدمی سعی بھی کیا خاک کرے اورسعی کرے بھی تو کیا کرے۔ ایسے میں بس یہی کہا جاتا ہے کہ کچھ گذر گئی ہے باقی گذر جائے گی۔
10 اپریل 2006:
مذہب کی تقلید دوزخ سے نجات یا بہشت کے حصول کی سعی ہے یا ایک اچھے اوربے ضرر انسان بنے رہنے کی آرزو، جس سے کسی کو نقصان نہ پہنچے؟ شاید دونوں ہی باتیں درست ہیں مگر مذہب کی وہ بندشیں جو انسانی حواس سے منسلک ہیں ان سے نجات کی خاطرتوولی بننا پڑتا ہے پھر کون جانے کہ ولی کے دماغ میں بھی لمحہ لمحہ کیا کیا طوفان نہیں اٹھتے ہونگے؟ تارک الدنیا ہونے اورجنگل میں نکل جانے سے تو ویسے ہی ہمارے مذہب اسلام نے منع کیا ہے پھراچھے چہروں اور اچھے جسموں پرخواہشمندانہ یا پرشہوت نظروں کے گڑ جانے یا محض چھچھلتی نگاہ سے دیکھ لینے سے سوچ میں پیدا ہونے والا اضطراب بھی اگر دوزخ میں جھونکے جانے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے تو دو دن، دو برس، دو ہزاربرس کیا سودن، سوبرس اورایک لاکھ سال کیا؟ کیا محض استغفار کرنا اور احمقانہ اجتناب برتنا آپ کو دوزخ سے بچا سکتا ہے؟ پھر تویہ دوزخ کی آگ سے بچنے کا بہت آسان راستہ ہے لیکن لگتا ہے کہ مکمل طور پر اسلامی (مذہبی؟) معاشرے کے قیام کے بغیر انسانی ذہن کے جنسی خلجان کا رفع ہونا ممکن نہیں۔ پھر مذہبی معاشرہ مثال کے طور پر ایران کا بھی اس کو کہاں روک سکا ہے البتہ کسی پیغمبر کی مقناطیسی معجزہ آسا شخصیت کا موجود ہونا شاید اس کو روکنے کا جواز بن سکتا لیکن اب کسی پیغمبر کا آنا ممکن نہیں رہا۔
اللہ ہی معاف کرنے والا ہے بس۔
پاکستان میں پرائیویٹ فلم پروڈکشن کی باتیں تو بہت ہو رہی ہیں، دیکھیں کیا بنتا ہے۔ مجھے اکثر لگتا ہے جیسے لوگوں میں اس کی استعداد نہیں مگرممکن ہے دریا میں چھلانگ لگا کرتیرنا سیکھ جائیں۔
11 اپریل 2006:
تھکا دینے والا کام کرنے کے بعد میں عید میلادالنبی کی تقریب میں شرکت کی خاطر ملک شکیل کے ہاں پہنچا۔ چونکہ میزبان خریداری میں مصروف تھا اس لیے اس نے ویگن کے ذریعے پہنچنے سے متعلق بتا دیا تھا۔ ویگن میں سوارایک عورت اپنے ہی ملک روس کے لیے انتہائی گرے ہوئے فحش الفاظ استعمال کر رہی تھی اورساتھ ہی بتا رہی تھی کہ وہ معلمہ ہے۔ ڈرائیورنے محض اتنا کہا کہ ہاں واقعی معلمہ لگتی ہو۔ وہ پیے ہوئے تھی اورغالبا" کرایہ ادا نہیں کرنا چاہتی ہوگی۔
میں نے جب "دمافون" کا بٹن دبایا توکسی نے فصیح لہجے میں روسی بولی تھی۔ میں نے غلط گھر کی بیل بجانے پرمعذرت کی تو کسی نے اردو میں کہا،" طغرل صاحب ہیں؟"۔ روسی بولنے والا نوجوان فاروق تھا جو ملک عقیل کے اپارٹمنٹ میں اکیلا تھا۔ جب میں داخل ہوا تو وہ گوشت دھو رہا تھا۔ بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے کود رہے تھے۔ اس نے میرے مانگنے پر، ابھی ابھی تیارکی گئی گرم گرم گجریلا کھیرمجھے کھانے کو دی۔ مزا آ گیا۔ پھر ملک نے نیچے پہنچ کردمافون پرسامان اٹھانے میں مدد کرنے کے لیے بلایا تومیں فاروق کی درخواست پراس کے ساتھ نیچے اترا ۔ ملک شکیل حسب عادت بے تحاشا سامان اکل و شرب لایا تھا، ساتھ میں پچاس ساٹھ کیک بھی۔ آٹھ ساڑھے آٹھ تک سات آٹھ افراد جمع ہوئے تھے۔ اس وقت تک کراچی میں بم پھٹنے کی خبرسن کر میں نے ملک عقیل کے موبائل سے چھوٹے بھائی کو فون کیا۔ تب تک 47 افراد کی ہلاکت کی اطلاع تھی۔ مزید مررہے تھے۔بڑا افسوس ہوا۔
تقریب میں نجم نے حضورصلعم کے معجزات بارے بات کی اورمیں نے حضورکے لائے سماجی انقلاب کی۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔ رخصت ہوتے وقت ملک عقیل نے ہرایک شریک کوایک کیک تحفے میں دیا۔ اللہ اسے خوش رکھے۔ آج بہت زیادہ تھک گیا تھا مگر پھرھی ڈیڑھ بجے یورونیوز پرخبریں سن کر سویا۔۔
12 اپریل 2006:
انٹرنیٹ کے دفترگیا۔ نینا نے بتایا تھا کہ انٹرنیٹ نصب کروانے پرپندرہ سولہ سوخرچ آئے گا، ہوا بھی وہی۔ انہوں نے پندرہ سو طلب کیے جبکہ میرے پاس بارہ سوتھے چنانچہ تنصیب کل پرسوں پر ملتوی کردی۔
گھر واپس آ کر فلم "بھگت سنگھ" دیکھی۔ آج کے دور میں یہ فلم بہت زوردارلگی۔ ہردورمیں انقلاب پسندوں کو دہشت گرد ہی تعبیر کیا جاتا رہا ہے جبکہ ان کے آدرشوں کو دوسرے استعمال کر گئے۔ فلم میں گاندھی، نہرو اورکانگریس کی قلعی کھول دی گئی ہے۔ یہ فلم دیکھنے کومجھے بیٹے تحسین نے کہا تھا۔ لگتا ہے وہ مجھے سمجھتا ہے اوراس میں بھی ناانصافی اور ظلم کے خلاف جدوجہد کرنے کے جراثیم ہیں۔ بس حالات کی گرد میں دب کرخفتہ ہو گئے ہیں۔
آج سے ٹھیک پینتالیس سال پہلے آج کے ہی روزدنیا کا پہلا خلا بازیوری گاگارین خلا میں پہنچا تھا۔ ساراتوو صوبے کے جس گاؤں میں اس کا چھاتہ بردارکیپسول گرا تھا وہاں کے لوگوں نے پہلے پہل اسے دشمن کا جاسوس تصور کیا تھا۔ اس نے ایک گھنٹہ چالیس منٹ پذیرائی کے بعد کہا تھا کہ میں ایک عام روسی ہوں ان لاکھوں نوجوانوں کی طرح جو ملک میں موجود ہیں۔
آج اس تقریب کے موقع پرصدرروس نے خلائی سٹیشن پرموجود خلا بازوں کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ خلاباز پاویل وینوگرادوو نے کہا کہ میں صدر کو مدعوکرتا ہوں کیونکہ وہ آبدوزمیں گئے ہیں۔ ایس یو 27 جنگی طیارہ تو جیسے ان کا ذاتی طیارہ ہے مگرخلائی سٹیشن پرصدرکبھی نہیں آئے۔
صدر نے کہا،" لوگ مجھے جانے دیں توناں"،
13 اپریل 2006:
ایک تورات کوڈیڑھ بجے ٹیلی کاسٹ ہونے والی خبریں سن کرسونے کی عادت پڑگئی ہے دوسرے روشنی گل کرکے تکیے پرسردھرتے ہی ایک تخئیل نے آ لیا جیسے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی کاروباری شخصیت کوئی اردواخبار نکال رہی ہے او اسے کسی نے مشورہ دیا ہے کہ طغرل کو ایڈیٹر لو۔ بس پھر کیا تھا، شرائط، اخبار کی تیاری، لے آؤٹ، ٹیم کی تشکیل، تشہیرکے پروگرام اورشہرت پانے کے جو تانے بانے بنے جانے شروع ہوئے کہ میں نے عقلمندی کی۔ اپنی حماقت پرمسکرا کراٹھا اورنیند کی گولی نگلی۔ رات کے اڑھائی بجے تھے۔ پھر لفظ "ژولیدہ" بھول گیا جس کی بجائے ذہن میں لفظ پراگندہ آ رہا تھا۔ بہرحال صبح سات بجے ساشا نے کھٹاک پٹاک شروع کردی اورنوبجے اس کی کچھ لگتی نے۔ اس کے نکلنے کے بعد خود لذتی کا سہارا لیا سمجھو جیسے جسم کا سارا ہی ست نکل گیا ہو۔ پھرجواہرلال کلچرل لائیبریری سے موسیقی کی کتابیں لینے نکل گیا۔ لوٹ رہا تھا توبرا حال تھا۔ ریل گاڑی میں بوڑھوں کی طرح ادھر ادھر تاک رہا تھا کہ کوئی بیٹھنے کوجگہ دے۔ مجھے کوئی بوڑھا سمجھے تو جگہ دے ناں اوپرسے ہندوستانی چہرہ۔ غیرروسی کوآج کے نوجوان کبھی جگہ نہ دیں۔
خواب ژولیدہ ذہن کا عکس ہوتا ہے اورتخئیل قلق کا گمان۔ میرا اپنا ایک پرانا شعر ہے:
انہونی کی آس میں پیارے ہونی بھی نہ ہوئے
کالے کوس دنوں کا سایہ آنکھ میں یاس سموئے
تو کیا میں عنفوان شباب سے ہی قلق کے گمان میں مبتلا ہوں؟
14 اپریل 2006:
بارش ہو رہی تھی اس لیے مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ کھوے سے کھوا بھڑرہا تھا۔ لوگ آڑے ترچھے ہو کربیٹھے تھے۔ اکثر لوگ وہ ہوتے ہیں جوقدم چوڑے کرکے، پاؤں کے ساتھ پاؤں ملا کر، عین اپنے دل کی جگہ پرہتھیلیوں کو اوپرنیچے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ایک کہنی ویسے ہی بدن کے زاویے سے نکل جاتی ہے۔ رکوع کے بعد اقامت کے دوران سیدھے کیے گئے بازووں کی کہنیاں پیٹ میں گڑی ہوتی ہیں اورہاتھ رانوں کے ساتھ جھوجھ ریے ہوتے ہیں۔
اگرچہ جماعت پونے تین بجے کے قریب کھڑی ہوتی ہے لیکن دو بجے ہی مسجد میں دہلیز پر، سیڑھیوں کے قدمچوں پرغرض ہرجگہ نمازی ہوتے ہیں۔ سیڑھیاں جہاں ختم ہوتی ہیں وہاں تھوڑی سی جگہ پرمیں بھی جم گیا تھا۔ لوگ پھر بھی آتے رہے۔ جگہ نہ ہونے کے باوجود آگے اورمزید آگے جا کرخواہ مخواہ جگہیں بناتے رہے۔ لوگ نماز کے لیے جگہ فراہم کرنے کے ثواب کی خواہش میں ادھر ادھر پھنس پھنس کر کھسکتے رہے۔ جب جماعت کھڑی ہوئی تو حسب معمول ایک آواز بلند ہوئی "پول شاگا پیریود" یعنی نیم قدم آگے تاکہ ایک اورصف بندھ سکے۔ لوگ کھسکتے ہیں۔ پھنسے ہونے کی وجہ سے صفوں میں کھڑے لوگوں کے پاؤں کبھی سیدھ میں نہیں رہتے۔ لوگ تاہم فریضہ ادا کرلیتے ہیں۔ ماسکو میں بہت تعمیرات ہورہی ہیں۔ قفقازی اکثر وبیشتر بے تحاشا دولت مند ہیں لیکن کوئی بھی بیس پچیس لاکھ ڈالرلگا کر نئی مسجد بنانے کی پہل نہیں کررہا۔۔
نماز کے بعد مفت اخبار لینے کی غرض سے میاکووسکی گیا۔ واپسی پر پوشکنسکایا تک پیدل چلا۔ کتابیں، اخباراورچھتری۔ عجب بے ہنگم پن۔ ریل گاڑی میں بیٹھنے کو جگہ نہیں مل رہی تھی۔ گھرپہنچ کرکھانا نیم گرم کرکے زہرمار کیا۔ کمر کے پٹھے درد سے پھٹ رہے تھے۔ پانچ منٹ بیٹھ کرپھرگھر سے نکل گیا۔ وکیل والنتین تو مل گیا مگر انٹرنیٹ کا دفتر بند ہو چکا تھا۔
15 اپریل 2006:
ہفتے اتوارکے دن سانس بند رکھنے کے ایام بن چکے ہیں۔ ویسے بھی رات کوئی تین بجے کے بعد نیند آئی تھی۔ ساڑھے نو بجے صبح ایرا اورساشا نے زور زورسے بولنا شروع کر دیا۔ مجھے جگا کر ہمیشہ کی طرح خود سو گئے۔ نینا بے چاری کچن میں کپڑے استری کررہی تھی۔ جب تک یہ دونوں نہ اٹھیں یعنی ایک بجے دن تک، مجھے دم سادھے رکھنا پڑتا ہے، کہیں ساشا کوئی فضول بات نہ کہہ دے۔ اپنی حفاظت تو آپ ہی کرنی ہوتی ہے۔
مولوی عفان کا کزن کیلی فورنیا سے آیا ہے اور ہوٹل میریٹ میں ٹھہرا ہوا ہے۔ تہی دامنی کے سبب عجب گو مگو کا عالم ہے۔ بہرحال، حسب وعدہ اسے فون کیا مگروہ ہوٹل میں نہیں تھا۔ میں نے ہندوستان کی موسیقی پرنوٹس تیار کیے۔ شام چھ بجے کے قرینب ندیم کا فون آیا۔ تجزیہ جاتی پروگرام "پوسٹ سکرپٹ" نہ دیکھنے کا افسوس لیے ڈھونڈ کرمیریٹ پہنچا۔ ندیم سے ملاقات ہوئی۔
باوجود امریکی شہری ہونے اورIntel میں اچھے عہدے پرفائز ہونے کے وہ نہ صرف امریکہ مخالف ہے بلکہ سرمایہ داری کی حقیقت کو بھی خوب سمجھتا ہے اورقائل ہے کہ یہ نظام خالصتا" استحصال پر مبنی ہے۔
انجنیرنگ کرنے کے دوران جب این ای ڈی میں تھا تو پروگریسو سٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں تھا۔ دہریہ کبھی نہیں رہا البتہ متشکک ضرور ہے۔ امریکہ جا کرکیونکہ ثقافتی صدمہ پہنچا تھا اس لیے ردعمل میں زیادہ مذہبی ہو گیا مگربعد میں اعتدال پرآ گیا۔ 1992 میں حج کرنے کے بعد ایک بار پھر کٹرپسندی کی جانب مائل اوربالآخرمذہب میں اعتدال پسندی کا قائل ہو چکا ہے۔
مسلسل سفر میں رہنے کے دوران مچھلی اورسبزیوں پرگذارا کرتا ہے۔
22 اپریل 2006:
بائیں کندھے سے جڑے پشت کے پٹھوں کا درد اس قدراذیت ناک ہے کہ چند گھنٹے پشت لگائے بغیربیٹھ کر کام کرنے سے سانس بند کر دینے کی حد تک ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔
ندیم کوورنی ساژاوررینک گھمانے کے بعد کام پر دیرسے پہنچ پایا۔ کام توخیرمکمل کر لیا مگر گھرآ کر کھانے سے فارغ ہو کرلیٹے بغیرچارہ نہیں تھا۔ نینا بغیر بتلائے چلی گئی تھی۔ آج ہفتے کا اخبار پڑھنے اور ٹی وی پر تجزیاتی پروگرام دیکھنے پر اکتفا کیا۔ ساتھ ساتھ نیپل کا ناول "میجک سیڈز" بھی پڑھتا رہا۔
یہ ناول "ڈیٹرمینزم" پر مبنی ہے کہ انسان کی زندگی میں واقعات اپنے طور پرہوتے رہتے ہیں۔ آدمی نئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی خاطرایک خاص وقت چاروناچارگذارتا ہے پھر وہ انہی حالات کا حصہ بن جاتا ہے اورحالات اس کا۔ ایک وقت یکسانیت کا آتا ہے جس میں آدمی پھر کوئی فیصلہ کر لیتا ہے۔ پھر فیصلہ کرنے اوراس پرعمل درآمد ہونے کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں وہی سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ وجودیت کی بنیاد پر لکھا گیا یہ ناول انتہائی آسان زبان میں ہے۔ اس کے برعکس ژاں پال سارتر کی "ٹرائیولوجی" فلسفیانہ نکات سے بھری پڑی ہے۔
23 اپریل 2006:
علی شاہ کے کمین پنے پربحث کی خاطر شاہباز، شاہانی اورشاہد کھوکھرکو ایک بجے سہ پہر بلایا تھا۔ شاہبازاورشاہانی توبروقت پہنچے مگرملک عقیل نے پاکستانی انداز میں تین بجا دیے۔ بیچ میں شاہباز اورشاہانی نے دو بارجانے کی ٹھانی۔ بہرحال اکٹھے ہوئے تو یہ طے کیا کہ جو کچھ بھی وہ کرتا ہے اسے کرنے دو۔ پھر سوچا گیا کہ کیوں نہ علی شاہ سے بیٹھ کر بات کی جائے۔ شہانی نے اسے ملک عقیل کے گھر مدعو کر لیا۔
میں وقت گذاری کی خاطر کلب چلا گیا۔ آج تو کچھ بولنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ اصل میں میرا وہاں جانے کا قطعی موڈ نہیں تھا۔ کل رات سترہ برس کے ایک آرمینین لڑکے واگان ابرامیان کو کسی سکن ہیڈ نے میترو پوشکنسکایا سٹیشن کے عین بیچ، دل میں چاقو گھونپ کر ہلاک کر دیا۔ قومیت پرست دہشت گردوں نے اپنے گرگوں کو شاید یہ نئی ٹکنیک سجھائی ہے کہ چشم زدن میں دل میں چاقو بھونکو اور رفو چکر ہو جاؤ۔ دو ہفتوں کے دوران اسی طرح کے تین قتل ہو چکے ہیں۔ مارے جانے والوں میں فسطائیت مخالف دو روسی لڑکے بھی شامل ہیں۔ میترو میں جاتے ہوئے مجھے ہر شخص سینے میں چھرا گھونپنے والا لگ رہا تھا۔ میری کیفیت بالکل ویسی تھی جیسی چھ برس پہلے خود پرحملہ ہونے کے بعد ہو گئی تھی۔۔
ان دونوں کو لوکیٹ کرنے پر وقت اور فون کا بیلنس صرف ہوئے۔ شاہانی نے زلزلہ زدگان پاکستانی بچوں کی بہبودی کا کوئی قضیہ چھیڑا۔ ملک کے ہاں، میں نے شاہانی کے منع کرنے کے باوجود بالآخر بات چھیڑدی۔ علی شاہ کی وہی رٹ تھی کہ تنظیم میرا بچہ ہے۔ میں نے اپنی پچھاڑی سے اسے پیدا کیا ہے اور میں اس کی حفاظت کروں گا۔ آخرمیں مجھ سے رہا نہ گیا اور کہہ ہی دیا کہ شاہ جی پھراپنا بچہ رکھیں اپنی "کوچھڑ" میں۔
24 اپریل 2006:
انٹرنیٹ لگانے والا گیارہ بجے سے پہلے ہی آ گیا۔ میں تب غسل خانے میں تھا۔ خاصی دیرتو اسے سیرورسے رابطہ کرنے میں اچھی بھلی دقت رہی۔ پھر باہر کہیں گیا اور لوٹ کرجلد ہی اس نے انٹرنیٹ چالوکردیا۔
میں نے آج کا دن انٹرنیٹ پرہی بتایا۔ گوگل میں جا کرمحبت اورسیاسیات، محبت اورنفسیات، محبت اورجنسیات وغیرہ کے موضوعات کھنگالتا رہا۔ کسی ماہر نے محبت کے تین ادوار لکھے ہیں: شناسائی، کشش اورلگاؤ۔ آخری مرحلے سے متعلق اس کا ایک فقرہ بہت بھایا،" کشش ہمیشہ برقرارنہیں رہتی کیونکہ اگرایسے ہوتا توکوئی شخص کوئی بھی اورکام نہ کر سکتا"۔ اسے پڑھ کر بے اختیار ہنسی آئی۔ یہ محبت ایک اسطور ہے جسے تصور نے کھینچ کر حقیقت کی کھپچی پر چڑھادیا ہے۔
میرشاہباز، مجھے اورشاہانی کو آموں کے کاروبار کے سلسلے میں ملاقات کرنی تھی ۔ نیٹ کی لگن، کمر درد اورنہ چاہنے کی وجوہ کے سبب میرا جانے کو جی بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔ خان کا فون آ گیا اوراس نے میری رپورٹ پرتنقید شروع کر دی کہ اس کا اختتام بھی اسی موضوع پر ہونا چاہیے جس سے شروع کی گئی۔ شریف آدمی کو سمجھایا کہ سیاسی ڈائری ہونے کے باعث اس میں کئی خبروں کو علیحدہ علیحدہ موضوع بنانا ہوتا ہے۔ ہاں البتہ اس کی بات سے مجھے خود یہ سمجھ آئی کہ ہر موضوع کومارک کردینا چاہیے تاکہ پڑھنے والا غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔
ایک مختصر مضمون انگریزی میں لکھ کرٹائمزلاہورکوبھی بھیجا۔
25 اپریل 2006:
صبح جلد آنکھ کھل گئی۔ پونے آٹھ بجے بالآخرساشا کوبیدارکیا کیونکہ اسے اپنی کاہلی کی عادت کے باعث کام پہ جانے میں تاخیرہوگئی تھی۔ سات بجے صبح معلوم ہوا تھا کہ مصر کی سیاحتی بستی دہاب میں بم پھٹنے کے باعث 22 افراد ہلاک اورڈیڑھ سو زخمی ہو گئے ہیں۔ مرنے والوں میں ایک روسی بھی تھا۔
نو بجےلڑکی اٹھی اورکام پرچلی گئی۔ آج میں نے پہلی بارجنگ کا ملٹی میڈیا ایڈیشن پڑھا۔ لغاری سے بات ہوگئی۔ اسے میری تحریریں پسند آ رہی ہیں۔ لغاری اچھا انسان اوراچھا دوست ہے۔ کہہ رہا تھا،"توں میلی رکھ"۔
ریڈیو کی تو بات ہی کیا کرنی۔ وہاں تو وہی ٹھک ٹھک ہی ہوتی ہے۔ آج پہلی بار نتاشا کا موڈ خراب دیکھا۔ آخر انسان ہے، ہمہ وقت مسکرانے سے تورہی۔ میں نے لینا سے کہا کہ کہیں اس کا یہودی دوست تو اسے نہیں چھوڑ گیا۔ پھر میں نے اسے "گدھی کا غصہ دھوبن پر" کے معانی سمجھائے۔ لینا دل لگا کر کام کرنے والی لڑکی ہے۔ تتلی کی مانند اڑتی پھرتی ہے۔ ہر کام میں دلچسپی رکھتی ہے۔ دوست کوئی نہیں بنایا۔ اپنی ماما کی بچی ہے۔ اس بنتو کا بنے گا کیا؟ لڑکی ذہین ہے اس لیے قاضی یعنی میں اس کے غم میں دبلا ہوں۔ نتاشا پھرمسکرانے لگی تھی اوراعتراف کیا تھا کہ موڈ خراب تھا ورنہ مجھے ناراحت کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
ناستیا ہندوستان کے طول وعرض میں گھوم چکی ہے۔ اس کے کھینچے فوٹو دیکھ کرہندوستان جانے کوجی چاہا۔
26 اپریل 2006:
ذیشان کوفون کرکے کراچی ارسال کیے جانے کی خاطررسالے کے لیے مواد یولیا کو دیا تواس نے بڑے ہی اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا،" وہ آ رہا ہے، خود ہی سکین کرلے گا اوربھجوا دے گا"۔ اگر میرے پاس کام کرنے والی لڑکی شفیق کے ساتھ ایسا سلوک کرتی تو میں اس کے خوب لتے لیتا۔ مگر میں میں ہوں اورشفیق شفیق۔ اب بھلا کون اس بات کو ثابت کرتا پھرے۔
گھرآ کر شکم پری کرنے کے بعد "اسلام اور مسلمان" کا ترجمہ کرنے بیٹھا۔ پھر نماز کے لیے نیت باندھی ہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ آوازکسی لڑکی کی تھی، پہچانی نہ گئی لیکن فورا" جان لیا کہ نتالیا ساوینا ہے۔ اپنے انجنیر طلباء کا امتحان لینے کو کہہ رہی تھی۔ میں نے حامی بھر لی۔
انٹرنیٹ کچھ زیادہ ہی سست چلنے لگا ہے۔ کوئی مزہ نہیں آیا۔ ملک عقیل کوفون کیا لیکن اس سے ملاقات کے لیے بھی دیر ہو چکی تھی۔ شاہبازکو میں نے ویسے ہی جمعہ کو ملاقات کرنے کا کہا تھا۔
سٹینلے کوبرک کی فلم "شائننگ" دیکھی۔ فلم بس ٹھیک تھی۔ اس کے آخر میں لگنے لگا تھا جیسے دیکھی تھی پہلے بھی۔
نینا پھرچھتیس گھنٹے کی تھکی ہاری گھر پہنچی۔ کچھ پیے ہوئے تھی ویسے ہی ہنسی پڑ رہی تھی۔ میری خاموشی کو دیکھ کر اعتراض کرنے پراترآئی کہ کچھ کھانے کو بنا لیا ہوتا۔ میں نے کہا تمہارا کیا خیال ہے میں سارا دن بیکار بیٹھا رہا ہوں توچپ ہوگئی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“