"مثل برگ آوارہ" کا سترہواں در
وقت جسے گذرنا ہی ہوتا ہے گذرتا چلا گیا ۔ بعض اوقات واقعات کا تسلسل جاری رہتا ہے، معمولی تبدیلیاں بھی واقع ہورہی ہوتی ہیں مگرنہ توواقعات وقوع پذیرہوتے محسوس ہوتے ہیں اورنہ ہونے والی معمولی تبدیلیوں کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی عرصہ تھا جو طغرل کو یاد نہ رہنا تھا اورنہ رہا۔ اسی طرح جیسے بہت سے لوگوں کو اپنی پوری زندگی کے واقعات یاد رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ وہ جیے چلے جاتے ہیں اورایک روزجب وہ نہیں رہتے، مرحوم کہلا ئے جاتے ہیں۔ ماہ دو ماہ یا سال دو سال کے بعد نہ تو وہ یاد رہتے ہیں اورنہ ان کا مرحوم ہوجانا۔
طغرل کو نینا کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ ساشا نے لینا سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اب اس کی دوست کوئی ایرینا نام کی لڑکی ہے اورساشا نے کرائے کا اپارٹمنٹ لے کراس کے ساتھ رہنا شروع کر دیا ہے۔ عام سی بات تھی۔ اس ملک میں لوگوں کومتعارف ہوتے ، ملتے، قریب آتے، دورہوتے ، علیحدہ ہوتے اورقصہ پارینہ بنتے دیر نہیں لگتی ساشا تو پھربھی قریبا" دس برس لینا کا ساتھی رہا تھا۔
ساشا نے اپنے بہنوئی سے اس کی پرانی کار پہلے سے خرید لی ہوئی تھی جسے بیچ کر اس نے اب ایک بہترغیر ملکی کار لے لی تھی جواگرچہ سیکنڈ ہینڈ تھی مگر نئی دکھتی تھی۔ گہرے نیلے رنگ کی اس سٹی کارپر وہ دوایک بارماں سے ملنے آیا تھا تب ارینا بھی اس کے ساتھ تھی۔ تیکھے نقوش، ناک میں کیل،عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے سے ہرجانب دیکھتی بڑی بڑی آنکھیں، سنجیدہ شکل۔ یہ لڑکی طغرل کو پہلی ہی نظرمیں اچھی لڑکی نہیں لگی تھی۔ اس کی نگاہ ایسی تھی جیسے وہ ہر شخص اورہرشے کا بغورجائزہ لے رہی ہو تاہم طغرل نے اس کے بارے میں اپنا پہلا تاثرنینا پربھی ظاہرنہیں ہونے دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساشا اس لڑکی پر بظاہرفریفتہ دکھائی دیتا تھا۔ ویسے بھی ساشا چونکہ باپ کی غیرموجودگی میں پلا بڑھا تھا اس لیے وہ جو اہل فارس کہتے ہیں کہ "بچہ مامانی" تھا۔ ایسے بچے چاہے جتنے بھی بڑے کیوں نہ ہو جائیں اندرسے بچے رہتے ہیں۔ بچہ جیسے ماں کی ماراورڈانٹ کھا کرروتا ہے لیکن بھاگتا ماں کی بانہوں میں ہی ہے، اسی طرح ایسے لوگ ماں سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن اندر کہیں ماں کی شدید مخالفت بھی مخفی ہوتی ہے کیونکہ بچے کے خیال میں اس عورت نے ہی اسے اس کے باپ کی شفقت سے محروم کیا ہوتا ہے۔ وہ محبوباؤں اور بیویوں میں ویسی ماؤں کو تلاش کررہے ہوتے ہیں جوان کوان کے بچوں سے جدا کرنے کا موجب نہ بنیں۔ اسی لیے وہ بظاہرتو اپنی محبوباؤں یا بیویوں پربگڑتے اور چیختے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ماں کی طرح وہ بھی اس کے لاڈ سہے گی اورزیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ پائے گی پھر احساس جرم کے تحت محبوباؤں اوربیویوں کی ہی سنتے ہیں۔ اس طرح ایسے بچوں کی مائیں ان کے بڑے ہونے پران کے لیے کہیں پس منظرمیں چلی جاتی ہیں اورزندگی میں داخل ہونے والی نئی عورت ماں کی جگہ لے لیتی ہے۔ تاہم ایسا چونکہ غیر فطری ہے ، زندگی میں داخل ہونے والی عورت ماں نہیں ہوتی اس لیے وہ زیادہ دیر تک اس کا دہرا رویہ بردا شت نہیں کرسکتی کہ جلوت میں وہ اس پر بھاری ہونے کا اظہار کرے اورخلوت میں اس کے پاؤں چاٹنے لگے۔ ساشا ارینا کواورطرح سے دیکھتا دکھائی دیتا تھا، اس طرح نہیں جس طرح لینا کودیکھتا تھا اگرچہ لینا نے عملی طورپر اسے ہاتھ پکڑ کراٹھایا تھا اوراپنے ساتھ لے کرآگے بڑھی تھی۔ اسے سکول ختم کروایا تاحتٰی انسٹیٹیوٹ میں داخلہ دلوا کراسے اعلٰی تعلیم یافتہ ہونے کی سند تک دلوائی تھی مگروہ محض دوست تھی اوریہ نئی لڑکی ارینا محبوبہ۔
کوئی چھ ماہ گذرے تھے کہ ساشا کی سروس چلی گئی اوراس کے پاس اپارٹمنٹ کا کرایہ دینے کو پیسے نہیں تھے۔ وہ لینا کو کبھی رات رہنے کی خاطراپنی ماں کی موجودگی میں گھرمیں نہیں لے کر آیا تھا لیکن اس بار اس نے ماں کو مجبور کردیا کہ ان دونوں کو ایک کمرے کے گھر میں اکٹھے رکھنے پررضامند ہو۔ آخر ماں تھی مان گئی مگر طغرل بے حد جز بزہوا تھا۔ اس کے اورنینا کے ذاتی تعلقات پربڑی زد پڑنے والی تھی مگر وہ کچھ نہ بولا تھا کیونکہ گھرتو بہرصورت ساشا کا تھا۔
گرمیوں کے دن تھے۔ دونوں اپنا سامان اٹھا کر ماں اورماں کے شوہرطغرل کے ساتھ رہنے آ گئے تھے۔ دوسرے روز کی شام تھی، ارینا نے ایسی شارٹس پہنی ہوئی تھیں جن میں سے اس کے ایک چوتھائی سرین باہرجھانک رہے تھے۔ دروازے کی جانب کونے میں لگے پلنگ پرسے اٹھ کر نیند سے بیدار ہوا ساشا اس یک نشستی دیوان پرآ کے بیٹھا تھا جو طغرل کے بیڈ اوران کے پلنگ کے درمیان تھا۔ خبروں کا وقت تھا، طغرل خبریں دیکھ رہا تھا۔ شاید ساشا بھی خبریں دیکھنا چاہ رہا تھا۔ یہ لڑکی چاہتی تو دیوان کے بازو پریا ساشا کے ساتھ جگہ بنا کر بیٹھ سکتی تھی مگراس نے دونوں بانہیں ساشا کے گلے میں حمائل کیں، اپنی ایک ایک ٹانگ ساشا کے پہلووں میں چبھو کراس کی گود میں بیٹھی اس کے ساتھ اٹکھیلیاں کرنے لگی تھی۔ طغرل نے دروازے میں کھڑی نینا کو دیکھا تھا اورنینا کوئی تاثر دیے بغیر دروازے سے ہٹ گئی تھی۔
اگلے روز طغرل نے نینا سے کہا تھا کہ یہ کوئی عام لڑکی نہیں بلکہ بیسوا ہے۔ نینا نے کچھ تلخی سے پوچھا تھا کہ ایسا کیوں کہہ رہے ہو۔ طغرل نے بتایا تھا کہ کوئی بھی عام لڑکی اپنے محبوب یا شوہر کے والدین کے سامنے اس طرح کی حرکتیں نہیں کیا کرتی۔ نینا نے اس کا جواز دینے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی تھی ۔ اگلے ہی روزاس نے طغرل سے کہا تھا،" تم درست کہتے ہو۔ میں نے بھی سنا ہے کہ ساشا نے اس لڑکی کو مافیا سے خریدا ہے" اس کا مطلب یہ بنتا تھا کہ وہ تھی تورنڈی مگراس کو اس پیشے سے آزاد کرانے کی خاطر ساشا نے دلالوں کو رقم دی تھی۔
یہ لڑکی نہ صرف طغرل بلکہ نینا کے لیے بھی مسلسل آزار تھی۔ کبھی ٹیلویژن کی آواززیادہ کھول دیتی تھی کبھی کہتی تھی مجھے سونا ہے ٹی وی بند کردو۔ ویسے بھی ایک کمرے میں دوجوڑوں کا رہنا اذیت ناک ہے۔ طغرل ارینا سے تلخی کے ساتھ پہلی بارتب بولا جب اس نے اپنی انڈر ویراورجینز دھونے کی خاطرمشین میں اورمیلے پانی کی نکاسی کا پائپ کچن میں برتن دھونے والے سنک میں ڈال دیا تھا جہاں پہلے سے کھانے کے برتن پڑے تھے۔ سارا گندا پانی برتنوں میں جا گرا تھا۔ طغرل کو طیش تو بہت آیا تھا تاہم اس نے تلخی کے ساتھ اتنا کہا تھا کہ برتن تو نکال کرباہر رکھ دیے ہوتے۔ ارینا نے یہ کہہ کرکہ برتن دھل جائیں گے ، منہ بنا لیا تھا۔ ساشا نے اس کا ساتھ دیا تھا کہ کیا ہوا اگراس نے غلطی سے برتن نہیں اٹھائے مگریہ غلطی نہیں بلکہ جان بوجھ کرغلاظت برتنوں میں انڈیلنے کی حرکت تھی۔
مسٹرشہانی کی انگیخت پرطغرل نے ریڈیو کے دفتر پھر سے آنا جانا توشروع کردیا تھا لیکن بات بن نہیں پا رہی تھی۔ آمدنی نہ ہونے کے برابرتھی۔ گذارہ ہونا مشکل تھا۔ طغرل خوددارشخص تھا، نینا کی آمدنی کے سہارے جینا نہیں چاہتا تھا۔ بہت سوچ بچار کے بعد وہ ایک شناسا شخص کے پاس گیا تھا جس کے مختلف لوگوں سے تعلقات تھے۔ یہ طغرل کی زندگی میں دوسرا موقعہ تھا کہ وہ ذاتی کام کے سلسلے میں کسی شخص کے پاس گیا ہو۔ اس سے پیشتربہت عرصہ پہلے وہ پنجاب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکی سفارش لے کرایک صوبائی سیکرٹری کے پاس گیا تھا۔ جس کام کے لیے اس نے صوبائی سیکرٹری کو کہا تھا اسے سن کر سیکرٹری موصوف ششدررہ گئے تھے کیونکہ طغرل نے اپنا استعفٰی منظور کیے جانے کی درخواست کی تھی۔ سیکرٹری موصوف نے خود کہا تھا کہ میں سمجھا آپ اتنی بڑی سفارش لائے ہیں تو کوئی ڈیپوٹیشن مانگیں گے یا پیشہ ورانہ اعلٰی تعلیم کی خاطر کوئی غیرملکی وظیفہ مگر چلیے آپ کا استعفٰی منظور ہوا۔
اس بارجس شخص کے پاس گیا وہ کوئی سرکاری افسرنہیں بلکہ ایک نجی کمپنی میں اچھے عہدے پر مامورتھا۔ طغرل نے اسے جا کر کہا تھا،" خانصاحب اگر آپ چاہتے ہیں تومیں وطن لوٹ جاتا ہوں"۔ اس نے پوچھا تھا،" کیوں طغرل بھائی خیریت؟"۔ " اب بنا ملازمت کے رہنا مشکل ہو چکا ہے" طغرل نے جواب دیا تھا۔ اس شخص نے ذہن پرتھوڑا سا زورڈال کر کہا تھا،"یاد آیا بچوں کا ایک چھوٹا سا نجی سکول ہے۔ اس کے پرنسپل کی پوسٹ خالی ہونے کو ہے۔ میں معلوم کرتا ہوں لیکن مشاہرہ بہت زیادہ نہیں ہے، کوئی چھ سو ڈالر ماہانہ"۔ اندھے کو تودوآنکھیں چاہییں تھیں چنانچہ طغرل نے ایک آنکھ پر ہی گذارہ کرنے کا سوچتے ہوئے کہا تھا،" کوئی بات نہیں، کچھ تو ہے ناں"۔
تیسرے روز طغرل کو یہ ملازمت مل گئی تھی۔ سکول کیا تھا بس ماسکو میں موجود درمیانے درجے کی حیثیت کے پاکستانی افراد کے بچوں کو پرائمری تعلیم دیے جانے کا چارہ کیا گیا تھا۔ یہ سکول ایک تہہ خانے میں تھا۔ پہلے سے موجود روسی پرنسپل نے ذاتی وجوہ کی بنا کر کام کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ اس سکول میں محض پانچ استانیاں تھیں جن میں ڈرائنگ اورمیوزک کی ٹیچرایک بنگالن تھی جو اردو بولنا جانتی تھی۔ اسے یہاں غالبا" اس لیے کام مل گیا تھا کہ جو تنظیم یہ سکول چلا رہی تھی اس کے سربراہ نسلی طور پربنگالی تھے مگران کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ رہی تھیں۔ یہ صاحب سکول کے اوپر کی عمارت میں مقیم تھے۔ بنگالی استانی گاہے گاہے ان صاحب کی بیگم سے، جو سکول کی سرپرست تھی، ملنے کے لیے اوپر چلی جاتی تھی۔
اس بنگالی استانی نے پہلے ہی روز پرنسپل یعنی طغرل کوباقی استانیوں کے نقائص بتانا شروع کر دیے تھے۔ طغرل کوفوری احساس ہو گیا تھا کہ موصوفہ شکایتیں لگانے کی عادی ہیں تاکہ اس طرح لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا سکے۔ طغرل کوگمان ہوا تھا کہ ایک روزیہی استانی کہیں طغرل کی شکایتیں بھی لگا رہی ہوگی۔ بیس بائیس بچوں کے اس سکول میں پرنسپل کا کوئی خاص کام نہیں تھا چنانچہ طغرل نے چوتھی پانچویں کے بچوں کو انگریزی اورسائنس پڑھانے کا کام اپنے ذمے لے لیا تھا۔ طغرل کی زندگی میں کسی کو پڑھانے کا یہ پہلا تجربہ تھا اورکوئی اتنا برا نہیں تھا۔
پانچویں جماعت میں دو بچیاں عنفوان شباب میں تھیں یعنی پندرہ سولہ برس کی جن میں نذہت نام کی ایک بچی شاید سولہ برس کی تھی جوپڑھائی میں کند تھی ۔ طغرل نے محسوس کیا تھا کہ وہ بلاوجہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی ہے جس سے طغرل کئی بارجھنجھلایا بھی تھا۔ اس کی بڑی بہن رفعت سکول کی استانیوں میں شامل تھی۔ رفعت کی عمراٹھارہ برس تھی۔ اس نے میٹرک پاس کی تھی۔ ان دونوں کا باپ تنظیم میں کارپرداز تھا جس کی وجہ سے رفعت کو استانی کی جاب دے دی گئی تھی۔ وہ پہلی جماعت کے بچوں کو پڑھا دیا کرتی تھی۔
یہ تینوں بچیاں یعنی دو بہنیں اورتیسری چونکہ باقی بچوں سے عمروں میں بڑی تھیں اس لیے وقفے کے دوران طغرل کے ساتھ باتیں کرنے کے لیے طغرل کے دفتر میں چلی آتی تھیں۔ طغرل انہیں بیٹھنے کو کہہ دیتا تھا۔ ان میں سے چہکتی بس رفعت ہی تھی باقی دونوں منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر طغرل اوررفعت کی باتیں سنا کرتی تھیں۔ رفعت تیز تھی۔ باتیں اچھی کرتی تھی۔ اس کی آواز میں چاندی کی گھنٹی بجنے کا ترنگ تھا۔ وہ بات کرتے ہوئے کبھی شرما جاتی تھی اوربعض اوقات چمک کر بات کرلیا کرتی تھی۔ اس کی رنگت سیاہ نہیں بلکہ زردی مائل گہری گندمی تھی جس کی وجہ سے اس میں خاصی ملاحت محسوس ہوتی تھی۔ وقفہ چونکہ زیادہ طویل نہیں ہوتا تھا، اس لیے باتیں مختصرہوا کرتی تھیں۔
ایک روز طغرل نے کوئی شعر پڑھا اوربتایا کہ یہ غالب کا شعر ہے۔ دوسرے روزرفعت طغرل کے لیے غالب کا پورا دیوان گھر کے کمپیوٹر سے پرنٹ کرکے لے آئی تھی۔ طغرل کو اس میں اپنائیت محسوس ہونے لگی تھی۔ گھرمیں ارینا کی وجہ سے ماحول ویسے ہی کبیدہ خاطر تھا۔ نینا کسی ایک کی حمایت نہیں کرسکتی تھی جس کی وجہ سے طغرل اس سے کھنچا کھنچا رہنے لگا تھا۔ سکول پہنچ کررفعت کی رفاقت سے چاہے وہ جتنی بھی عارضی کیوں نہ تھی، طغرل کو سکون محسوس ہوتا تھا۔
ایک روز طغرل نے دفتر پہنچ کرکوٹ ٹانگا اوراپنی کرسی کی جانب بڑھا تھا کہ پیچھے سے ان تینوں نے بیک آواز کہا تھا،"السلام علیکم سر"۔ طغرل کا چہرہ دوسری جانب تھا۔ اس نے ان کی جانب مڑتے ہوئے نجانے کیوں دونوں بازو وا کردیے تھے اورمسکرانے لگا تھا۔ رفعت چند قدم دوڑکراس کے سینے سے آ لگی تھی اور طغرل نے دوسری دو بچیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے بانہوں میں بھرلیا تھا۔ فوری طورپرسکول پریئر تھی، وہ اکٹھے ہال میں چلے گئے تھے۔ وقفے میں تینوں پھرآئی تھیں۔ طغرل نے میزکے دوسری طرف رکھی کرسیوں پر انہیں بیٹھنے کو کہا تھا۔ تھوڑی دیر میں رفعت کو نجانے کیا سوجھی کہ وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر طغرل کی ٹانگ پر آ بیٹھی تھی پھرباقی دو لڑکیوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا، " دیکھا کچھ نہیں ہوتا"۔ طغرل کی عادت تھی کہ وہ دفتر کا دروازہ بند رکھتا تھا۔ اس نے کہا تھا، "ہاں کچھ نہیں ہوتا لیکن اب جا کرکرسی پر بیٹھ جاؤ"۔ پھرنذہت نے کہا تھا،"چلتے ہیں سر"۔ دروازے کی جانب جاتے ہوئے رفعت مڑمڑکرطغرل کی جانب دیکھ رہی تھی اورمسکرا رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ قہقہے بکھیر دیتی۔
طغرل توتھا ہی عاشق مزاج، اسے رفعت کی دیدہ دلیری سے شہ مل گئی تھی۔ اس نے زیادہ صبر نہیں کیا تھا۔ ایک دوروزکے بعد وہ رفعت کے گھرچلا گیا تھا۔ رفعت اپنے باپ کی موجودگی میں کھل کربات نہیں کررہی تھی مگر اس کی نگاہوں سے بھرپورتعلق کا اظہارہورہا تھا۔ اس کا باپ بیٹی کی نگاہیں نہیں دیکھ رہا تھا یا شاید اس کی نظروں کا مطلب اس طرح سمجھنے سے قاصر تھا جس طرح طغرل سمجھ رہا تھا، اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ طغرل عمرمیں اس کے باپ سے بھی سات آٹھ برس بڑا تھا۔
طغرل نے مناسب موقع پاتے ہی کہا تھا، شاید بچے کہیں باہر نہیں جاتے اگراعتراض نہ ہوتو وہ انہیں گھما لائے۔ طغرل کا وقاررفعت کے باپ کے وقار کی نسبت افضل تھا پھروہ خود چل کران کے گھرآیا تھا اوراپنے منہ سے پیشکش کررہا تھا چنانچہ اس بیچارے کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ چند منٹ میں رفعت، نذہت اور سب سے چھوٹی بہن کے ساتھ تیارہوکرآ گئی تھی۔ طغرل تینوں لڑکیوں کو لے کر باہر نکل گیا تھا۔
شہر کے مرکز میں پہنچ کروہ چاروں گھومتے رہے تھے۔ طغرل کبھی رفعت کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا۔ وہ بھی گرمجوش کا مظاہرہ کرتی تھی۔ وہ سب ایک بنچ پر بیٹھ گئے تھے۔ طغرل رفعت کے پہلوکے ساتھ تقریبا" چپکا ہوا تھا، وہ مزید چپک رہی تھی۔ پھروہ انہیں لے کرمیکڈونلڈ چلا گیا تھا۔ دونوں چھوٹی بہنوں کواوپروالی منزل پربٹھا کرطغرل رفعت کوساتھ لے کرکچھ لینے کاونٹرکی طرف جانے کے لیے زینہ اترا تھا۔ سیڑھیاں اترتے ہی طغرل نے کہا تھا،"رفعت میں تمہیں چوم لوں؟"۔ اس نے شرمیلی مسکان کے ساتھ کہا تھا،"ہائے سب کے سامنے "۔ "تو کیا ہوا؟" کہتے ہوئے طغرل نے اسے بانہوں میں بھر کراس کے ہونٹوں پراپنے ہونٹ رکھ دیے تھے۔ رفعت نے تھوڑا سا کسمسا کر کہا تھا، " ہونٹوں پر نہیں" کھلے ہونٹوں میں طغرل کی زبان داخل ہو چکی تھی اوریوں دونوں چند لمحوں کے لیے دنیا و مافیہا سے بے نیازہو چکے تھے۔
اب دونوں میں بے تکلفی بڑھ گئی تھی۔ رفعت کی کوشش ہوتی کہ طغرل کے دفترمیں اکیلی پہنچے۔ طغرل کی سعی ہوتی کہ تعلق کا جتنا رس نچوڑ سکتا ہے نچوڑ لے۔ طغرل کے ہاتھ مسلسل بہکتے تھے اوررفعت مزید چمٹتی جاتی تھی۔
رفعت ہرروز طغرل کے لنچ کے واسطے کچھ نہ کچھ مزیداربنا کرلاتی تھی۔ خود کم کھاتی، اپنی مسکراتی ہوئی اداس آنکھوں کے ساتھ طغرل کو تکے جاتی ۔ یہ سب مخفی نہیں رہ سکتا تھا۔ بنگالن ٹیچراب طغرل سے زیادہ واسطہ نہیں رکھتی تھی۔ نذہت الگ جلنے لگی تھی۔ ایک روز طغرل نے اسے شفقت سے کہا تھا،" موٹی"۔ نذہت بولی تھی " میں موٹی نہیں ہوں"۔ "اچھا" طغرل نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا تھا۔ "چاہیں تو ہاتھ لگا کر دیکھ لیں" نذہت بولی تھی۔ "کہاں؟" طغرل نے پوچھا تھا۔ "جہاں مرضی لگا کر دیکھ لیں"۔ طغرل نے سوچا تھا کہ ایک کی بجائے یہ تودوہوگئیں لیکن ساتھ ہی سوچا تھا کہ نذہت قانونا" نابالغ ہے مگر دماغ میں کہیں تھا کہ ہاتھ لگانے میں کیا ہرج ہے اورپھرموقع پا کرہاتھ لگا لیا تھا ساتھ ہی ہوسناک لہجے میں کہا تھا،" تھوڑی سی ہوزیادہ نہیں"۔
طغرل نے ہاتھ لگانے کی بات ہذف کرتے ہوئے نذہت اوراپنی باقی گفتگو رفعت کے گوش گذار کر دی تھی۔ رفعت نے بتایا تھا کہ نذہت اس سے جلتی ہے اورہراس چیز پرہاتھ صاف کرنا چاہتی ہے جو اس کے خیال میں رفعت کو ملنے والی ہو یا رفعت جس چیز کی چاہ کررہی ہو۔ پھر اس نے مترنم ہنسی ہنستے ہوئے کہا تھا،" کوئی بات نہیں، نذہت کے مزے بھی لیں" یہ کہہ کر وہ کلاس لینے چلی گئی تھی۔
طغرل کو دو بہنوں کا تجربہ ملک جارجیا کے شہرذوگدیدی میں ہو چکا تھا جب طغرل کی پرانی اوربہت اچھی دوست مایا کی بڑی بہن نے طغرل کے ساتھ دست درازی کی تھی۔ طغرل کچھ بولا تو نہیں تھا مگر اس کی حرکت سے متعلق مایا کو آگاہ کر دیا تھا۔ مایا نے بھی وہی بات کہی تھی جورفعت نے نذہت سے متعلق کی تھی۔ رفعت کی اجازت کے باوجود طغرل نذہت سے متعلق بے حد محتاط ہو گیا تھا۔
رفعت کے باپ کی اجازت تو مل ہی چکی تھی اس لیے طغرل رفعت کو مختلف جگہوں پراپنے ساتھ لے جانے لگا تھا۔ البتہ نذہت اس کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ نچلے درمیانے طبقے کے لوگ اپنی بیٹیوں کو بہت آزادی نہیں دے سکتے مگریہ لڑکیاں کم میسرآزادی سے بھی اگر چاہیں تو یکسرآزادی سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں اوراگر نہ چاہیں تو کوئی کسی کو کچھ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ روس کی ایک عوامی کہاوت ہے "اگر کتیا نہ چاہے توکتا کیا کرسکتا ہے"۔ رفعت بہت سے اعمال پررضامند تھی چنانچہ ایسی محافل اورمقامات پرطغرل سگریٹ پینے کا بہانہ کرکے نذہت کو جہاں بیٹھی ہوبیٹھا چھوڑ کر"آؤ رفعت گپ شپ لگاتے ہیں" کہتےہوئے اپنے ساتھ زینے یا کسی نسبتا" تنہا جگہ لے جا کرہونٹوں اور ہاتھوں کی اینٹھن دورکرلیا کرتا تھا۔
سکول چلانے والی تنظیم کے سربراہ کی اہلیہ اورسکول کی سرپرست جب ایک بار اپنے بنگلے سے اترکہ تہہ خانے میں پہنچی تھیں توطغرل کوسوجھ نہیں رہا تھا کہ انہیں کس لقب سے مخاطب کرے۔ طغرل نے زندگی میں میڈم، سروغیرہ صرف اپنے اساتذہ کوتوکہا تھا لیکن کسی اورکویوں مخاطب کرنے سے اسے نجانے کیوں بیر تھا ویسے جی میں آتا توکسی عام سے عام شخص کوبھی سرکہہ سکتا تھا۔ یہ خاتون اردو کی ایک اہم ادیبہ کی ہم نام تھیں چنانچہ طغرل نے انہیں آپا کہنا مناسب جانا تھا۔
سکول میں وہ یونہی نہیں آئی ہونگی بلکہ ان کے بنگلے میں بار بار جانے والی بنگالن ٹیچر نے ہی لگائی بجھائی کی ہوگی۔ یہی وجہ تھی کہ اگلے روزجب طغرل نمازجمعہ پڑھنے کی خاطروضو کرکے ایک کرسی پراپنا پاؤں دھرےجراب چڑھا رہا تھا تودفتر کے دروازے کوپورے زورکا دھکا لگا تھا۔ اندر آنے والا گرنے سے بچتے بچتے کسی قدر لڑکھڑا گیا تھا۔ طغرل نے اسی انداز میں کھڑے کھڑے گردن موڑ کر آنے والے سے بے نیاز ہو کر کہا تھا،" کیوں جناب خیریت ہے، طوفان کی طرح داخل ہوئے ہیں آپ"۔ چیف سیکیورٹی افسر کچھ بھونچکایا ہوا اورکچھ خجل سا ہوکربولا تھا ،"آپ کے دفتر کا دروازہ کیوں بند تھا؟"۔ "دروازہ بند ہی رکھا جاتا ہے" طغرل نے جواب دیا تھا۔ " برائے مہربانی اپنے دفترکا دروازہ کھلا رکھا کریں" سی ایس او نے کہا تھا۔ "میں کوئی کلرک نہیں جو دروازہ کھلا رکھوں" طغرل نے ناک بھئوں چڑھاتے ہوئے کہا تھا۔" اس میں کلرک ہونے کی کیا بات ہے" ہدایت دینے والا بھنا گیا تھا۔ "دروازہ تو بند ہی رکھا جائے گا۔ چھوڑیں چلیں جمعہ نماز پڑھنے چلتے ہیں" طغرل نے یہ جانتے ہوئے کہ پاکستانی فوج کا یہ ریٹائرڈ بریگیڈیراسلام کا نام بہت لیتا ہے مگرنماز کے قریب نہیں پھٹکتا، کہا تھا۔ " نہیں بس آپ پڑھ آئیں" یہ کہتے ہوئے طوفان کی طرح اندرآنے والا جھونکے کی طرح نکل گیا تھا۔
کھچھڑی پکنے لگی تھی۔ تیزمتجسس بچے گھروں میں جا کر ماؤں کو بتاتے تھے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اورمائیں اپنے شوہروں سے ذکر کرتی ہونگی جو اسی تنظیم میں مختلف عہدوں پرکام کرتے تھے۔ وہ سب بھی تو مرد تھے۔ اگرچہ طغرل سے پیار کرنے والی رفعت ان کے ہی ایک ہمکار کی بیٹی تھی مگر سب جلتے تھے کہ دیکھو ماہ ڈیڑھ ماہ میں ہی طغرل نے خود سے تیس برس چھوٹی لڑکی پھانس لی اورہم دیکھتے رہ گئے۔ سب کے ارمان ہوتے ہیں۔ سب بیویوں سے اکتائے ہوتے ہیں لیکن جھوٹی اخلاقیات سے سب طغرل کی مانند آزاد تو نہیں ہوتے ناں۔
ایک روزاس تنظیم کے ایک اعلٰی عہدے دار نے اپنی مخصوص پنجابی زبان میں کہا تھا،" یہ آپ اس غریب کی بیٹی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں؟" جواب میں طغرل نے فی البدیہہ کہا تھا،" اس میں غریب کی بیٹی کی کیا بات، اگر آپ کی بھی بیٹی ہوتی اورمجھے اسی طرح ریسپانس دیتی تومیں اس کے پیچھے پڑ جاتا" سننے والے کو تو جیسے چپ لگ گئی تھی۔ طغرل اس کے دفتر سے نکل آیا تھا۔
طغرل کو یقین ہو چکا تھا کہ اب کوئی نتیجہ ضرور نکلے گا جو اچھا نہیں ہوگا۔ اس سے اگلے روز رفعت کا باپ سکول بند ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے اندرداخل ہوا تھا۔ راہداری میں ہی طغرل کی اس سے ملاقات ہو گئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ صاحب آپ کوبلا رہے ہیں۔ طغرل بھانپ گیا تھا کہ اس طرح بلایا جانا کوئی اچھا شگون نہ تھا۔ خیروہ صاحب کے دفتر پہنچا تھا جس نے بڑے پرتعطیم اندازمیں کہا تھا کہ ہمارے پاس مناسب فنڈ نہیں ہیں اس لیے ہم آپ کی مزید خدمات نہیں لے سکتے۔ پھر ٹائپ کیا ہوا ایک لیٹرطغرل کے حوالے کیا تھا جس میں برخواست کیے جانے کی وجہ فنڈزکی کمی ہی درج تھی۔ طغرل نے کہا تھا کہ چھ سو ڈالر کوئی زیادہ رقم نہیں ، اتنی رقم میں آپ کو کہیں سے کر کے دے سکتا ہوں، کم از کم آپ برخواست کرنے کی وجہ تودرست بیان کریں۔ طغرل چھ سوڈالرکہاں دے سکتا تھا، بس کہنے کوبات کہی تھی۔ اس نے تو پہلی تنخواہ سے ہی ایک عرصے کے بعد سردیوں کے کپڑے خریدے تھے اوراب دوسری تنخواہ کے ساتھ پھرگھربھیجا جا رہا تھا۔
جب وہ سکول میں داخل ہوا تواس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ رفعت جیسے انتظارمیں کھڑی تھی۔ فورا" پوچھا تھا کہ کیا بات تھی، آپ کو کیوں بلایا تھا؟ طغرل نے مصنوعی جرات کا اظہارچہرے پرسجا کر کہا تھا،" ہونا کیا تھا، کچھ بھی نہیں۔ تنظیم فقیرہو گئی ہے۔ اس کے پاس میری تنخواہ کے پیسے نہیں ہیں، بس اب تم سے روز ملاقات نہیں ہوگی" طغرل کا یہ کہنا تھا کہ وہ اس کے کندھے کے ساتھ لگ کر اونچی آوازمیں اتنا زیادہ اوربہت دیر تک روئی تھی۔ چھٹی ہوگئی تھی۔ بچے نکل رہے تھے، حیران تھے کہ مس کو کیا ہوا ہے۔ چونکہ رفعت کو بھی بچوں کی سکول وین میں گھر جانا تھا اس لیے طغرل نے اسے تقریبا" اپنے سے علیحدہ کرکے دھکیلتے ہوئے کہا تھا کہ جاؤ منہ دھو کرگھر کے لیے روانہ ہو۔ تسلی دی تھی کہ میں ماسکو میں ہی ہوں، ملتے رہیں گے۔
دوستوں کا کہنا تھا کہ طغرل کوتنظیم کے سربراہ کی اہلیہ نے کام سے نکلوایا تھا۔ وہ کہتے تھے نہ تم اسے آپا کہتے نہ تم سکول سے نکالے جاتے۔ کیا مطلب طغرل نے پوچھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ تنظیم کا سربراہ جوان روسی لڑکیوں کے ساتھ ملتفت رہتا ہے۔ اس کی بیوی جنسی طورپرناآسودہ ہے۔ تو پھر، طغرل نے پوچھا تھا۔ ارے بھائی اس کو پھنسا لیتے ناں۔ کیسی باتیں کر رہے ہو یارو، وہ تومجھ سے عمر میں خاصی بڑی ہیں، طغرل کا کہنا تھا۔ گاؤدی اگر اپنی عمر سے تیس سال کم کو پھنسا سکتے ہو تودس سال بڑی پھنسانے سے تمہارا کیا جاتا تھا۔ اس پر طغرل کیا کہتا بس یہی کہا تھا نہیں بھئی ایسی کوئی بات نہیں ہے بس بنگالن ٹیچر نے ایک کی دس بنا کر لگائی ہیں اس لیے انہیں یعنی سکول چلانے والی تنظیم کے کرتا دھرتاؤں کو اخلاقیات کا دورہ پڑا ہے۔
طغرل کے لیے رفعت ایک تحفہ تھی کیونکہ وہ پاکستانی لڑکیوں کی جذباتی محبت سے تقریبا" ناآگاہ ہو چکا تھا۔ روس کی لڑکیاں تو محبت کاروبارکی طرح کرتی ہیں۔ جہاں سودا گھاٹے میں جاتا دکھائی دیا توکٹی کرلی۔ پھرجیسے اگر کسی مرد نے کہہ دیا " اگرمیں مرگیا" توان کی جوتی کو۔ کہیں گی تو کیا ہوا سب مرجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جب ایک بار طغرل نے رفعت کے سامنے ایسی بات کہی تواس نے "اللہ نہ کرے" کہتے ہوئے اپنی ہتھیلی سے طغرل کا منہ بند کر دیا تھا۔ اپنی لڑکی، اپنی زبان، اپنے انداز اوپرسے جوان جہان۔ پیارکا اظہاراس قدر، کہتی تھی آپ کہیں گے کھڑی رہوتوکھڑی رہوں گی، آپ کہیں گے بیٹھ جاؤ توبیٹھ جاؤں گی۔ طغرل کو معلوم تھا کہ یہ کہنے کی باتیں ہیں مگراسے ایسی باتیں سنے ایک عرصہ گذر گیا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے ایسی باتیں سنے پوری صدی بیت گئی ہو۔
شام ہوتے ہی رفعت اورطغرل دیرتک فون پرباتیں کیا کرتے تھے۔ لمبی لمبی ای میلزاس کے علاوہ۔ مگرفون اورای میلز وصل کا متبادل تھوڑا نہ ہو سکتی ہیں۔ طغرل کو رفعت سے ملاقات کرنے کا کوئی چارہ کرنا ہی تھا۔
نچلے درمیانے پاکستانی گھرانے کی لڑکی، چاہے وہ ماسکو میں ہی مقیم کیوں نہ ہو، کو بلا وجہ فون کرنا آسان نہیں ہوتا۔ فون کرنے والے کے لیے نہ سہی مگر فون سننے والی کے بارے میں باتیں بننے لگ جاتی ہیں۔ گھروالے طعنے دینے لگتے ہیں۔ رفعت کے پاس موبائل سیٹ نہیں تھا چنانچہ طغرل کوان کے گھرکے فون پرفون کرنا پڑتا تھا۔ وہ اگرچہ خیال رکھتا تھا کہ رفعت کے سکول سے لوٹنے اوراس کے باپ کے گھرواپس آنے کے درمیان چارپانچ گھنٹوں کے وقفے کے دوران فون کرے۔ رفعت کی ماں سادہ دیہاتی عورت تھی۔ رفعت ہی ریسیوراٹھاتی تھی مگرکبھی نذہت کے ہاتھ بھی لگ جاتا تھا۔ سب سے بڑا خطرہ یہی حاسد نذہت تھی کیونکہ وہ کسی وقت بھی کچھ کا کچھ بنا کر بک سکتی تھی۔
ایک روز ان کی رہائش کے نزدیک والی میٹروکے باہردہشت گردی ک واقعہ ہو گیا تھا۔ بم دھماکے میں کئی لوگ مارے گئے تھے جن میں کچھ جوان لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ دھماکہ شام کے وقت ہوا تھا۔ اگرچہ طغرل کو معلوم تھا کہ رفعت کا اس جانب جانا نہیں ہوتا لیکن کیا پتہ موت کس کو کہاں کھینچ کر لے جائے چنانچہ اس نے فون کیا توریسیورپہلی باررفعت کے باپ نے اٹھایا تھا۔ طغرل کی جانب سے خیرخیریت دریافت کرنے پر لگتا تھا وہ خوش ہوا تھا اوراس نے فون رفعت کوتھما دیا تھا جس نے اپنی وہی چاندی کی گھنٹی کی آوارکی سی ہنسی ہنستے ہوئے کہا تھا،"اتنی آسانی سے مرنے والی نہیں ہوں میں" پھرسرگوشی میں کہا تھا،" آپ کی جان تھوڑا نہ چھوڑوں گی"۔ میٹرک پاس جذباتی لڑکیوں والی اس کی ایسی باتوں سے طغرل نہال ہوا کرتا تھا سوہوا تھا۔ اس نے رفعت سے کہا تھا کہ وہ اس سے ملنے کا بہت متمنی ہے۔ پھر کہا تھا کل شام میں تمہیں ملنے سے متعلق سکیم بتا دوں گا۔
اگلے روزوہ اس کے گھرکے نزدیک والے علاقے میں گیا تھا۔ وہاں گھوم پھرکر ایسی جگہ تلاش کی تھی جونہ اس کے گھرسے زیادہ دورہواورنہ اتنی قریب۔ سڑک بھی عبورنہ کرنی پڑے۔ ایک تھیٹر ہاؤس مل گیا تھا جہاں وہ گھرسے نکل کرپانچ منٹ پیدل چل کرپہنچ سکتی تھی۔ شام کواسے اس جگہ سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ طے ہوا تھا کہ کل سکول سے آنے کے ایک گھنٹہ بعد وہ وہاں پہنچ کرطغرل سے ملے گی۔ اس نے طغرل کو بتا دیا تھا کہ اسے اکیلے باہرجانے کی اجازت نہیں اس لیے وہ نذہت کو لے کرآئے گی۔ ساتھ ہی کہا تھا کہ نذہت کوبھی خوش رکھیے گا اورکہتے ہوئے ہنس دی تھی۔
رفعت سے ملاقات کرنے جاتے ہوئے اڑتالیس سالہ طغرل میں اٹھارہ برس کے نوجوان کا سا وفورتھا۔ وہ وقت مقررہ سے چند منٹ پہلے پہنچ گیا تھا۔ تھوڑی دیربعد دونوں بہنیں بھی آ گئی تھیں۔ طغرل نے دونوں کا خیرمقدمی بوسہ لیا تھا۔ وہ تینوں تھیٹر کی عمارت میں داخل ہوگئے تھے۔ اندرایک اچھا سا کیفے تھا جس کا مالک ادھیڑعمرجارجیائی شخص تھا۔ صرف ایک لڑکی میزبان تھی۔ طغرل نے ان دونوں کے نہ نہ کہتے ہوئے کچھ کھانے پینے کا آرڈر دے دیا تھا۔ طغرل رفعت کا توبوسہ لیتا ہی تھا، جھونگے میں نذہت کے گال کے ساتھ ساتھ اس کے ہونٹوں سے بھی اپنے ہونٹ مس کردیتا تھا۔ آخرنذہت کوخوش رکھنا ضروری تھا۔ نذہت بوسوں سے گریزاں نہیں تھی مگرچپ بیٹھی رہی تھی جبکہ رفعت چہکتی اورہنسی کی ہلکی ہلکی جلترنگ بکھیرتی رہی تھی۔ کیفے کے کاؤنٹرپربیٹھا بڑھی ہوئی سفید شیو والا جارجیائی کبھی کبھارکنکھیوں سے ان تینوں کو دیکھ لیتا تھا۔ تمیزنہیں کر پا رہا تھا کہ یہ باپ بیٹیوں کی تکون ہے یا معاملہ کچھ اورہے۔
اس طرح کی دوچارملاقاتیں ہی ہو پائی تھیں۔ ایک روز رفعت نے فون پر بتایا تھا کہ اس کی نذہت سے کسی بات پرجھڑپ ہوگئی ہے اوراس نے اسے دھمکی دی ہے کہ وہ ابو کو سب کچھ بتلا دے گی۔ ملاقات کا دروازہ بند ہو گیا تھا۔ طغرل بہت چاہتا تھا کہ رفعت اس کی ہو جائے، وہ اپنی وفادارنینا کو بھی تج دینے کو تیار تھا۔ رفعت کوپانے کی دعا مانگا کرتا تھا بلکہ ایک دوبار تورفعت کا باپ جمعہ نمازمیں اس کے ساتھ ہی بیٹھا تھا جب اس نے چپکے چپکے " اللہ مجھے رفعت عطا کر" کی دعا مانگی تھی۔ ایک روز طغرل نے ایک حاضرجواب شناسا شخص سے کہا تھا "یارمیں اللہ سے رفعت پانے کی دعا مانگتا ہوں، کہیں اللہ کسی طرح کی بلندی عطا نہ کر دے"۔ اس شخص نے کہا تھا" طغرل بھائی آپ اللہ کو کوئی چھوٹا بچہ سمجھتے ہیں" یہ کہتے ہوئے اس نے حسب عادت قہقہہ بلند کیا تھا۔ اس پرطغرل نے لاحول پڑھی تھی۔
طغرل نے رفعت سے کئی بار کہا تھا کہ وہ بس ایک گھنٹے کے لیے کسی طرح گھرسے اکیلی نکل آئے۔ جامع مسجد تھوڑی دور ہے۔ نکاح ہو جائے تو باقی دیکھا جائے گا لیکن رفعت میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ آپس میں فون پربات کرنا بھی کم ہوتا جا رہا تھا۔ ان دنوں طغرل کے ہاتھ ایک عارضی کام لگا تھا جس میں مختصر دستاویزی فلموں کے انگریزی مکالمے پنجابی زبان میں منتقل کرنا اور فلمانے میں مدد کرنا اس کے کام میں شامل تھا۔ اس نے رفعت سے دوچار بارکہا تھا کہ شوٹنگ دیکھنے کے لیے ہی آ جاؤ، اجازت تمہارے باپ سے میں تمہیں دلوا دوں گا مگر وہ ٹال جاتی تھی۔
ایک روز رفعت نے خود گھرکے فون سے طغرل کے موبائل نمبرپرفون کیا تھا۔ ایک لڑکے کا نام لیا تھا کہ اگر اس کو اداکاری کا کام دلوا دیں تو وہ شوٹنگ دیکھنے آئے گی۔ طغرل نے کہا تھا کہ لڑکے کو بھیج دو۔ اس لڑکے کو کام دلوا دیا تھا۔ تیسرے روزرفعت نے فون کرکے طغرل کو ہدایت کی تھی کہ وہ شام کو اس کے باپ کو فون کرے تاکہ اسے اوراس کے بھائی کو شوٹنگ دیکھنے آنے کی اجازت مل جائے۔ طغرل نے فون کیا تھا تو اس کے باپ نے بخوشی اجازت دے دی تھی۔
شوٹنگ رات ساڑھے آٹھ نو بجے شروع ہوتی تھی اورکہیں ساڑھے دس گیارہ بجے جا کر تمام ہوا کرتی تھی۔ رفعت اوراس کا چودہ سالہ بھائی مقررہ جگہ پر پہنچ گئے تھے۔ ان کے ہمراہ وہ لڑکا بھی تھا جسے اداکاری کا کام دلوایا تھا۔
شوٹنگ میں وقفے آتے تھے۔ اس عمارت کے اس فلور پرجہاں دستاویزی فلمیں بنانے والی کمپنی کے دفاتر تھے، ایک مردانہ باتھ روم کشادہ اور بہت صاف تھا۔ کموڈ کا ڈھکن بند کردو توسمجھو کمرہ تھا۔ نویں منزل کی کھڑکی کے آگے اتنی جگہ تھی کہ اس پرتقریبا" نیم درازہوا جا سکتا تھا۔ اس کا تذکرہ طغرل رفعت سے کر چکا تھا۔ پھروہ اس لڑکے، جس کے بارے میں طغرل کو شک ہونے لگا تھا کہ اس کا رفعت سے کوئی تعلق ہے اوررفعت کے بھائی کی نظر بچا کر، رفعت کو نکال کراس باتھ روم میں لے گیا تھا۔ جتنا کچھ ہو سکتا تھا ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا تھا مگر جان قربان کرنے کا دعوٰی کرنے والی جسم قربان کرنے کو تیار نہیں تھی۔ نہیں کہہ کرزمین پربیٹھ جاتی تھی۔ تھوڑی سی کھینچا تانی بھی ہوئی تھی۔ پھر طغرل نے اسے کہا کہ وہ سٹوڈیو چلی جائے۔ وہ اپنی اینٹھن دور کرکے ہی وہاں سے نکلا تھا۔ جب سٹوڈیو لوٹا تو دیکھا کہ رفعت سنبھلے ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے خجل سی تھی اوراس کے چہرے کے سبزی مائل گہرے گندمی رنگ میں سرخی کی جھلک کم نہیں ہو پائی تھی۔ اس کا چھوٹا بھائی اپنی بڑی بہن کو کچھ اورطرح سے دیکھتا ہوا لگ رہا تھا۔
طغرل کو باتھ روم سے لوٹے کوئی دس منٹ ہوئے ہونگے کہ ایک روسی شخص سٹوڈیو میں جو ایک بڑے سے کمرے میں سیٹ لگا کر بنایا گیا تھا، داخل ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ کی دوانگلیوں کے درمیان پکڑی سونے کی چھوٹی سی بالی لہرا رہی تھی۔ اس نے پوچھا تھا،" کیا یہ بالی آپ میں سے کسی کی ہے؟ مردانہ باتھ روم میں فرش پر پڑی ملی ہے مجھے "۔ رفعت سکارف تلے چھپے کان پرہاتھ مار کر اٹھی تھی اوراس شخص سے الی لے لی تھی۔ کوئی کچھ نہیں بولا تھا۔ اس لڑکے نے اس کے بھائی کی طرف دیکھا تھا اور بس۔ شوٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ چاروں اکٹھے زیر زمین ریل کے سٹیشن پہنچے تھے۔ ایک سٹیشن پرپہنچ کروہ تینوں طغرل سے جدا ہو گئے تھے۔ بالی کے واقعے کے بعد طغرل گہری سوچ میں غرق تھا۔
بالی گری بھی تو کہاں؟ مردوں کے باتھ روم میں۔ اگر گرنا ہی تھا تو کہیں بازارمیں گری ہوتی مگروہ کہاں کا جھمکا تھی جوبریلی کے بازارمیں گرتی۔ بازارمیں چھینا جھپٹی کرنے والے شہدے ہوتے ہیں اورمردانہ باتھ روم میں دست درازی کرنے والے شرفاء۔ بالی توتھی ہی بالی اس لیے وہاں گری جہاں اسے گرنا تھا۔ چھوٹے بھائی کی بہن کی جانب نگاہ سے مترشح ہو چکا تھا کہ شکایت شدید ہوگی۔
طغرل نے جھجھکتے جھجھکتے رفعت کو فون کیا تھا۔ اس نے ہوں ہاں کرکے فون بند کردیا تھا۔ طغرل عجیب بے چینی کا شکار ہو چکا تھا۔ ایک تو بیروزگاری اوپرسے دل پربنی ہوئی۔ مستزاد یہ ہوا کہ جب ایک روز طغرل نے اپنی ای میل کھولی تو وہ بھنا کررہ گیا کیونکہ رفعت نے اسے جتنے بھی ای میل لکھے تھے وہ سب غائب تھے ماسوائے ایک کے جو نہ جانے کیسے بچ رہا تھا۔
طغرل جتنے اٹکل پچو جانتا تھا سب آزمائے لیکن خطوط کہیں ہوتے تو بازیاب ہوتے۔ طغرل کو یاد آیا کہ ایک روز جب وہ سکول کے کمپیوٹرروم میں رفعت کے ساتھ بیٹھا ٹخ ٹلیاں کر رہا تھا، اس نے رفعت کو اپنا "پاس ورڈ" بتا دیا تھا۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ باپ پربھی اعتبارنہیں کرنا چاہیے، محبوبہ تو ہوتی ہی غیر ہے۔
پھر اس نے ایک بارفون اٹھا لیا تھا اوربتایا تھا کہ اس نے ہی اپنی ساری میل ڈیلیٹ کی تھی۔ وجہ کوئی نہیں تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا تھا کہ اس کے بھائی نے گھرجا کرشکایت کی تھی کہ وہ بہت دیر تک طغرل صاحب کے ساتھ مردوں کے باتھ روم میں بند رہی تھی جہاں سے ایک روسی مرد اس کی گری ہوئی بالی اٹھا کر لایا تھا جواس نے سب کے سامنے اسے واپس کی تھی۔ پھر طغرل کو ایسے لگا جیسے کوئی آ گیا تھا کیونکہ اس نے فون یک لخت رکھ دیا تھا۔
طغرل اس کومسلسل میل لکھتا رہا تھا۔ اگرچہ وہ کوئی جواب نہیں دیتی تھی۔ طغرل نے اسے بہت جذباتی میلزی تھیں مگر لڑکیاں تو لڑکیاں ہوتی ہیں، چپ ہوجاتی ہیں توان کی چپ اگرٹوٹے بھی تو بڑی مشکل سے ٹوٹتی ہے۔ طغرل ایک باراس کی گلی کا پھیرا بھی لگا آیا تھا۔ غالبا" اس نے کہیں سے طغرل کو دیکھ لیا تھا۔ طغرل نے رفعت کو لکھا تھا:
وہ الوداع کا منظر، وہ بھیگتی پلکیں
پس غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے
جب بھی تھوڑی سی گرمی ہوتی ہے تمہارے جسم پر ابھرنے والی پسینے کی ہربوند آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اورمہک سے روح تک معطرہو جاتی ہے۔ تم جتنی بے اعتنائی کرتی ہو، محبت کی مضبوطی پراورمہر لگ جاتی ہے۔ کل سارا دن ڈرامہ ماروی دیکھا مگرتم ماروی نہ تھیں ، میں عمرنہ تھا۔"
رفعت نے اپنی واحد بچ رہنے والی میل میں لکھا تھا:" آپ کی میل ریڈ کی ہے اورمجھے معلوم تھا کہ آپ میل کریں گے۔ آج میں آپ کو میل کررہی ہوں اورآپ کے سارے سوالوں کا جواب دینا چاہتی ہوں۔ پہلے سوچا تھا میں آپ سے کبھی بات نہیں کروں گی مگرمیں رہ نہیں پائی اوربتا رہی ہوں کہ ہاں میں نے جان بوجھ کر آپ سے ناطہ توڑا کیونکہ مجھ میں نہیں ہے ہمت کہ میں اپنے ماں باپ سے کہوں کہ مجھے آپ سے شادی کرنی ہے اس لیے سوچا تھا کہ اب کونسا آپ سے کبھی ملوں گی مگر اس دن آپ کو دیکھ کراپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکی اوراس دن آپ نے جو کچھ میرے چہرے پہ دیکھا وہی سچ تھا مگر کیا کروں اپنی زندگی کو قسمت پرچھوڑ دیا ہے اورڈر لگتا ہے سب سے۔ اس دنیا کے لوگوں سے، اپنے آپ سے، پتہ نہیں کیوں۔ پلیز مجھے یقین ہے کہ آپ سمجھ جائیں گے۔ آپ کی میلز کا ہمیشہ سے ہی انتظار کرتی ہوں اورکرتی رہوں گی لیکن آپ ہمییشہ میرے اچھے دوست بن کر رہیں گے ناں، پلیز نہ مت کیجیے گا ورنہ میرا دل ٹوٹ جائے گا۔ میں نے ہمیشہ دوسروں کے بارے میں سوچا ہے۔ آج تک کبھی اپنے بارے میں نہیں سوچا اسی لیے تو اب بھی اپنے گھر والوں کا سوچ کر اپنی زندگی داؤ پرلگا دی۔ میں آپ کو کسی قیمت پر دکھ دینا نہیں چاہتی۔ پلیزمجھ سے جو بھی غلطیاں ہوئی ہیں انہیں معاف کردیجیے گا پلیز۔ اچھا اب میں اجازت چاہتی ہوں۔ آج جب آپ کی میل ریڈ کی مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ ساری باتیں یاد آ گئیں۔ مجھے لگا کہ جواب تو دے دینا چاہیے تعلق رکھوں نہ رکھوں اوراسی لیے آپ کو جواب دے رہی ہوں اس کا بھی اوران سب باتوں کا بھی۔ یاد ہے آپ نے اک بار پہلے کہا تھا کہ مجھے کسی اور سے پیار ہو گیا ہے اسی لیے میں نے آپ کو چھوڑ دیا ہے۔ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں، میں مختلف ہوں۔ تو بس کیا کروں ایسی ہی ہوں مگر میرا کسی کے ساتھ کوئی چکر نہیں ہے۔ میل بہت لمبی ہوگئی ہے باقی باتیں اگلی میل میں لکھوں گی اورہاں آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ میری ساری میلز آپ کے پاس فوٹوکاپی ہوئی پڑی ہیں توجناب آپ نے وہ کس کو دکھانی ہیں؟ مذاق کررہی ہوں پلیز ڈونٹ مائنڈ۔ ہمیشہ خوش رہیں اوکے۔ اک بار پھرمیں ہربات کے لیے معافی چاہتی ہوں، اوکے
خدا حافظ
آپ کی دوست، رفعت "
طغرل جانتا ہے کہ سبھی لڑکیاں جب ہمت نہیں کر پاتیں تو دوست رہنے کی درخواست کیا کرتی ہیں پھربھی طغرل نے رفعت کے آبنوسی ہاتھوں سے ٹائپ کردہ رومن اردو میں یہ میل جس میں نہ کوئی فل سٹاپ ہے نہ کوئی کاما۔ نہ شروع میں بڑا حرف لکھنے کا خیال کیا گیا اورنہ ہی گرامرکا لحاظ، آج تک ایسے سنبھال کررکھا ہوا ہے جیسے تعویز۔ رفعت کی تین بیٹیاں ہوچکی ہیں، طغرل کبھی سامنے آ جائے تو وہ بچیوں سے غالبا" یہی کہے گی "بیٹا، ماموں کو سلام کرو"۔
ایک روز طغرل کو معلوم ہوا تھا کہ رفعت کے باپ کی ماسکو میں مدت ملازمت تمام ہوئی اور وہ سب فلاں تاریخ کو ماسکو سے چلے جائیں گے۔ اس روزاتفاق ایسا ہوا کہ شاہانی کو کوئی خط فوری طور پر پاکستان پہنچانا تھا چنانچہ وہ طغرل کو اپنی کارمیں بٹھا کرماسکو کے شری میتیوا ایرپورٹ لے گیا تھا۔ رفعت کا باپ بیٹے کے ساتھ کہیں ادھرادھرتھا جبکہ رفعت، نذہت، اپنی ماں اورچھوٹی بہن کے ساتھ بورڈنگ کے لیے اندرجانے کی خاطرلائن میں کھڑی ہوئی تھی۔ طغرل نے وہاں موجود شناسا پاکستانی لوگوں کی پروا نہ کرتے ہوئے رفعت کو گلے سے چمٹا کربوسہ دے کررخصت کیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے مگروہ خوش بھی ہوئی تھی کہ طغرل اسے رخصت کرنے پہنچا تھا۔ نذہت کے حصے میں بھی بغل گیری اوراچٹتا ہوا بوسہ آیا تھا۔ ان کی ماں اتنی سادہ تھی کہ گلے لگنے کے لیے بازو پھیلائے طغرل کی جانب بڑھی تھی مگر طغرل نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے کر دیا تھا۔ ایک تیز پاکستانی نوجوان یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا اور مسکرانے لگا تھا۔
دو سال بعد محبت سے متعلق طغرل کی لکھی ایک کتاب شائع ہوئی تھی۔ طغرل نے اپنی ایک رشتہ دار کو جو رفعت کے آبائی شہر جا رہی تھی، کتاب دی تھی کہ رفعت تک پہنچا دے۔ کتاب کا انتساب رفعت کے نام تھا۔ رشتے دار خاتون نے واپسی پربتایا تھا کہ جب وہ رفع