"مثل برگ آوارہ" کا سولہواں در
لفٹ غالبا" آٹھویں منزل پررکی تھی۔ خوش اخلاق مارگریتا صاحبہ ادھرادھرکی باتیں کرتے طغرل کو بائیں ہاتھ کے بغلی طویل برآمدے میں لیے جا رہی تھیں۔ کمروں پرنمبرلکھے ہوئے تھے۔ برآمدے میں بچھی لینولیم ادھڑی ہوئی تھی۔ ادھرادھر کی دیواروں پربجلی، فون اورنجانے کس الا بلا کی تاریں کھنچی ہوئی تھیں۔ اس کمرے کا نمبر اب طغرل کو یاد نہیں رہا جس کا دروازہ کھول کرمارگریتا طغرل کو ساتھ لیے داخل ہوئی تھیں۔
برآمدہ توتھا ہی کسی قدیم طلسمی کہانی کا پرتومگریہ کمرہ جس میں طغرل کو لے جایا گیا تھا کافکا کے ناول "قلعے" کا کوئی کمرہ لگتا تھا۔ جس میں ایک ہی جانب رخ کیے تین قطاروں میں کوئی پندرہ میزیں دھری تھیں جن کے پیچھے کوئی آٹھ دس افراد بیٹھے ہوئے، اپنے آگے رکھے کاغذوں پراسطرح انہماک سے لکھ رہے تھے جیسے امتحان دے رہے ہوں۔ اس کے داخل ہونے سے ان کا انہماک ٹوٹ گیا تھا۔ کچھ تو پھرسے لکھنے میں مصروف ہو گئے تھے، کچھ طغرل کویوں تاک رہے تھے جیسے اسے ان کے ساتھ کمرے میں بند کرنے کی خاطر نیا نیا لایا گیا ہو۔
مارگریتا صاحبہ نے اسے اپنی عمرکی ایک خوش شکل خاتون سے متعارف کرایا تھا جن کا نام ارینا تھا۔ ان کی پشت کی جانب ایک فربہ خاتون براجمان تھیں جن کا نام نادیہ بتایا گیا تھا۔ دوایک ہندوستانی افراد بھی تھے۔ ویسے زیادہ تربڑی عمرکی عورتیں تھیں البتہ انستاسیا نام کی ایک معنک جوان اورخاموش طبع لڑکی بھی تھی جوجیسا کہ طغرل کو بتایا گیا تھا ہندی تراجم سے وابستہ تھی۔ ایک خوش شکل معمرخاتون اورتھیں جو پنجابی بڑے دھڑلے سے بولتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ وہ سوویت یونین کے زمانے میں پنجابی زبان کے تراجم سے وابستہ تھیں مگرجب وہ سیکشن بند کردیا گیا توانہیں ہندی شعبے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ لدمیلا نام کی یہ خاتون بہت زندہ دل اورہشاش بشاش تھیں البتہ وہ اپنی ہی بات کہے جاتی تھیں، جس کی وجہ کچھ عرصے بعد معلوم ہوئی تھی کہ وہ ضعف سماعت کی شکارتھیں۔
ان سب میں جس شخصیت نے طغرل کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی وہ ایک روسی مرد تھے جو ہندی والوں کی قطارمیں چوتھے نمبرپربیٹھے ہوئے۔ وہ انتہائی سنجیدہ تھے اوران کے چہرے سے ذہانت ٹپک رہی تھی۔ انہوں نے بس ایک دو بار ہی اپنی چبھ جانے والی نگاہیں اٹھا کرطغرل کی جانب دیکھا تھا مگران کا اتنا دیکھنا ہی کافی تھا۔ ان کا نام اناطولی تھا۔
سب سے رسمی تعارف کے بعد ایرینا طغرل سے مخاطب ہوئی تھیں اوراسے بتایا تھا کہ ریڈیو وائس آف رشیا کے اردو سیکشن میں جہاں اس ریڈیو کا ترجمہ "صدائے روس" کیا گیا تھا، کام کس طرح ہوتا ہے یعنی روسی زبان میں چھپے ہوئے تبصرے،خبریں وغیرہ مترجمین کو دیے جاتے ہیں جواس مواد کا ترجمہ کرنے کے بعد ایک مخصوص وقت پرسٹوڈیو میں جا کرریکارڈ کروا دیتے ہیں۔ یہ بھی بتایا تھا کہ اس کمرے میں اردو، ہندی اوربنگالی سیکشنوں کے اہلکار سبھی اکٹھے بیٹھتے ہیں۔ یہ بتانے کے بعد طغرل کو روسی زبان میں چھپی ہوئی ایک خبر دی گئی تھی اوراسے نادیہ کے پیچھے والی میز کے نزدیک دھری کرسی پر بیٹھ کرکام کرنے کو کہا گیا تھا۔
طغرل نے ابھی تک کوئی مربوط روسی تحریر شاید ہی پڑھی تھی۔ بس ٹوکویں لفظ پڑھ کرگذارا چلا لیا کرتا تھا۔ آج پہلی بارتھی کہ اسے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا مگرچونکہ وہ ہمیشہ سے سیاست اور اخبار کا رسیا تھا اس لیے اسے خبرکوترجمہ کرنے میں دشواری پیش نہیں آئی تھی البتہ وقت زیادہ لگا تھا اوراس کو لگا تھا کہ ترجمے میں کچھ نقص بچ رہے تھے۔ ترجمہ کرکے اس نے جیسا کہ ایرینا نے کہا تھا ترجمہ مارگریتا کو دکھایا تھا جنہوں نے ایک دو لفظ بدلے تھے اورشاباش دی تھی یعنی طغرل کام کے لیے قبول کرلیا گیا تھا۔
طغرل کو بتایا گیا کہ اسے فی الوقت آن کال رکھا جا رہا ہے، جس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جب بلایا جائے تب آئے بلکہ یہ کہ ہفتے میں دو روز تو وہ لازمی آئے ہاں کبھی مزید ضرورت پڑے تو اسے بلایا جا سکتا تھا۔ کوئی مشاہرہ مقررنہیں تھا۔ ترجمہ کے کوئی اٹھارہ روبل فی صفحہ ملتے تھے۔ طغرل نے دماغ ہی دماغ میں حساب لگایا تھا توایک ماہ میں بمشکل چند سوروبل بنتے تھے جبکہ وہ کئی سو کے توغیر ملکی سگریٹ پھونک جایا کرتا تھا تاہم اس نے سوچا تھا کہ کچھ جیب سے جا تو نہیں رہا آ ہی رہا ہے، سگریٹوں کا خرچہ ہی سہی۔ پھر یہ کہ پڑھے لکھے لوگوں سے رابطہ رہے گا۔ چنانچہ اس نے یہ پیشکش قبول کرلی تھی۔
دو روزبعد دوسری بارپہنچنے پر، کمرے میں موجود کھڑے ہو کرگفتگو کرتے ہوئے شخص سے اس کا تعارف کرایا گیا تھا جوڈھلکے ہوئے چہرے اورکسی حد تک فربہ بدن والے طویل قامت گھنگھریالے بالوں والے جارجیائی نسل کے گریگوری تھے اوروہ جنوبی ایشیائی سروس کے انچارج تھے۔
ارینا نے اس روزترجمے کی بجائے سامعین کے کچھ خط دے کر طغرل سے کہا تھا کہ ان کے فردا" فردا" جواب لکھ دو۔ فی خط معاوضہ تیرہ روبل بتایا گیا تھا۔ اس روز طغرل نے سات خطوں کے جواب لکھ دیے تھے یعنی غیر ملکی سگریٹ کے تین پیکٹوں کی قیمت کے برابر۔
دفتر پہنچنے کے اوقات گیارہ سے ایک بجے تک تھے اورکام کرنے کے فورا" بعد دفتر کو خیر باد کہا جا سکتا تھا۔
سامعین کے خطوط کا معیار وہی ہوتا تھا جو نسبتا" چھوٹے شہروں یا قصبوں میں رہنے والے ان لوگوں کا ہو سکتا ہے جن کی دلچسپی "لسنرز کلب" بنانے سے ہوتی ہے۔ ویسے طغرل کو طویل عرصہ ریڈیو کے ساتھ وابستہ رہ کرایسی کلب سازی اور کلب سازافراد اور ایسے کلبوں کے اراکین سے متعلق ایک بات جو سمجھ آئی تھی وہ یہ تھی کہ ایسا کیا جانا ان چھوٹے شہروں اور قصبوں کے ان نوجوانوں کا شغل ہوتا ہے جو ادھیڑعمرکو پہنچ کربھی اس "شوق" کو برقرار رکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ایسے لوگ اپنے نام کو نشرہوتا سن کر خوش ہوتے ہیں، کہیں اس کا تذکرہ کر سکتے ہیں یا ڈینگ ہانک سکتے ہیں، ویسے ہی جیسے ایک سیاستدان آج کے الیکٹرونک میڈیا کے کسی ٹاک شو میں شامل ہوتا ہو۔
ایسے شوقین نوجوان لوگوں کے خطوں میں کیا ہوتا ہے ماسوائے گلے شکووں، تجاویز، تعریف و شکایت کے، چنانچہ ایسے خطوں کے جواب بھی رسمی سے دیے جاتے ہیں۔ سننے والوں کومعمولی تحائف بھیج دیے جاتے ہیں اورانہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ انہیں اہمیت دی جا رہی ہے۔ اہمیت کا حصول ہرانسان کی آرزو ہوتی ہے۔
یہ تو کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا کہ جس ریڈیو کے ساتھ طغرل وابستہ تھا، اس کے سامعین کو تحائف بھیجنے کی خاطراردوسیکشن کے عملے کو چندہ دینا ہوتا تھا۔ دو تین ہفتوں کے بعد ہی طغرل ایسے رسمی خطوط لکھنے سے اکتا گیا تھا۔ اس کی توجہ اس جانب تھی کہ وہ خبروں اورتبصروں کے تراجم کرسکے اورتیزی سے کرسکے۔ ایک ماہ بعد اس نے کچھ اغلاط کے ساتھ خاصی سرعت سے تراجم کرنے شروع کر دیے تھے اورساتھ ہی وہ انہیں سٹوڈیو میں ریکارڈ بھی کروانے لگا تھا۔
اس نے ریڈیو سٹیشن میں جاتے ہی اردو سیکشن کی روسی اہلکار خواتین کواردو بولنے کی جانب راغب کرنا شروع کر دیا تھا۔ روسی ان کی مادری زبان تھی۔ دوسرا کام اس نے یہ کیا تھا کہ اس سے پہلے خبریں پڑھتے ہوئے کوئی بھی نیوزریڈراپنا نام نہیں لیتا تھا، ایسا نہ کرنے کی وجہ کیا تھی کوئی نہ بتلا سکا تھا تاہم اس نے اپنا نام لینا شروع کیا تھا یوں اس کی دیکھا دیکھی خبریں پڑھنے والیوں نے بھی اپنے نام لینے شروع کر دیے تھے۔
طغرل چند سوروبل ماہوار کے مشاہرے پر تقریبا" دواڑھائی سال کام کرتا رہا لیکن اسے آدھی تنخواہ پرنصف کام کے لیے بھی نہیں رکھا جا رہا تھا۔ اس نے گریگوری سے جب بھی اس بارے میں بات کی اس کے پاس کوئی نہ کوئی بہانہ ہوا کرتا تھا۔ اس اثناء میں ایک اورصاحب جو پہلے یہاں کام کیا کرتے تھے مگر چند سالوں کے لیے وسط ایشیا کی ایک ریاست کے ریڈیو کی اردوسروس سے وابستہ ہو گئے تھے، لوٹ آئے تھے جنہیں آدھی تنخواہ پرآدھے وقت کے لیے لے لیا گیا۔ طغرل پر ریڈیو والوں کی قلعی کھل گئی تھی۔ اس بات پراس کی ارینا سے کھٹی ہو گئی تھی کیونکہ گریگوری کہنے کوسربراہ تھا پراردواورہندی کے تمام معاملات غیررسمی طور پرایرینا کے ہاتھ میں تھے۔
طغرل بد دل ہو گیا تھا۔ اس نے ریڈیو سٹیشن جانا چھوڑدیا تھا۔ دو ایک بارایرینا یا مارگریتا کا فون آنے پروہ گیا تھا مگر کام میں دلچسپی نہیں لی تھی۔ بالآخرایک روز کہہ دیا تھا کہ اسے اس طرح سے اتنے کم معاوضے پر کام کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
طغرل کو ریڈیو سٹیشن چھوڑے چند ماہ ہوگئے تھے۔ اس دوران ایک اورصاحب کوجوسندھی تھے مستقل طورپربطورمترجم و براڈکاسٹر ام پر لے لیا گیا تھا۔ اس بارے میں اسے کسی نے بتایا تھا۔
طغرل ایک بار ریڈیو کی عمارت سے کچھ دور واقع تاریخی مسجد میں جمعہ نماز پڑھنے گیا تھا۔ نماز کے بعد مسجد کے احاطے سے باہر نکلتے ہوئے اسے فیصل آباد کا ایک حاضر جواب اورمستعد نوجوان ملا تھا جس سے وہ شناسا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نوجوان نے کہا تھا،"طغرل صاحب، بڑی خوشی ہوئی آپ کو مسجد سے نکلتا دیکھ کر"۔ طغرل نے اس کا نام لے کرکہا تھا،" نمازتوپڑھنے لگا ہوں لیکن لگتا ہے میرا ایمان پختہ نہیں"۔ نوجوان نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہا تھا،" طغرل بھائی آپ نماز پڑھتے رہیں۔ جب پیسے آئیں گے توایمان بھی آ جائے گا"۔ طغرل اس کی اس بات پر قہقہہ لگا کر ہنسا تھا جس پروہ بھی ہنسنے لگا تھا۔
مسجد سے لوٹتے ہوئے اس کا دل کیا تھا کہ وہ اپنے ریڈیو کے رفقائے کارکے ساتھ ملتا جائے۔ اس نے نیچے سے مارگریتا کو فون کیا تھا جو تھوڑی دیر میں اس کا انٹری پاس لے کرآ گئی تھیں۔ وہ ان کے ہمراہ اوپر گیا تھا۔ سب مل کرخوش ہوئے تھے۔ سندھی صاحب سے جو جثہ والے اوربلند آواز سے گفتگو کرتے ہوئے شخص تھے، سے تعارف کرایا گیا تھا جن کا نام علیم شہانی تھا۔ انہوں نے کینٹین میں چل کرچائے پینے کی دعوت دی تھی۔ وہ صاحب طغرل کو دلچسپ اوردوست نواز لگے تھے۔ شہانی نے کہا تھا، "بھائی اگر کبھی مجھے چھٹی کی ضرورت پڑے تو آپ متبادل کے طور پر کام کر دیا کیجیے گا، مہربانی ہوگی"۔ طغرل نے اس قدرخوش اخلاقی سے کہی گئی ان کی بات مان لی تھی۔
یوں طغرل کا ریڈیوسٹیشن میں کبھی کبھار آنا جانا ایک بار پھرشروع ہو گیا تھا۔ اس کی غیر حاضری کے دوران ریڈیو کے شعبہ اردو میں لینا نام کی ایک نوجوان لڑکی شامل ہوئی تھی جس کے بارے میں کہیں بعد میں ایرینا صاحبہ نے بتایا تھا کہ دراصل وہ پہلے سے کام کررہی تھی مگرطالب علم ہونے کی وجہ سے امتحان کی تیاری کے لیے ریڈیو سے رخصت لی ہوئی تھی۔ امتحان دینے کے بعد اس نے باقاعدگی سے آنا شروع کر دیا تھا۔
لینا دھان پان بلکہ بہت حد تک دبلی پتلی لڑکی تھی جس میں بظاہر کوئی کشش نہیں تھی۔ ذہین تھی۔ کام سے کام رکھتی تھی اورلیے دیے رہتی تھی۔ وہ اس کمرے میں نہیں بیٹھا کرتی تھی جہاں باقی سب اہلکار بیٹھتے تھے بلکہ ایک کمرہ چھوڑکر اگلے گمرے میں جہاں اردو ہندی شعبہ ادارت کے لوگ بوتے تھے، اسی طرح کے کمرہ امتحان کی میزوں کرسیوں کی طرح لگی نشستوں میں سے ایک دیوار کے ساتھ کی قطار میں آخری سے دوسری نشست پر بیٹھتی تھی۔ طغرل کے پلے یہ بات نہیں پڑی تھی کہ جب اس کمرے میں جہاں سب بیٹھتے ہیں جگہ خالی تھی تو وہ دوسرے کمرے میں کیوں بیٹھتی تھی جبکہ اس کا کام وہی تھا جو باقی سب کرتے تھے یعنی روسی مسودوں کو اردو زبان میں ڈھالنا اور پھر سٹوڈیو میں جا کر نشرکر دینے کا کام۔ اس نے بس اندازہ لگایا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھتی تھی اورتعلق بنانے کے جھمیلوں سے دور رہنا چاہتی تھی۔ خیر یہ لینا کا ذاتی معاملہ تھا۔
طغرل نے یہ سوچتے ہوئے کہ دفتر پہنچنے پرچونکہ وہ اپنے رفقائے کارکوسلام کرتا ہے تو لینا کو بھی سلام کرنا چاہیے، وتیرہ بنا لیا تھا کہ دفتر میں داخل ہونے سے پہلے اس کمرے میں جا کرنہ صرف لینا سے ہیلو ہائی کرتا بلکہ اس کے ساتھ مصافحہ بھی کرتا تھا۔
سندھی دوست مختلف خواتین سے تعلق بارے لن ترانیاں کیا کرتے تھے جن میں ایک بارلینا کا تذکرہ بھی آیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ایک اورلینا تھی جوعمرمیں بڑی تھی یہی کوئی چونتیس پینتیس برس کی۔ تھی تووہ کسی اورشعبے سے مگر سگریٹ نوشی کے لیے سیڑھیوں پرآتی تھی، جہاں کھڑا ہوکر کے طغرل بھی دھواں اڑایا کرتا تھا۔ طغرل اس کو سلام کرتا تھا، وہ بڑی بے رخی سے جواب دیا کرتی تھی۔ اس کے اس نوع کے رویے کے بعد طغرل نے بھی راہ و رسم بڑھانے میں دلچسپی لینا چھوڑ دی تھی۔
جب شہانی نے لڑکی لینا کا ذکر کیا تو طغرل نے خاتون لینا کے رویے کے بارے میں بتایا تھا۔ شہانی نے کمال مہربانی سے فرمایا تھا،" جاؤ اسے تیرے لیے چھوڑ دیا" جیسے وہاں کام کرنے والی خواتین ان کی میراث تھیں۔ طغرل ان کی دریا دلی پر مسکرا دیا تھا۔
شاید شہانی کے کمال مہربانی کا اثرتھا یا ان طلب خیز نگاہوں کا جو لینا طغرل سے ہاتھ ملانے پر اس پرڈالتی تھی کہ ایک روز طغرل نے اسے ہاتھ ملاتے ہوئے "آئی لویو" کہہ دیا تھا۔ طغرل اورلینا کی عمرمیں 27 برس کا فرق تھا اگرچہ طغرل اپنی عمرسے خاصا کم دکھائی دیتا تھا مگرتھا توبڑا ہی۔ سینیروینیر کا روس میں ڈرامہ ہے نہیں، اگر ایک ہی طرح کا کام کرتے ہوں توکیا سینیرکیا جونیر، سبھی ایک ہوتے ہیں۔ دنیا میں مقبول عام ترین یہ فقرہ سن کے لینا نے طغرل کو اچنبھے سے دیکھا تھا، کھسیانی مسکان مسکائی تھی لیکن کچھ کہا نہیں تھا۔
چند روز کے بعد طغرل نے جب ایک بارپھریہی کہا تو لینا نے دیکھنے میں ہچکچاہٹ ظاہرکرتے ہوئے کہا تھا،" یہ بکواس بات ہے"۔ اگر کوئی پاکستانی لڑکی ہوتی اورلفظ "بکواس" استعمال کرتی تو شاید طغرل بھنا جاتا اورممکن ہے لڑکی کو کھری کھری سنا بھی دیتا مگروہ جانتا تھا کہ اردوسیکھنے والے روسی ساتھ ہی ساتھ ہندی بھی سیکھتے ہیں اس لیے وہ بکواس کوبیکاریا لایعنی کے معانی میں بھی استعمال کرلیتے ہیں چنانچہ اس نے لینا سے پوچھا تھا،"کونسی بات بکواس ہے" اس نے کہا تھا کہ "محبت کرنے والی" جس پرطغرل نے برا منائے بغیرمحبت پرایک چھوٹا سے لیکچر دے دیا تھا جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا،" عشق کے بارے میں جس سے بھی پوچھووہ اپنی ہی طرح کی تعریف کرے گا جبکہ عشق کو سمجھنا بہت آسان ہے جوچارکیفیات پرمشتمل ہوتا ہے پہلی کیفیت جسمانی ضرورت ہے، دوسری ارتباط باہمی تیسری باہمی افہام وتفہیم اورچوتھی باہمی مفادات، ان کیفیات یا ادوار میں سے کوئی بھی ادھر ادھرہوجائے توعشق مکمل نہیں ہو پاتا۔ لفظ محبت انگریزی لفظLove کا غلط ترجمہ ہے۔ اس کا ترجمہ عشق ہے۔ کسی پریونہی مرمٹنے کی سوچ کو انگریزی میں Infatuation کہا جاتا ہے، اس کا ترجمہ اگر محبت کرلیا جائے توشاید درست ہو۔ پیارتوکسی بھی چیز کے ساتھ ہو سکتا ہے، ماں کے ساتھ، وطن کے ساتھ، بہن کے ساتھ، چھوٹے بچے کے ساتھ، بکری کے پیارے سے بچے کے ساتھ اورکسی حسین پھول کے ساتھ بھی۔ ہاں البتہ جنون ایک اورہی بالیدہ ترین شکل ہے تعلق کی۔ لینا مجھے تم سے عشق ہے، کوئی عام محبت وہبت نہیں"۔ یہ آخری فقرہ طغرل نے کیوں کہہ دیا تھا اسے خود بھی پتہ نہیں تھا۔ لینا یہ تقریر سن کرجزبزہوگئی تھی۔
طغرل نے سوچا تھا کہ اسے عشق ہے یا نہیں بہرحال اب کہہ دیا ہے تو کہا نبھانا ہوگا۔ اب وہ اسے "آئی لو یو" نہیں کہتا تھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ دیتا تھا۔ وہ بھی مسکرا دیتی تھی۔ شاید اس کی حرکت کو سہنا سیکھ گئی تھی۔
باوجود اس کے کہ لینا نے ابھی " سپیشلسٹ" ( یہ سند روس میں ہی ہوتی ہے ) ہونے کا امتحان دیا تھا جس میں بعد میں وہ اچھی حیثیت سے کامیاب بھی رہی تھی، اس کی اردو وہاں کام کرنے والی باقی سینیر ترین اہلکارخواتین سے کہیں بہترتھی۔ اس میں سیکھنے کی لگن تھی۔ چونکہ عملے میں واحد اہل زبان طغرل تھا اس لیے وہ اس سے استفادہ کرتی رہتی تھی۔ دوسری جانب طغرل بھی بعض اوقات روسی زبان سے متعلق اس کی رہنمائی لے لیا کرتا تھا یوں ان دونوں کا ایک دوسرے کے کمرے میں آنا جانا بڑھ گیا تھا۔ طغرل نے ایک دوبارلینا کی اردواستعداد کی تعریف کی تھی جس پرساٹھ سال پھلانگی ہوئی خواتین نے تو کچھ اتنا برا نہیں منایا تھا البتہ پچاس کے پیٹے میں فربہ خاتون نادیہ کی شکل بن گئی تھی کیونکہ وہ واحد اہلکارتھی جس کا عہدہ باقاعدہ "مترجم" کا تھا باقی سب "پیشکار یعنی براڈ کاسٹرتھے مگرانہیں اس لیے ترجمہ کرنا ہوتا تھا کیونکہ سارا ترجمہ نادیہ نہیں کرسکتی تھی۔
بوڑھے اورازکاررفتہ تجزیہ کاراوربوڑھی یا بوڑھی ہوتی ہوئیں ریڈیو پریزنٹرزریڈیو سٹیشن کے برآمدوں کی ادھڑی ہوئی لینولیم میں اپنے پرانے بوٹ اورپرانے فیشن کے سینڈل پھنساتے الجھاتے سوچوں میں غلطاں یوں ادھر ادھر جا رہے ہوتے تھے جیسے دنیا بھر کی سیاست کا انحصاران کے نازک کندھوں پرہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریڈیو وائس آف رشیا وہ واحد ذریعہ تھا جو دنیا کے لوگوں کو اندرون ملکی اورغیر ملکی معاملات سے متعلق روس کے نکتہ نظر سے آگاہ رکھا کرتا تھا۔ روس کے اندر ابلاغ عامہ کے باقی جتنے ذرائع تھے ان میں استعمال کی جانے والی زبان روسی تھی جسے باقی دنیا کے لوگ سمجھنے سے قاصر ہوتے تھے۔ ایک زمانے میں یہاں سے اڑتیس زبانوں میں نشریات ہوا کرتی تھیں مگر ملک میں بنیادی تبدیلیاں آنے کے سبب معاشی معاملات میں بگاڑ پیدا ہونے سے ان دنوں یہاں سے محض چوبیس زبانوں میں پروگرام نشر ہوتے تھے۔ اوّل تواب یہ ریڈیو سٹیشن اپنے روایتی نام سے ہے ہی نہیں، دوسرے جس نام سے اب ہے، بمشکل پندرہ سے اٹھارہ زبانوں میں نشریات ہوتی ہونگی۔ اس کے برعکس سرد جنگ کے ادوارسے اس ملک بلکہ اس سے پہلے والے ملک یعنی سوویت یونین کے مدمقابل ملک امریکہ کے ریڈیو سٹیشن "وائس آف امریکہ" سے آجکل نہ صرف دنیا کی چوالیس مختلف زبانوں میں نشریات ہوتی ہیں بلکہ مختلف ملکوں کے مقامی ٹی وی چینلوں سے اس کے مختصردورانیے کے وڈیو پروگرام بھی دکھائے جاتے ہیں۔
خیر طغرل کوضرورت تھی توایک اپارٹمنٹ کی کیونکہ اب نینا کا بیٹا بلوغت کی عمر میں تھا۔ اس کی لینا نام کی ایک نوعمر خوبصورت سہیلی بن چکی تھی جس کے بارے میں ساشا نے طغرل کو اپنے شرمیلے انداز میں بتایا تھا کہ اس نے پندرہ سولہ سال کی سہیلی بنائی ہے جس کے ساتھ عمارتوں کی پڑچھتیوں میں اس نے تعلق کے تمام مراحل طے کر لیے ہیں اوراس لڑکی نے اس کے لیے اپنا بدن ہر جانب اورہراندازمیں کھول کررکھ دیا ہے۔ ساشا اپنی ماں کی موجودگی میں لینا کے ہمراہ آ جایا کرتا تھا۔ چائے وغیرہ پی کر، گھنٹہ آدھا گھنٹہ بیٹھ کر نکل جاتے تھے۔ لینا لمبے قد کی خوش اخلاق اور خوشرو دوشیزہ تھی۔ ساشا اس سے تین چاربرس بڑا تھا۔ ماں کے ہوتے ہوئے ان دونوں نے شب باشی کی کبھی جرات نہیں کی تھی۔
ایسا نہیں کہ ان کے ہاں بچے زیادہ مودب ہوتے ہیں۔ بات یہ تھی کہ ساشا سترہ اٹھارہ برس کا ہوتے ہوئے نہ تو کوئی کام کرتا تھا اورنہ ہی اس نے کوئی اچھی تعلیم حاصل کی تھی۔ نینا نے اپنے شوہر سے طلاق لینے کے بعد پری بالٹک سٹیٹ استونیا سے کوچ کرکے ماسکو میں آ کر ایک فیملی فرینڈ سے بیاہ کر لیا تھا جس کی اپنی بیٹی نینا کی ہم عمر تھی۔ نینا کا یہ دوسرا شوہرروس کے محکمہ خارجہ میں درمیانے درجے کا افسر تھا جس کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا اورجس کوخود دل کا ایک باردورہ پڑ چکا تھا مگرس نے نینا کے ساتھ شادی سے پہلے اچانک جسمانی تعلق استوارکرنے سے پہلے یا بیاہ کرنے کے بعد اس بارے میں اسے نہیں بتایا تھا۔ وہ اپنے دوبچوں کے ہمراہ اس کے دوچھوٹے چھوٹے کمروں کے اپارٹمنٹ کے ایک کمرے میں رہتی تھی۔
پھر ایک روزجب وہ کنٹری ہاؤس میں تھے جسے روس میں داچا کہا جاتا ہے تو ائیکل چلاتے ہوئے دل کا دوسرا دورہ پڑنے سے اس کے شوہرکا انتقال ہو گیا تھا۔ ساشا نے بعد میں طغرل کو بتایا تھا کہ تب وہ بھی اتفاق سے دوسری جانب سے سائیکل چلاتا ہوا آ رہا تھا کہ کسی نے بتایا تھا کہ ایک آدمی مرا پڑا ہے۔ جب اس نے جا کر دیکھا تو جاجا ( انکل) کولیا (نکولائی) مرا پڑا تھا۔ ساشا بچہ تھا۔ بیٹے باپ سے جدا بھی ہو جائیں تو انہیں اپنی ماں اپنے باپ کی ہی بیوی لگتی ہے، ماں کی زندگی میں آنے والا دوسرا مرد انہیں غیر لگتا ہے جس کے دور ہونے کی ان کے دل میں شدید خواہش ہوتی ہے۔ ساشا نے طغرل کو بتاتے ہوئے کہا تھا کہ مردہ جاجا کولیا کو دیکھ کراسے ایسے لگا تھا جیسے وہ اس کی آرزو کی وجہ سے مر گیا ہو۔
اب نینا کے لیے حالات کٹھن تھے۔ کولیا کی بیٹی اسے پسند نہ کرتی تھی کیونکہ اس کے باپ نے اس عورت کودوبچوں سمیت اس کے گھرمیں لا داخل کیا تھا۔ نینا کو بچے پالنے پڑھانے کی خاطر صبح سے شام تک دو ملازمتیں کرنی پڑتی تھیں جن میں ایک سکول کی پوری صفائی کرنے کا کام بھی شامل تھا۔ وہ بچوں پرزیادہ توجہ نہیں دے سکتی تھی۔ بچے بھی باپ سے علیحدہ کیے جانے اور دوسرے شہر میں آنے کی وجہ سے پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ نینا کی بیٹی آلا قدرتی طورپرمصوری کی جانب راغب تھی جبکہ بیٹا ساشا بنیادی طورپرلاپرواہ اوربہت حد تک خودغرض واقع ہوا تھا۔
سوویت یونین کے طریق تعلیم کے مطابق آگے پڑھائی نہ کر سکنے کے قابل بچوں کو نویں جماعت کے بعد ٹیکنیکل اداروں میں بھیج دیا جاتا تھا چنانچہ آلا مصوری کے سکول میں چلی گئی تھی اور ساشا بعد میں پخت پزی کے سکول میں چلا گیا تھا۔ آلا نے دل لگا کرمصوری سیکھی تھی۔ اس دوران وہ فوج سے لوٹے ہوئے لیوند نام کے نوجوان سے شناسا ہو کرحاملہ ہو گئی تھی چنانچہ ان دونوں نے بیاہ کرلیا تھا۔
جب طغرل نینا سے شناسا ہوا تب آلا ایک بچے کی ماں بن چکی تھی اوراپنے شوہر کے گھرمیں مقیم تھی۔ البتہ ساشا ابھی زیرتعلیم تھا۔ پڑھنے وڑھنے تووہ کم ہی جاتا تھا۔ دوستوں کے ساتھ گھومتا رہتا تھا۔ سترہ اٹھارہ برس کا ہوتے ہوئے بھی چودہ پندرہ برس کا بچہ لگتا تھا جس کے گال شرماہٹ میں لال گلال ہو جاتے تھے۔ ایک روز وہ طغرل کو اپنے ہمراہ نزدیک ہی واقع اپنے تعلیمی ادارے میں لے گیا تھا۔ اس روز اس کا امتحان تھا اوراس نے طغرل کواپنا سوتیلا باپ بتایا تھا جبکہ ایسا نہیں تھا۔ باپ کا ہونا شاید ضروری تھا۔ اس نے اپنی استانی کو شاید کوئی تحفہ دیا تھا کہ اس نے اس سے کچھ پوچھے بنا اس کے ہنستے رہنے پربھی پاس کر دیا تھا۔ طغرل کے پوچھنے پراستانی نے بتایا تھا کہ زیادہ بچوں کے فیل ہو جانے سے اس کی نوکری کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔
چنانچہ ان راتوں کو جب ساشا کی ماں گھر نہیں ہوتی تھی یعنی ہرتیسری رات کو تووہ اپنی سہیلی لینا کو لے کر شب باشی کی خاطرآ جایا کرتا تھا۔ رات کو ان کی آپس کی خرمستیاں طغرل کوسونے نہیں دیتی تھیں اورصبح کی روشنی کمرے میں درآنے کے بعد لینا کی لمبی لمبی، سنگ مرمرکی سی پھسلواں جلد والی سپید ٹانگوں اورکسمساہٹوں کے سبب باتی بن کرسرینوں بیچ پھنسے جانگیے کے اطراف میں ستواں اورتازہ سرخ و سپید دائرے دیکھ کر طغرل کے من اور تن دونوں میں کچھ کچھ ہوتا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔